کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہوجاتی ہے
واضح ہو کہ استجابت دعا کا مسئلہ درحقیقت دعا کے مسئلہ کی ایک فرع ہے۔ اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس شخص نے اصل کو سمجھا ہوا نہیں ہوتا اُس کو فرع کے سمجھنے میں پیچیدگیاں واقع ہوتی ہیں اور دھوکے لگتے ہیں …… اور دعا کی ماہیت یہ ہے کہ ایک سعید بندہ اور اس کے ربّ میں ایک تعلق جاذبہ ہے۔ یعنی پہلے خداتعالیٰ کی رحمانیت بندہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے پھر بندہ کے صدق کی کششوں سے خداتعالیٰ اُس سے نزدیک ہو جاتاہے۔ اور دعا کی حالت میں وہ تعلق ایک خاص مقام پر پہنچ کر اپنے خواص عجیبہ پیدا کرتاہے۔ سو جس وقت بندہ کسی سخت مشکل میں مبتلا ہو کرخداتعالیٰ کی طرف کامل یقین اور کامل امید اور کامل محبت اورکامل وفاداری اور کامل ہمت کے ساتھ جھکتاہے اور نہایت درجہ کا بیدار ہو کر غفلت کے پردوں کو چیرتا ہوا فنا کے میدانوں میں آگے سے آگے نکل جاتاہے۔ پھر آگے کیا دیکھتاہے کہ بارگاہ الوہیت ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ تب اُس کی روح اُس آستانہ پر سر رکھ دیتی ہے۔ اور قوت جذب جو اُس کے اندر رکھی گئی ہے وہ خداتعالیٰ کی عنایات کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ تب اللہ جل شانہٗ اس کام کے پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوتاہے اور اس دعا کا ا ثر ان تمام مبادی اسباب پر ڈالتاہے جن سے ایسے ا سباب پیداہوتے ہیں جو اس مطلب کے حاصل ہونے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً اگر بارش کے لئے دعا ہے توبعد استجابت دعا کے وہ اسباب طبیعہ جو بارش کے لئے ضروری ہوتے ہیں اس دعا کے اثر سے پیدا کئے جاتے ہیں۔ اوراگر قحط کے لئے بددعا ہے تو قادر مطلق مخالفانہ اسباب کو پیدا کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ بات اربابِ کشف اور کمال کے نزدیک بڑے بڑے تجارب سے ثابت ہو چکی ہے کہ کامل کی دعا میں ایک قوت تکوین پیدا ہو جاتی ہے یعنی باذنہٖ تعالیٰ وہ دعا عالم سفلی اور عُلوی میں تصرف کرتی ہے اور عناصر اور اجرام فلکی اور انسانوں کے دلوں کو اس طرف لے آتی ہے جو طرف مؤید مطلوب ہے۔ خداتعالیٰ کی پاک کتابوں میں اس کی نظیریں کچھ کم نہیں ہیں بلکہ اعجاز کی بعض اقسام کی حقیقت بھی دراصل استجابت دعا ہی ہے۔ اور جس قدر ہزاروں معجزات انبیاء سے ظہور میں آئے ہیں یا جو کچھ کہ اولیاء ان دنوں تک عجائب کرامات دکھلاتے رہے اُس کا ا صل اورمنبع یہی دعا ہے۔ اوراکثر دعائوں کے اثر سے ہی طرح طرح کے خوارق قدرت قادر کا تماشا دکھلا رہے ہیں۔ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزار کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اورپُشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے اورآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہواکہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کا ن نے سنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمّی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَ حُزْنہٖ لِھٰذِہٖ الْاُمَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبَدِ۔
اور مَیں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہا ہوں کہ دعاؤں کی تاثیر آب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبیعہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دُعا ہے۔
اور اگر یہ شبہ ہوکہ بعض دعائیں خطا جاتی ہیں اور ان کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تو مَیں کہتاہوں کہ یہی حال دوائوں کا بھی ہے۔ کیا دوائوں نے موت کا دروازہ بند کردیاہے یا اُن کاخطاجانا غیر ممکن ہے؟ مگر کیا باوجود اس بات کے کوئی اُن کی تاثیر سے انکار کر سکتاہے؟ یہ سچ ہے کہ ہر ایک امر پر تقدیر محیط ہو رہی ہے مگر تقدیر نے علوم کو ضائع اور بے حرمت نہیں کیا۔ اور نہ اسباب کو بے اعتبار کر کے دکھلایا بلکہ اگرغور کرکے دیکھو تو یہ جسمانی اور روحانی اسبا ب بھی تقدیر سے باہر نہیں ہیں۔ مثلاً اگر ایک بیمار کی تقدیر نیک ہو تواسباب تقدیر علاج پورے طورپر میسر آجاتے ہیں اور جسم کی حالت بھی ایسے درجہ پر ہوتی ہے کہ وہ اُن سے نفع اٹھانے کے لئے مستعد ہو تاہے تب دوا نشانہ کی طرح جاکراثر کرتی ہے۔ یہی قاعدہ دعا کا بھی ہے۔ یعنی دعا کے لئے بھی تمام اسباب و شرائط قبولیت اُسی جگہ جمع ہوتے ہیں جہاں ارادہ ٔ الٰہی اُس کے قبول کرنے کا ہے۔ خداتعالیٰ نے اپنے نظام جسمانی اور روحانی کو ایک ہی سلسلہ مؤثرات اور متاثرات میں باندھ رکھاہے۔
(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد 6۔ صفحہ 9تا 12)