تائیداتِ خلافت۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے ساتھ خداتعالیٰ کی تائیدو نصرت کے نشانات
قرآن کریم کی سورہ مومن آیت 52میں ہے کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمانداروں کو دنیا و آخرت میں مدد دیا کرتے ہیں
خلافت انعامات خداوندی میں سے ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔خدا تعالیٰ جس وجود کو خلعتِ خلافت پہناتاہے وہی وجود حقیقی معنوں میں خدا تعالیٰ کے مقربین میں سے ہوتاہے۔اور ایک کے بعد دوسرے آنے والے مقدس وجود کی مسلسل تائیدو نصرت الٰہی ظاہر کرتا ہے کہ ان مقدس وجودوں کو خداتعالیٰ نے ہی منصب خلافت پر فائز فرمایاہےجیسا کہ قرآن کریم کی سورہ مومن آیت 52میں ہے کہ ہم اپنے پیغمبروں اور ایمانداروں کو دنیا و آخرت میں مدد دیا کرتے ہیں۔اسی الٰہی قانون کے مطابق خدا تعالیٰ نے امام الزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جس وجود کو قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر کے طور پر منصب خلافت پر فائزفرمایا اس مبارک وجود کی بھی خدا تعالیٰ نے ہر آن تائیدو نصرت فرمائی ۔اس بابرکت وجود تاجدار خلافت کے تیسرے مظہر حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت الٰہی کے چند واقعات پیش خدمت ہیں:
’’بادلو! ایک طرف ہٹ جاؤ‘‘
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہماری زندگی میں بہت سے ایسے واقعات گزرے ہیں کہ منہ سے لفظ نہیں نکلا صرف اشارہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس وقت اس بندے کی دعا اسی طرح قبول کر لو۔1954ءکی بات ہے ۔ جب میں کالج بنوا رہا تھا تو ہمارا ایک بہت بڑا لینٹل پڑ رہا تھا اور سَوڈیڑھ سَو سیمنٹ کی بوری ریت اور بجری میں ملی ہوئی ساتھ کی چھت پر پڑی تھی تو کیا دیکھتے ہیں کہ شمال کی طرف سے کالا بادل اُٹھا ہے۔ اگر وہ برس جائے تو سَو ڈیڑھ سَو بوری جماعت احمدیہ کا نقصان ہوتا ہے اس وقت میرے دل میں تحریک ہوئی (ایسی تحریک بھی دراصل خداتعالیٰ ہی کرتا ہے) کہ اگر بادل برسے تو میرا ذاتی نقصان تو نہ ہو گا اگر ہو گا تو خداتعالیٰ کی جماعت کا ہو گا اس لئے اس وقت بادلوں کو کہنا چاہئے کہ یہاں سے چلے جاؤ۔چنانچہ میں نے سر اُٹھایا اس وقت بہت سے آدمی موجود تھے اس لئے میں نے منہ سے کوئی بات نہیں نکالی صرف سر سے ہلکا سا اشارہ کیا ’’بادلو! ایک طرف ہٹ جاؤ۔‘‘ ساتھ ہی اپنا کام بھی کرتے رہے۔ ہم سے نصف میل کے فاصلہ پر بڑی تیز بارش ہوئی اور سارا دن بادل منڈلاتے رہے لیکن ہمارے ہاں بارش نہیں ہوئی۔‘‘
(خطبات ناصر جلد 1صفحہ489)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بات انہونی نہیں
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ہمارے ایک یا دو احمدی تھے وہ غلط طور پر قتل کے کیس میں ملوث ہو گئے میں نے تسلی کر لی تھی کہ وہ قاتل نہیں، لیکن ہمارے دنیا میں گواہوں پر فیصلے ہوتے ہیں ان کا نام مخالفوں نے رکھ دیا اور سیشن جج نے انہیں پھانسی کی سزا بھی دے دی، پھر ہائی کورٹ میں پھانسی کی سزا، پھر سپریم کورٹ میں پھانسی کی سزا قائم رہی۔ ان کے رشتہ داروں نے اس موقع پر کہ سپریم کورٹ نے بھی پھانسی کی سزا کو قائم رکھا تھا اور انہوں نے رحم کی اپیل کی تھی۔ مجھے خط لکھا اور اس میں لکھا کہ اس مقدمہ کا یہ پس منظر ہے اور بڑا ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ ان حالات میں رحم کی اپیل منظور ہو جائے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپ دعا کریں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو قبول ہو جائے، انہوں نے اس کے اس طرح خطرناک حالات لکھے کہ قریب تھا کہ میری قلم یہ فقرہ لکھ جائے کہ اللہ کی جو رضا ہو اس پر راضی رہنا۔ یکدم پیچھے سے ایک غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا اور میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا میں ایک احمدی کو یہ سبق دوں کہ اس قسم کے مایوسی اور ناامیدی کے حالات میں ہمارے ربّ کے پاس طاقت اور قدرت باقی نہیں رہتی اور میرے قلم سے جو فقرہ نکلنے لگا تھا اس کی بجائے میں نے یوں لکھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کوئی بات انہونی نہیں ہے اس واسطے مایوس نہیں ہونا چاہئے، چند روز کے بعد ان کی اپیل منظور کر لی گئی اور وہ بری کر دئیے گئے۔اس کا اس دوست پر اتنا اثر تھا کہ انہوں نے مجھے خط لکھا کہ میں اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو آپ کا وہ خط دکھاتا رہتا ہوں کہ یہ دیکھو اس طرح دعائیں قبول ہوتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کو قادر جاننا چاہئے کُنْ آخر سانس تک، مثلاً اس میں طاقت ہے کہ سارے ڈاکٹر کہہ دیں کہ یہ مریض مر جائے گا اور اُس کا حکم آ جائے تو وہ شخص زندہ رہے گا۔ میں نے اپنی خلافت کے چھوٹے سے زمانہ میں کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں کہ ڈاکٹروں کی متفقہ رائے تھی کہ فلاں مریض مر جائے گا مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بچ گیا۔
(خطبات ناصر جلد 1صفحہ902تا903و جلد 3صفحہ263تا264)
حضرت صاحب جس ملک میں جانا چاہیں بغیر ویزے کے جاسکتے ہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ایک واقعہ ہے۔ میں دوستوں کو بتا دیتاہوں کیونکہ اس سے خدا کا پیار ظاہر ہوتا ہے۔ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات موجزن ہیں۔ کسی نے مجھے کہا کہ انگلستان کا ویزہ لینے کے لئے فلاں شخص سے کہا جائے کیونکہ لاہور کے برٹش قونصلیٹ (British Consolate) میں ان کی کسی سے دوستی ہے وہ جلدی ویزہ لے دے گا کیونکہ ہماری تیاری میں دیر ہو گئی تھی ملکی حالات کی وجہ سے پروگرام پیچھے ڈالتے رہے تھے۔اب چند دن بعد ہم نے روانہ ہوناتھا۔چنانچہ میں نے ان کو فون کیا کہ میں اس سلسلہ میں تمہارے پاس آدمی بھجوا رہا ہوں۔ تم کوشش کرکے انگلستان کا ویزا حاصل کرو۔ میرا پیغام ان کی بیگم نے سنا تھا۔ میں نے آدمی بھجوا دیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ پیر کی شام کو ان کا فون آگیا کہ حضرت صاحب کو کسی نے غلط بتایا ہے برٹش کونسلیٹ میں میرے کسی سے ایسے تعلقات نہیں ہیں کہ میں ایک دن میں ویزہ لے سکوں کیونکہ یہ لوگ تو جب ویزے کی درخواست جائے تو دو ہفتے سے لے کر آٹھ ہفتے تک وقت دیتے ہیں کہ آکر پہلا انٹرویو دو کہ تمہیں ویزا کیوں دیا جائے۔لہٰذا ایک دن میں تو ویزا ملنا مشکل ہے۔ وہ خود بڑے گھبرائے ہوئے تھے۔ مجھے خود بھی بڑی تشویش تھی اور پریشانی بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے ویزا ملنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ چنانچہ منگل کی صبح نماز کے بعد میں لیٹا ہوا تھا اور اپنے رنگ میں دعائیں کر رہا تھا تو اس دعا کے اندر ایک فقرہ خود میرے دل میں اُبھرا اور اُس نے ایک مجسم شکل اختیار کی۔ اس کے پورے الفاظ مجھے یاد نہیں رہے کیونکہ اس وقت میں نے لکھے نہیں تھے۔ کچھ اس قسم کا فقرہ تھا۔ ’’مجھ سے امید نہیں ہے؟‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار بھی تھا اور کچھ تھوڑی سے ڈانٹ بھی تھی۔اس سے ایک طرف تو مجھے بڑی تشویش ہوئی کہ میں نے غلطی کی ہے۔ خداتعالیٰ پر امید رکھنی چاہیئے تھی۔ دعا کے الفاظ میں غلطی ہو گئی ہے۔ دوسری طرف مجھے اللہ تعالیٰ کے اس پیار پر اتنا لطف آیا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے عاجز بندوں سے اتنا پیار کرتا ہے کہ انسان کماحقہٗ شکر بھی ادا نہیں کر سکتا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ساری مخلوق سے جو رشتہ قطع ہونا چاہیئے وہ پوری طرح قطع ہونا چاہیئے۔ اگر خداتعالیٰ کی راہ میں کام ہے تو اس قسم کی روکیں لایعنی اور بے معنی ہیں۔ چنانچہ جب میں نو بجے کے قریب اپنے دفتر میں گیا تو پرائیویٹ سیکریٹری (چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ) آئے اور میں نے اُن سے کہا صبح اشارہ ہو گیا ہے۔ انشاءاللہ سب کام ٹھیک ہو جائے گا۔ ابھی میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا ہی تھا کہ دفتر کے ایک اور صاحب دوڑے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں صاحب کا فون آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں میں برٹش کونسلیٹ سے ملا ہوں وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے۔ ہم ابھی ویزا دے دیتے ہیں۔ وہ ویزا جس کے لئے اُن کے خیال میں دو ہفتے سے آٹھ ہفتے تک صرف انٹرویو پر وقت لگتا ہے ایک دن میں مل گیا۔ بلکہ انہوں نے تو یہ بھی کہا کہ حضرت صاحب کے لئے ویزے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو جس ملک میں جانا چاہیں بغیر ویزے کے جاسکتے ہیں۔ خیر یہ تو الٰہی تصرف تھا جو اس کے دل پر ہوا۔ ہمارے دوست نے کہا جو آپ کا ملکی قانون ہے وہ تو پورا کرو اور ویزا جاری کردو چنانچہ دوسرے دن ویزا مل گیا۔ اب یہ ایک چھوٹی سی بات تھی جس کےلئے صحیح راستہ بھی بتا دیا گیا۔ مجھے اس الٰہی پیار پر بہت لطف آیا۔ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات موجزن ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے عاجز انسان سے یہ پیار کرتا ہے کہ وہ کام جس کے لئے ہفتوں درکار تھے منٹوں میں ہوگیا۔’’
(خطبات ناصر جلد5صفحہ200تا201)یہ لڑکا ایف اے بھی نہیں پاس کر سکے گا
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے خداتعالیٰ اس جماعت کے جو چھوٹے چھوٹے شعبے ہیں ان کے لئے بڑی غیرت دکھاتا ہے۔ ابھی میرے (دوبارہ سفر یورپ پر) جانے سے پہلے اُس خاندان کا ایک آدمی آیا جس کے بارہ میں مَیں بتایا کرتا ہوں کہ اُن کا بڑا ہوشیار لڑکا تھا Top کے نمبر لئے میٹرک میں۔ ہمارا کالج لاہور میں تھا۔اس کے والد کو مَیں ذاتی طورپر جانتا تھا وہ لڑکا ہمارے کالج میں داخل ہو گیا مَیں نے بڑے پیار سے اُسے داخل کیا۔وہ میرے دوست کا بچہ تھا جو سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے رہنے والے اور زمیندار تھے۔اس کے چند رشتہ دار غیر مبائع تھے انہوں نے لڑکے کے باپ کا دماغ خراب کیا۔اس سے کہنے لگے اتنا ہوشیار بچہ سپیرئر سروسز Superior Services کے Competition میں یہ پاس ہونے والا۔ کہیں D.C لگے گا۔ تم نے یہ کیا ظلم کیا اپنے بچے کو جاکر احمدیوں کے کالج میں داخل کروا دیا۔ جس وقت یہ انٹرویو میں جائے گا لوگوں کو یہ پتا لگے گا یہ ٹی آئی کالج میں رہا ہے اس کو لیں گے نہیں اور یہ دنیوی طور پر ترقی نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ وہ میرے پاس آگیا مَیں خالی پرنسپل نہیں تھا اس کا دوست بھی تھا۔ میرے دل میں اس کے بچے کے لئے بڑا پیار تھا مَیں نے اس کو پندرہ بیس منٹ تک سمجھایا کہ اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔ خداتعالیٰ بڑی غیرت رکھتا ہے جماعت احمدیہ اور اس کے اداروں کے لئے تمہیں سزا مل جائے گی۔ خیر وہ سمجھ گیا اور چلا گیا۔ پھر انہوں نے بھڑکایا پھر میرے پاس آ گیا پھر مَیں نے سمجھایا پھر چلا گیا۔ پھر تیسری دفعہ جب آیا تو مَیں نے سمجھا اس کے باپ کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے مَیں دستخط کر دیتا ہوں مگر تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ لڑکا جس کے متعلق تم یہ خواب دیکھ رہے ہو کہ وہ سپیرئر سروسز کے امتحان میں پاس ہو کر ڈی سی بنے گا یہ ایف اے بھی نہیں پاس کر سکے گا۔اس نے مائیگریشن فارم پُر کیا ہوا تھا اتنے اچھے نمبر تھے کہ ٹی آئی کالج سے گورنمنٹ کالج اسے بڑی خوشی سے لے لیتا۔ چنانچہ مَیں نے اس کے فارم پر دستخط کئے اور وہ اسے لے کر چلے گئے۔ پھر مجھے شرم کے مارے ملا بھی نہیں۔ کوئی چار پانچ سال کے بعد مجھے ایک خط آیا جو شروع یہاں سے ہوتا تھا کہ مَیں آپ کو اپنا تعارف کروا دوں۔ میں وہ لڑکا ہوں جس کے مائیگریشن فارم پر آپ نے دستخط کئے تو مجھے اورمیرے باپ سے کہا تھا کہ مَیں ایف اے بھی نہیں پاس کر سکوں گا اور چار پانچ سال کا زمانہ ہو گیا ہے اور مَیں واقعی ایف اے پاس نہیں کر سکا۔ پھر وہ تجارت میں لگ گیا اب پھر مجھے یہاں ایک خط آیا جو اسی سفر میں ملا جو اس کے بیٹے کا تھا اور اس نے بھی تعارف یہ کہہ کر کروایا کہ میں اس کا بیٹا ہوں جس کو آپ نے یہ کہا تھا کہ تو ایف اے پاس نہیں کر سکے گا۔
پس خداتعالیٰ جماعت احمدیہ کے ایک کالج اور اس کے ایک پرنسپل کے لئے اتنی غیرت دکھاتا ہے تو خلیفۂ وقت کے لئے کتنی غیرت دکھائے گا۔ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں ہمارے ایک زمیندار پرانے احمدی ہیں مجھے دو تین دفعہ انہوں نے کہا کہ مَیں تو اپنے بچوں کو سمجھاتا ہوں کہ دیکھو! نبوت کے زمانہ میں مَیں نے دیکھا اگر کوئی غلطی ہو تو معاف ہو جاتی ہے لیکن جو خلافت کے خلاف کھڑا ہوتا ہے اسے میں نے ہمیشہ گرتے ہی دیکھا ہے پنپتے نہیں دیکھا۔‘‘
(خطبات ناصر جلد 7صفحہ392تا393)
’’میں کہتا ہوں یہ پیرا نہیں کٹے گا اور پورا خطبہ شائع ہوگا‘‘
مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’مارشل لاءکے تحت 1979ء میں جنرل ضیا ءالحق نے اخبارات پر سنسر شپ عائد کر دی ۔ہر اخبار کو کچھ بھی شائع کرنے کے لئے اسے پہلے سنسر کرانا پڑتا تھا۔….روزانہ جو کاپی کتابت کے بعد تیار ہوتی تھی اسے ایک آدمی لے کر لاہور جاتا۔ کتابت شدہ اخبار میں سے جو حصہ سنسر والے حذف کر دیتے وہاں نقطے ڈال دئیے جاتے اور سنسر شدہ کاپی اگلے روز شائع ہوتی…. سنسرکا انتہائی تکلیف دہ سلسلہ عرصہ دراز تک جاری رہا۔سب سے زیادہ مشکل حضور رحمہ اللہ کے خطبات شائع کرنے میں پیش آتی۔سنسر والے کوئی نہ کوئی فقرہ یا چند فقرات خطبہ میں سے حذف کر دیتے یہ بات ہم سب کی طبیعت پر بہت شاق گزرتی اور حضور رحمہ اللہ کے لئے بھی یہ بات بہت ناگواری کا موجب ہوتی اس لئے کہ بعض جگہ عبادت کا ربط ہی قائم نہ رہتا۔
عین اس زمانہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بہت جلالی خطبہ دیا۔خطبہ مرتب ہونے اور حضور کی نظر ثانی کا عمل مکمل ہونے کے بعد جب خطبہ کا متن اشاعت کے لئے دفتر الفضل میں موصول ہوا تو میں نے حسب معمول اسے بہت غور سے پڑھا کیونکہ حضور جب خطبہ الفضل میں اشاعت کےلئے بھجواتے تھے تو حضور ؒکا یہ معمول تھا اس پر ’’الفضل برائے اشاعت‘‘ لکھنے کی بجائے ہمیشہ ’’مکرم مسعود احمد دہلوی‘‘ کے الفاظ تحریر فرمایا کرتے تھے اور مجھے بلا کر یہ مستقل حکم دیا ہوا تھا کہ میں خطبہ کی سلپ پر آپ کا نام اس لئے لکھتا ہوں کہ آپ خود اسے ایڈٹ کریں اور ایڈٹ کرنے کے دوران اگر کوئی لفظ یا بات کھٹکے تو میرے نوٹس میں لائے بغیر اسے تبدیل نہ کریں۔جب اس جلالی خطبہ کو میں نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے محسوس کیا کہ ایک بہت طویل پیرا ایسا ہے جو سنسر کی زد میں آسکتا ہے اور اگر وہ طویل پیرا خدا نخواستہ حذف ہو گیا تو مضمون بالکل بے ربط ہو جائے گا۔اور جو بات حضور ؒجماعت تک پہنچانا چاہتے ہیں وہ نہ پہنچ سکے گی۔اور خطبہ کی اشاعت بے معنی ہو کر رہ جائے گی ۔میرے لئے ضروری ہو گیا کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہی حضور ؒکے نوٹس میں یہ بات لے آؤں کہ اتنا لمبا حصہ سنسر کی زد میں آجائے گا ایسی صورت میں اگر سردست خطبہ کی اشاعت روک لی جائے اور اسے بعد میں شائع کیا جائے تو بہتر ہو گا۔جب میں نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا عرض کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا وہ پیرا مجھے دکھائیں میں نے وہ پیرا نکال کر حضور رحمہ اللہ کے سامنے رکھ دیا۔حضور نے اپنے دونوں ہاتھوں کی پشت اپنی کنپٹیوں پر رکھ کر اور کہنیاں میز پر ٹکا کر اسے پڑھا اور پھر یوں محسوس ہوا کہ حضور رحمہ اللہ اسی حالت میں دعا کرتے ہوئے حالت استغراق میں چلے گئے ہیں کئی منٹ انتظار کے بعد حضور رحمہ اللہ اس حالت استغراق سے باہر آئے۔چہرہ اوپر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ چہرہ پر عجب جلال کی کیفیت طاری ہے۔اسی جلال کی کیفیت میں حضور رحمہ اللہ نے بڑے پُر رعب انداز میں فرمایا۔
’’میں کہتا ہوں یہ پیرا نہیں کٹے گا اور پورا خطبہ شائع ہوگا‘‘
یہ پُر رعب وپُر جلال ارشاد فرمانے کے بعد مزید فرمایا۔
’’لیکن خطبہ کوئی اور نہیں آپ لے کر لاہور جائیں گے‘‘
حضور کے چہرہ پر جو جلال کی کیفیت طاری تھی اس پر دوسری نظر ڈالنے کی مجھ میں تاب نہیں تھی۔میں نے سر تسلیم خم کر کے سلام عرض کیااور خطبہ کا مسودہ سمیٹ کر فوراًہی واپس چلا آیا۔اور پھر خطبہ لے کرلاہور روانہ ہو گیا۔
جب میں نے سنسر کے آفس میں پہنچ کر سنسر کرنے والے ایک چھوٹے افسر کی میز پر خطبہ رکھا اور اس نے اسے پڑھنا شروع کیا تو جب وہ اس پیرے پر پہنچا اس پر نظر دوڑ ا کر اس نے فوراً ہی سرخ پنسل پکڑی اور لگا اس کے گردسرخ نشان ڈالنے اور کہنے لگا ۔یہ پیراکسی صورت شائع نہیں ہو سکتا،یہ صریحاً سنسر کی زد میں آتا ہے۔میں نے اسے بہت سمجھایا کہ اگر یہ پیرا اس میں سے نکال دیا جائے تو خطبہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا لیکن وہ اپنی بات پر اڑارہا اور اصرار کرتا رہا کہ یہ پیرا شائع نہیں ہو سکتا۔اس وقت مجھے خیال آیا کہ حضور رحمہ اللہ نے یہ کیوں فرمایا تھا کہ خطبہ آپ لے کر جائیں گے۔اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اگر نیچے کا افسر اسے کاٹنے پر اصرار کرےتو میں چیف سنسر سے مل کر درخواست کروں کہ وہ اسے یہ پیرا نہ کاٹنے دیں ۔چنانچہ میں نے اس سے کہا میں چیف سنسر سے ملنا چاہتا ہوںوہ کہنے لگاوہ بھی اس پیر ے کو کاٹ دیں گے میں نے کہا اگر وہ کاٹنا چاہیں گے تو میں انہیں روک نہیں سکتا لیکن ایک دفعہ میں اپنی بات تو ان تک پہنچا سکوں گا۔ وہ بولا میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا اور چیف سنسر کے نوٹس میں یہ بات لاؤں گا کہ سنسر کے قواعد کی رو سے یہ پیرا شائع نہیں ہو سکتا۔میں نے کہا ضرور جائیں میں آپ کو روک نہیں سکتا لیکن ایک دفعہ مجھے چیف سنسر صاحب سے ملنے دیں۔چنانچہ وہ مجھے ان کے پاس لے گیا انہوں نے ہم دونوں کی بات سنی اور کہا مجھے خطبہ کا وہ پیرا دکھائیں میں خود اسے پڑھ کر فیصلہ کروں گا میں نے خطبہ کا وہ پیرا ان کے سامنے رکھ دیا۔انہوں نے دل ہی دل میں دوتین بار اس پیرا گراف کو پڑھااور پھر سر اٹھا کر اپنے ماتحت افسر سے مخاطب ہوئے اور کہا ارے بھائی احمدی بھی اس ملک کے شہر ی ہیں انہیں بھی اپنی بات کہنے کا حق ہے۔پیراگراف نہ کاٹو اور سارا خطبہ شائع ہونے دو۔چیف سنسر صاحب کی یہ بات سن کر میں ہی نہیں وہ افسر بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہا۔ خدا تعالیٰ نے حضور ؒ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات پوری کردکھائی ۔میں نے واپس ربوہ آکر حضور رحمہ اللہ کو ساری بات بتائی حضور رحمہ اللہ نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا اس طرح پورا خطبہ ایک لفظ کاٹے بغیر من وعن شائع ہوا۔یہ ایک ایسا خدائی نشان تھا جسے میں نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا۔خداتعالیٰ نے جو بات اپنے خلیفۂ برحق کے منہ سے نکلوائی تھی اسے اس طرح حرف بحرف پورا کرنے کے سامان کئے کہ ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی توہے۔
(خود نوشت،سفرِحیات از مسعود احمد دہلوی،صفحہ355تا358)
میں کہتا ہوں سفر جاری رہے گا واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا
مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
’’میں1975ءمیں پہلی دفعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہمراہ یورپ کے سفر پر گیا تھااور حضور رحمہ اللہ نے اس سفر کے دوران سویڈن کے شہر گوٹن برگ کے مضافات میں ایک پُر فضا پہاڑی پر پہلی مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا جو مسجد ناصر کے نام سے موصوم ہوئی ۔جس روز حضور رحمہ اللہ مسجد کاسنگ بنیاد رکھنے کی غرض سے لندن سے ہیرچ کی بندرگاہ روانہ ہوئے تاکہ وہاں سے بحری جہاز میں سوار ہو کر گوٹن برگ کے لئے روانہ ہوں تو راستہ میں قافلہ کی ایک موٹر جسے مکرم سعید جسوال صاحب چلا رہے تھے کاٹا ئر پنکچر ہو گیا۔ اور خدا کا کرنا ایساہوا کہ قافلہ کی کسی موٹر میں بھی ’’پانا‘‘ نہ تھاکہ جس کی مدد سے موٹر کا پہیہ بدلا جاسکے۔قافلہ راستہ میں ہی ٹھہر گیا۔سعید جسوال صاحب سڑک پر سے گزرنے والی ہر موٹر کو روکنے کی کوشش کرتے اور موٹر والے سے پوچھتے کہ اس کے پاس ’’پانا‘‘ ہے وہ انکار کرتا ہوا گزر جاتا۔آدھ گھنٹہ کی تگ ودو کے بعد ایک موٹر والے کو ہم پر رحم آیا اور اس نے اپنی موٹر ایک طرف کھڑی کر کے موٹر میں سے ’’پانا‘‘ نکالا اور مکرم سعید جسوال صاحب کے ساتھ مل کر پنکچر شدہ پہیہ نکال کر اس کی بجائے پہلے سے تیار شدہ نیا پہیہ فٹ کیا۔اس کام میں بھی پندرہ بیس منٹ خرچ ہو گئے۔ایک گھنٹہ کے قریب وقت اس طرح ضائع ہو گیا امام مسجد فضل لندن مکرم بشیر احمد صاحب رفیق اس سفر میں حضور رحمہ اللہ کے ہمراہ تھے انہوں نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا ایک گھنٹہ راستہ میں ضائع ہو گیا ہے ہم وقت پر بندرگاہ نہیں پہنچ سکتے۔جس کمپنی کے جہاز پر ہم نے سیٹیں بک کر وائی ہیں وہ وقت کی بہت پابند ہے اور اس کے جہاز عین وقت پر روانہ ہو جاتے ہیں اگر ہم سفر جاری رکھیں تو ہمارے بندرگاہ پہنچنے تک جہاز روانہ ہو چکا ہو گا کیوں نہ اس سفر کو کل پر ملتوی کر دیا جائے۔اس وقت حضور رحمہ اللہ کے چہرے پر جلال وجمال کی عجیب کیفیت طاری تھی اور شکل سے صاف عیاں تھا کہ حضور رحمہ اللہ اس وقت مسلسل دعا میں مصروف ہونے کے باعث ایک اورہی عالم میں ہیں۔حضور رحمہ اللہ نے اپنے پر جلال چہرہ کو ذرا اوپرا ٹھاکے مکرم رفیق صاحب کی طرف عجب انداز سے دیکھا اور بڑے یقین کے ساتھ اور کامل تو کل کے رنگ میں فرمایا :
’’نہیں ! میں کہتا ہوں سفر جاری رہے گا۔
واپس جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
حضور رحمہ اللہ کے اس پر جلال وپُر جمال ارشاد کے بعد قافلہ بندرگاہ کی طرف روانہ ہو گیا جو نہی موٹریں بندر گاہ کے سامنے جا کر رکیں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب بھاگ کر جہازراں کمپنی کے دفتر میں داخل ہوئے اور ان سے جہاز کی روانگی کے بارہ میں پوچھا دفتر والوں نے کہا بڑے تعجب کی بات ہے کہ جہاز میں عین روانگی کے وقت کوئی خرابی واقعی ہو گئی ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس لئے جہاز ایک گھنٹہ لیٹ روانہ ہو گا آپ لوگ سہولت سے جہاز میں سوار ہو سکتے ہیں ۔یہ جواب سن کر ہم سب خداتعالیٰ کی قدرت پر حیران ہوئے بغیر نہ رہے اور میری زبان پر یکدم یہ مصر عہ جاری ہوا۔
گفتہ او گفتہ اللہ بود
پُرجلال حالت میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا تھا اسے خدا ئے قادر وتوانا نے پورا کر دکھایا۔جب ہم گوٹن برگ پہنچے تو وہاں مطلع سخت ابرآلودتھا اور جماعت نے بارش کے خطرہ کے پیش نظر اس جگہ جہاں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا جانا تھا ایک مار کی لگائی ہوئی تھی۔رات کو ہم نے سکنڈینیو یا ہوٹل میں قیام کیا رات کو وہ موسلا دھار بارش ہوئی کہ الامان والحفیظ لیکن خدا کے فضل سے نصف شب کے بعد بارش برسنا بند ہو گئی قطرہ ایک نہ برسا ابر بد ستور چھا یا رہا۔اگلے روز جب مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے مقررہ جگہ پر پہنچے تو سویڈش آرکیٹیکٹ نے حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ عجب اتفاق ہے کہ نصف شب کے بعد بارش کا برسنا بند ہو گیا اور ہم اس قابل ہو گئے کہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد کر سکیں ۔ اس پر حضور نے اس آرکیٹیکٹ کو مخاطب کر کے فرمایا۔
Today is my day
سب نے حیرت سے حضور رحمہ اللہ کی طرف دیکھا کہ حضوررحمہ اللہ یہ کیا فرمارہے ہیں ۔حضوررحمہ اللہ نے ان کی حیرت دور کرنے کےلئے انگریزی میں جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رات جب بارش ہو رہی تھی تومیں نے اپنے قادرو کریم خدا کے حضور یہ دعا کی کہ اے خدا جس مصلحت اور غرض کے پیش نظر تو بارش برسا رہا ہے میری کیا مجال کہ میں اس میں حارج ہونے کا خیال بھی دل میں لاؤں تُو اس مصلحت اور غرض کو ضرور پورا فرما لیکن تیرے حضور میری گزارش یہ ہے کہ اگر تو اس بارش میں اتنا وقفہ ڈال دے کہ ہم تیرے نام پر تیری واحد انیت کا اعلان کرنے کی غرض سے آج جس مسجد کاسنگ بنیاد رکھنے یہاں آئے ہیں ہم وہ سنگ بنیادرکھ دیں اور سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب بخیر وخوبی تیرے حضور دعاؤں کے ساتھ انجام پذیر ہو جائے۔خدائے قادروکریم نے میری دعا کو شرف قبول بخشا اور بارش اس کے حکم سے تھم گئی اور ابھی تک تھمی ہوئی ہے اس لئے میں نے کہا ہے کہ
Today is my day
ہر دن خداہی کا دن ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی وہ اپنے بندوں کی دعا سن کر کسی دن کو ان کے لئے خاص کر دیتا ہے۔
وہاں جمع ہونے والے سویڈش باشندے حیران ہو کراور احمدی احباب حمداور شکرکے جذبات سے لبریز ہو کر حضور رحمہ اللہ کے ان ارشادات سے فیضیاب ہوئے۔جب سنگ بنیاد کی تقریب بخیر وخوبی اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور بنیاد کے پتھرا چھی طرح اپنی جگہ جم گئے اور انہوں نے جڑ پکڑ لی تو اگلی رات پھر بارش شروع ہو گئی اور رات بھر برستی رہی۔خدا کے پاک بندے کی صحبت میں (جسے خدانے خلافت کے بہت ارفع مقام پر فائز فرمایا تھا)رہنے والوں نے اس دن ایمانوں کو تازگی اور روحوں کوجلابخشنے والا نشان دیکھا۔اس نشان سے دل اس یقین سے پُر ہو گئے کہ وہ دن ضرور آئے گا جب یورپ کی سر زمین بھی تثلیث اور دہریت سے پاک ہو کر توحید باری تعالیٰ کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔اور پھر سدااس نور سے جگمگاتی رہے گی۔ذالک تقدیر العزیزالعلیم‘‘
(خود نوشت،سفرِحیات از مسعود احمد دہلوی،صفحہ394تا397)