کیا شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ ملا کر رکھ سکتی ہیں؟
سوال: اسی ملاقات میں ایک لجنہ ممبر نے دریافت کیا کہ کئی دفعہ شادی کے بعد لڑکیاں اپنا نام بدل کر خاوند کے نام کے ساتھ ملا کر رکھ لیتی ہیں۔ اسلامی نظریہ کے مطابق ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور انورنے اس سوال کے جواب میں فرمایا:
جواب: کوئی حرج نہیں ہے۔ رکھ لیتی ہیں تو کیا ہوگیا؟ اب ان کی جو پہچان ہے سرکاری کاغذوں میں، تو مجبوری ہے۔ بعض دفعہ سرکاری کاغذوں میں ایک نام مثلاً عطیہ بابر کسی نے اپنے باپ کے نام سے نام رکھا ہوا ہے۔ تو جب اس کی شادی ہو جائے گی، اس کی رجسٹریشن ہو جائے گی تو رجسٹریشن میں، اس کے نکاح فارم یا سرکاری کاغذوں میں اس کا نام عطیہ مبشر کے نام سے اگر آجائے گا، بابر کی جگہ مبشر آ جائے گا تو اس میں کیا حرج ہے؟ کوئی حرج نہیں اس میں۔ اسلام میں اس کی بالکل اجازت ہے کہ خاوند کے نام سے نام رکھ لیا جائے۔ اصل نام اس کا عطیہ ہے۔ دوسرا نام تو پہچان کےلیے رکھا ہوا ہے، پہلے باپ اس کی پہچان تھا اب شادی کے بعد خاوند اس کی پہچان ہوگیا۔ بلکہ اچھی بات ہے جو خاوند کی پہچان کے ساتھ نام رکھیں گے تو خاوند کو اپنی بیوی کی عزت کا خیال رہےگا اور بیوی کو اپنے خاوند کی عزت کا خیال رہے گا۔ اور دونوں میں اس سے پیار اور تعلق زیادہ قائم ہوگا۔ اس لیے خاوند کے نام سے نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔