احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
محمدحسین صاحب بٹالوی ایک تعارف(حصہ دوم)
غرض بلا شبہ مولوی محمد حسین بٹالوی پنجاب کے علماء میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھےاور مولوی ثناء اللہ امرتسری جیسے علماء بھی خود کو ان کا منہ بولا بیٹا کہلانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ لیکن مولوی صاحب کی یہ ساری جاہ وحشمت اور عزت ورفعت
وَلٰكِنَّهٗٓ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ
کاعبرتناک نمونہ بنتے ہوئے اس وقت سے اکارت جانے لگی جب سے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مقابلہ کرنا شروع کیا۔ دنیا سے جو ٹھوکریں ملنی تھیں ملیں۔ کہیں کرسی نہ ملنے پر رسوائی تو کہیں کوئی ان کے بیٹھنے پر اپنی چادر بھی جھاڑتا۔ مولوی صاحب کی اپنی اولاداور بیوی ان سے سرکش ہونے لگی۔ جس کا اظہار خود کئی جگہ اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں کیا ہے۔
ان بچوں کے جو نام مل سکے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
لڑکے: 1۔ عبدالسلام 2۔ محمد اطہر 3۔ احمدحسین 4۔عبدالنور 5۔ عبدالشکور 6۔ عبد الباسط 7۔ ابو اسحاق
لڑکیاں: 1۔ امۃ السلام 2۔ امۃ الرشید3۔ مریم4۔ صفیہ
مولوی صاحب نے ان تمام بچوں کی بربادی کا ذکر اپنے ہی قلم سے اشاعۃ السنۃ جلد 22 نمبر 7 اور 8 میں عقوق کے عنوان سے کیا ہے۔ مولوی صاحب کے بقول ان کی یہ اولاد ناخلف، احکام شریعت کی دھجیاں اڑانے والی، زنا کار، شراب خور اور ’’فسق کو کامل کر کے درجہ کفر کوپہنچ گئی ہے۔‘‘(اشاعۃ السنۃ جلد 22 نمبر 7صفحہ 203)ان کی بیویوں میں سے ایک تو پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، ایک نے ان کو آخری وقت میں چھوڑ دیااور اپنے بچوں کے ساتھ ان کے مکان سے کچھ فاصلے پر رہنے لگی۔ اس کانام زینب تھا۔ بچوں کی مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ انہوں نے مولوی صاحب کو گالیاں تک دیں۔ ان کے قتل کرنے کی کوششیں کیں اور اس کے علاوہ بھی اشاعۃالسنہ کے یہ پرچے بہت کچھ بتاتے ہیں جن کا بیان آسان نہیں۔
1910ء ہی کے ایک پرچہ میں مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جب سب بڑے بچے آوارہ ہو گئے تو شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے کہنے سے چھوٹے بیٹے عبد الباسط کو انہوں نے قادیان کے مدرسہ میں بایں شرط داخل کروایا کہ اسے جماعت کی کتب نہ پڑھائی جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے کہ یہاں اب بچہ اچھی طرح پڑھ رہا ہےا ور یہ ان کا مجھ پر احسان ہے لیکن آگے لکھتے ہیں:
’’اس احسان اور ہمدردی کے ساتھ بھی اس فرقہ کے عقائد کا میں ایسا مخالف ہوں جیسا کہ پہلے تھا۔‘‘
(بطالوی کا انجام صفحہ 52)
یہ تو احوال تھا ان کی جسمانی اولاد کا۔ روحانی اولاد میں سے مولوی ثناء اللہ امرتسری اور عبد الجبار غزنوی وغیرہ کو بھی مولوی صاحب نے کچھ برا بھلا کہا جس کے بعد وہ بھی مولوی صاحب کے خلاف ہو گئے۔ چنانچہ مولوی عبد الجبار غزنوی نے تو یہاں تک لکھا کہ
’’اے میرے اغلٰی چچا۔ واللہ آپ مصلحیت قوم کے ہر گز لائق نہیں۔ بلکہ اس کی ضدکے لائق ہیں۔ بھلامغلوب الغضب، کم حوصلہ، ثناء و جاہ طلب، خود غرض آدمی بھی مصلح قوم بننے کے قابل ہے؟ …..آپ محدث لکل ما توہم و مکذب بکل ماسمع ہوگئےہیں۔‘‘
(بطالوی کا انجام صفحہ 73 74-)
غرض مولوی صاحب کی رسوائی، ذلت اور نکبت اس حد تک ہوئی کہ بالآخر وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
خاکسارنےاس زمانے کے اشاعۃ السنۃ کی فائلزکامطالعہ کیاہے جن کے مطابق بٹالوی صاحب کوان کی اپنی اولاد اور اپنے ہی ماننے والوں، مریدوں اور شاگردوں کی طرف سے وہ وہ برے بھلے نام سننے پڑے۔ ذلت ورسوائی کے وہ وہ القابات واعزازات ان کے گلے کاطوق بنائے گئے کہ مجھے قادیان کے اس مامورومرسل کی یہ بات بڑی شان وشوکت سے پوری ہوتی ہوئی نظرآئی جو اس نے بڑے دکھے ہوئے دل کے ساتھ بڑی شان اوراپنے مولیٰ کریم پرمان رکھتے ہوئے کہاتھا
سرسے میرے پاؤں تک وہ یارمجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار
یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف
قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار
اوریہ شخص اس دنیاسے نہیں اٹھایاگیاجب تک کہ اس کی دریدہ دہنی اور زبان وبیان کاساراادھار واپس نہیں ملا۔ خاکسارایک دوبار بٹالہ صرف اسی غرض کے لیے گیا کہ اس کی قبرکاہی کوئی نام ونشان مل جائے لیکن اب اس قبرستان کانام ونشان تک نیست و نابود ہوچکاہے۔ کچھ پرمکانات بن چکے اور درمیان سے پبلک ٹریفک کے لیے ایک پختہ روڈ بنا دی گئی ہے۔ اور دوسری طرف وہ ہے کہ جس کے مزارپردعاکرنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور کروڑوں عشاق ہیں کہ وہاں حاضری دینے کی حسرت اپنے دلوں میں لیے ہوئے اس انتظارمیں ہیں کہ اے کاش ہم ایک جھلک ہی اس کی دیکھ لیں۔
تاقیامت شکرگویم کردگارِ خویش را
آہ گرمن بازبینم روئے یارِ خویش را
کہ میں قیامت تک اپنے پروردگارکاشکراداکرتارہوں گا۔ آہ اگرایک بار اپنے محبوب کاچہرہ دیکھ لوں۔
بہرحال مولوی صاحب کااخبار اشاعۃ السنۃ جو ماہوار اخبار تھا، پہلے سہ ماہی، پھر ششماہی، پھر سالانہ اور پھر 2 یا 3 سال بعد ایک پرچہ نکلنا شروع ہوا۔ ان کے گھر کی جو حالت ہو چکی تھی اس کا ذکر میر قاسم علی صاحب نے کیا ہے جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ کے ساتھ1911ء میں ان کے گھر گئے۔ وہ کہتے ہیں:
’’عرفانی صاحب مجھے لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں میں پھراتے ہوئے اس کی قیام گاہ تک لے پہنچے………دونوں اندر چلے گئے۔ دیکھا کہ بطالوی ایک اندھیری کوٹھڑی میں جہاں صرف ایک چارپائی پڑی ہے۔ اس کے پاس ہی ایک چٹائی پر جو نہایت گندی اور پھٹی ہوئی تھی بیٹھا ہے۔ کوٹھڑی کےایک طرف اندر ہی مٹی کا چولہا رکھا ہے۔ اور ایک دس سالہ لڑکی چولہے پر مٹی کی ہانڈی رکھی ہوئی اس کے نیچے آگ جلا رہی ہے۔ جس سے تمام کوٹھڑی دھواں دار ہو رہی ہے۔ لڑکی کی آنکھوں سے آگ پھونکتے پھونکتے آنسو نکل رہے ہیں۔ اور بے چاری منہ کی پھونکوں سے آگ سلگا رہی ہے۔ خدا تعالیٰ گواہ ہےمیں بلا مبالغہ کہتا ہوں کہ اس کوٹھڑی کی حالت اور بطالوی کی اس وقت کی رہائش دیکھ کر مجھے زمینداروں کے اس گڈھیال کا نقشہ سامنے آ گیا جس میں وہ گنے پیڑ کر اس کے رس کا گڑ پکایا کرتے ہیں۔ نہایت اندھیرا گھپ اور دھویں سے ہاتھ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ فرش چٹائی جس پر خود بدولت چارپائی کے پاس تشریف فرما تھےاتنی میلی اور کوڑے سے پُر کہ جہاں انسان تو کیا کوئی ذلیل ترین حیوان بھی بندھنا پسند نہ کرے۔ سردی کا موسم تھا۔ میں دہلی سے گیا تھا۔ بطالوی کی اس حالت کو دیکھ کر مجھے اس پر بہت ہی ترس آیا کہ الٰہی یہی و ہ شخص ہے جو بازاروں سے جب گزرتا تھا تو لوگ اس کی تعظیم کے لئے اپنی دکانوں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔ ………اس کی ہئیت کذائی پکار پکار کر اس کی حواس باختگی، از خود رفتگی، دیوانگی، خستہ حالی اور خبط الحواسی پر شہادت دے رہی تھی۔ سر کے بکھرے ہوئے بال، سردی کے موسم میں ایک لمبا چغہ سفید ململ کا، نیچے جس کے سیاہ رنگ کا دقیانوسی کوٹ گرم، آنکھوں پر ایک دھاگے سے بندھی ہوئی کمانی کی عینک، نیچے چٹائی کا وہ فرش جو چنڈو خانوں میں ہی نظر آ سکتا ہے…… چارپائی پر ایسا کثیف اور ناپاک بسترہ جس پر اگر سفید کاغذ بھی رکھ دیا جائے تووہ بھی سیاہ ہو جائے۔‘‘
(بطالوی کا انجام صفحہ 86 89-)
پھر 1912ءکی ایک ملاقات کا احوال بھی میر صاحب نے لکھا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے مولوی صاحب کی مسجد بھی دیکھی جو ایک چھوٹی سے مسجد تھی، وضو کے لئے کوئی لوٹا نہ تھا، نہ کوئی نمازی جس سے استدعا کی جاتی، ایک چھوٹی سی کنوئیں تھی جس پر ایک بوکی چرمی پڑی تھی، جب اس سے پانی نکالنے لگے تو علم ہوا کہ وہ تو پھٹی ہوئی ہے اوراس سے پانی اوپر نہیں آ سکتا۔ مولوی صاحب جن بچوں کو محلے میں پڑھاتے تھے وہ سب محلے کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے جو بغدادی قاعدہ اور قرآن مجید ان سے پڑھتے تھے۔ جس پر مولوی صاحب کی گزر بسر تھی۔ اور ان بچوں کے والدین نے بھی مولوی صاحب کو سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ ہمارے بچے پڑھنے آتے ہیں بازار جانے نہیں۔ ان کو سودا لینے نہ بھیجا کرو۔ مولوی صاحب 80سال کی عمر میں خود یہ سارا سودا اٹھا کر بازار سے لاتے۔ 1920ء سے کچھ قبل انہیں بخار ہوا جو دو ماہ رہا۔
(ماخوذ از بطالوی کا انجام صفحہ 94-100 و 116)
اسی دوران فالج بھی ہو گیا۔ بالآخر 29 جنوری 1920ء کوبٹالہ میں اپنے سکونتی مکان میں فوت ہوئے۔ ( سیرت ثنائی صفحہ453)جب یہ فوت ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور ذلت کا ذریعہ یہ بنایا کہ ان کا مدفن ’’تکیہ کنجراں والا‘‘متصل تالاب شمشیر خان قرار پایا۔
(بطالوی کا انجام صفحہ 116)
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کاخمیرتھا
ان کی جن کتب کے نام مل سکے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
منہج الباری فی ترجیح صحیح البخاری۔الاقتصاد فی بیان الاعتقاد۔ المفاتیح فی بحث التراویح۔ ہدایۃ الرب لاباحۃ الضب۔ سجدہ تعظیم۔ البیان فی رد البرہان۔ کشف الاسقار عن وجہ الاظہار۔ البرہان الساطع۔ المشروع فی ذکر الاقتداءبالمخالفین فی الفروع۔ خیالی مسیح اور اس کے فرضی حواری سے گفتگو۔ تین گواہ۔ مرزا قادیانی اور مرزائیوں کے بارے میں چند سوالات۔الاقتصاد فی حکم الشہادۃ والمیلاد۔الاجتہاد والتقلید۔
(باقی آئندہ)