الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 25؍مارچ 2013ء میں مکرم رفاقت احمد صاحب کے قلم سے مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مکرم خان صاحب 26؍دسمبر1929ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم عبدالغفور خان صاحب کو خلافت ثانیہ میں بیعت کی توفیق ملی۔ جبکہ آپ کے دادا نے بعمر106سال 1936ء میں بذریعہ خط بیعت کرنے کی توفیق پائی۔اس خاندان کا آبائی وطن چونترہ ضلع اٹک ہے۔
مکرم خان صاحب بہت منکسرالمزاج تھے۔ 1998ء میں آپ کا تقرر بطور امیر جماعت راولپنڈی ہوا۔ کارکنان کو باربار خداتعالیٰ کی خاطر خدمت کرنے کی نصیحت کرتے۔ یہ اظہار کرکے دعا کی درخواست کرتے کہ میرے پاس کوئی ایسی خدمت نہیں جو خداتعالیٰ یا خلیفہ وقت کے سامنے پیش کرسکوں۔
آپ اپنے لازمی چندہ جات کو دس پر تقسیم کرلیتے اور دس ماہ میں ادا کردیتے۔ باقی دو ماہ طوعی چندوں، صدقات وغیرہ کی ادائیگی کرتے۔ نصاب کے مطابق ادائیگی ہوتی۔ ہر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ شعبہ مال کے کارکنان کو جب وصولی کے بارے میں ہدایات دیتے تو یہ وضاحت بھی کرتے کہ مَیں اپنا سارا حساب بےباق کرکے یہ کہہ رہا ہوں۔ کوشش کرتے کہ جماعتی کام کے سلسلے میں سفر کے اخراجات بھی جماعتی فنڈ سے نہ کیے جائیں۔
آپ کی طبیعت میں خاص نظم و ضبط تھا جو آپ کے ہر کام میں نظر آتا تھا۔ ایک بار خاکسار (بطور نائب قائدضلع)ایک اجتماع کے لیے آپ سے عطیہ لینے گیا تو پہلا سوال آپ نے یہ کیا کہ عطیہ جات وصول کرنے کے لیے مرکزی چٹھی موجود ہے؟ چٹھی موجود تھی اور دکھادی گئی۔
بہت مہمان نواز تھے۔ مرکز سے کوئی مہمان آتا تو آپ اور بریگیڈیر ڈاکٹر سیّد ضیاءالحسن صاحب کی کوشش ہوتی کہ مہمان کو اپنے گھر لے جاکر خدمت کریں۔ خود بھی تبلیغ کا جوش رکھتے اور دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ کرتے رہتے۔ دفتر کے اعلیٰ افسران اور دیگر معززین کو اپنے خُلق اور علم کے ذریعے پیغام حق پہنچاتے۔ آپ کی وفات 29؍اکتوبر 2012ء کو ہوئی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 8؍مارچ 2013ء میں مکرم سید حسین احمد صاحب نے مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مرحوم کی شخصیت بہت سی خوبیوں کی مالک تھی۔خلافت سے محبت اور فوری اطاعت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ایک خطبہ سننے کے بعد، جس میں شعبہ مال سے متعلق چند اہم ہدایات تھیں، آپ نے اسی روز مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور اُن ہدایات پر فوری عمل شروع کروادیا۔ آپ خلیفہ وقت کی ہدایات کو ہمیشہ فوری طور پر عہدیداران تک پہنچاتے اور عملدرآمد کا جائزہ لیتے رہتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اﷲ تعالیٰ سے تو آپ کو عشق تھا۔ خلافت سے قبل بطور ناظر اعلیٰ، دو تین بار دوروں پر مدعو کیا۔ مرکزی نمائندگان کو بھی فون کرکے باربار بلایا کرتے۔ غیر از جماعت سے سوال و جواب کی مجالس منعقد کروا تے۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب بھی سرگودھا سے اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ احمدی نوجوانوں اور واقفین نَو کی کئی ملاقاتیں کروائیں۔ آپ جماعتی اقدار کو نوجوان نسل میں دیکھنا چاہتے تھے اور بزرگان کے واقعات اکثر بیان کیا کرتے تھے۔ ضلعی جماعتوں کے دورہ جات پر خود جایا کرتے اور مربیان کو ہمراہ رکھتے۔ صحت کی خرابی کے باعث اگر خود نہ جاسکتے تو اکثر ذاتی گاڑی اور ڈرائیور بھجوادیتے۔
آپ کا ایک بڑا کارنامہ 800صفحات پر مشتمل تاریخ احمدیت راولپنڈی کی تیاری اور اشاعت ہے۔درجنوں دفعہ آپ نے کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ مسودے کو لفظاً لفظاً پڑھا اور منظوری دی۔ جماعت کے ہر کام میں ذاتی دلچسپی لیتے تاکہ دیگر عہدیداران بھی دلجمعی سے حصہ لیں۔
مربیان سلسلہ اور دیگر کارکنان کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے۔ عیدین کے موقع پر مربیان کے گھر جاکر تحفہ دیتے۔ ایوان توحید میں واقع اپنے دفتر میں آتے تو میرے پانچ سالہ بیٹے وقاص کے ہاتھ جماعتی ڈاک دیگر دفاتر میں بھجواتے تاکہ بچپن سے خدمت دین کا جذبہ پیدا ہو۔
مسجد نور راولپنڈی کی عمارت کو سڑک کی توسیع کے باعث 2004ء میں گرانے کا حکم ملا تو آپ بہت پریشان تھے۔ دشمن کا منصوبہ تھا کہ مسجد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جائے۔ آپ نے حضورانور کو دعا کی فیکس کی تو حضور انور کا جواب آیا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے جماعت احمدیہ راولپنڈی کو مزید وسعت دی ہے۔ اس پر آپ اور ساری جماعت بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ چند ماہ بعد اﷲ تعالیٰ نے جماعت راولپنڈی کو16کنال کا قطعہ عطا فرمادیا۔
1952ء میں جب آپ انجینئرنگ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے توکالج کے ا حمدی طلباء نے ایک پروگرام رکھ لیا جس میں غیرازجماعت اساتذہ اور طلبہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا خطاب کروانا تھا۔ پھر حضوؓر کی منظوری کے بغیر وقت مقرر کرکے مہمانوں کو اطلاع بھی کردی۔ اور پھر اپنا نمائندہ مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب کو بنا کر ربوہ بھیجا۔ جب آپ نے حضوؓر کی خدمت میں پروگرام پیش کیا تو حضوؓر نے فرمایاکہ میَں اُس دن مصروف ہوں۔ آپ نے عرض کی کہ غیر احمدی طلبہ اور پروفیسرز کو اطلاع بھی کردی ہے۔ اس پر حضوؓر نے شفقت فرماتے ہوئے فرمایا کہ جائو اور اچھی طرح تیاری کرو، مَیں لاہور پہنچ جائوں گا۔ چنانچہ یہ پروگرام بہت کامیاب ہوا۔ حضوؓر کی شفقت کا یہ واقعہ آپ اکثر بیان کیا کرتے تھے۔
………٭………٭………٭………
مکرم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب
روزنامہ ‘‘الفضل’’ ربوہ 19؍مارچ 2013ء میں مکرم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کی وفات کی خبر شائع ہوئی ہے۔ آپ 16؍مارچ 2013ء کو 79سال کی عمر میں وفات پا گئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔
محترم چودھری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کے دادا کا شمار ابتدائی صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعوؑد نے 313 اصحاب کی جو فہرست ‘‘ضمیمہ انجام آتھم’’ میں تحریر فرمائی اس میں اُن کا نام تیسرے نمبر پر ‘‘میاں محمد الدین پٹواری بلانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات’’درج ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ اُنہیں حضرت منشی محمد الدین صاحب واصلباتی کے نام سے پکارتے اور اسی نام سے اُن کا ذکر احمدیہ لٹریچر میں موجود ہے۔ 313درویشان قادیان میں بھی انہیں شمولیت کی توفیق ملی اور اس فہرست میں اُن کا نام نمبر ایک پر درج ہے۔
حضرت میاں محمدالدین صاحبؓ نے اپنے بیٹے حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ (مبارک مصلح الدین صاحب کے والد)کو بہت چھوٹی عمر میں 1902ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے قادیان بھجوا دیا اور اس طرح حضرت صوفی صاحب کو بھی حضرت مسیح موعوؑد کی صحبت میں رہنے کی سعادت ملی اور صحابہ میں بھی شامل ہوئے۔
محترم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب 21؍جون 1934ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد کی اکلوتی نرینہ اولاد تھے ، آپ کی 8بہنیں ہیں۔ آپ کی شادی محترمہ عائشہ امینہ صاحبہ بنت محترم صوبیدار غلام رسول صاحب ربوہ سے ہوئی جن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ پیدائشی طور پر وقف تھے۔ 1949ء میں باقاعدہ وقف زندگی کا فارم پُر کیا اور 1956ء میں Maths میں ماسٹرز کرکے خدمات سلسلہ کا آغاز کیا اور تاحیات اسی عزم پر قائم رہے۔
آپ مجلس تحریک جدید کے ممبر تھے۔ آپ کو سول ڈیفنس کی تربیت دلوائی گئی، فرقان فورس میں شامل رہے، انچارج ریفریشر کورس شاہدین جامعہ ہائے احمدیہ بیرون، چیئرمینORP Co، ڈائریکٹر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ، صدر انٹرویو بورڈ جامعہ احمدیہ ، صدر مشترکہ بجٹ کمیٹی تعلیم ، صدر تعمیر کمیٹی توسیع منصوبہ جامعہ احمدیہ ، ممبر مجلس کارپرداز ،ممبر مجلس افتاء ، ممبر سیدنا بلال کمیٹی ، ممبر انتظامیہ کمیٹی تحریک جدید کے طور پر بھی خدمت کر تے رہے۔ایک لمبا عرصہ قضاء بورڈ کے ممبر رہے،شعبہ شماریات کے انچارج بھی رہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کمیٹیوں کے ممبر اور بہت سے دفاتر کے قائمقام افسر بھی مقرر ہوتے رہے۔1972ء میں وکیل المال ثانی مقرر ہوئے اور 2001ء میں وکیل التعلیم مقرر ہوئے اور تادم آخر اسی عہدے پر خدمت کی توفیق پارہے تھے۔مختلف ممالک کے دوروںکی بھی توفیق پائی۔ مجلس خدام الاحمدیہ کی مرکزی عاملہ میں بھی مختلف خدمات سرانجام دیں۔
آپ ایک علم دوست انسان تھے۔ آپ کے متعدد مضامین جماعتی رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ قرآن کریم کے ساتھ عشق کی حد تک تعلق تھا اور قرآن کریم کا اکثر حصہ زبانی یاد تھا۔ 1986ء تا 2004ء مسجد مبارک ربوہ میں امام الصلوٰۃ کے پینل میں رہے۔ آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ تہجد گزار اور دعاگو تھے۔ غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد کیا کرتے، مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، جماعتی چندوں کی ادائیگی کے پابند اور مالی تحریکات میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 22؍مارچ 2013ء کے خطبہ جمعہ میں مکرم چودھری صاحب مرحوم کا تفصیلی ذکرخیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
………٭………٭………٭………
تائی پے ۔ 101
1998ء میں ملائیشیا کے ‘‘پیٹرو ناس ٹاورز’’دنیا کی بلند ترین عمارت قرار پائے۔ 2003ء میں ان سے 56میٹر مزید بلند تعمیر ہونے والی عمارت ‘‘تائی پے ۔ 101’’ نے یہ اعزاز چھین لیا۔ یہ تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں تعمیر ہوئی تھی اور 101منزلہ تھی۔ اس کے متعلق ایک معلوماتی مضمون ‘‘الفضل’’ربوہ 8؍اپریل 2013ءمیں شائع ہوا ہے۔
1668؍فٹ بلند اس عمارت کی تعمیر پرایک ارب 80کروڑ ڈالر کی لاگت آئی۔اس کا افتتاح 13؍نومبر 2003ءکوتائیوان کے صدر چن شوئی بیان نے کیا۔ دور سے یہ عمارت شیشے اور سٹیل سے بنی بانس کا ایک چوکور درخت محسوس ہوتی ہے۔دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ زلزلے سے محفوظ ترین عمارت ہے۔کنکریٹ کے 380ستون اسے سہارا فراہم کررہے ہیں۔ ہر ستون کوزمین کے اندر 80میٹر کی گہرائی تک اتارا گیا ہے۔ 92ویں منزل سے 606میٹرک ٹن وزنی ایک بہت بڑا دھاتی گولا جھول رہا ہے جس کا مقصد شدید سمندری طوفان یا طوفانی ہوائوں سے عمارت کو محفوظ رکھنا ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ‘‘الفضل’’ربوہ 29؍مارچ 2013ء میں مکرم میر انجم پرویز صاحب کی ایک خوبصورت نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
تجھ سے کچھ اس طرح ہوں وابستہ
روح جیسے بدن میں پیوستہ
پیار کی اِک نظر مری قیمت
دیکھ! مَیں کس قدر ہوا سَستا
مقتلِ حسن کو چلا ہوں مَیں
جاں بکف ، مستعد ، کمر بستہ
ہم نے حق بات کی سرِ محفل
بر محل ، بے دریغ ، برجستہ
تم ہو رہبر تو پھر مجھے کیا غم
کتنا مشکل ہے عشق کا رستہ!
کتنی راتوں کو پائمال کیا
تب کُھلا رازِ عشق سربستہ