احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
مسجد اقصیٰ اور جلسہ سالانہ
اس مسجدکی یہ بھی ایک اہمیت ہے کہ جماعت احمدیہ کاسب سے پہلاجلسہ سالانہ27؍دسمبرکومسجداقصیٰ میں ہی منعقد ہوا۔جس میں 75 احباب شریک ہوئے۔اس سے اگلے سال 1892ء کاجلسہ سالانہ مدرسہ احمدیہ کے قریب ڈھاب کے کنارے ایک چبوترہ بناکروہاں کیاگیا اوراس کے سواحضرت اقدسؑ کی زندگی میں ہونے والے تمام جلسہ ہائے سالانہ مسجداقصیٰ میں ہی ہوئے ۔اور آخری جلسہ سالانہ میں تین ہزارکے قریب احباب شریک ہوئے ۔
مسجد اقصیٰ اور خطبہ الہامیہ
اس مسجد کے تعلق سے ایک انتہائی اہم واقعہ کا ذکر کرنابھی ضروری ہے ۔جو کہ ’’خطبہ الہامیہ‘‘سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ خطبہ آپ نے مسجد کے سب سے پرانے حصہ کےدرمیانی در میں کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا تھا اس کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ؓ فرماتے ہیں:
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب حضرت مسیح موعود ؑنے عیدالاضحی کے موقعہ پر خطبہ الہامیہ پڑھا تو میں قادیان میں ہی تھا ۔حضرت صاحب مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں کے راستہ سے نیچے اُترے آگے میں انتظا ر میں موجود تھا ۔ میں نے دیکھا کہ اس وقت آپ بہت بشاش تھے اور چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا پھر آپ بڑی مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں نماز کے بعد خطبہ شروع فرمایا۔ اور حضرت مولو ی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب کو خطبہ لکھنے پر مقرر کر دیا۔میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب اس خیال سے کہ لکھنے والے پیچھے نہ رہ جائیں بہت تیز تیز نہیں بولتے تھے بلکہ بعض اوقات لکھنے والوں کی سہولت کے لئے ذرا رُک جاتے تھے اور اپنا فقرہ دہرا دیتے تھے ۔اور میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ایک وقت آپ نے لکھنے والوں سے یہ بھی فرمایا کہ جلدی لکھو ۔یہ وقت پھر نہیں رہے گا اور بعض اوقات آپ یہ بھی بتاتے تھے کہ مثلاً یہ لفظ ’’ص‘‘ سے لکھو یا ’’سین‘‘ سے لکھو ۔
اور بیان کیا مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے کہ خطبہ کے وقت حضرت صاحب کرسی کے اوپر بیٹھے تھے اور آپ کے بائیں طرف فرش پر حضرت مولوی صاحب خلیفہ اوّل و مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم تھے جن کو آپ نے خطبہ لکھنے کے لئے مقرر کیا تھا اور آپ کی آواز عام آواز سے ذرا متغیرتھی۔اور آواز کا آخری حصہ عجیب انداز سے باریک ہوجا تا تھا۔اور دوران خطبہ میں آپ نے مولوی صاحبا ن سے یہ فرمایا تھا کہ جو لفظ لکھنے سے رہ جاوے وہ مجھ سے ابھی پوچھ لو کیوں کہ بعد میں ممکن ہے کہ وہ مجھے بھی معلوم رہے یا نہ رہے ۔ اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ بعد خطبہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ یہ خطبہ میری طر ف سے نہ تھا بلکہ میرے دل میں اللہ کی طرف سے الفاظ ڈالے جاتے تھے اور بعض اوقات کچھ لکھا ہوا میرے سامنے آجاتا تھا اور جب تک ایسا ہوتا رہا خطبہ جاری رہا۔لیکن جب الفاظ آنے بند ہوگئے خطبہ بند ہو گیا ۔اور فرماتے تھے کہ یہ خطبہ بھی ہمارے دوستوں کو یاد کر لینا چاہئے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہم اُس وقت بچے تھے ۔صرف سات آٹھ سال کی عمر تھی لیکن مجھے بھی وہ نظارہ یادہے ۔ حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آوازمیں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں۔یہ خطبہ، خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ چکا ہے ۔لیکن اس خطبہ الہامیہ کے صرف پہلے اڑتیس صفحے جہاں باب اوّ ل ختم ہوتا ہے اصل خطبہ کے ہیں۔جو اس وقت حضرت نے فرمایا اور باقی حصہ بعد میں حضرت صاحب نے تحریراً زیادہ کیا تھا ۔نیز خاکسارعرض کرتا ہے کہ خطبہ الہامیہ اس عیدالاضحی میں دیا گیا تھا جو 1900ء میں آئی تھی مگر شائع بعد میں 1902ء میں ہوا۔‘‘
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر156)
خطبہ الہامیہ کا پس منظر
یوم العرفات کو علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو اطلاع دی کہ
’’میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں،اس لیے تمام دوست جو یہاں موجود ہیں۔اپنا نام معہ جائے سکونت لکھ کر میرے پاس بھیج دیں،تاکہ دعا کرتے وقت مجھے یاد رہے۔‘‘
اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضورؑ کی خدمت میں بھیج دی گئی۔اس کے بعد اور احباب باہر سے آگئے۔جنہوں نے زیارت اور دعا کے لئے بے قراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دئے۔حضورؑ نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ
’’میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے۔اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے۔‘‘
مغرب اور عشاء میں حضورؑ تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھی گئیں۔بعد فراغت فرمایا:
’’چونکہ میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں۔ اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو۔‘‘
یہ فرما کر حضورؑ تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے۔دوسری صبح عید کے دن مولوی عبد الکریم صاحب نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی۔اس پر حضورؑ نے فرمایا:’’خدا نے ہی حکم دیاہے۔‘‘اور پھر فرمایا کہ
’’رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو۔میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا۔شاید یہی مجمع ہو۔‘‘
خطبہ الہامیہ کا نشان
یہ خطبہ جو اللہ تعالیٰ کے القاء وایماء کے موافق حضورؑ نے عربی زبان میں پڑھا۔یہ خطبہ آیات اللہ میں سے ایک زبر دست آیت اورلا نظیر نشان ہے جو ایک عظیم الشان گروہ کے سامنے پورا ہوا،اور ’’خطبہ الہامیہ‘‘کے نام سے شائع فرما دیا گیا۔
جب حضرت اقدسؑ عربی خُطبہ پڑھنے کے لیے تیار ہوئے، تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓکو حکم دیا کہ وہ قریب ترہوکر اس خطبہ کو لکھیں۔ جب حضرا ت مولوی صاحبان تیارہوگئے، تو حضورؑ نے یَاعِبَادَ اللّٰہِ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا۔ اثناء خطبہ میں حضرت اقدس ؑ نے یہ بھی فرمایا:
’’اب لکھ لو پھر یہ لفظ چلے جاتے ہیں۔‘‘
جب حضرت اقدس ؑ خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے، تواکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحبؓ اُس کا ترجمہ سنانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سُنائیں، حضرت اقدس ؑنے فرمایا۔ کہ
’’اس خطبہ کو کل عَرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو مَیں نے دُعائیں کی ہیں۔ ان کی قبولیت کے لئے نشان رکھاگیا تھا کہ اگر مَیں یہ خُطبہ عربی زبان میں اِرتجالاً پڑھ گیا، تو وہ ساری دُعائیں قبول سمجھی جائیں گی۔ الحمدللہ کہ وُہ ساری دُعائیں بھی خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق قبول ہوگئیں۔‘‘
سجدۂ شُکر ’’مبارک‘‘
ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سُنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدس ؑ فرطِ جوش کے ساتھ سجدہ ٔ شکرمیں جا پڑے ۔ حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدۂ شکرادا کیا۔ سجدہ سے سراُٹھاکر حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
’’ابھی مَیں نے سُرخ الفاظ میں لکھادیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 2صفحہ 29۔31)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہو اکہ کچھ عربی میں بولو چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُر معانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو کتاب خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی ۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے یہ تقریر وہ ہے جس کے اس وقت قریباً ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔‘‘
(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد18صفحہ 588)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’11؍اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ یعنی اس کلام میں خدا کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔ چنانچہ اس الہام کو اُسی وقت اخویم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور اخویم حکیم مولوی نور دینصاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے اور ماسٹر عبد الرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی۔اے۔ اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی۔ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو200 کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہ بیان کر سکے یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘
(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن جلد22صفحہ 375-376)
(باقی آئندہ)