خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ مئی 2021ء
27؍مئی، یوم خلافت کی مناسبت سے گذشتہ 113سال میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ایک جھلک
اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہم نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کو مانا اور پھر خلافت کی بیعت میں آئے
مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔(حضرت مسیح موعودؑ)
سو ہم حضرت مسیح موعودؑ کی پیش گوئی کے مطابق گذشتہ 113 سال سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حرف بہ حرف پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں
پاکستان و دیگر ممالک میں مظلوم احمدیوں کے لیے اور فلسطین سمیت مظلوم مسلمانوں کے لیے خصوصی دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ مئی 2021ء بمطابق 28؍ہجرت1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 28؍مئی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت عطاءالنور ہادی صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،سورةالفاتحہ اور سورة النور کی آیات 56اور 57کی تلاوت و ترجمہ کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
کل 27؍مئی تھی جسے ہم یومِ خلافت کے نام سے یاد رکھتے ہیں۔ یومِ خلافت کی مناسبت سے جماعت میں جلسے بھی منعقد ہوتے ہیں تاکہ جماعت کی تاریخ کا علم ہو اور خلافت سے متعلق ہم اپنی ذمہ داریوں سے واقف رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ہم نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرستادے کو مانا اور پھر خلافت کی بیعت میں آئے ۔
یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں تمکنتِ دین اور حالتِ خوف کو امن میں بدلنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ مگر یہ وعدہ مضبوط ایمان، نیک اعمال، عبادت کا حق ادا کرنے اور شرک سے بکلّی اجتناب کے ساتھ مشروط ہے۔ ان چیزوں کو حاصل کرنےکےلیے نمازوں کی ادائیگی،انفاق فی سبیل اللہ اور رسول کی اطاعت انتہائی ضروری ہے۔
پس جب ہم یہ باتیں یاد رکھیں گے تو پھر ہی ہم خلافت کے انعام سے حقیقی فیض پانے والے ہوں گے۔یہ آیت جہاں مومنوں کے لیے خوش خبری ہے وہاں فکر کا مقام بھی ہے کیونکہ اگر ان شرائط پر پورا نہیں اتر رہے تو پھر اس انعام سے حقیقی طور پر فیض نہیں پاسکتے۔ اگر نماز، زکوٰة، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کرنے والے نہیں بن سکتے۔پس صرف اپنی تاریخ سے واقفیت حاصل کرلینا اوریومِ خلافت منالینا کافی نہیں؛ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہماری ایمانی حالت کیا ہے۔ دلی سکون اور امن تب ہی حاصل ہو گا جب ہمارا ہر عمل صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے ہوگا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ عملِ صالح اسے کہتے ہیں کہ جب ایک ذرہ بھر فساد نہ ہو۔ یاد رکھو! انسان کے عمل پر ہمیشہ چور پڑا کرتے ہیں۔ وہ کیا ہیں؟ وہ ہیں ریا کاری ، عجب اور قسم قسم کی بدکاریاں جن کو انسان بعض دفعہ محسوس بھی نہیں کرتا۔ عملِ صالح وہ ہے جس میں ظلم، عجب، ریا،تکبر اور حقوقِ انسان تلف کرنے کا خیال تک نہ ہو۔اگر ایک آدمی بھی گھر بھر میں عملِ صالح والا ہو تو سب گھر بچا رہتا ہے۔
فرمایا :عملِ صالح ہماری اپنی تجویز اور قرارداد سے نہیں ہوسکتا، صالح فساد کی ضد ہے پس ضروری ہے کہ عملِ صالح میں بھی کسی قسم کا فساد نہ ہو۔یہ نہ ہو کہ عملِ صالح کی خود تشریح کرنے لگ جائیں، معروف فیصلے کی خود تفسیر کرنے لگ جائیں۔ایسے لوگوں کو ان کا خلافت سے جڑنے کا اعلان کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ جو لوگ خالص ہوکر خلافت کے مطیع اور فرماں بردار ہوں یہی لوگ حقیقی رنگ میں خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو خلافت کی حفاظت کرنے والےاور خلافت ان کی حفاظت کرنے والی ہے۔
پس یہ وہ حقیقی خلافت ہےجس میں جماعت اور خلیفۂ وقت کا تعلق خدا کی رضا کے حصول کے لیے ہے اور یہی وہ خلافت ہے جو تمکنت اور امن کا باعث ہے۔دوسرے مسلمان جو دنیاوی حیلوں اور تدبیروں سے خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں ان کے حیلے اور تدبیریں انہیں کبھی فائدہ نہیں دے سکتیں۔ یہ جتنی چاہیں کوشش کرلیں اب خلافت اسی طرح جاری رہنی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑنے ’رسالہ الوصیت‘ میں خلافت کے نظام کے متعلق بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ یہ خداتعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کرادیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی اور ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھا تا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعے سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال نے جہاں ہر احمدی کو ہلا کر رکھ دیا وہاں غیروں نے خوشی کے بڑے شادیانے بجائے۔ آپؑ کی وفات پر ایسی ہرزہ سرائیاں کی گئیں کہ انسانیت کو ان کے بارے میں سن کر شرم آتی ہے۔ یہ بیہودہ گوئیاں تو بیان کرنے کی ضرورت نہیں لیکن انہوں نے جو جماعت کا شیرازہ بکھرنے اور احمدیت سے تائب ہونے کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلائیں ان کا ذکر کردیتا ہوں۔ پیرجماعت علی شاہ کے مریدوں نے کہا کہ مرزائی تائب ہوکر بیعت کر رہے ہیں۔ خواجہ حسن نظامی صاحب احمدیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب تو فوت ہوگئےاب تمہیں کوئی سنبھال نہیںسکتا اس لیے چھوڑو احمدیت اور آؤ ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ۔ ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً فرمایا تھا کہ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے تسلّی دی تھی کہ دیگر انبیا کی طرح آپ کے بعد بھی خلافت کا سلسلہ شروع ہوگا۔ بعض کمزور طبع احمدی جو حضرت مسیح موعودؑ کو نبی کہتے ہوئے جھجکتے ہیں یہاں اس کا بھی جواب آگیا۔ خود آپؑ نے فرمادیا کہ میری جماعت نبی کی جماعت ہے اور مَیں نبی ہوں۔ قدرتِ ثانیہ کے جاری رہنے کے متعلق آپؑ فرماتے ہیں کہ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے۔
سو ہم حضرت مسیح موعودؑ کی پیش گوئی کے مطابق گذشتہ 113سال سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حرف بہ حرف پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ جن کے بارے میں اخبار ’کرزن گزٹ‘ نے لکھا تھا کہ مرزائیوں میں اب کیا رہ گیا ، ان کا سرکٹ چکا۔ ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اس سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ ہاں یہ کہ وہ تمہیں مسجد میں قرآن سنایا کرے گا۔ یہ بات سن کر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ نے فرمایا :خدا کرے کہ یہی ہوکہ مَیں تمہیں قرآن سنایا کروں۔ آپؓ نےیہ کام تو خوب کیا ہی ساتھ منافقین اور انجمن کے بعض عمائدین کے فتنوں کو اس سختی سے دبایا کہ کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ کسی قسم کا شر پیدا کرسکے۔
پھرجب حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انجمن کے عمائدین تمام خزانہ لےکر وہاں سے غائب ہوگئے لیکن دنیا نے دیکھا کہ کس طرح خلافت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تمکنت عطا فرمائی۔حضرت مصلح موعودؓ کا باون سالہ دَورِ خلافت اس بات کا گواہ ہے کہ وہ نَوجوان جس کے سپرد اللہ تعالیٰ نے خلافت کی باگ ڈور کی، کس تیزی سے جماعت کو لےکر ترقی کی منزلوں پر قدم مارتے ہوئے بڑھتا چلا گیا۔
1965ءمیں آپؓ کی وفات ہوئی تو خداتعالیٰ نے قدرتِ ثانیہ کے تیسرے مظہرکو کھڑا کردیا۔ آپؒ کے دورِ خلافت میں دنیا بھر میں جماعت کا تعارف بڑھا۔1974ءمیں جب احمدیوں کو غیرمسلم قرار دے کر جماعت کےہاتھوں میں کشکول پکڑانے کی باتیں کی گئیں تو خداتعالیٰ نے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا کر جماعت کےلیےمالی کشائش کے نئے راستے کھول دیے۔
1982ءمیں خلافتِ رابعہ کے آغاز پرجماعت کی ترقی دیکھ کر دشمن جو حواس باختہ ہوچکا تھا اس نے خلافتِ احمدیہ کو عضوِ معطّل بنانے کا منصوبہ بنایا ۔ لیکن خداتعالیٰ نے اپنی غیرمعمولی تائیدو نصرت کے ساتھ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے سامان پیدا فرمادیے۔سیٹلائٹ کے ذریعے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچنے لگا۔
2003ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی وفات جماعت کے لیے بہت بڑا دھچکا تھالیکن خداتعالیٰ نے مومنین کی دعاؤں کو سنا اور خوف کی حالت کو ایک دفعہ پھر امن میں بدل دیا۔اسلام کے ابتدائی دور میں خلافتِ راشدہ آنحضرتﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق چار خلافتوں تک محدودرہی اور حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کے بعد جس طرح اسلام کی تاریخ میں بہت سے نئے باب کھلے ہیں خلافتِ خامسہ بھی انہی کا ایک حصہ ہےاور یہ دور بھی آنحضرتﷺ کی پیش گوئیوں کے مطابق ہی ہے۔ دنیا بھر میں جماعت کا تعارف اس دور میں غیرمعمولی تیزی سے بڑھا ہے۔ قرآنِ کریم کے تراجم کا کام ہو یا حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کی اشاعت یا ایم ٹی اے کا پھیلاؤ، ہرمیدان میں غیرمعمولی ترقی نظر آتی ہے۔کورونا وائرس کی وبا کے دوران آن لائن ملاقاتوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس سے خلیفۂ وقت اور جماعتو ںمیں براہِ راست رابطہ ہورہا ہے۔ یہ سب خداتعالیٰ کے حضرت مسیح موعودؑ سے کیے گئے وعدوں کے مطابق ہےپس ہمیں خداتعالیٰ کے شکرگزار بندے بنتے ہوئے اس کے آگے جھکنے اور خلافت کا مطیع و فرماں بردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کرے کہ سلسلے کی پوری ترقی کے نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھنےوالے ہوں۔ ہماری عبادتیں، نمازیں اور ہمارے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔
آج پھر دعاؤں کا کہنا چاہتا ہوں پاکستان کے احمدیوں اور جہاں کہیں بھی مظلوم احمدی ہیں اُن کے لیے دعا کریں۔ فلسطین سمیت مظلوم مسلمانوں کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کی مشکلات کو دور فرمائے اور ہم جلد از جلد اسلام اورحضرت محمدﷺ کا جھنڈا لہراتا ہوا اور تمام دنیا میں توحید کو قائم ہوتا ہوا دیکھیں۔