اسلامی نکاح اور اس کا مقصد
باہمی رشتوں کےحوالے سے احباب جماعت کو نہایت اہم نصائح کرتے ہوئے ایک حدیثِ نبویﷺ کا حوالہ دیتے ہوئےحضورانور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
’’حضرت عامرؓ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تومومنوں کو ان کے آپس کے رہن، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا۔ جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کیلئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والأدب۔ باب تراحم المومنین وتعاطفھم وتعاضدھم)
خدا کرے آپ لوگ اپنے ماحول میں پیدا ہوتی ہوئی برائیوں کو ایک جسم کی طرح دیکھنےاور محسوس کرنے کے قابل ہوجائیں۔ نیز فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو۔ میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے۔ اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے۔ یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرارکرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی کوشش کریں گے۔ تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہدو پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں۔ وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی۔ ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں۔ ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں۔ اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے۔ جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خداتعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے۔ وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے۔ دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍جون2005ء بمقام انٹرنیشنل سینٹر، ٹورانٹوکینیڈا مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 08؍جولائی2005ء)
نکاح اور شادی کا مقصد
نسلِ انسانی بڑھانے کا ذریعہ
15؍مئی 2011ء کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل لندن میں اعلانِ نکاح کے موقع پردیے گئے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
’’نکاح اور شادی انسانی نسل کے بڑھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے، جس میں دو خاندانوں کا ملاپ ہوتا ہے، دو افراد کا ملاپ ہوتا ہے اور اسلام نے اس کو بڑا مستحسن عمل قرار دیا ہے۔ بعض صحابہ نے کہا کہ ہم شادیاں نہیں کریں گے۔ تجرد کی زندگی گزاریں گے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو میری سنت پہ عمل نہیں کرتا وہ مجھ میں سے نہیں ہو گا۔ میں تو شادی بھی کرتا ہوں، کاروبار بھی ہے، بچے بھی ہیں۔ کاروبار سے مراد ہے کہ زندگی کی مصروفیات بھی ہیں، ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ‘‘
حضور انور نےمزید فرمایا:
’’نکاح جو ایک بنیادی حکم ہے یہ صرف معاشرہ اور نسل کو چلانے کے لئے نہیں بلکہ بہت ساری برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لئے اور ایک نیک نسل چلانے کے لئے ہے۔ پس نئے جوڑوں کواس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ شادیاں جو کسی مذہب کو ماننے والوں میں اور خاص طور پر اسلام کو ماننے والوں میں ہوتی ہیں، ایک مسلمان کے گھر میں جو شادی ہے یہ صرف دنیاوی سکون کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے، اس پر عمل کیا جائے اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ سےدعا مانگتے ہوئے نیک نسل پیدا ہونے کا آغاز کیا جائے۔ ‘‘
نیز حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’پس اس بات کو ہمیشہ ہمارے ہر احمدی جوڑے کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ اگر سامنے کوئی مقصد ہو گا تو پھر نئے بننے والے جوڑے کاہر قدم جو زندگی میں اٹھے گا، وہ اس سوچ کے ساتھ اٹھے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم پر عمل کرنے والا ہوں اور کرنے والی ہوں اور جب انسان اللہ تعالیٰ کےحکم پر عمل کرنے والا ہوتو پھر اس کی سوچ کا ہر پہلو اس طرف جانے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا ہو۔ پس اس سے پھر آپس کے تعلقات مزید بہتر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا خیال انسان رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔ ایک دوسرے کے احساسات کا خیال رکھتا ہے اور اس طرح یہ ایک جو Bond ہے، آپس کا ایک جو معاہدہ ہے وہ دنیاوی معاہدہ نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کےحصول کا معاہدہ بن جاتا ہے اور پھر آئندہ پیدا ہونے والی نسلیں بھی نیک صالح نسلیں ہوتی ہیں اور یہی ایک احمدی مسلمان کا شادی کا مقصد ہونا چاہئے۔ ‘‘
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍جون2012ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 20تا24)
٭…٭…٭