صغیرہ کبیرہ، اندرونی بیرونی ہر قسم کے گناہوں سے بچو
دیکھو گناہ کبیر ہ بھی ہیں ان کو تو ہر ایک جانتا ہے اور اپنی طاقت کے موافق نیک انسان ان سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہے مگر تم تمام گناہوں سے کیا کبائر اور کیا صغائر سب سے بچو۔ کیونکہ گناہ ایک زہر ہے جس کے استعمال سے زندہ رہنا محال ہے۔ گناہ ایک آگ ہے۔ جو روحانی قویٰ کو جلا کر خاک سیاہ کر دیتی ہے۔ پس تم ہر قسم کے کیا صغیرہ کیا کبیرہ سب اندرونی بیرونی گناہوں سے بچو۔ آنکھ کے گناہوں سے، ہاتھ کے گناہوں سے، کان ناک اور زبان اور شرمگاہ کے گناہوں سے بچو۔ غرض ہر عضو کے گناہ کے زہر سے بچتے رہو اور پرہیز کرتے رہو۔
نما ز گناہوں سے بچنے کا آلہ ہے
نما ز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے۔ نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بد کا ری سے ہٹا دیتی ہے۔ سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو۔ نماز نعمتوں کی جان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذر یعہ سے آتے ہیں سواس کو سنوار کر ادا کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو۔
ہمارا طریق نرمی ہے
یہ بھی یاد رکھو ہمارا طریق نرمی ہے۔ ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنے مخا لفوں کے مقابل پر نرمی سے کام لیا کرے تمہاری آواز تمہارے مقابل کی آواز سے بلند نہ ہو۔ اپنی آواز اور لہجہ کو ایسا بناؤ کہ کسی دل کو تمہاری آواز سے صدمہ نہ ہو۔ ہم قتل اور جہاد کے واسطے نہیں آئے بلکہ ہم تو مقتولوں اور مردہ دلوں کو زندہ کرنے اور ان میں زندگی کی روح پھو نکنے کو آئے ہیں۔ تلو ار سے ہمارا کا روبا رنہیں نہ یہ ہماری ترقی کا ذریعہ ہے ہمارا مقصد نرمی سے ہے۔ اور نرمی سے اپنے مقا صد کی تبلیغ ہے۔ غلام کووہی کرنا چاہیے جو اس کا آقا اس کو حکم کرے۔ جب خدا نے ہمیں نرمی کی تعلیم دی ہے۔ تو ہم کیوں سختی کریں۔ ثواب تو فرماں برداری میں ہوتا ہے اور دین تو سچی اطاعت کا نام ہے نہ یہ کہ اپنے نفس اور ہواوہوس کی تابعداری سے جوش دکھاویں۔
مغلو ب الغضب غلبہ ونصرت سے محروم ہوتا ہے
یاد رکھو جو شخص سختی کرتا اور غضب میں آ جاتا ہے اس کی زبان سے معارف اور حکمت کی باتیں ہرگز نہیں نکل سکتیں۔ وہ دل حکمت کی باتوں سے محروم کیا جاتا ہے جو اپنے مقابل کے سامنے جلدی طیش میں آکر آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ گندہ دہن اور بے لگام کے ہونٹ لطائف کے چشمہ سے بے نصیب اور محروم کیے جاتے ہیں۔ غضب اور حکمت دونو جمع نہیں ہوسکتے۔ جو مغلو ب الغضب ہوتا ہے اس کی عقل موٹی اور فہم کند ہوتا ہے۔ اس کو کبھی کسی میدان میں غلبہ اور نصرت نہیں دیئے جاتے۔ غضب نصف جنون ہےجب یہ زیادہ بھڑکتا ہے تو پورا جنون ہوسکتا ہے۔
ہماری جماعت کو چاہیے کل ناکردنی افعال سے دور رہا کریں۔ وہ شا خ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔ سو دیکھو اگر تم لوگ ہمارے اصل مقصد کو نہ سمجھو گے اور شرائط پر کار بند نہ ہوگے تو ان وعدوں کے وارث تم کیسے بن سکتے ہو جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں۔
نصیحت کا پیرایہ
جسے نصیحت کرنی ہو اسے زبان سے کرو۔ ایک ہی بات ہوتی ہے وہ ایک پیرایہ میں ادا کرنے سے ایک شخص کو دشمن بنا سکتی ہے اور دوسرے پیرایہ میں دوست بنا دیتی ہے۔ پس
جَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ (النحل:126)
کے موافق اپنا عمل درآمد رکھو۔ اسی طر ز کلام ہی کا نام خدا نے حکمت رکھا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے
يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَآءُ(البقرۃ:27)
مگر یا درکھو جیسی یہ باتیں حر ام ہیں ویسے ہی نفا ق بھی حرام ہے۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا کہ کہیں پیرایہ ایسا نہ ہو جاوے کہ اس کا رنگ نفاق سے مشابہ ہو۔ موقعہ کے موافق ایسی کارروائی کرو جس سے اصلاح ہوتی ہو۔ تمہاری نرمی ایسی نہ ہو کہ نفاق بن جاوے اور تمہارا غضب ایسا نہ ہو کہ بارود کی طرح جب آگ لگے تو ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔ بعض لوگ تو غصہ سے سودائی ہو جاتے ہیں اور اپنے ہی سر میں پتھر مار لیتے ہیں۔ اگرہمیں کوئی گالی دیتا ہے تب بھی صبر کرو۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب کسی کے پیرو مرشد کو گالیاں دی جاویں یا اس کے رسول کو ہتک آمیزکلمے کہے جاویں تو کیساجوش ہوتا ہے۔ مگر تم صبرکرو اورحلم سے کلام کرو۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 125تا128۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭