حدیث

حدیث میں ذکر ہےکہ جنگ کے دوران، عام لوگوں کے جھگڑوں اور میاں بیوی کے ما بین صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنے کی اجازت ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

سوال:ایک دوست نے ان احادیث کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں رہ نمائی کی درخواست کی جن احادیث میں جنگ کے دوران، عام لوگوں کے جھگڑوں اور میاں بیوی کے مابین صلح کرانے کےلیے جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 28؍جنوری 2019ء میں درج ذیل رہ نمائی فرمائی۔ حضور انور نے فرمایا:

جواب:قرآن کریم اورمستند احادیث میں جھوٹ کو أَكْبَرُ الْكَبَائِرِ(یعنی بڑے بڑے گناہوں میں سے بڑا گناہ)قرار دیا گیا ہے۔ اور آنحضورﷺ نے اس سے اجتناب کی بار بار نصیحت فرمائی ہے۔

جہاں تک آپ کے خط میں مذکور روایت کا تعلق ہے تو ایسی ایک روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام کلثوم بنت عقبہؓ سے مروی ہے اور اس روایت کے الفاظ محتاط اور قابل تاویل ہیں۔ چنانچہ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں :

لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْرًا وَيَنْمِي خَيْرًا۔

یعنی جو شخص لوگوں میں صلح کروانے کےلیے نیک بات کرے اور اچھی بات آگے پہنچائے وہ جھوٹا نہیں ہے۔

اس کی مثال ایسے ہے کہ صلح کروانے والا شخص ایک فریق کی دوسرے فریق کے بارے میں کہی ہوئی باتوں میں سے اچھی اور نیک باتیں دوسرے فریق تک پہنچا دے اور اس فریق کے خلاف کہی جانے والی باتوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرےتو ایسا صلح کروانے والا جھوٹا نہیں کہلا سکتاہے۔

سنن ترمذی نے حضرت اسماء بنت یزیدؓ سےاس روایت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے

لَا يَحِلُّ الْكَذِبُ إِلَّا فِي ثَلَاثٍ يُحَدِّثُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ لِيُرْضِيَهَا وَالْكَذِبُ فِي الْحَرْبِ وَالْكَذِبُ لِيُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ۔

یعنی تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں۔ خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کےلیے کوئی بات کہے۔ لڑائی کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کروانے پر جھوٹ بولنا۔

پہلی بات یہ ہے کہ سنن ترمذی میں بیان یہ روایت قرآن کریم کے واضح حکم اوراحادیث صحیحہ میں مروی دیگر روایات کے خلاف ہونے کی بنا پر قابل قبول نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اسلام نے جھوٹ کو کسی موقعہ پر بھی جائز قرار نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ تعلیم دی کہ جان بھی جاتی ہو تو جانے دو لیکن سچ کو ہاتھ سے مت جانے دو۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس بارے میں ہماری رہ نمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ حضور علیہ السلام اپنی تصنیف لطیف ’’نور القرآن نمبر 2‘‘میں ایک عیسائی کے اسی اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’قرآن شریف نے دروغ گوئی کو بت پرستی کے برابر ٹھہرایا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ…اصل بات یہی ہے کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی ہر گز اجازت نہیں بلکہ حدیث میں تو یہ لفظ ہیں کہ ان قتلت و احرقت …پھر اگر فرض کے طور پر کوئی حدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی مخالف ہو تو وہ قابل سماعت نہیں ہو گی کیونکہ ہم لوگ اسی حدیث کو قبول کرتے ہیں جو احادیث صحیحہ اور قرآن کریم کے مخالف نہ ہو۔ ہاں بعض احادیث میں توریہ کے جواز کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے۔ اور اُسی کو نفرت دلانے کی غرض سے کذب کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور ایک جاہل اور احمق جب ایسا لفظ کسی حدیث میں بطور تسامح کے لکھا ہوا پاوے تو شاید اس کو حقیقی کذب ہی سمجھ لے کیونکہ وہ اس قطعی فیصلہ سے بے خبر ہے کہ حقیقی کذب اسلام میں پلید اور حرام اور شرک کے برابر ہے مگر توریہ جو درحقیقت کذب نہیں گو کذب کے رنگ میں ہے اضطرار کے وقت عوام کے واسطے اس کا جواز حدیث میں پایا جاتا ہے مگر پھر بھی لکھا ہے کہ افضل وہی لوگ ہیں جو توریہ سے بھی پرہیز کریں …مگر باوصف اس کے بہت سی حدیثیں دوسری بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توریہ اعلیٰ درجہ کے تقویٰ کے برخلاف ہے اور بہر حال کھلی کھلی سچائی بہتر ہے اگرچہ اس کی وجہ سے قتل کیا جائے اور جلایا جائے۔ ‘‘

(نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 403 تا 405)

پس یہ بات کسی طرح بھی ماننے کے لائق نہیں کہ کسی حدیث میں جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لیے اگر ان احادیث کی کوئی تطبیق ہو سکتی ہو جو قرآن و سنت کے مطابق ٹھہرے تو اس تطبیق کے ساتھ ہم ان احادیث کو قبول کریں گے، ورنہ قرآن کریم اور رسول اللہﷺ کی واضح تعلیم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ہم ان احادیث کوقابل قبول نہیں ٹھہراتے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button