متفرق مضامین

مقدس فریضۂ حج کے یادگار اور بابرکت سفر کی ڈائری

(مرزا قمر احمد۔ لندن)

حج پانچ بنیادی ارکانِ اسلام میں سے ایک ہے۔ بہت ہی خوش نصیب ہوتے ہیں وہ مسلمان جنہیں اللہ تعالیٰ اس رکن کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ ایک رات کو خاکسار نے خواب میں دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہوں پھر کچھ عرصہ بعد میں نے خواب میں دوبارہ دیکھا کہ میں غار حرا اورغار ثور میں دعا کر رہا ہوں۔میں نے یہ دونوں خوابیں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ملاقات کے دوران سنائیں۔حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ اگرآپ کو توفیق ہو توپہلے عمرہ کرو اور بعد میں حج ۔حضور انور کے ارشاد مبارک کے بعد میں نے عمرے اور حج کی نیت کر لی ۔

الحمدللہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے حضور انور کے ارشاد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پہلے مجھے اللہ تعالیٰ نے 2014ء میں عمرہ کرنے کی سعادت عطا فرمائی اور 2015ء میں حج کی نیت کی اور حج پر جانے کے لیے رقم جمع کروائی۔ لیکن حج پرجانے کے لیے ویزا نہ ملا۔پھر خاکسار نے 2016ء میں حج پر جانے کے لیے رقم جمع کروا دی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے حج کرنے کی توفیق دی۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین۔

میں نے حج کے دوران جو اپنی ڈائری لکھی تھی وہ میں الفضل کے لیے لکھ رہا ہوں تا کہ تحدیث نعمت کے ساتھ ساتھ جو دوست آئندہ حج یا عمرہ پر جانا چاہتے ہیں ان کے فائدے کا موجب بنے۔

5؍ستمبر2016ء کو گھر سے حج کا سفر شروع کیا اور ہیتھرو ایئرپورٹ پر آئے، ہماری فلائٹ قطر ایئر لائن سے تھی۔ جب ہم قطر ایئرلائن کے کاؤنٹر پر بورڈنگ کے لیے آئے تو قطر ایئر لائن والوں نے ہمیں فلائٹ پر لینے سے انکار کردیا۔وجہ انہوں یہ بتائی کہ سعودی حکومت نے حج فلائٹ کی آخری تاریخ آج رات 12بجے تک دی ہے۔اگرآپ کو ہم فلائٹ پر لے کر جاتے ہیں تو جب 12بجے کے بعد پہنچیں گے تو ایئر لائن کو جرمانہ ہوگا۔ اُن کی یہ بات سن کر ہمیں بہت مایوسی ہوئی ۔ ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا ہم تو حج کی نیت سے آئے ہیں تو ہی اپنے فضل سے کوئی بہتر انتظام فرما دے۔آمین۔

میں نے قطر ائر لائن کے مینیجر سے بات کی وہ کسی بھی صورت نہ مانا۔اس نے کہاکہ صرف سعودی ایئر لائن آپ کو لے کر جاسکتی ہے اس لیے اگر ان کے پاس ٹکٹ ہو تو آپ اس کی ٹکٹ لے لیں۔پھر ہم سعودی ایئر لائن کے کاؤنٹر پر گئے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس پانچ سیٹیں صبح کے لیے نہیں ہیں لیکن ایک فلائٹ کل مانچسٹر سے جارہی ہے اس کی سیٹیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ جزا دے انوارالحق صاحب کو انہوں نے اسی وقت سعودی ایئر لائن کی مانچسٹر سے ہماری ٹکٹیں کروا دیںاور ہماری فلائٹ کا وقت 6؍ستمبر2016ء 12بجے دوپہر ٹھہرا۔ چنانچہ اُسی وقت ہم ہیتھرو سے بس پر مانچسٹر کے لیے روانہ ہوگئے اور صبح 4.30بجے مانچسٹر کی مسجد میں تھے۔مسجد میں نوافل اور نماز فجر ادا کرنے کے بعدہم نےتین گھنٹے آرام کیا۔صبح 8بجے ہمارا ناشتہ تیار تھا۔ناشتہ کرنےکے بعد ہم 10بجے ایئر پورٹ پر پہنچ گئے۔الحمدللہ وقت پر بورڈنگ ہوئی اور بروقت جہاز میں سوار ہوگئے۔ اس بابرکت سفر کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ہمارے اس مختصر سے قافلے میں خاکسار، مکرم رشید احمد ڈار صاحب،مکرم نصیر احمد صاحب بھی شامل تھے۔

سعودی وقت کے مطابق 6؍ستمبر رات 9بجے ہم جدّہ ایئر پورٹ پر پہنچے۔ہم جلدامیگریشن سے فارغ ہوگئے لیکن جدہ سے مکہ جانے کے لیے ہمیں 4گھنٹے کے بعد بس ملی اور پھر 7؍ستمبر صبح 5بجے مکہ پہنچ گئے۔مکہ پہنچ کر سب سے بڑا مسئلہ ہوٹل کی تلاش تھی۔ہمارے معلم نے جو ہوٹل ہمیں بتایا تھا اس ہوٹل والے نے یہ کہہ کر ہمیں جواب دے دیا کہ آپ کی بکنگ نہیں ہے۔بڑی کوشش کے باوجود ہمیں ہوٹل نہ مل سکا ۔ہم اپنا سامان لے کر سڑک پر آگئے اور دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہوٹل کا انتظام کردیا۔اس لیے جب بھی کبھی حج یا عمرہ پر جائیں اپنے ایجنٹ سے ہوٹل کی بکنگ کی کوئی رسید ضرور دیکھ لیں اور پھر فون کر کے ہوٹل والوں سے رابطہ بھی کر لیں تا کہ بعد میں وہاں پہنچنے پر کوئی پریشانی نہ ہو۔

ہماری سعودی ایئر لائن تھی۔ ہم نے مکہ پہنچنے سے پہلے میقات پر احرام باندھ لیا۔میقات ان مقامات کو کہتے ہیں جہاں سے مکہ جانے والوں کے لیے عمرہ یا حج کے لیے احرام باندھنا واجب ہوتا ہے۔ مرد کا احرام دوسفید اَن سلی چادروں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں سے ایک بصورت تہ بند باندھی جاتی ہے جبکہ دوسری بصورت چادر اوڑھی جاتی ہے جبکہ سر ننگا رکھا جاتا ہے۔

عورت نے جو لباس زیب تن کیا ہو اُسی میں حج کر سکتی ہے۔میقات پر وضو کر کے احرام باندھا جاتا ہے اور دو نفل ادا کرنے کے بعد حج کی نیت کی جاتی ہے۔اور اس کے ساتھ تلبیہ کا ورد کیا جاتا ہے:

لَبَّیْکَ اللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ ۔ لَبَّیْکَ لَا شَریْکَ لَکَ لَبَّیْکَ۔ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ

میں حاضر ہوں یا اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں بے شک تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں اور ملک بھی تیرا ،تیرا کوئی شریک نہیں۔

ہم نے یہ سارا عمل جہاز میں ہی کیا کیونکہ سعودی ایئر لائن والوں نے اس کا انتظام کیا ہوا تھا ۔ہم نے حج قِران کی نیت کی۔

حج کی تین قسمیں ہوتی ہیں:

1۔حج مفرد 2۔حج تمتع اور 3۔حج قِران

1۔حج مفرد:اس میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے عازمین حج اس میں عمرہ نہیں کرتے احرام باندھنے سے حج کے اختتام تک عازمین حج کو احرام کی شرائط کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔

2۔حج تمتع:اس میں عازمین حج مکہ مکرمہ میں پہلے عمرہ کرتے اور پھر عمرہ کے بعد سر منڈواتے ہیں اور احرام کی حالت سے باہر آجاتے ہیں روزمرہ کے کپڑے پہن لیتے ہیں اوراپنے آپ کو احرام کی پابندیوں سے فارغ کر لیتے ہیں۔پھر حج کے شروع ہونے سے پہلے 8؍ذوالحج کو دوبارہ احرام باندھنا ہوتا ہے۔اور پھر حج مکمل ہونے تک احرام کی پابندیاں عائد رہتی ہیں اس میں حج اور عمرہ ایک ہی سفر میں کرنا ہوتا ہے، اکثر عازمین حج ،حج تمتع ہی ادا کرتے ہیں حج تمتع کا طریقہ آسان ہے۔

3۔حج قِران:عازمین حج عمرہ اور حج ایک ساتھ کرتے ہیں۔یعنی احرام باندھتے ہیں پہلے عمرہ ادا کرتے ہیں اور عمرہ مکمل کرنے کے بعد سر منڈواتے اور احرام بھی نہیں اتارتے اسی احرام کے ساتھ حج مکمل کرتے ہیں قربانی کے بعد ایک ہی دفعہ سرمنڈواتے ہیں۔

آنحضرتﷺنے اپنی زندگی میں اسی طریقۂ حج سے حج ادا فرمایا۔اس لیے ہم نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ ہم بھی حج قِران ہی ادا کریں گے۔

ہم عمرہ کرنے کے لیے مسجد احرام میں داخل ہوئے تو جب پہلی نظر اللہ کے گھر خانہ کعبہ پر پڑی تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکے الفاظ میں دعا کی کہ اے اللہ ہم تو ساری عمر تیرے محتاج ہیں ہمیں تو ہمیشہ تیری مدد کی ضرورت ہے ۔اے اللہ حدیث میں آیا ہے جو پہلی دفعہ خانہ کعبہ کو دیکھے اور جو دعا کرے اس کی دعا قبول کی جاتی ہے۔اے میرے پیارے رب میں تیرا گناہگار بندہ ہوں۔مجھے تو ہر وقت تیری مدد کی ضرورت ہے۔ میں جب بھی تیرے حضور دعا کروں یا اللہ تومیری دعا کو قبول کرنا۔ دردِ دل سے دعا کی اور ہم نے عمرہ شروع کیا۔

عمرہ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ سات چکر خانہ کعبہ کے گرد مکمل کرنے ہوتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ حجر اسود کے سامنے سے چکر شروع کرناہوتا ہے حجاج کی راہ نمائی کے لیے انتظامیہ نے حجر اسود کے سامنے سبز رنگ کی لائٹ بھی لگائی ہوئی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم نے چکر یہاں ہی سے شروع کرنا ہے۔حجر اسود خانہ کعبہ کے جنوب مشرقی کونے میں پانچ یا ساڑھے چار فٹ بلندی پر سیاہ رنگ کا پتھر ہے جو چاندی کے فریم میں جڑا ہوا ہے۔ بعض روایات میں اسے جنت کا پتھر کہا گیا ہے۔ جب حضرت ابراہیمؑ خانہ کعبہ کی دیواریں تعمیر کر رہے تھے تو انہوں نے اسے خانہ کعبہ کی دیوار کے گوشہ میں نصب کروادیا۔

حجر اسودکی احادیث میں بہت اہمیت بیان ہوئی ہے۔ اس کو برکت کے لیے ہاتھ سے چھونے کا ذکر ملتا ہے۔ یہ پتھر شعائراللہ میں سے ہے اس کو چوما جاتا ہے یا اشارے سے بوسہ دیا جاتا ہے۔حجر اسود کے سامنےسے یہ پڑھتے ہوئے چکر شروع کیا جاتا ہے۔

بِسِمْ اللّٰہِ ، اللّٰہُ اکْبَرْ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ

میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو سب سے بڑا ہے اور سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔

ہم نے دونوں ہاتھ اوپر کر کے اشارے سے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اپنا پہلا چکر شروع کیا، اللہ سے راز و نیاز کیا اور رکن یمانی پر پہنچ کر

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ

’یعنی اے ہمارے ربّ!ہمیں دنیا کی بھلائی عنایت فرما اور آخرت کی بھلائی ، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘کی دعا کرتا رہا۔

مختلف کتب میں مختلف دعائیں لکھی گئی ہیں لیکن آنحضرتؐ سے یہی دعا پڑھنا ثابت ہے جو کہ رکن یمانی سے حجر اسود تک بلند آواز میں پڑھی جاتی ہے۔رکن یمانی حجر اسود سے پہلے خانہ کعبہ کا جنوب مغربی کو نہ چونکہ یمن کی سمت ہے اس لیے اسے رکن یمانی کہتے ہیں ۔طواف کے وقت اس کونہ کو ہاتھ سے چھونا اور اُسے بوسہ دینا مستحب ہے۔

ان سات چکروں میں اللہ تعالیٰ کے حضور خوب دعائیں کرنے کا موقع ملا اور حجر اسود کو ہاتھ لگانے کا بھی موقع حاصل ہوااور خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ لپٹ کر بھی دعائیں کرنے کی توفیق ملی الحمدللہ، اللہ تعالیٰ ان سب دعاؤں کو شرف قبولیت بخشے ۔آمین

سات چکر کے بعد مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کیے۔ جس کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے

وَ اتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی

یعنی۔ابراہیم کے مقام (کھڑے ہونے کی جگہ ) کو مصلّیٰ (نماز پڑھنے کی جگہ)بناؤ۔

بیت اللہ کے دروازہ اور ملتزم کے سامنے ایک قبہ (گنبدنما چھوٹی سی عمارت) ہے اس میں وہ پتھر رکھا ہوا ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم ؑنے کعبہ کی دیواریں چنی تھیں اس جگہ کو جہاں پتھر رکھا ہوا ہے ’’مقام ابراہیم ‘‘کہتے ہیں۔

پھر آبِ زم زم پیا اور اللہ تعالیٰ سے اس پانی کی برکت سے روحانی اور جسمانی بیماریوں سے شفا کی دعا کی۔

مقام ابراہیم سے بائیں طرف اور کعبہ سے مشرق کی طرف ایک چشمہ ہے جو بوجہ پیاس حضرت اسماعیلؑ کے ایڑھیاںرگڑنے سے بطور نشان نمودار ہوا۔ آج یہ بابرکت چشمہ ایک کنویں کی صورت اس وقت کی یادگار ہے۔ اسے زم زم کہتے ہیں، زم زم کا پانی روبقبلہ کھڑے ہو کر بڑے ادب سے حصول برکت کی غرض سے پیا جاتا ہے۔

پھر صفاا ور مروہ کی سعی کی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے۔

اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ وَ مَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِرٌ عَلِیۡمٌ ۔(البقرۃ:159)

صفا اور مروہ یقیناً اللہ کے نشانات میں سے ہیں سو جو شخص اس گھر (یعنی کعبہ) کا حج یا عمرہ کرے تو اسے ان کے درمیان تیز چلنے پر کوئی گناہ نہیں۔اور جو شخص بھی اپنی خوشی سے کوئی نیک کام کرے (وہ سمجھ لے کہ) اللہ (نیک کاموں کا) قدر دان ہے اور (وہ) بہت جاننے والا ہے۔

صفا پر آکر خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے دعا کی پھر صفا سے پہلا چکر شروع کیا اور مروہ تک ایک چکر مکمل ہوا۔ دوران چکر اللہ کے حضور دعائیں کیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ آمین

صفا اور مروہ پہاڑیوں کے درمیان ایک سبز رنگ کی لائٹ لگی ہوئی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر حضرت ہاجرہ دوڑ کر گزرتی تھیں انہی کی سنت کو جاری رکھتے ہوئے ہر حاجی جو سعی کرتا ہے وہ اس جگہ سے دوڑ کر گزرتا ہے۔ اس طرح ہم نے بھی یہ سات چکر مکمل کیے اور مروہ پہاڑی کے پاس دو نفل ادا کیے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور درود پڑھتے ہوئے اپنے ہوٹل میں واپس آگئے۔

8؍ستمبرکی فجر کی نماز ہم نے ہوٹل آنے سے پہلے مسجد حرام میں ادا کی پھر اگلے دن 9؍ستمبر، جمعہ کے دن ہم نے نمازِ جمعہ ہوٹل کے کمرے میں ادا کی۔10؍ستمبر کی صبح فجر کی نماز کے بعد ہم مِنیٰ کے لیے روانہ ہوگئے ۔ بسوں کا انتظام سعودی گورنمنٹ کی طرف سے تھا جس کا ہمارے گروپ لیڈر نے انتظام کیا۔ مِنیٰ روانگی سے پہلے ہم نے غسل کیا او راحرام کی حالت میں تو ہم پہلے ہی تھے لیکن اب ہم نے احرام تبدیل کر لیااور نئی چادریں پہن لیں۔یہ 8؍ذوالحجہ کا دن تھا جب ہم مِنیٰ پہنچے۔مِنیٰ مکہ مکرمہ سے پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا شہر ہے جو پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جس میں گورنمنٹ نے مستقل طور پر خیموں کا شہر آباد کیا ہوا ہے۔ہر خیمے میں ایئر کنڈیشنر اور بجلی کا مکمل انتظام ہے جس کی وجہ سے گرمی کا احساس کم ہوتا ہے۔ہرجگہ بیت الخلا اور وضو کرنے کا بہترین انتظام ہے۔ ہر سڑک کا مکمل نام اور نمبر موجود ہے جس جگہ ہمارا قیام تھا اس جگہ کا نام اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے منطقۃ الربوۃ نمبر 4تھا۔

مِنیٰ میں حجاج کو ظہر وعصر ،مغرب و عشاء کی نمازیں قصر کرکے پڑھنا ہوتی ہیں جو ہم نے اللہ کے فضل سے باجماعت ادا کیں۔یہ ساری رات تقریباً عبادت میں گزری اور پھر فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد 10؍ذوالحج کو عرفات کے لیے روانگی کی تیاری شروع ہوگئی۔ تقریباً7بجے ہماری بس عرفات جانے کے لیے تیار تھی ا ور ہم 8بجے صبح اللہ کے فضل و کرم سے میدان عرفات میں تھے ۔9؍ذوالحج کےدن تک اگر کوئی حاجی عصر سے پہلے میدان عرفات میں نہ پہنچ سکے تو اس کا حج نہیں ہوتا۔

عرفات میں ہمارے معلم نے ہمارے لیے ایئر کنڈیشنڈ خیمے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ حج کے دوران معلم ہمیں مختلف مقامات کا تعارف کرواتے اور اس کے بارے میں روایات سناتے ہیں۔ خدا جانے اس میں کتنی حقیقت ہے لیکن ہمارے معلم کے مطابق عرفات وہ میدان ہے جس میں حضرت آدم اور حضرت حوّا کی ملاقات ہوئی۔یہ میدان مِنیٰ سے تقریباً11کلومیٹر دور ہے یہ وہ میدان ہے جہاں پر آنحضرتﷺنے خطبہ حجۃ الوداع دیا اور اپنی امت مسلمہ کے لیے بہت دعائیں کیں ۔اس میدان میں مسجد نمرہ بھی ہے۔ ہمارے معلم نے ہمیں بتایا کہ یہ وہ پہلی مسجد ہے جو حضرت ابراہیمؑ نے تعمیر کی تھی آج کل حج کا خطبہ اسی مسجد سے دیا جاتا ہے۔

عرفات میں جبل الرحمۃ بھی ہے یہ وہ پہاڑ ہے جس پر آنحضرتﷺنے حجۃ الوادع کا خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ہمارا خیمہ جبل الرحمۃ کے بہت قریب تھا۔میدان عرفات میں ظہر کے وقت سے لے کر سورج غروب ہونے تک یہاں قیام کیا جاتا ہے جس کو وقوفِ عرفہ کہتے ہیں۔ہم نے دونوں نمازیں ظہر اور عصر خیمے سے باہر کھلے آسمان کے نیچے جمع کر کے ادا کیں اس کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگی توبہ استغفار کیا اور اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہماری پردہ پوشی فرمائے اور ہمیں بخش دے۔ آمین۔

عرفات کا دن حج کا سب سے اہم دن ہوتا ہے اس دن خدا تعالیٰ اپنے بندے کی بہت دعائیں سنتا ہے۔ غروب آفتاب ہوگیا ۔اب نماز مغرب کا وقت تھا ۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق پھر جب عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کا ذکر کرو۔

ہماری بس تیار تھی ہم بس میں سوار ہوئے اور ایک گھنٹہ کے بعد مزدلفہ کے میدان میں تھے۔مزدلفہ عرفات سے بجانب مِنیٰ تقریباً 4کلومیٹر کے فاصلے پر ایک میدان ہے مشعرالحرام ایک پہاڑی ہے وہ بھی اسی میدان میں ہے۔عرفات سے واپسی پر حج کرنے والے اسی میدان میں کھلے آسمان کے نیچے رات بسر کرتے ہیں اور یہیں مغرب اور عشاءکی نمازیں جمع کر کے پڑھتے ہیں۔10؍ذوالحج کی فجر کی نماز بھی یہیں ادا کرنی ہوتی ہے۔

جب ہم مزدلفہ کے میدان میں پہنچے تو کھلے آسمان کے نیچے پہاڑ کے دامن میں ہر مرد وزن اللہ کی محبت میں اس کی محبت حاصل کرنے کے لیے یہاں موجود تھا۔ یہاں پرہم نے مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے باجماعت ادا کیں۔ساری رات اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز ونیاز کرتے ہوئے گزر گئی۔ پتہ بھی نہ چلا کہ فجر کی نماز کاوقت ہوگیا۔مکرم نصیر احمد صاحب نے فجر کی اذان دی ہم نے باجماعت نماز فجر ادا کی۔ اس میدان میں سنت رسول کوپورا کرنے کے لیے ہم نے اپنی اپنی کنکریاںبھی رکھ لیں جو کہ مِنیٰ میں واپس جا کر شیطان کو مارنی تھیں۔ سورج نکلنے سے پہلے ہماری بس تیار تھی جس میں سوار ہو کر تقریباً9بجے،10؍ذوالحج کو ہم واپس مِنیٰ آگئے۔

10؍ذوالحج کا دن تھا آج کے دن ہم نے بڑے شیطان کو 7کنکریاں مارنی تھیں اور قربانی کرنی تھی اور سر کے بال منڈوانے تھے۔اور احرام اتار کر غسل کرنا تھا اور خانہ کعبہ کا طواف زیارت کرنا تھا۔جب ہم مزدلفہ سے واپس آئے تھے تو آتے ہی اپنے خیمہ میں سوگئے ظہر تک آرام کیا پھر نماز ظہر ادا کی پھر عصر کے بعد ہم ’’رمی‘‘ کے لیے چلے گئے۔روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربانی کی غرض سے لے کر چلے تو شیطان نے انسانی شکل میں حضرت ابراہیمؑ کو بہکانے کی کوشش کی۔ اس جگہ کو جَمْرَۃُ العقبۃ کہتے ہیں۔آپؑ فوراً سمجھ گئے کہ یہ شیطان ہے آپؑ نے اللہ کے حضور دعا کی اور فرمان الٰہی کے مطابق سات کنکریاں شیطان کو ماریں اور وہ فرار ہوگیا۔ جب آپؑ آگے بڑھے تو جہاں پر جَمْرَۃُ الْوسْطَہْ واقع ہے اس جگہ شیطان نے پھر آپؑ کو اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی آپؑ نے پھر سات کنکریاں اس کو ماریں اور وہ بھاگ گیاتیسری مرتبہ اس نے پھر جمْرۃ الْاوْلیٰ پر آپؑ کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اکسانے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد سے آپؑ نے پھر سات کنکریاں اس کو ماریں اور وہ راستہ بدل گیا ۔اس واقعہ کی یاد میں منیٰ میں ان تین مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری جاتی ہیں اور یہ عہد کیا جاتا ہے کہ ہم بھی اپنے نفس کو شیطان کے ہر حملے سے محفوظ رہنے کا ارادہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں شیطان کے ہر حملے سے بچائے۔آمین۔ اس عمل کو ’’رمی جِمار‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

ہم بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر یہ دعا کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ تُو ہمیشہ ہمیش شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھنا اور ہمیشہ نیک کام کرنے کی توفیق عطا کرنا عصر کی نماز پڑھ کر پہلے دن سب سے بڑے شیطان کو 7کنکریاں مارنے کے لیے گئے۔گورنمنٹ نے اس سلسلہ میں بہت اچھا انتظام کیا ہوا ہے بہتر ہے کہ آپ اوپر والے حصے میں جائیں کیونکہ جہاں سے شیطان کو کنکریاں مارنے کی حد شروع ہوتی ہےوہاں طبعی طور پر زیادہ رش ہوتا ہے۔ آپ کوشش کریں کہ آپ شروع کی بجائے آخری حصہ میں جا کر کنکریاں ماریں کیونکہ وہاں رش بہت کم ہوتا ہے اور جس راستہ سے جائیں اسی رستہ سے واپس آنے کی کوشش نہ کریں ۔ڈیوٹی پرموجود افراد کی ہدایات کو مانیں۔

رمی کو ختم کرنے کے بعد قربانی کرنی ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ ؕ کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمۡ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُحۡسِنِیۡنَ۔(الحج:38)

اور قربانی کے اونٹ جنہیں ہم نے تمہارے لئے شعائراللہ میں شامل کر دیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے۔ پس ان پر قطار میں کھڑا کرکے اللہ کا نام پڑھو۔ پس جب (ذبح کرنے کے بعد) ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو ان میں سے کھاؤ اور قناعت کرنے والوں کو بھی کھلاؤ اور سوال کرنے والوں کو بھی۔ اسی طرح ہم نے انہیں تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے تاکہ تم شکر کرو۔

اس عظیم قربانی کی یاد میں جو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کر کے دی تھی ہر حاجی کو انفرادی طور پر جا کر قربانی کرنا تونا ممکن ہے اس لیے جس گروپ کے ساتھی آپ ہوں اس کے گروپ لیڈر کو قربانی کی رقم ادا کردیں تو آپ کی طرف سے وہ قربانی کا انتظام کروا دیتا ہے اور اس کی اطلاع وہ آپ کو فون پر دے گا۔ا س کے بعد آپ اپنے سر کے بال کتروائیں یا سر منڈوائیں۔

ہمیں مِنیٰ ہی میں جلد اطلاع آگئی کہ آپ کی طرف سے قربانی ہوگئی ہے تو ہم شام کے وقت مکہ واپس آگئے جہاں پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنا سرمنڈوایا او رہوٹل میں جا کر احرام اتارااور غسل کیا اور اپنے دوسرے کپڑے پہن لیے ۔

اس کے بعد ہم طواف زیارت کے لیے خانہ کعبہ گئےاور خانہ کعبہ کے سات چکروں کے ساتھ اپنا طواف زیارت مکمل کیا اور مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کیے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ تعالیٰ ہمارا حج قبول فرما اور دوران حج کی جانے والی سب دعائیں قبول فرما۔آمین۔پھر رات کو واپس آگئے ۔

حج کا چوتھا دن 11؍ذوالحج تھا۔ آج پھر ہم نے زوال کے بعد تین شیطانوں کی رمی کرنی یعنی کنکریاں مارنی تھیں۔

ہم نے یہ عمل عصر کے بعد سرانجام دیا اور تینوں شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں اور اس کے ساتھ خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگی کہ خدا تعالیٰ ہمیں شیطان سے نفرت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

حج کے پانچویں دن یعنی 12؍ذوالحج ۔ہم نے پھرسہ بارہ تین شیطانوں کو سات سات کنکریاں ماریں جس کو رمی کہتے ہیں۔ اس دن یہ عمل ہم نے بارہ بجے زوال کے بعد شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے شیطانی کاموں سے دور رہنے کا عہد کیا اللہ تعالیٰ ہمیں تا حیات اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیشہ مددد فرمائے۔ اور اپنے پیاروں کا قرب عطا فرمائے ۔آمین

منیٰ میں ہم نے کل چار دن اور راتیں قیام کیا۔اس میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں اور حمد وثنا اور استغفار کرنے کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ہماری تمام دعاؤں کو شرف قبولیت بخشے۔

12؍ذوالحج کی شام کو پھرمکہ واپس آگئے اور ہوٹل میں کھانا کھایا۔

غارِ حرا:خاکسار کو غار حرا میں جانے کا بھی موقع ملا۔یہ مکہ معظمہ سے تقریباً4کلومیٹر کے فاصلے پر جبل نورپر واقع ہے۔یہ تقریباًدو ہزار فٹ بلند ہے۔اس پہاڑی کی چوٹی پر یہ مقدس غار حرا واقع ہے۔ اس میں ہی خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر پہلی وحی نازل فرمائی تھی۔اس معرکے کو سر کرنے کے لیے دل میں بہت جوش تھا۔اس لیے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم نے یہ دو ہزار فٹ کی بلندی کا فاصلہ کیسے طے کر لیا۔پہاڑی پر غار حرا تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بنا دی گئی ہیں اور راستے میں دوستوں کی سہولت کے لیے ایک چھوٹا سا ڈھابہ بھی ہے جس سے آپ کو پانی اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں مل سکتی ہیں اور کچھ آرام بھی کرسکتے ہیں۔

ہم نے غار حرا میں نفل پڑھے اور خوب دعاکرنے کا موقع بھی ملا۔خدا تعالیٰ ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشے ۔

غار ثور: یہ وہ غار ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں کچھ اس طرح آتا ہے۔

اِلَّا تَنۡصُرُوۡہُ فَقَدۡ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذۡ اَخۡرَجَہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلَیۡہِ وَ اَیَّدَہٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ جَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوا السُّفۡلٰی ؕ وَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الۡعُلۡیَا ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ(التوبہ:40)

اگر تم اس (رسول) کی مدد نہ بھی کرو تو اللہ (پہلے بھی) اس کی مدد کر چکا ہے جب اسے اُن لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا (وطن سے) نکال دیا تھا اس حال میں کہ وہ دو میں سے ایک تھا۔ جب وہ دونوں غار میں تھے۔ اور وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اس پر اپنی سکینت نازل کی اور اس کی ایسے لشکروں سے مدد کی جن کو تم نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور اس نے ان لوگوں کی بات نیچی کر دکھائی جنہوں نے کفر کیا تھا۔ اور بات اللہ ہی کی غالب ہوتی ہے اور اللہ کامل غلبہ والا (اور) بہت حکمت والا ہے۔

یہ مکہ سے تقریباً 9 کلومیٹر کے فاصلہ پر جبل ثور پر واقع ہے۔ اس غار میں آنحضرتﷺنے ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ تین دن قیام فرمایا۔اس میں جانے کے لیے بھی دل میں بہت جوش تھا میرے ساتھ میرے دوست ظفر احمد ظفری صاحب بھی تھے۔ ہم نے تقریباً11بجے اس پہاڑ پر چڑھنا شروع کیا۔ کچھ فاصلہ پر ایک چھوٹا سا ڈھابہ ہے جہاں پر میں نے اذان دی اور ظہر کی نماز باجماعت ادا کی مقامی لوگوں نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی۔

تھوڑی دیر آرام کے بعد ہم نے دوبارہ اپنا سفر شروع کیا۔آخر کار ہم غارثور تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔گرمی اور دھوپ اپنے جوبن پر تھی اور سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہمارے جذبہ ایمانی کے سامنے سورج کوئی رکاوٹ پیدا نہ کر سکا۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے بہت کم لوگ اوپر جارہے تھے اس لیے ہمیں غارثور کے اندر تقریباً2گھنٹے قیام کرنے کا موقع مل گیا جس میں ہمیں دعا کرنے اور نماز عصر باجماعت ادا کرنے کی توفیق ملی۔میں نے اپنا سارا جسم اس غار کی ہر جگہ سے مس کیا کہ میرے پیارے آقا نے اس میں تین دن قیام فرمایا اور میرے پیارے آقا ﷺکا جسم بھی اس غار کے پتھروں سےمس ہوا ہوگا۔پھر ہم واپس مکہ آگئے حج کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے دو عمرے کرنے کی توفیق ملی اور آخر پر ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے طواف الوداع کیا۔

طواف الوداع: میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ حج کا طواف الوداع کریں۔16؍ستمبر کو ہم نے مدینہ کے لیے روانہ ہونا تھا اس لیے ہم نے 15؍ستمبر کی رات کو طواف الوداع کیا اس میں بھی خانہ کعبہ کے سات چکر مکمل کرنے ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرنی ہوتی ہیں۔مجھے یہ طواف کرتے ہوئے اور نفل ادا کرتے ہوئے صبح کے 4بج گئے۔4.50پر فجر کی نماز کا وقت تھا۔میں نے فجر کی نماز پہلے وقت میں ادا کر لی اور میں نے حجر اسود کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کر دی کہ اللہ تعالیٰ تو اس قوم کو ہدایت عطا فرما۔جیسے ان کے اولین نے اسلام کو قبول کیا اور آنحضرتﷺکو مانا اور اسلام کی سربلندی کے لیے قربانیاں دیں اورایسے ہی اے خدا!تو ان کی اولادوں کو بھی مسیح موعودؑ کو پہچاننے کی توفیق عطا فرما اور اسلام کی نشائتِ ثانیہ میں بھی ان کو حصہ لینے کی توفیق عطا فرمااور وہ دن بھی جلد آئے کہ خانہ کعبہ کی امامت جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہو۔میں دعا میں اس قدر محو ہوگیا کہ نماز فجر شروع ہوگئی لیکن میں اپنی دعا میں محو رہا۔لاکھوں آدمی نماز پڑھ رہے تھے لیکن میں اکیلا اللہ تعالیٰ کے گھر کے سامنے کھڑا ہو کر دعا میں محو رہا۔مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ خدا تعالیٰ میری دعاؤں کو سن رہا ہے اور مجھے دیکھ رہاہے اور میری التجاؤں کو سن رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرا حج قبول فرمائے اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلائے اور اپنی اور اپنے پیاروں کی محبت عطا فرمائے۔

رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ

اے ہمارے ربّ!ہمیں دنیا کی بھلائی عنایت فرما اور آخرت کی بھلائی اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button