گھریلو زندگی میں مسیح دوراںؑ کے اخلاقِ عالیہ (قسط اوّل)
’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)
آنحضرت صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی امت پر آنے والے جن حالات کی خبر دی ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ مسلمانوں کے دلوں سے ایمان اٹھ جائے گا اور مسلمان ہونے اور کہلانے کے باوجود نور ایمان سے خالی ہوں گے۔ اس وقت امتی نبی کا نزول ہوگا۔ جو سچا عاشق خدا اور عاشق رسولؐ ہوگا۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان ثریا ستارے پر چلا جائے گا۔ تب اہل فارس میں سے ایک شخص اسے واپس لائے گا۔
(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ)
جب حضرت اقدس مسیح موعودؑ مبعوث ہوئے اس وقت لوگ اسلامی احکامات کو بھول کر بہت ساری بدعات میں مبتلا ہوگئے تھے۔ دوسرے مذاہب خاص طور پر ہندوؤں کی تہذیب کے زیراثرعورت کا معاشرےمیں کوئی مقام اور حیثیت نہیں تھی۔ آپؑ نے اپنے قول اور فعل سے عورت کو اس کا اصل مقام اور مرتبہ دلایا۔ آپؑ احباب جماعت کے سامنےان کی تربیت اور حقوق کے لیے جو نصائح بیان فرماتے علیحدگی میں اپنی گھریلو زندگی میں بھی اس کا بھرپور اظہار فرماتے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے ہر پہلو کی مثالیں اورخوبصور ت نمونے موجود ہیں۔ ہم آپؑ کی پاکیزہ سیرت و کردار کاجتنا زیادہ گہرائی سے مطالعہ کریں اتنا ہی آپ علیہ السلام کے بلند اخلاق اور پاکیزہ کردارکے معترف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آپؑ نے پوری زندگی نہایت باریکی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے گزاری۔ اور اپنے قول اور فعل سے اس کا اظہار فرمایا۔ زیر نظر مضمون میں آپؑ کے اپنے اہل خانہ کے ساتھ نیک سلوک کا ذکر کیا جائے گا۔
میاں بیوی کےتعلق کا معیار کیا ہونا چاہیے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
‘‘چاہئے کہ بیویوں سے خاوندوں کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاق فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہ تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اُس کے تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ۔ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے اچھا ہے۔’’
(ملفوظات جلد5صفحہ418،ایڈیشن1984ء)
بیوی سے حسن سلوک
عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
‘‘فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔’’(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 307)
آپ علیہ السلام نےایک اور موقع پر فرمایا :
‘‘ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا اور یہ درحقیقت ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کا شکر یہ ہے کہ عورتوں سےلطف اور نرمی کا برتائو کریں۔’’
(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ 18)
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زندگی بھر اپنےبیان فرمودہ سنہری اقوال کے مطابق عمل کرکے ہمارے لیے بہترین اسوہ قائم فرمایا۔ آپؑ کے اپنے اہل کے ساتھ بےمثال سلوک سے متعلق مروی واقعات میں سے چند ایک بطور تحدیث نعمت پیش ہیں۔
ایک د فعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات پر بہت کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا کہ
‘‘ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے۔’’حضورؑ بہت دیر تک معاشرت نسواں کے بارے میں گفتگو فرماتے رہے اور آخر پر فرمایا :
‘‘میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ مَیں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا۔ اور مَیں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگِ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے، اور بایں ہمہ کوئی دلآزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکالا تھا۔ اس کے بعد مَیں بہت دیر تک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع و خضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے۔’’
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ307، ایڈیشن 1988ء)
رفیقہ حیات کے ساتھ محبت اور دلداری
آپؑ کی حیات طیبہ کا سب سے نمایاں پہلو آپ کا حسن اخلاق اور طرز معاشرت تھا جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور عکاسی کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورحضرت اماں جان کی شادی ایک الہامی شادی تھی جو اذن الٰہی کے تابع ہوئی۔ اس بارے میں سیرت حضرت اماں جان میں مذکور ہے :
‘‘یہ شادی 1884ءمیں ہوئی۔ یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے اپنے دعویٰ مجدد یت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت اماں جانؓ …حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہا درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے منشا کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جانؓ کو مخصوص نسبت ہے چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں ‘‘میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے’’اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسکرا کر فرماتے تھے ‘‘ہاں یہ ٹھیک ہے۔’’
(از سیرت و سوانح حضرت اماں جان مصنفہ پروفیسرسیدہ نسیم سعید صاحبہ صفحہ 107)
حضرت اماں جانؓ بیان فرماتی ہیں کہ
‘‘میں پہلے پہل جب دہلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت ( مسیح موعودؑ ) کو گُڑ والے چاول بہت پسند ہیں۔ میں نے بڑے شوق سے ان کے پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا۔ وہ بالکل راب بن گئے۔ جب دیگچی چولہے سے اُتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اورصدمہ ہواکہ یہ تو خراب ہوگئے۔ ادھرکھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ حیران تھی کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں حضرت صاحب آگئے۔ میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا۔ آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا:
‘‘کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟ ’’
پھر فرمایا:
‘‘نہیں یہ تو بہت مزیدار ہیں۔ میری پسند کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے ہی زیادہ گڑ والے تومجھےپسند ہیں۔ یہ تو بہت ہی اچھے ہیں۔’’
اور پھر بہت خوش ہوکر کھائے۔ حضرت اماں جانؓ فرماتی تھیں کہ ‘‘حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کو اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہوگیا۔’’
(سیرت حضرت اماں جانؓ مصنفہ صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ صفحہ6تا7)
حضرت اُمّ المومنین کا احترام :بعض روایات
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ لکھتے ہیں کہ
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت اُمّ المومنین سلمہا اللہ تعالیٰ کا اس قدر اکرام و عزاز کرتے تھے آپ کی خاطر داری اس قدر ملحوظ رکھتے تھے کہ عورتوں میں اس بات کا چرچا رہتا تھا۔ جب میں لاہور میں ملازم تھا۔ 1897ء یا اس کے قریب کا واقعہ ہے لاہور کا ایک معزز خاندان قادیان آیا۔ ان میں سے بعض نے بیعت کی اور سب حسنِ عقیدت کے ساتھ واپس گئے۔ واپسی پر اس خاندان کی ایک بوڑھیا نے ایک مجلس میں یہ ذکر کیا کہ میرزا صاحب اپنی بیوی کی کس قدر خاطر اور خدمت کرتے ہیں۔ اتفاقاً اس مجلس میں ایک پرانے طرز کے صوفی بزرگ بھی بیٹھے تھے۔ وہ فرمانے لگے ہر سالک کا ایک معشوق مجازی بھی ہوتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میرزا صاحبؑ کا معشوق ان کی بیوی ہے۔ یہ خیال تو ان صوفی بزرگ کا تھا مگر اصل بات یہ ہے کہ اُمّ المومنینؓ کااحترام ان خوبیوں اور نیکیوں کے سبب سے تھا جو اُن میں پائی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کےفضلوں کے باعث تھا جو ہمیشہ ان پر ہوتے رہے۔’’
آپ علیہ السلام کس طرح حضرت اماں جانؓ کے جذبات کا خیال رکھتےتھے۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے ایک روایت لکھی ہے:
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندرون خانہ جس دالان میں عموماً سکونت رکھتے تھے، جس کی ایک کھڑکی کوچہ بندی کی طرف کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر بیت الدعا کو جاتے ہیں۔ اس کمرے کی لمبائی کے برابر اس کے آگے جنوبی جانب ایک فراخ صحن ہواکرتا تھا۔ گرمی کی راتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اہل و عیال سب اس صحن میں سویا کرتے تھے۔ لیکن برسات میں یہ دقت ہوتی کہ اگر رات کو بارش آجائے تو چارپائیاں یا تو دالان کے اندر لے جانی پڑتی تھیں یا نیچے کے کمروں میں۔ اس واسطے حضرت اُمّ المومنین نے یہ تجویز کی کہ اس صحن کے ایک حصہ پر چھت ڈال دی جائے تاکہ برسات کے واسطے چارپائیاں اس کے اندر کی جا سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تبدیلی کے واسطے حکم صادر فرمادیا۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم کو جب اس تبدیلی کا حال معلوم ہوا تو وہ اس تجویز کی مخالفت کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا، ہوا نہ آئے گی، صحن کی خوبصورتی جاتی رہے گی وغیرہ وغیرہ۔ دیگر احباب نے بھی مولوی صاحبؓ کی بات کی تائید کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں کا جواب دیا۔ مگر آخری بات جو حضورؑ نے فرمائی اور جس پر سب خاموش ہوئے وہ یہ تھی کہ ‘‘اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطا کیے ہیں جو شعائراللہ میں سے ہیں۔ اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے۔’’
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہ اس وفد کی پروا کی نہ ان دلائل کو وزنی قرار دیابلکہ ان سب چیزوں کے مقابل میں عملی طور پر حضرت اُمّ المومنینؓ کی بات اور منشا کو ترجیح دی۔
ایک دفعہ حضرت اُمّ المومنینؓ نے اس سیڑھی کے بدلنے کی ضرورت محسوس کی جو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے مکان کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اسے اس بالا خانہ کے ساتھ رکھنا تھا جس میں مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے اور نیچے مولوی سیّدمحمد احسن صاحب رہتے تھے۔ مولوی محمداحسن صاحب نے اس سیڑھی کے وہاں رکھنے کی مخالفت کی کہ میرے حجرہ کو اندھیرا ہو جائے گا۔ حضرت اُمُّ المومنین نے حکم دیا کہ سیڑھی وہیں رکھی جائے۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ انتظام کر رہے تھے اور ان کو اس کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑی۔ آخران کے مزاج میں گرمی تھی اور جہیرالصوت تھے۔ انہوں نے زور زورسے بولنا شروع کیا کہ یہ سیڑھی یہاں ہی رہے گی۔ مولوی محمد احسن صاحب بھی اونچی آواز سے انکار اور تکرار کرتے رہے۔ اتنے میں حضرت صاحبؑ باہر سے تشریف لے آئے۔ اور پوچھا کیا ہے؟ میر صاحبؓ نے کہا کہ مجھ کو اندر سیّدانی (مراد اُمّ المومنین) آرام نہیں لینے دیتی اور باہر سیّد سے پالا پڑ گیا ہے۔ نہ یہ مانتے ہیں نہ وہ مانتی ہیں میں کیا کروں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا:
‘‘مولوی صاحب ! آپ کیوں جھگڑتے ہیں میر صاحبؓ کو جو حکم دیا گیا ہے ان کو کرنے دیجیے۔ روشنی کا انتظام کر دیا جائے گا۔ آپ کو تکلیف نہیں ہوگی۔’’
اس طرح پر حضرت اُمُّ المومنین کی خواہش کو پورا کر دیا گیا۔
الغرض کبھی بھی کوئی ایسا موقع نہیں آیا جس میں حضرت اقدسؑ کی طرف سے حضرت اُمُّ المومنین کی دل شکنی ہوئی ہو۔
پہلی بیوی کے جذبات کا خیال
گو کہ حضرت مسیح موعودؑ کے اپنی پہلی بیوی کے ساتھ طبیعت کے فرق کی وجہ سے اچھے تعلقات نہیں تھے لیکن آپؑ ان کو خرچ باقاعدہ دیتے تھے۔ جب آپؑ نے حضرت اماں جانؓ سے شادی کرلی تو اس وقت بھی ان کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان سے الگ رہنے کی اجازت لی۔
ان کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں
‘‘والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میری شادی کے بعد حضرت صاحب نے انہیں کہلا بھیجا کہ آج تک تو جس طرح ہوتا رہا، ہوتا رہا۔ اب میں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ اس لیے اب اگر دونوں بیویوں میں برابر ی نہیں رکھوں گامیں گناہ گار ہوں گا۔ اس لیے اب دو باتیں ہیں یا تو تم مجھ سے طلاق لے لو اور یا مجھے اپنے حقوق چھوڑ دو۔ میں تم کو خرچ دیے جائوں گا۔ انہوں نے کہلا بھیجا کہ… بس مجھے خرچ ملتا رہے۔ میں اپنے باقی حقوق چھوڑتی ہوں۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 394مصنف مکرم شیخ یقوب علی عرفانی صاحبؓ )
عائلی زندگی کے حوالے سے دوسروں کی گواہی
کسی شخص کی عائلی زندگی کے حوالے سے اس کے قریبی رشتہ دارہی بہتر گواہی دے سکتے ہیں۔ چنانچہ آپ علیہ الصلوٰۃوالسلام کے برادر نسبتی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
‘‘میں نے اپنے ہوش میں نہ کبھی حضور علیہ السلام کو حضرت ام المومنین سے ناراض دیکھا نہ سنا بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک idealجوڑے کی ہونی چاہیے۔’’
(سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم مرتبہ حضرت شیخ محمود احمد عرفانی و شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 231)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت اماں جان رضی اللہ عنہاکے ساتھ سلوک اس زمانہ کے دستور اور ماحول کے اس قدر مخالف تھاکہ بقول حضرت مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ اس بات کو اندرون خانہ کی خدمت گار عورتیں جو عوام الناس سے ہیں اور فطری سادگی اور انسانی جامہ کے سواکوئی تکلف اورتصنع کی زیرکی اور استنباطی قوت نہیں رکھتیں بہت عمدہ طرح سے محسوس کرتی ہیں۔ وہ تعجب سے دیکھتی ہیں اور زمانہ اور اپنے اور اپنے گردوپیش کی عام عرف اور برتائوکے بالکل بر خلاف دیکھ کر بڑے تعجب سے کہتی ہیں اور میں نے بارہا انہیں خود حیرت سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ‘‘مرجا بیوی دی گل بڑی مندا ہے’’(یعنی مرزا صاحب اپنی بیوی کی بات بہت مانتے ہیں )
(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ صفحہ 18)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب کشتی نوح میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے حسن سلوک نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین فرید آبادی نے ماسٹر صاحب سے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضور اپنی مجلس میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو چاہیے کہ عورتوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آیا کریں۔ اور عورتوں کو فرمایا کرتے کہ عورتوں کو اپنے گھر کو جنت بنا کر رکھنا چاہیے اور مردوں کے ساتھ کبھی اونچی آواز سے پیش نہیں آنا چاہیے اور میں جب کبھی حضرت صاحب کے گھر آتی تو میں دیکھا کرتی کہ حضور ہمیشہ ام المومنین کو بڑی نرمی کے ساتھ آواز دیتے ‘‘محمود کی والدہ’’ یا کبھی‘‘محمود کی اماں ! یہ بات اس طرح سے ہے’’ اور اپنے نوکروں کے ساتھ بھی نہایت نرمی سے پیش آتے۔ مجھے یاد نہیں آتا کہ حضور کبھی کسی کے ساتھ سختی سے گفتگو کرتے، ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ بولتے۔
(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1576صفحہ 319ایڈیشن اگست2008ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ کسی سفر میں تھے۔ سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبد الکریم صاحبؓ جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہامیں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبد الکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایاجاؤجی میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔
(سیرت المہدی جلد اول، حصہ اول صفحہ56)
بیماری کی حالت میں سکون
پھرانسان پہ صحت اور بیماری کا دور بھی آتاہے۔ بیماری میں چڑ چڑا پن بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کو اس زمانے کی اصلاح کے لیے آنحضرتؐ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔ آپ کا اس زمانے میں کیا رویہ ہوتا تھا۔ اس بارے میں روایت سنیں۔
حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپؑ کو سخت دردِ سر ہو رہا تھا۔ اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا۔ اور پاس حد سے زیادہ شور و غل برپا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:ہاں اگر یہ چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے۔ تو میں نے عرض کیا کہ جناب کیوں حکم نہیں کرتے۔ فرمایا :آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں۔ میں تو کہہ نہیں سکتا۔ بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں گویا مزہ میں سو رہے ہیں۔ کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا۔ اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اورتُو نے ہماری خدمت نہیں کی۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیمار دار اس کی بدمزاجی اور چڑچڑاپن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں۔ اسے گالی دیتاہے۔ اسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آجاتی ہے۔ بیچاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین۔ کہیں تکان کی وجہ سے ذرا اونگھ آگئی ہے۔ بس پھر کیا خدا کی پناہ۔ آسمان کو سر پر اٹھا لیا۔ وہ بیچاری حیران ہے۔ ایک تو خود چُور چُور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں مارے غضب و غیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے۔ غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہوتی ہے۔ خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے۔ برخلاف اس کے سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جوطمانیت اور جمعیت اورکسی کو بھی آزا ر نہ دینا۔ حضرت (یعنی حضرت مسیح موعودؑ ) کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے۔ وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے۔ اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ رُوئی، کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں ہیں۔ میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جبکہ ابھی ابھی سر درد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپؑ کو افاقہ ہوا۔ آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے۔ اور فرمایاہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس وقت مجھے ایسامعلوم ہواکہ گویا آپ کسی بڑے عظیم الشان دلکشا نُزھت افزاء باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں جویہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی صفحہ22-23 پبلشر ابوالفضل محمود قادیان)
جن دنوں امرتسر میں ڈپٹی آتھم سے مباحثہ تھا ایک رات خان محمد شاہ مرحوم کے مقام پر بڑا مجمع تھا۔ اطراف سے بہت سے دوست مباحثہ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ حضرت اس دن جس کی شام کا واقعہ میں بیان کرنا چاہتا ہوں معمولاً سر درد سے بیمار ہو گئے تھے۔ شام کو جب زیارت کا اشتیاق رکھنے والے ہمہ تن چشم انتظار ہورہے تھے حضرت صاحب مجمع میں تشریف لائے منشی عبد الحق صاحب لاہور ی پنشنر نے کمال محبت اور رسم دوستی کی بنا پر بیماری کی تکلیف کی نسبت پوچھنا شروع کیا اور کہا آپ کا کام بہت نازک اور آپ کے سر پر بھاری فرائض کا بوجھ ہے۔ آپ کو چاہیے کہ جسم کی صحت کی رعایت کا خیال کریں اور ایک خاص مقوی غذا لازماًآپ کے لیے ہر روز تیار ہونی چاہیے۔ حضرت نے فرمایا ‘‘ہاں بات تو درست ہے اور ہم نے کبھی کبھی کہا بھی ہے مگر عورتیں کچھ اپنے ہی دھندوں میں ایسی مصروف ہوتی ہیں کہ اَور باتوں کی چنداں پروا نہیں کرتیں۔ ’’اس پر ہمارے پرانے موحد خوش اخلاق نرم طبع مولوی عبداللہ غزنوی کے مرید منشی عبد الحق صاحب فرماتے ہیں اجی حضرت آپ ڈانٹ ڈپٹ کر نہیں کہتے اور رعب پیدا نہیں کرتے۔ میرا یہ حال ہے کہ میں کھانے کے لیے خاص اہتمام کیا کرتا ہوں اور ممکن ہے کہ میرا حکم کبھی ٹل جائے اور میرے کھانے کے اہتمام خاص میں کوئی سرموفرق آجائے ورنہ ہم دوسری طرح خبر لے لیں۔ میں ایک طرف بیٹھا تھا منشی صاحب کی اس بات پر اس وقت خوش ہوا اس لیے کہ یہ بات بظاہر میرے محبوب آقا کے حق میں تھی اور میں خود فرط محبت سے اسی سوچ بچار میں رہتا تھا کہ معمولی غذا سے زیادہ عمدہ غذا آپ کے لیے ہونی چاہیے اور ایک دماغی محنت کرنے والے انسان کے حق میں لنگر کا معمولی کھانا بدل ما یتحلل نہیں ہوسکتا۔ اسی بنا پر میں نے منشی صاحب کو اپنا بڑا مؤید پایا اور بے سوچے سمجھے(درحقیقت ان دنوں الٰہیات میں میری معرفت ہنوز بہت سا درس چاہتی تھی) بوڑھے صوفی اور عبداللہ غزنوی کی صحبت کے تربیت یافتہ تجربہ کار کی تائید میں بول اٹھا کہ ہاں حضرت منشی صاحب درست فرماتے ہیں حضور کو بھی چاہیے کہ درشتی سے یہ امر منوائیں۔ حضرت نے میری طرف دیکھا اور تبسم سے فرمایا ‘‘ہمارے دوستوں کو تو ایسے اخلاق سے پرہیز کرنا چاہیے۔’’
(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ18تا19)
بیماری میں اہل خانہ کا خیال
اس کے برعکس جب گھر میں کوئی بیمار ہوتا تو آپ بہت دلجمعی سے اس کا خیال رکھتے۔ اور اپنی بےانتہا مصروفیت کے باوجود علاج معالجے کی طرف توجہ فرماتےتھے۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ اپنی تحریر میں فرماتے ہیں :
‘‘حضرت اُم المومنینؓ پر جب کبھی بیماری کا حملہ ہوتا تو آپؑ ہر طرح آپؓ کی ہمدردی اور خدمت کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اپنے عمل سے آپؑ نے یہ تعلیم ہم سب کو دی کہ بیوی کے کیا حقوق ہوتے ہیں۔ جس طرح پر وہ ہماری خدمت کرتی ہے عند الضرورت وہ مستحق ہے کہ ہم اسی قسم کا سلوک اُس سے کریں چنانچہ آپؑ علاج اور توجہ الی اللہ میں مصروف نہ رہتے بلکہ بعض اوقات حضرت اُم المومنینؓ کو دباتے بھی تاکہ آپؓ کو تسلی اور سکون ملے۔ احمق اور نادان ممکن ہے اس پر اعتراض کریں مگر حقیقت میں نسوانی حقوق کی صیانت اور ان کے حقوق کی مساوات کا یہ بہترین نمونہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دکھایا۔’’
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 285۔ 286ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
حضرت مولانا عبدالکریم صاحبؓ سے روایت ہے کہ
‘‘آپ بچوں کی خبرگیری اور پرورش اس طرح کرتے ہیں کہ ایک سرسری دیکھنے والا گمان کرے کہ آپ سے زیادہ اولاد کی محبت کسی کو نہ ہوگی۔ اور بیماری میں اس قدر توجہ کرتے ہیں اور تیمارداری اور علاج میں ایسے محو ہوتے ہیں کہ گویا اورکوئی فکر ہی نہیں مگر باریک بین دیکھ سکتاہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے او رخداکے لئے اس کی ضعیف مخلوق کی رعایت اور پرورش مدنظر ہے۔ آپ کی پلوٹھی بیٹی عصمت لدھیانہ میں ہیضہ سے بیمار ہوئی آپ اس کے علاج میں یوں دوا دہی کرتے کہ گویا اس کے بغیر زندگی محال ہے اور ایک دنیا دار دنیا کی عرف اور اصطلاح میں اولاد کا بھوکا اور شیفتہ اس سے زیادہ جانکاہی کر ہی نہیں سکتا۔ مگر جب وہ مر گئی آپ یوں الگ ہو گئے کہ گویا کوئی چیز تھی ہی نہیں اورجب سے کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ کوئی لڑکی تھی۔
اسی طرح صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی علالت کے ایام میں آپ نے شبانہ روز اپنے عمل سے دکھایا کہ اولاد کی پرورش اور صحت کے لئے ہمارے کیا فرائض ہیں۔’’
(سیرت مسیح موعودؑ از یعقوب علی صاحب عرفانیؓ )
حضرت ام ناصر صاحبہؓ نے ایک دفعہ ذکر کیا کہ
‘‘حضرت اماں جانؓ ایک بار بیمار تھیں اور حضرت اقدسؑ تیمارداری فرمارہے تھے،کھڑے دوائی پلارہے تھےاور حالت اضطراب میں حضرت اماں جانؓ کہہ رہی تھیں ہائے میں مرجاؤں گی آپ کا کیا ہے، بس اب میں مرچلی ہوں تو حضرت صاحبؑ نے آہستہ سے فرمایاتو تمہارے بعد ہم زندہ رہ کرکیا کریں گے؟ ’’
(سیرت حضرت اماں جانؓ مصنفہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صاحبہ صفحہ 117)
گھریلو کام کاج میں مدد
سکینہ بیگم اہلیہ ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی مرحوم نے بذریعہ تحریر ماسٹر صاحب سے مجھ سے بیان کیا کہ
‘‘حضرت صاحب مردوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھےکہ مرد اپنی بیویوں کا گھر کے کام میں ہاتھ بٹایا کریں ثواب کا کام ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر کے کام میں اپنی بیویوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اور ساتھ ہی یہ لفظ کہتے ‘‘ہمیں تو لکھنے سے فرصت ہی نہیں ہوتی۔’’
(سیرت المہدی جلد دوم حصہ پنجم روایت 1577صفحہ 318)
سیرت المہدی میں مذکور ہےکہ ڈا کٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ حضر ت مسیح مو عود علیہ السلا م کو گھر کا کو ئی کام کر نے سے کبھی عا ر نہ تھی۔ چارپائیاں خو د بچھا لیتے تھے۔ فر ش کر لیتے تھے۔ بستر ا کر لیا کرتے تھے۔ کبھی یکدم با رش آجا تی تو چھو ٹے بچے تو چارپائیوں پر سوتے رہتے۔ حضو ر ایک طرف سے خو د اُن کی چا ر پا ئیاں پکڑتے دوسری طرف سے کوئی اور شخص پکڑتا اور اندر برآمدہ میں کر وا لیتے۔ اگر کوئی شخص ایسے مو قع پر یا صبح کے وقت بچوں کو جھنجھو ڑکر جگا نا چا ہتا تو حضو ر منع کر تے اور فر ما تے کہ اس طرح یکدم ہلا نے اور چیخنے سے بچہ ڈرجا تا ہے۔ آہستہ سے آواز دے کر اُٹھا ؤ۔
(سیرت المہدی جلد اوّل حصہ سوم صفحہ543)
ایک اور روایت ہے کہ مراد خاتون صاحبہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ مرحوم و مغفور نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ
‘‘ایک دفعہ حضرت ام المومنینؓ اور سب نے مل کر آم کھائے۔ صحن میں چھلکوں اور گٹھلیوں کے دو، تین ڈھیر لگ گئے جن پر بہت سی مکھیاں آگئیں۔ اس وقت میں بھی وہاں بیٹھی تھی۔ کچھ خادمات بھی موجود تھیں مگر حضرت اقدسؑ نے خود ایک لوٹے میں فینائل ڈال کر سب صحن میں چھلکوں کے ڈھیروں پر اپنے ہاتھ سے ڈالی۔’’
(سیرت المہدی جلد دوم روایت 1470صفحہ261)
بچوں پر شفقت
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب ترابؓ اپنی تصنیف سیرت مسیح موعودؑ حصہ سوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ
‘‘آپ بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے باہر نکل آیا کرتے تھے اور سیرمیں بھی اٹھا لیا کرتے۔ اس میں کبھی آپ کو تأمل نہ ہوتاتھا۔ اگرچہ خدام جو ساتھ ہوتے وہ خود اٹھانا اپنی سعادت سمجھتے مگر حضرت بچوں کی خواہش کا احساس یا ان کے اصرار کو دیکھ کر آپ اٹھا لیتے اور ان کی خوشی پوری کر دیتے۔ ’’
(سیرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ )
حضورؑ حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کے نا ز اٹھا تے تھے۔ ایک د فعہ آپؑ سیر کو جا رہے تھے۔ حضرت امّا ں جانؓ نے کہلا کر بھیجا کہ امۃ الحفیظ رو رہی ہیں اور سا تھ جا نے کی ضد کر رہی ہیں۔ آپؑ نے ملا زمہ کے ہا تھ ان کو بلوا یا اور گو د میں ا ٹھا کر لے گئے۔ ( دختر کرام از فو زیہ شمیم صفحہ 6تا7)
اسی طرح حضرت سیدہ چھو ٹی آپا فر ما تی ہیں درج ذیل واقعہ حضرت نواب مبا رکہ بیگم صا حبہؓ سے با ر ہا سنا ہے اور ہر بار سن کر دل ایک نئی کیفیت سے دو چا ر ہو تا ر ہا ہے۔ آپ نے فرمایا:
‘‘قادیان میں اس زما نہ میں ڈبل رو ٹی کہاں تھی؟ دودھ اور ساتھ مٹھا ئی یا پرا ٹھا ہم لو گوں کو نا شتہ ملتا تھا۔ چائے کا بھی باقاعدگی سے کو ئی روا ج نہ تھا۔ ڈبل روٹی کبھی تحفۃً لا ہور سے آجاتی تھی۔ ایک روز کا واقعہ ہے صبح کا وقت تھا، حضرت مسیح مو عود علیہ السلام با ہر مردوں کے ہمراہ سیر کو تشریف لے گئے تھے۔ اصغری کی اماں جنہوں نے گیارہ سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کھانا پکا نے کی خد مت بہت اخلاص سے کی، کھانے کی تیا ری میں مصروف تھیں اور حضرت اما ں جانؓ بھی ان کے پاس باورچی خا نہ میں جو اس وقت ہمارے صحن کا ایک کو نہ تھا کوئی خاص چیز پکا نایا پکوا نا چاہتی تھیں۔ اصغری کی اما ں نے دودھ کا پیالہ اور دو توس کشتی میں لگا کر دیے کہ ‘‘لو بیوی نا شتہ کر لو’’میں نے کہا مجھے تو س تل کر دو۔ مجھے تلے ہو ئے تو س پسند تھے۔ انہوں نے اپنے خا ص منت در آمدوالے لہجے میں کا م کا عذر کیا اور حضرت اماں جانؓ نے بھی فر ما یا اس وقت اور بہت کام ہیں اس وقت اسی طرح کھا لو۔ تل کر پھر سہی۔ میں سن کر چپکی چلی آئی اور اس کمرہ میں، جو اب حضرت اماں جانؓ کا کمرہ کہلا تا ہے، کھڑکی کے رخ (اب وہ کھڑکی بند ہو چکی ہے اور و ہاں غسل خانہ بن گیا ہے)ایک پلنگ بچھا تھااس پر پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ دل میں یقین تھا کہ د یکھو میرے ابا آتے ہیں اور ابھی سب ٹھیک ہو جا ئے گا۔ د یکھو ں کیسے نہیں تلے جا تے میرے توس۔ جلد ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے تشریف لے آئے۔ کمرہ میں دا خل ہو ئے۔ صرف میری پشت د یکھ کر روٹھنے کا اندازہ کر لیا اور اسی طر ح خا مو ش وا پس صحن میں تشریف لے گئے۔ با ہر جا کر پو چھا ہو گا اور جواب سے تفصیل معلوم ہوئی ہو گی۔ میں تھوڑی دیر میں ہی کیا د یکھتی ہو ں پیارے مقدس ہاتھوں میں سٹو ل اٹھائےہوئے آئے اور میرے سا منے لا کر رکھ دیا۔ پھر با ہر گئے اور خو دہی دونوں ہا تھوں میں کشتی ا ٹھا کر لائے اور سٹو ل پر میرے آگے رکھ دی جس میں میرے حسب منشا تلے ہو ئے توس اور ایک کپ دودھ کا ر کھا تھا اور فر ما یا ‘‘لو اب کھا ؤ۔’’میں ایسی بد تمیز نہ تھی کہ اس کے بعد بھی منہ پھولا رہتا، میں نے فو راًکھا نا شروع کر دیا۔ آج تک جب بھی یہ واقعہ، وہ خا مو شی سے سٹو ل سامنے ر کھ کر اس پر کشتی لا کر رکھنا یا د آتا ہے اور اپنی حیثیت پر نظر جا تی ہے تو آنسو بہ نکلتے ہیں۔ بڑے ہو کر ٹیسٹ (taste)بدل جاتے ہیں۔ مگر اس یاد میں، اب تک میں، بہت چا ہت سے تلے ہو ئے تو س کبھی کبھی ضرور کھاتی ہوں۔’’
(سیرت و سوانح سیدہ نواب مبا رکہ بیگم صا حبہ مصنفہ و مرتبہ پروفیسر سیدہ نسیم سعید صفحہ نمبر 70)
سیرت مسیح موعودؑ میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘محمود (حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ) چار ایک برس کا تھا۔ حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے۔ میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا۔ پہلے کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی ان مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مشغول ہیں۔ سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہاہے۔ اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ کا ڈھیر ہو گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ حضرت کو سیاق و سباق عبارت کے ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت پیش آئی۔ اس سے پوچھتے ہیں خاموش! اُس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتاہے آخر ایک بچہ بول اٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دئے۔ عورتیں بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اورانگشت بدندان کہ اب کیا ہوگا اور درحقیقت عادتاً بری حالت اور مکروہ نظار ہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا اور ہونابھی چاہئے تھا۔ مگر حضرت مسکرا کرفرماتے ہیں، ‘‘خوب ہوا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون ہمیں سمجھا ئے۔’’
(سیرت مسیح موعود از حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ)
حضرت مرز بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں :
‘‘ڈاکٹر میر محمد اسمعٰیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ میاں بشیر احمد صاحب (یعنی خاکسار مؤلف)جب چھوٹے تھے تو اُن کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی بہت عادت ہو گئی تھی۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے ‘‘ابا چٹی’’ حضرتؑ تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اُٹھتے۔ کوٹھڑی میں جاتے۔ شکر نکال کر اُن کو دیتے اور پھر تصنیف میں مصروف ہو جاتے۔ تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دستِ سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے اور کہتے ‘‘ابا چٹی ’’(چٹی شکر کو کہتے تھے کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا اور مراد یہ تھی کہ چٹے رنگ کی شکر لینی ہے )حضرت صاحبؑ پھر اٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے غرض اس طرح دونوں میں روزانہ کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ہوتی رہتی تھی مگر حضرت صاحبؑ باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے بلکہ ہر دفعہ اُ ن کے کام کے لیے اٹھتے تھے یہ 1895ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے۔ ’’
(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 823تا824، روایت 972)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ایام طفولیت کا ایک واقعہ ہے جس کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمایا ہے اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کس شفقت پدری کا نمونہ تھے۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
‘‘جاڑے کا موسم تھا محمود نے جو اس وقت بچہ تھا آپؑ کی واسکٹ کی جیب میں ایک بڑی اینٹ ڈال دی۔ آپؑ جب لیٹیں وہ اینٹ چبھے۔ میں موجود تھا۔ آپؑ حامد علی سے فرماتے ہیں۔ ‘‘حامد علی !چند روز سے ہماری پسلی میں درد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز چبھتی ہے ’’وہ حیران ہو ا اور آپؑ کے جسدِ مبارک پر ہاتھ پھیرنے لگا اور آخر اس کا ہاتھ اینٹ سے جا لگا۔ جھٹ جیب سے نکال لی اور عرض کیا ‘‘یہ اینٹ تھی جو آپ کو چبھتی تھی’’ مسکرا کر فرمایا کہ‘‘اوہو چند روز ہوئے محمود نے میری جیب میں ڈالی تھی اور کہا تھا اسے نکالنا نہیں میں اس سے کھیلوں گا۔’’
(سیرت مسیح موعودؑ صفحہ 356 جلد سوم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
‘‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام بعض اوقات گھر میں بچوں کو کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک بُرے بھلے کی کہانی بھی آپ عموماً سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک بُرا آدمی تھا اور ایک اچھا آدمی تھا۔ اور دونوں نے اپنے رنگ میں کام کئے اور آخر کار بُرے آدمی کا انجام بُرا ہوا اور اچھے کا اچھا۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک بینگن کی کہانی بھی آپ سناتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک آقا تھا اس نے اپنے نوکر کے سامنے بینگن کی تعریف کی تو اس نے بھی بہت تعریف کی چند دن کے بعد آقا نے مذمت کی تو نوکر بھی مذمت کرنے لگا۔ آقا نے پوچھا یہ کیا بات ہے کہ اس دن تو تُو تعریف کرتا تھا اور آج مذمت کرتا ہے۔ نوکر نے کہا میں تو حضور کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں ہوں۔
(سیرت المہدی، حصہ اوّل صفحہ 48)
(جاری ہے)
٭…٭…٭