حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں آسمانی شہادت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں آسمانی شہادت

(حصہ دوم)

یہ گرہن 1894ء میں لگا اور15-14-13تاریخوں میں سے 13تاریخ کو رمضان کے مہینے میں چاند کو گرہن لگا۔ 27-29-28 تاریخوں میں سے 28تاریخ کو رمضان میں سورج کو گرہن لگا۔ یہ آپ کی صداقت کی بڑی واضح دلیل ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے علاوہ اس وقت دعویٰ بھی کسی کا نہیں تھا۔ بعض مولوی، قمر وغیرہ کی بحث میں پڑتے ہیں تو قمر تو بعض کے نزدیک دوسری رات کے بعد کا چاند اور بعض کے نزدیک تیسری رات کے بعد کا چاند کہلاتا ہے۔ اب کوئی دکھائے کہ کیا تائید کے اس نشان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کوئی دعویٰ موجود تھا۔ اگر دعویٰ ہے تو صرف ایک شخص کا ہے جو حضرت مرزا غلام احمدصاحب قادیانی علیہ السلام ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ بے شمار علامتیں پوری ہو رہی ہیں۔ اگر مَیں نہیں تو کوئی دوسراآیا ہوا ہے تو دکھائو۔ کیونکہ وقت بہرحال تقاضا کر رہا ہے۔ لیکن یہ لوگ دکھا تو نہیں سکتے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی سچے دعوے دار ہیں کیونکہ زمینی اور آسمانی تائیدات آپؑ کے حق میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا معیار نبوت آپ کی تائید کررہا ہے۔ خودکچھ لوگ ماضی میں بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ پاک صاف شخصیت کے مالک تھے۔ آپؑ کا ماضی بھی پاک تھا، آپؑ کی جوانی بھی پاک تھی۔ علمی بھی تھے اور اسلام کی خدمت بھی آپ سے زیادہ کسی نے نہیں کی۔ یہ غیروں نے بھی تسلیم کیا۔ پھر سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اگر عقل پہ پردے پڑے ہوئے ہیں تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ کیونکہ کسی کو ماننے کی توفیق بھی اللہ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اب بتلاویں اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھر کون آیا جس نے اس چودھویں صدی کے سر پر مجدد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیسا کہ اس عاجز نے۔ کیا کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہوا۔

تَفَکَّرُوْا وَتَنَدَّمُوْا وَاتَّقُوااللّٰہَ وَلَا تَغْلُوْا‘‘

یعنی غور کرو، کچھ شرم کرو، اللہ سے ڈرو کیوں بے حیائیوں میں آگے بڑھ رہے ہو۔’’اور اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعویٰ میں غلطی پر ہے تو آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود جوآپ کے خیال میں ہے انہیں دنوں میں آسمان سے اتر آئے کیونکہ مَیں تو اس وقت موجود ہوں، مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں اور میرے دعویٰ کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصور ہے کہ اب وہ آسمان سے اتر ہی آوے تا مَیں ملزم ٹھہر سکوں‘‘۔ یہ اس وقت آپؑ نے ساروں کو چیلنج دیا تھا۔ ’’آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اترتے دکھائی دیں۔ اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ اہل حق کی دعامبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے‘‘۔ یعنی جو سچے ہوں اس کی دعا جھوٹے کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے۔’’لیکن آپ یقینا ًسمجھیں کہ یہ دعا ہرگز قبول نہیں ہو گی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں۔ مسیح تو آچکا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا۔ اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیںہو گی۔ یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں سے مسیح کو اترتے نہیں دیکھے گا‘‘۔

(ازالہ اوہام حصہ اول ۔روحانی خزائن جلد 3صفحہ179)

پھر آپ نے فرمایا:’’اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں۔ اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کرکے میرے پاس آوے تو مَیں اب بھی اس بات کے لئے حاضر ہوں کہ ان کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلائوں کہ کس قدر خدا نے ایک فوج کثیر کی طرح میری شہادت میں پیشگوئیاں مہیا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے ان کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیساکہ دن چڑھ جاتا ہے‘‘۔

اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مسیح موعودؑ کی محبت دلوں میں بٹھائے گا اور سب فرقوں پر آپ کے فرقہ کو غالب کرے گا

اب جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا اگر کوئی آنا چاہے تو سو سال کے بعد آج بھی دلوں کو درست کرکے آنے والی شرط قائم ہے ۔اور جو آتے ہیں وہ حق کو پا بھی لیتے ہیں۔

فرمایا کہ’’یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں ۔سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ مَیں حملہ پرحملہ کروں گا یہاں تک کہ مَیں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا‘‘۔

فرمایا کہ’’پس اے مولویو! اگر تمہیں خدا سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو۔ مجھ سے پہلے غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اس کو سولی دے دی۔ مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو صرف ایک مکّار اور کذّاب خیال کیا جاتا تھا۔ اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہو گئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو خدا کرکے مانتا ہے۔ اگرچہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے‘‘۔ یعنی یہ اللہ کی طرف سے یہودیوں کو جواب دیا گیا ہے کہ’’ جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے کچل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں۔ سو مَیں نے اگرچہ یہ د عا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا مَیں ذریعہ نہ ٹھہرایا جائوں اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خداتعالیٰ ایسا ہی کرے گا۔ لیکن خداتعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوںپر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘۔ اور اللہ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں یہ سچائی ظاہر ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے۔’’ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا۔ اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔

فرمایا:’’ سو اے سننے والو! ان باتوںکو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پور اہو گا۔ مَیں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اورمَیںنے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ اور مَیں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں۔ یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا۔ پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوںکے قبول کیا‘‘۔

(تجلیات الٰہیہ ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ410-408)

پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ ہے یا پیشگوئی ہے اور ہم ہر روز اس کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔لیکن ہر مذہب و قوم کے لئے بھی یہ غور کا مقام ہے۔ مسیح موعود کی جماعت اللہ تعالیٰ کے ان سے کئے گئے وعدہ کے مطابق ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہر روز ہم ترقی کو دیکھتے ہیں۔ پس مسلمان بھی غور کریں( جو احمدیوں کے علاوہ مسلمان ہیں) کہ مسیح ومہدی جو آنے کو تھا وہ آ چکا ہے۔ اور اس کی صداقت کے لئے قرآن و حدیث میں بے شمار ثبوت موجود ہیں۔ قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی مل جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک دو کا مَیں نے ذکر بھی کیا ہے۔ زمانے کی حالت بھی اس کو پکار رہی ہے۔ اب کس انتظار میں بیٹھے ہو۔ کچھ تواے لوگ سوچو۔ عیسائیوں کے لئے بھی جس مسیح نے دوبارہ آنا تھا آ گیا ہے۔ اور باقی مذاہب والوں کو بھی ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے جس نے آنا تھا وہ آگیا ہے۔ اب اگر ایک دوسرے کے جذبات کا احترام سکھانا ہے تو اسی مسیح و مہدی نے سکھانا ہے۔ اب اگر تمام مذاہب کے انبیاء کااحترام سکھانا ہے تو اُسی مسیح موعود نے سکھانا ہے۔ اب اگر دنیا میں امن اور پیار اور محبت پھیلانی ہے تو اسی مسیح موعودنے پھیلانی ہے۔ اب اگر انسانیت کو دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دلانی ہے تو اسی مسیح موعود و مہدی موعود نے دلانی ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھانے ہیں اور بندے کو خداتعالیٰ کے حضور جھکنے کے طریق بتانے ہیں تو اسی مسیح و مہدی نے بتانے ہیں۔پس اگر دنیا ان تمام باتوں کا حصول چاہتی ہے۔ تو تمام نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور مسیح و مہدی کی تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں۔ ورنہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ کی قہری تجلی کے سائے منڈلاتے نظر آ رہے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا سے خبر پا کرہمیں بتا چکے ہیں۔ پس آپ جو احمدی ہیں ان سے بھی مَیں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرے۔ اور اپنی اصلاح کے ساتھ دنیا کو بھی اس انذار سے آگاہ کرے۔ اللہ تعالیٰ ان دنیاداروں پر رحم کرے اور ان کو حقیقت سمجھنے کی توفیق عطافرمائے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button