دعاؤں اور ذکر و اذکار کو گن کر کیا جاسکتا ہے
سوال:ایک دوست نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں گستاخ رسول کی سزا، قرآن و حدیث کو حفظ کرنے، درود شریف اور دیگر ذکر و اذکار، مختلف دعاؤں اور قرآنی سورتوں کو گن کر پڑھنے کی بابت بعض استفسارات بھجوا کر ان کے بارے رہ نمائی چاہی۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ 25؍ دسمبر2019ء میں ان سوالوں کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:قرآن و حدیث نے کسی گستاخ رسول کو اس دنیا میں سزا دینے کا کسی انسان کو اختیار نہیں دیا۔ خود آنحضرتﷺ نے بھی کسی گستاخ رسول کو سزا نہیں دی اور اگر کسی بد بخت کی ایسی گستاخی پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے محب رسول نے اس شخص کو سزا دینے کی حضورﷺ سے اجازت مانگی تو حضور ﷺ نے انہیں بھی اس کی اجازت نہیں دی۔ اپنے آقا و مطاع کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی تعلیم بیان فرمائی ہے۔
اس کے ساتھ اسلام نے دنیا کے مختلف ادیان کے ارباب حل و عقد اور دیگر اولو الامر کےلیے یہ رہ نمائی بھی بیان فرمائی ہے کہ کسی کے مذہب اور ان کی قابل احترام شخصیات کا اس طرح ذکرنہ کیا جائے جو اس مذہب کے ماننے والوں کےلیے تکلیف کا باعث ہو۔
پس ایک طرف اسلام نے اس دنیا میں کسی انسان کو کسی گستاخ رسول کو سزا دینے کی اجازت نہیں دی تو دوسری طرف یہ تعلیم بھی دی ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے مذہب اور ان کے پیشواؤں کا نامناسب الفاظ میں ذکر نہ کرے۔
2۔قرآن کریم اور احادیث کو حفظ کرنے کا بہترین طریق انہیں توجہ اور کثرت کے ساتھ پڑھنا ہے۔احادیث میں آتا ہے کہ حضرت علی ؓاور حضرت ابوہریرہ ؓکی اسی قسم کی شکایتوں پر حضور ﷺ نے انہیں، ان امور کی طرف توجہ کرنے اور انہیں مسلسل اور کثرت سے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی۔
3۔درود شریف میں انہماک پیدا کرنے کا بھی یہی طریق ہے کہ محبت اور لگن کے ساتھ اس کا کثرت سے ورد کیا جائے۔جس طرح ہم اپنے دوسرے کاموں میں دلچسپی لیتے اور ان کی طرف توجہ کرتے ہیں، اگر ان نیک کاموں میں بھی یہی محبت اور دلچسپی پیدا کریں تو ان شاء اللہ ضرور مقصود حاصل ہو گا۔
درود شریف کا کثرت سے ورد یقیناً بہت با برکت ہے اور انسان کی ہر دعا حضور ﷺ پر درود کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ کے حضور رسائی پاتی ہےجیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔ اگر صرف درود شریف ہی پڑھنا ہر انسان کےلیے کافی ہوتا اوریہ چیز اسے باقی دعاؤں سے مستغنی کر دیتی تو مختلف مواقع پر حضور ﷺ خود درود شریف کے علاوہ دیگر دعائیں کیوں پڑھتے؟ اور دیگر صحابہ و صحابیات کو مختلف قسم کی دعائیں کیوں سکھاتے؟چنانچہ احادیث میں بہت سی ایسی دعاؤں کا ذکر ملتا ہے، جو حضور ﷺ نے خود بھی کیں اور صحابہ اور صحابیات کو بھی سکھائیں۔اور یہی طریق آپ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیات طیبہ میں ہمیں نظر آتا ہے۔
آنحضور ﷺ کے ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی بنا پراگر کوئی شخص اس نیت سے کہ درود بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کےلیے ایک وسیلہ ہے، اس حسن ظنی سے اپنی تمام مناجات آنحضور ﷺ پر درود بھیجنا ہی بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی اس نیت اور حسن ظنی کے مطابق اس سے سلوک کرے گا ، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي۔
احادیث میں مختلف درود بیان ہوئے ہیں اور علمائے امت میں بھی مختلف قسم کے درود رائج رہے ہیں، اور انہوں نے ان کے مختلف نام بھی رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے بعض تفصیلی درود ہیں اور بعض مختصر ہیں۔زیادہ برکت کا باعث اور مبارک درود تو یقیناً وہی ہے جو آنحضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا اور آپؐ نے اپنے صحابہ کو سکھایا۔
ان امور میں اصل چیز تو انسان کی نیت ، محبت اور توجہ ہے کہ کس طور پر وہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنا چاہتا ہے۔ پس جس نیت، محبت اور توجہ سے وہ ان امور کو سر انجام دے گا اللہ تعالیٰ تک اس کی یہ نیت اور خلوص یقیناً پہنچ جاتا ہے۔
4۔احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور ﷺ نے بعض احکامات سائل کی نفسیات کو سامنے رکھ کر بیان فرمائے ہیں، اسی لیے ایک ہی قسم کے سوال پر آپ کی طرف سے مختلف جواب بھی بیان ہوئے ہیں۔حضور ﷺ نے جس شخص میں جیسی کمی محسوس کی اس کی اسی کے مطابق رہ نمائی فرمائی۔اس لیے بعض دعاؤں اور ذکر و اذکار کو گن کر کرنے کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ جس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کم از کم اس قدر تو ضروران دعاؤں اور ذکر و اذکار کو بجا لاؤ۔
پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس امر کو خوب کھول کھول کر بیان فرمایا ہے کہ دعاؤں اور ذکر و اذکار کو صرف طوطے کی طرح پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو پانے کےلیے ان دعاؤں اور ذکر و اذکار میں بیان اسلامی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا، ان کے مطابق عمل کرنا اور دیگر نیکیاں بجا لانا بھی لازمی ہے۔سورۃ الفاتحہ کو کثرت سے پڑھنے والاجب تک اس سورت میں بیان الٰہی صفات میں رنگین ہونے کی کوشش نہیں کرے گا اورقرآنی ہدایت صِبْغَةَ اللّٰهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ صِبْغَةً اور حدیث رسول ﷺ تَخَلَّقُوْا بِأخْلَاقِ اللّٰهِ کا جامہ زیب تن نہیں کرے گا،صرف زبانی ذکر و اذکار سے وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ علم لدنی کے حصول کا بھی یہی ذریعہ ہے کیونکہ اسی طریق پر انسان اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے پیار کو جذب کر سکتا ہے۔