خلاصہ خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ جولائی 2021ء
اگر تقویٰ کے بغیر، اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کے بغیر ہماری قربانی ہو بھی جائے تو بے فائدہ ہے
٭…پاکستان میں تو اب اس بات پر بھی فخر ہونے لگ گیا ہے کہ ہم نے احمدیوں کو عید قربان پر قربانی نہیں کرنے دی ……
اگر ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے رہے تو یقینا ًاللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہو گی۔ ان شاء اللہ
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان مقام کا ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے عطا فرمایا۔ پھر بھی یہ نام نہاد علماء کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں…… یہ لاکھ کوششیں کر لیں پھر بھی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے مقام کو ہمارے دلوں سے نہیں چھین سکتے
٭…اسیران راہ مولا، دین کی خاطر تکالیف برداشت کرنے والوں، تمام مظلوموں اور محروموں اور بنی نوع انسان کے لئے خصوصی دعا کی تحریک
خلاصہ خطبہ عید الاضحی سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ جولائی 2021ء بمطابق 21؍وفا1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 21؍جولائی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ عید الاضحی ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ حضورِ انور نمازِ عید پڑھانے کے لیے صبح قریباً ساڑھے دس بجے مسجد مبارک میں رونق افروز ہوئے اور نمازِ عید پڑھائی۔ خطبہ عید الاضحی میں تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کے بعد حضورِ انور نے سورۃ الحج کی آیت 38کی تلاوت اور اس کا ترجمہ پیش کیا اور پھر فرمایا:
آج عید قربان ہے جسے ہم عید الاضحی بھی کہتے ہیں۔ اس عید پر مسلمان بڑے ذوق شوق سے بکروں، بھیڑوں، گائے اور اونٹ کی قربانیاں کرتے ہیں جو ہزاروں، لاکھوںکی تعداد میں ہوتی ہیں۔ حج کے موقع پر مکہ میں ہی لاکھوں جانور ذبح ہو جاتے ہیں جنہیں سنبھالنا ہی مشکل ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ بعض جگہ دکھاوے کے لیے لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بڑے اور مہنگے جانور خریدیں اور پھر اپنے ماحول میں اس قسم کے فخر کا اظہار ہو کہ ہم نے اتنی بڑی قربانی کی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پاکستان میں تو اب اس بات پر بھی فخر ہونے لگ گیا ہے کہ ہم نے احمدیوں کو عید قربان پر قربانی نہیں کرنے دی کیونکہ یہ مسلمان نہیں ہیں یعنی ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے نزدیک احمدی مسلمان نہیں ہیں اور عید کے تین دنوں میں جانوروں کی قربانی یا اسے ذبح کرنے کا حق صرف مسلمان کو ہے۔ کوئی احمدی کوئی جانور ذبح نہیں کر سکتا۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکومت کے افسران اور انصاف قائم کرنے والے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مفاد پرست نام نہاد علماء کی باتوں کی وجہ سے احمدیوں کو قربانی کرنے سے روکتے ہیں۔ بہرحال جہاں بعض شریف افسران ہیں وہ رعایت کرتے ہوئے احمدیوں کو چھپ کر قربانی کرنے کا کہہ دیتے ہیں کیونکہ بصورتِ دیگر نام نہاد علماء کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں اور ایک فتنہ و فساد کی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ ملک کی حالت یہ ہو چکی ہے اسلام کے نام پر نام نہاد ملاں کا ایسا دین نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کا اسلام کی تعلیم سے کچھ بھی واسطہ نہیں ہے، اور حکومت ان کا ساتھ دیتی ہے یا مجبور ہوتی ہے کہ خاموش رہے۔ لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مخالفین احمدیت احمدیوں کو تنگ کرنے کا ہرممکن طریقہ بروئے کار لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ان کے ایسا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں تقویٰ نہیں ہے۔ وہ اسلام کے نام پر، خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ظلم کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام کی بہت خدمت اور نیکی کے اعلیٰ معیار حاصل کر رہے ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ تو ایک دن خدا تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا کہ تقویٰ پر چلنے والے کون لوگ ہیں۔ نیکی کے معیار کیا ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک صحیح کون ہے اور غلط کون۔ اگر ہم تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے رہے تو یقینا ًاللہ تعالیٰ کی مدد ہمارے ساتھ ہو گی۔ ان شاء اللہ
سورۂ حج کی آیت کریمہ کا حوالہ دیتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اگر تقویٰ نہیں ہے تو تمہارے بڑے اور مہنگے جانوروں کی قربانیاں خدا تعالیٰ قبول نہیں کرتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو ان حاجتوں سے پاک ہے۔ پس ہمیں ان باتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمیں قربانی سے روکا گیا یا مولوی یا حکومتی کارندے ہمارے جانور اٹھا کر لے گئے، یا ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت اٹھا کر لے گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم نے تقویٰ پر چلتے ہوئے اس قربانی کا ارادہ کیا اور قربانی کی تو میرے ہاں مقبول ہے اور اگر یہ تقویٰ سے خالی قربانی ہے تو پھر صرف بے فائدہ ایک جانور کاذبح کرنا ہی ہے۔ پس ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے ہر عمل میں تقویٰ کو سامنے رکھیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں تقویٰ کی حقیقت سمجھائی۔ اگر ہم زمانے کے امام کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرتے ہوئے تقویٰ پر قائم رہیں گے تو ہماری قربانیوں کے نیک نیتی سے کیے جانے والے ارادے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں گے انشاء اللہ۔ پس اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اصل چیز تقویٰ ہے۔ ظاہری اعمال تقویٰ کے بغیر کچھ چیز نہیں ہیں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماننے والوں میں کس قسم کا تقویٰ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم یہ تقویٰ پیدا کر لیں تو خوش قسمت ہیں ورنہ اگر تقویٰ کے بغیر، اللہ کی رضا کے حصول کی نیت کے بغیر ہماری قربانی ہو بھی جائے تو بے فائدہ ہے۔ قرآن کریم میں بیشمار جگہوں پر تقویٰ کا ذکر آیا ہے اور اس تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی مختلف زاویوں سے ہمیں تقویٰ کی حقیقت سمجھائی ہے۔
حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ارشاد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل تقویٰ یہ ہے کہ ہر قربانی ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والی ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی مکمل پیروی کرنی ہے۔
حضورِ انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ایک ارشاد کی روشنی میں ظاہری عبادات مثلاً نماز روزہ کے ساتھ اخلاص اور صدق کی موجودگی پر زور دیا۔ حضورؑ نے فرمایا کہ اگر صرف ظاہری عبادت کافی ہوتی تو جوگیوں اور سنیاسیوں کے لیے ان کی بڑی بڑی ریاضتیں کافی ہوتیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان ریاضتوں سے نہ ہی اللہ کی رضا ان کو حاصل ہوتی ہے، نہ ہی روحانیت میں ترقی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی ریاضتیں ان کے لیے سکینت اور اطمینان کا باعث ہوتی ہیں کیونکہ ان کی اندرونی حالت خراب ہوتی ہے۔ اسی لیے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے۔ حقیقت میں خد اتعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ مغز چاہتا ہے۔ حضورؑ نے سوال اٹھایا کہ اگر گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ تقویٰ پہنچتا ہے تو پھر قربانی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح نماز روزہ اگر روح کا ہے تو پھر ظاہر کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں کہ یہ بات بالکل پکی ہے کہ جو لوگ جسم سے خدمت لینا چھوڑ دیتے ہیں ان کو روح نہیں مانتی اور اس میں وہ نیاز مندی اور عبودیت پیدا نہیں ہوسکتی جو اصل مقصد ہے۔ روح اور جسم کا ایک تعلق ہے اور جو صرف جسم سے کام لیتے ہیں روح کو اس میں شریک نہیں کرتے وہ بھی خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں۔ غرض جسمانی اور روحانی سلسلہ دونوں برابر چلتے ہیں۔
حضورِ انور نے حضرت مسیح موعودؑ کے ایک ارشاد کی رو سے تقویٰ کو جماعتِ احمدیہ کے لیے ایک بنیادی ضرورت قرار دیا۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے لیے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے سلسلہ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ خواہ کسی قسم کے بغضوں،کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسا ہی روبہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے اگر وہ بڑھنا شروع ہو تو پھر وہ دل کو سیاہ کر دیتا ہے۔ پس اس سیاہ داغ کو دھونے کے لیے ہمیں تقویٰ کی ضرورت ہے، استغفار کی ضرورت ہے اور اس طرف بہت توجہ کرنی چاہیے۔ حضورؑ فرماتے ہیں صغائر سہل انگاری سے کبائر ہو جاتے ہیں۔ صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخرکار کُل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحیم وکریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے۔ ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف وگزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں ہے تو اس کا غیض و غضب بڑھ جاتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ زبان لاالٰہ الا اللہ تو پکارتی ہے لیکن اس کا دل اَور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل رو بہ دنیا ہے تو پھر اس کا قہراپنا رنگ دکھاتا ہے۔پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہم نے جب مسیح موعودؑ کو ماننے کا اعلان کیا ہے اور یہ عہد کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے تو پھر ہمیں اپنے دل کو ہر وقت ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ ہر موقع پر ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے دل حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے عمل اس کی پیروی کر رہے ہیں!
پھر حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں متقی کی علامات وضاحت سے بیان فرمائیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ دیکھنا چاہیے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک نشان یہ بھی رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کاخود متکفل ہو جاتا ہے۔ جیسے کے فرمایا۔
وَمَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا وَّ یَرۡزُقۡہُ مِنۡ حَیۡثُ لَا یَحۡتَسِبُ۔(الطلاق:3-4)
مثلاً ایک دکان دار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغ گوئی کے سوا اس کا کام نہیں چل سکتا۔ لیکن یہ امر ہر گز سچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اسے ایسے مواقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو پھر خدا تعالیٰ نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ اور رحمان خدا نے جب چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔غرض برکاتِ تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور میں حارج ہوں۔پس اللہ تعالیٰ متقی کو کبھی بے سہارا نہیں چھوڑتا۔ اگر اس بات کو ہم سمجھ جائیں تو ہم بھی اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے بن جائیں گے۔
حضورؑ نے متقی کی مزید علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کے کلام سے پایا جاتا ہے کہ متقی وہ ہوتے ہیں جو حلیمی اور مسکینی سے چلتے ہیں۔ وہ مغرورانہ گفتگو نہیں کرتے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے جیسے چھوٹا بڑے سے گفتگو کرے۔ اللہ تعالیٰ کسی کا اجارہ دار نہیں۔ وہ خاص تقویٰ کو چاہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابراہیم علیہ السلام میں سے کسی نے وراثت میں تو عزت نہیں پائی تھی گو ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد عبداللہ مشرک نہ تھے لیکن اس نے نبوت تو نہیں دی۔ یہ تو فضل الٰہی تھا ان صدقوں کے باعث جو ان کی فطرت میں تھا۔ یہی فضل کے محرک تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام جو ابوالانبیاءتھے انھوں نے اپنے صدق وتقویٰ سے ہی بیٹے کو قربان کرنے میں دریغ نہ کیا۔ خود آگ میں ڈالے گئے اور قربانی کی۔ ہمارے سیدومولیٰ حضرت محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق ووفا دیکھیے۔ آپؐ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔ عاداتِ راسخہ کا گنوانا کیسا محلات سے ہے لیکن ہمارے مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہزاروں انسانوں کو درست کیا جو حیوانوں سے بدتر تھے۔ بعض ماؤں اور بہنوں میں حیوانوں کی طرح فرق نہیں کرتے تھے۔ یتیموں کا مال کھاتے تھے۔ مُردوں کا مال کھاتے تھے۔ بعض ستارہ پرست تھے۔ بعض دہریہ، بعض عناصر پرست تھے۔ جزیرۂ عرب کیا تھا ایک مجموعۂ مذاہب اپنے اندر رکھتا تھا۔ لیکن آپؐ نے ان سب میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان مقام کا ادراک ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عطا فرمایا پھر بھی یہ نام نہاد علماء کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں لہٰذا احمدیوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ اسلامی طریق پر عبادات بجا لائیں اور رسومات ادا کریں اور اس سنت پہ عمل کریں جس پر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا۔ یہ لاکھ کوششیں کر لیں پھر بھی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپؐ کے مقام کو ہمارے دلوں سے نہیں چھین سکتے۔
حضورِ انور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں اس بات کی طرف توجہ بھی دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی شکر گزاری کے لیے تقویٰ شرط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ تقویٰ کے ساتھ کی جانے والی شکر گزاری کا پاس بھی رکھتا ہے۔ حضورِانور نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اس لیے بھی تقویٰ کی راہیں اختیار کرنی چاہئیں کیونکہ یہی شریعت کا خلاصہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت سے ہیں لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اورمراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اورطلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پا لیتا ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تاکہ قبولیت دعا کا سرور اور حظ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد ہی تقویٰ کا قیام ہے۔ حضورؑ نے فرمایا کہ اس وقت کُل دنیا کے مذاہب کو دیکھ لو کہ اصل غرض جو تقویٰ ہے مفقود ہے اور دنیا کی وجاہتوں کو خدا بنایا گیا ہے۔ مگر اب خد اچاہتا ہے کہ وہ آپ ہی مانا جاوے اور دنیا کو اس کی معرفت ہو۔ جو لوگ دنیا کو خدا سمجھے ہیں وہ متوکل نہیں ہو سکتے۔ حضورِ انورؑ نے فرمایا کہ اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آ کر ہم نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں، تقویٰ پر چلنا ہے اور یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔
حضورِ انور نے متقی بننے کی شرائط اور اس سے اللہ تعالیٰ کے خاص سلوک کا تذکرہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا، چوری، تلف حقوق، ریا، عجب یعنی تکبر وغیرہ، حقارت، بخل کے ترک میں پکا ہو۔اخلاق رذیلہ سے پرہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے۔ لوگوں سے مروت، خوشی خلقی، ہمدردی سے پیش آوے۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچی وفا اور صدق دکھلاوے۔ خدمات کے مقام محمود تلاش کرے۔ خدمات کے مقام محمود سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق اور اس کے بندوں کے حق ادا کرے جس کی خدا تعالیٰ بھی تعریف کرے اور بندے بھی، بندوں کو بھی یہ نظر آئے کہ ہاں یہ شخص ہے جو ہمارے حق ادا کرنے والا ہے اور اگر تقویٰ ہو گا تو پھر ہی ایسا معیار حاصل ہو سکتا ہے جس کے لیے ہر مومن کو کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو ایسا ہوتا ہے خدا تعالیٰ اس کا متولّی ہو جاتا ہے اور اسے کوئی خوف اور کوئی غم نہیں ہو گا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پس یہ ہیں وہ باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات اور ارشادات میں بیان فرمائیں۔ پس آج اس عید پر جس کے خاص حوالے سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ تمہارے ظاہری عمل اگر تقویٰ سے خالی ہیں تو تمہیں اللہ کا مقرب نہیں بنا سکتے ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم نے اس معیار کے مطابق اپنے آپ کو لانا ہے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرنی ہے جہاں ہمارا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو۔ اگر ہم اس پر عمل کرنے کا عہد کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ضرور ہمیں وہ کچھ عطا فرمائے گاجس کا اس نے تقویٰ پر چلنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے۔ مخالفین کی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں۔ ہمارے لیے کوئی افسوس کی بات نہیں ہو گی کہ ہمیں جانوروں کی قربانی سے روکا گیا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں تو پھر قربانی کر کے بھی ہمارے لیے کوئی حقیقی خوشی کا مقام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس بصیرت افروز خطبہ عید کے اختتام پر حضورِ انور نے اسیرانِ راہ مولیٰ کے لیے دعا کی خصوصی تحریک فرمائی، نیز اپنے دین کی خاطر کاروباروں میں نیز دیگر تکالیف برداشت کرنے والوں، پاکستان میں بسنے والے افرادِ جماعت کے لیےاور تمام مظلوموں اور محروموں کے لیے دعا کی تحریک فرمائی۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ بنی نوع انسان کے لیے دعا کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچ سکیں۔ دنیا جس تباہی کی طرف جا رہی ہے اللہ تعالیٰ انہیں عقل دے کہ اس تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچ سکیں اور اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں اور اپنی حالتوں کو بدلنے والے ہوں ورنہ ایک بہت بڑی تباہی منہ پھاڑے کھڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے بعد حضورِ انور نے دعا کروائی اور پھر تمام دنیا میں بسنے والے احمدیوں کو ’’عید مبارک‘‘ کا خوبصورت تحفہ عطا فرمایا۔
٭…٭…٭