تاریخ احمدیت

ڈاکٹرپادری سموئیل مارینس زویمر۔28؍مئی1924ء

(عمانوایل حارث)

٭…یہ ڈاکٹر(سموئیل زویمر) صاحب عیسائیوں میں سب سے زیادہ اسلا م کے متعلق واقفیت رکھنے کے مدعی ہیں۔ (مصلح موعودؓ )

٭…’’جدیداسلام‘‘جماعت احمدیہ کے ذریعے سے یورپ وامریکہ میں مضبوط ہو رہا ہے۔ (زویمر)

٭…(احمدیت) ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے تیار کیاگیاہے اور ایک زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلادیتاہے۔ (زویمر)

٭…زویمر کی تبلیغ سے عیسائیت میں داخل ہونے والوں کی تعداد ’’اس کی چالیس سالہ محنت اور خدمت کے باوجود شائد ایک درجن سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ ‘‘(Ruth A. Trucker)

(درمیان میں) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، (حضورؓ کے دائیں جانب) حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ،
(حضورؓ کے بائیں جانب) ڈاکٹر پادری سموئیل مارینس زویمر صاحب

پادری سموئیل مارینس زویمر کی پیدائش 12؍اپریل 1867ء میں مشی گن(امریکہ) کے شہر Vriesland میں ہوئی۔ ان کو اسلام کی طرف عیسائیت کے نمائندے کا خطاب دیاگیا، وہ ایک امریکی پادری تھے۔ ان صاحب کو امریکہ میں مذاہب عالم کے ایک قابل پروفیسراورایک جفاکش سیاح اورمعروف صاحب قلم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ان کے تعلیمی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے1887ء میں مشی گن کے شہر Hollandکے Hope College سے گریجوایشن مکمل کی اور پھر وہNew Brunswickمیں 1890ء تک اسی شہر کی ایکSeminary Theological میں زیر تعلیم رہے۔ Reformed Churchمیں بطور پادری کام کرنے سے پہلے وہ 1891ء سے1905ءتک بصرہ اور دیگر عرب علاقوں میں مشنری کاموں پر متعین رہے۔ اس عرصے میں زویمر نے ایشیا کے طول وعرض میں سیاحت کا سلسلہ بھی جاری رکھااورشاید اسی سبب سے ان کا انتخاب بطور ممبررائل جیوگرافیکل سوسائٹی لندن بھی ہوا۔

1929ءمیں زویمرکا تقررPrinston Theological Seminary میں مذاہب عالم اور عیسائی مشنوں کی تاریخ کے پروفیسر کے طور پر ہواجہاں وہ 1951ء تک پڑھاتے رہے۔ زویمر مسلم دنیا میں عیسائیت کے فروغ کے لیے انتہائی حد تک کوششوں کے حامی تھے۔ ان کی شادی ایمی زویمر سے ہوئی جو زویمرکے کئی علمی منصوبوں اور کتب کی تیاری میں معاون بھی بنتی رہی۔

ایک عرصہ تک پادری زویمرصاحب سہ ماہی رسالہ The Moslim Worldکے مدیر کے طورپرکا م کرتے رہے۔ اس علمی رسالے کے کل 47 شمارے زویمر کے عرصہ ادارت (1911-1947ء)میں شائع ہوئے۔ ان کی زیادہ شہرت اس باعث تھی کہ وہ بار بار عیسائیوں کو مسلم ممالک میں جاکر مسلمانوں کوتبلیغ کرنے پر قائل کیاکرتے تھے۔ پادری صاحب کی وفات 2؍اپریل1952ءکوہوئی۔

’’ایک ناقدRuth A. Truckerکی رائے میں پادری زویمر کی تبلیغ سے عیسائیت میں داخل ہونے والوں کی تعداد ’’ان کی چالیس سالہ محنت اور خدمت کے باوجود شاید ایک درجن سے زیادہ نہ بڑھ سکی‘‘اورزویمر کا سب سے بڑا کارنامہ یہ گنا جاتاہے کہ وہ عیسائی دنیا کو مسلمان ممالک میں تبلیغ کی بہت زیادہ تاکیدکیاکرتے تھے۔ ‘‘

اس بات کی تائید اس طرح پر بھی ہوتی ہے کہ معروف مصنف ریورنڈ عمانوایل کھوکھر اپنی کتاب WHO IS WHOکے دوسرے حصے میں مسلم دنیا میں زیادہ تبلیغی کام کرنے والے عیسائی پادریوں کاذکر کرتے ہوئے صفحہ184سے185تک پادری زویمر کا ذکر کرتے ہیں یہاں فاضل مصنف ان کا تعارف لکھنے کے بعد ایک بات کہنے پرمجبور ہو جاتاہے۔ اورلکھتاہے کہ

’’ساری زندگی اسلام کا مطالعہ کرنے والازویمر کبھی بھی مسیح کے پیغام کومحدود کرنے پر تیارنہ تھا اِس کے لیے اُس نے کئی طریقے اپنائے مثلاً ایک مصنف بن کر، مسلم دنیامیں تبلیغ کے لیے مشنری بھرتی کرنے، اورعیسائی مشنوں میں نیاجذبہ پیداکرنے جیسے کام کرنے اور اَن تھک محنت کے باوجودزویمر اپنی زندگی میں بہت تھوڑے مسلمانوں کوعیسائیت کے سرعام اقرار کے قابل بناسکا۔ ‘‘

(Who Is Who, Part 2nd. By Emanuel Khokhar, Page185)

سہ ماہی رسالہ The Moslim Worldاورلندن سے شائع ہونے والے The Quarterly Reviewکی ادارت کے علاوہ زویمر نے درجنوں چھوٹی بڑی کتب تصنیف کیں۔ معروف معلوماتی ویب سائٹس پر زویمر کی تقریباً 44 کتب کے نام اور سن تصنیف کی فہرست موجود ہے۔

یہ مشہور عالم سیاح پادری اورمصنف قادیان بھی آئے، ان کی قادیان آمد کا حال تاریخ احمدیت میں کچھ اس طرح پر محفوظ ہے۔ لکھا ہے کہ

امریکہ کے مستشرق پادری زویمر قادیان میں

’’امریکہ کے مشہور ومعروف مستشرق زویمر مرکز احمدیت دیکھنے کی غرض سے 28؍مئی 1924ء کو قادیان آئے۔ آپ نے مرکزی ادارے دیکھنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لٹریچر لینے کے بعد رخصت ہوئے۔ اور امریکہ پہنچ کرایک سرکلر خط شائع کیاجس میں عیسائی دنیا سے اپیل کی گئی کہ اسے جماعت احمدیہ کے مقابلے کے لئے خاص تیاری کرنی چاہئے۔ کیونکہ ’’جدیداسلام‘‘جماعت احمدیہ کے ذریعے سے یورپ وامریکہ میں مضبوط ہورہاہے۔

پادری زویمر نے چرچ مشنری ریویو لنڈن میں ’’ہندوستان میں اسلام‘‘کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیااور اس میں اپنی آمد قادیان کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا۔

’’ہمارااستقبال نہایت گرمجوشی کے ساتھ کیاگیا۔ درحقیقت انہوں نے ایک دوسرے ریلوے اسٹیشن (بٹالہ مراد ہے کیونکہ 1924ءمیں ابھی قادیان میں ریل نہ آئی تھی)پر ہمیں لانے کے لئے آدمی بھیجا(مگر ہم دوسرے رستے آگئے)اور ہمیں گھنٹوں کی بجائے دنوں تک قادیان میں ٹھہرنے کی دعوت دی…یہاں سے نہ صرف رسالہ’’ریویوآف ریلیجنز‘‘ شائع ہوتاہے بلکہ تین اور رسائل بھی نکلتے ہیں اور لندن، پیرس، برلن، شکاگو، سنگاپوراور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط وکتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان مختلف انسائیکلوپیڈیاڈکشنریوں اور عیسائیت کے خلاف لٹریچر سے بھرے پڑے ہیں یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیاگیاہے اور ایک زبردست عقیدہ ہے جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے۔ ‘‘(ترجمہ)

(تاریخ احمدیت جلد4صفحہ470)

ان پادری صاحب کی قادیان آمد اور ان کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کا حال خود حضورؓ کے الفاظ میں یوں ہے۔ یہ اقتباس دراصل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان مقام اورآپؓ کے ساتھ غیرمعمولی آسمانی تائید و نصرت پر بھی اطلاع دیتا ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں:

’’قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جودنیا کامشہورترین پادری اورامریکہ کارہنے والاتھا۔ وہ وہاں کے ایک بہت بڑے تبلیغی رسالہ کا ایڈیٹربھی تھا۔ اوریوں بھی ساری دنیاکی عیسائی تبلیغی سوسائیٹیوں میں ایک نمایاں مقام رکھتاتھا۔ اس نے قادیان کابھی ذکر سنا ہوا تھا جب وہ ہندوستان میں آیا تواورمقامات کودیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا اس کے ساتھ ایک اورپادری گارڈن نامی بھی تھا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم اس وقت زندہ تھے۔ انہوں نے اسے قادیان کے تمام مقامات دکھائے۔ مگرپادری آخر پادری ہوتاہے نیش زنی سے باز نہیں رہ سکتا۔ ان دنوں قادیان میں ابھی ٹائون کمیٹی نہیں بنی تھی۔ اورگلیوں میں بہت گند پڑارہتاتھا۔ پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا ہم نے قادیان بھی دیکھ لیا اورنئے مسیح کے گائوں کی صفائی بھی دیکھ لی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اسے ہنس کر کہنے لگے۔ پادری صاحب ابھی پہلے مسیح کی ہی ہندوستان پر حکومت ہے اوریہ اس کی صفائی کانمونہ ہے۔ نئے مسیح کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی اس پر وہ بہت ہی شرمندہ اورذلیل ہوگیا۔ پھر اس نے مجھے کہلا بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں میری طبیعت کچھ خراب تھی۔ میں نے جواب دیا کہ پادری صاحب بتائیں کہ وہ مجھے کیوں ملناچاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا چند باتیں پوچھنا چاہتاہوں۔ مگرپہلے نہیں بتاسکتا۔ خیر میں نے ان کو بلالیا۔ وہ بھی آگئے اورپادری گارڈن Gordenصاحب بھی آگئے۔ ایک دودوست اوربھی موجودتھے۔ پادری زویمر صاحب کہنے لگے میں ایک دو سوال کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہافرمائیے۔ کہنے لگے اسلام کاعقیدہ تناسخ کے متعلق کیاہے؟ آیاوہ اس مسئلہ کومانتاہے یاانکار کرتا ہے۔ جونہی اس نے یہ سوال کیامعاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیاکہ اس کا اس سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جومسیح موعودؑ کو مسیح ناصری کابروز اور ان کا مثیل کہتے ہو۔ توآیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصری کی روح ان میں آگئی ہے۔ اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا۔ اورتناسخ کا عقیدہ قرآن کریم کے خلاف ہے چنانچہ میں نے انہیں ہنس کر کہا۔ پادری صاحب آپ کوغلطی لگ گئی ہے ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزاصاحب میں مسیح ناصری کی روح آگئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کامثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اورروحانیت کے رنگ میں رنگین ہوکر آئے ہیں۔ میں نے جب یہ جواب دیا تواس کارنگ فق ہوگیااورکہنے لگاکہ آپ کو کس نے بتایا کہ میں نے یہ سوال کرنا تھا۔ میں نے کہا آپ یہ بتائیے کہ آیا آپ کااس سوال سے یہی منشاء تھا یا نہیں؟ کہنے لگا۔ ہاں میرامنشاء تویہی دریافت کرناتھا۔ میں حیران تھا کہ جب قرآن تناسخ کے خلاف ہے تواحمدی مرزاصاحب کو مسیح موعود کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ پھر میں نے کہا اچھا آپ دوسرا سوال پیش کریں۔ کہنے لگا۔ میرادوسراسوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہئے یعنی اس کو اپنا کام سرانجام دینے کے لئے کس قسم کامقام چاہئے۔ جونہی اس نے یہ دوسراسوال کیا۔ معاً دوبارہ خدانے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اس کامنشاء یہ ہے کہ قادیان ایک چھوٹاساگائوں ہے یہ دنیاکامرکز کیسے بن سکتا ہے۔ اور اس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جاسکتی ہے۔ اگر حضرت مرزاصاحب کی بعثت کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے توآپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہئے تھا جہاں ساری دنیامیں آواز پہنچ سکتی ہو۔ نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹاساگائوں ہے اس میں آپ کو بھیج دیاجاتا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس کے سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اورمیں نے پھر اسے مسکراکر کہا۔ پادری صاحب ناصرہ یا ناصرہ سے بڑاکوئی شہر ہو وہاں نبی آ سکتا ہے۔ حضرت مسیح ناصری جس گائوں میں ظاہرہوئے تھے اس کانام ناصر ہ تھا اورناصر ہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی۔ میرے اس جواب پر پھر اس کارنگ فق ہوگیا۔ اوروہ حیران ہواکہ میں نے اس کی اسی بات کا جواب دےدیا جو درحقیقت اس کے سوال کے پس پردہ تھی۔ اس کے بعد اس نے تیسراسوال کیا جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہا۔ بہرحال اس نے تین سوال کئے اورتینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کرکے مجھے بتادیاکہ اس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیاہے اورباوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اورسوال کرتاتھا پھر بھی اللہ تعالیٰ اس کا اصل منشاء مجھ پرظاہر کردیتااوروہ بالکل لاجواب ہوگیا۔ تواللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اوراس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتاہے۔ اوریہ تصرف صرف خداتعالیٰ کے اختیار میں ہوتاہے بندوں کے اختیارمیں نہیں ہوتا۔ ‘‘

(تفسیرکبیرجلد7صفحہ89تا90)

پادری زویمراپنے اس دورے کو بہت اہم خیال کیاکرتے تھےاوراس کو اپنے ایک کارنامے کے طور پر ذکرکیاکرتے تھے۔ حضر ت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنے خطاب بعنوان’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے‘‘فرمودہ 28؍دسمبر 1928برموقع جلسہ سالانہ قادیان میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’غرض جماعت احمدیہ کے کام کی اہمیت کا ان لوگوں کو بھی اقرار ہے جو جماعت میں د اخل نہیں ہیں۔ بلکہ جو اسلام کے دشمن ہیں وہ بھی اقرار کرتے ہیں۔ ابھی کلکتہ میں ڈاکٹر زویمر کے لیکچر ہوئے۔ یہ ڈاکٹر صاحب عیسائیوں میں سب سے زیادہ اسلا م کے متعلق واقفیت رکھنے کے مدعی ہیں۔ مصر میں ایک رسالہ’’مسلم ورلڈ‘‘نکالتے ہیں۔ پچھلی دفعہ جب آئے تو قادیان بھی آئے تھے۔ اور یہاں سے جاکر انہوں نے بعض دوسرے شہروں میں اشتہار دیا تھا کہ وہ ڈاکٹر زویمر جو قادیان سے بھی ہو آیا ہے ان کا لیکچر ہوگا۔ کچھ عرصہ ہوا وہ کلکتہ گئے اور وہاں انہوں نے لیکچر دیا۔ مولوی عبدالقادر صاحب ایم اے پروفیسر جو میری ایک بیوی کے بھائی ہیں، انہوں نے کچھ سوال کرنے چاہے۔ اس پر دریافت کیاگیا کہ کیاآپ احمدی ہیں؟ انہوں نے کہا۔ ہاں۔ اس پر کہا گیا کہ ہم احمدیوں سے مباحثہ نہیں کرتے۔ مصر میں انہی صاحب کی کوشش سے کئی لوگ مسیحی بنالئے گئے۔ اتفاقاً ایک شخص عبدالرحمان صاحب مصری کوجو ان دنوں مصر میں تھے مل گیا۔ انہوں نے اسے احمدی نکتہ نگاہ سے دلائل سمجھائے۔ وہ پادری زویمر کے پاس گیااورجاکر گفتگو کی۔ اور کہا کہ مسیح زندہ نہیں بلکہ قرآن کریم کی رو سے فوت ہوگئے۔ اس پادری نے کہا کہ کسی احمدی سے تو تم نہیں ملے؟ اس مصری نے کہا۔ ہاں ملا ہوں۔ یہ جواب سن کر وہ گھبراگئے اور آئندہ بات کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ غرض خداکے فضل سے ہماری جماعت کو مذہبی دنیا میں ایسی اہمیت حاصل ہورہی ہے کہ دنیاحیران ہے………‘‘

(حضرت مسیح موعود کے کارنامے، انوار العلوم جلد10صفحہ: 124-125)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button