متفرق مضامین

کیا خصوصی کمیٹی میں ایک حوالہ بھی غلط ثابت نہیں ہوا؟ (قسط چہارم)

(ابو نائل)

گذشتہ قسط میں ہم یہ ذکر کر رہے تھے کہ الاعتصام میں شائع ہونے والے مضمون میں دائود ارشد صاحب نے یہ الزام لگایا تھا کہ جہاد تو قرآن کریم کا ایک دائمی حکم ہے اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اسے حرام قرار دے دیا۔اس طرح نعوذُ باللہ قرآن کریم کا حکم منسوخ کر دیا۔اور اس کے ساتھ احمدی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ ہےکہ قرآن کریم کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہو سکتا ہے۔

چونکہ دائود ارشد صاحب جس کتاب پر تبصرہ کر رہے ہیں اس میں اس موضوع کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ اس میں درج دلائل سے جان چھڑانے کے لیے مضمون نگار صرف ایک جملہ لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ جہاد کی اقسام اور شرائط سے کون انکار کرتا ہے۔اسی جملے سے صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔جہاد تو کبھی ختم نہیں ہوا۔ قلم کا، زبان کا، مالی قربانی کا اور اپنے نفسوں سے جہاد تو جاری ہے۔ اور ذرا دنیا پر نظر ڈال کر دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اس جہاد میں سب سے آگے ہے۔یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک ہر قسم کا جہاد ختم ہو چکا ہے۔ہر زمانے میں اس زمانے کی ضرورت کے مطابق جہاد کیا جاتا ہے۔

اس دَور میں کون سے جہاد کی ضرورت ہے؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی فلاسفی ان الفاظ میں بیان فرمائی :’’دوسرا امر جو اس بات کے سمجھنے کے لئے شرط ہے کہ ایک دین دوسرے تمام دینوں پر اپنی خوبیوں کے رو سے غالب ہے یہ ہے جو دنیا کی تمام قومیں آزادی سے باہم مباحثات کرسکیں اور ہر ایک قوم اپنے مذہب کی خوبیاں دوسری قوم کے سامنے پیش کرسکے اور نیز تالیفات کے ذریعہ سے اپنے مذہب کی خوبی اور دوسرے مذاہب کا نقص بیان کرسکیں اور مذہبی کشتی کے لئے دُنیا کی تمام قوموں کو یہ موقعہ مل سکے کہ وہ ایک ہی میدان میں اکٹھے ہوکر ایک دوسرے پر مذہبی بحث کے حملے کریں اور جیسا کہ دریا کی ایک لہر دُوسری لہر پر پڑتی ہے ایک دوسرے کے تعاقب میں مشغول ہوں اور یہ مذہبی کشتی نہ ایک دو قوم میں بلکہ عالمگیر کشتی ہو جو دُنیا کی قوموں میں سے کوئی قوم اِس کشتی سے باہر نہ ہو۔ سو اس قسم کا غلبہ اسلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں میسر نہیں آسکا۔ کیونکہ اوّل تو اُس زمانہ میں دُنیا کی تمام قوموں کا اجتماع ناممکن تھا اور پھر ماسوا اِس کے جن قوموں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ پڑا اُن کو مذہبی امور میں دلائل سننے یا دلائل سنانے سے کچھ غرض نہ تھی بلکہ اُنہوں نے اُٹھتے ہی تلوار کے ساتھ اسلام کو نابود کرنا چاہا اور عقلی طور پر اس کے رد کرنے کے لئے قلم نہیں اُٹھائی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانہ کی کوئی ایسی کتاب نہیں پاؤگے جس میں اسلام کے مقابل پر عقل یا نقل کے رنگ میں کچھ لکھا گیا ہو بلکہ وہ لوگ صرف تلوار سے ہی غالب ہونا چاہتے تھے اِس لئے خدا نے تلوار سے ہی اُن کو ہلاک کیا مگر ہمارے اِس زمانہ میں اسلام کے دشمنوں نے اپنے طریق کو بدل لیا ہے اور اب کوئی مخالف اسلام کا اپنے مذہب کے لئے تلوار نہیں اُٹھاتا اور یہی حکمت ہے کہ مسیح موعود کے لئے یَضَعُ الْحَرْبُ کا حکم آیا یعنی جنگ کی ممانعت ہوگئی اور تلوار کی لڑائیاں موقوف ہوگئیں اور اب قلمی لڑائیوں کا وقت ہے اور چونکہ ہم قلمی لڑائیوں کے لئے آئے ہیں اِس لئے بجائے لوہے کی تلوار کے لوہے کی قلمیں ہمیں ملی ہیں۔ اور نیز کتابوں کے چھاپنے اور دُور دراز ملکوں تک اُن تالیفات کے شائع کرنے کے ایسے سہل اور آسان سامان ہمیں میسر آگئے ہیں کہ گذشتہ زمانوں میں سے کسی زمانہ میں اُن کی نظیر پائی نہیں جاتی۔ یہاں تک کہ وہ مضمون جو برسوں تک لکھنے ناممکن تھے وہ دنوں میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسا ہی وہ تالیفات جن کا دوردراز ملکوں میں پہنچانا مدت ہائے دراز کا کام تھا وہ تھوڑے ہی دنوں میں ہم دنیا کے کناروں تک پہنچا سکتے ہیں اور اپنی حجت بالغہ سے تمام قوموں کو مطلع کرسکتے ہیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ اشاعت اور اتمام حجت ناممکن تھی کیونکہ اُس وقت نہ کتابوں کے چھاپنے کے آلات تھے اور نہ دوسرے ممالک میں کتابوں کے پہنچانے کے لئے سہل اور آسان طریق میسر تھے۔‘‘

(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد 23صفحہ92تا93)

جہاد کی ایک قسم قتال اور جنگ کا جہاد ہے۔ اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق جس کا حوالہ گذشتہ قسط میں دیا گیا تھا اس جہاد کے کرنے کی اجازت کچھ شرائط سے مشروط ہے۔ جس کا ذکر کتاب ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گذری ‘‘میں کیا گیا تھا۔ اس پر دائود ارشد صاحب کچھ خفا سے ہوگئے کہ اس کتاب کے مصنف نے خواہ مخواہ ان شرائط کا ذکر کیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ الاعتصام کے یہ مضمون نگار جہاد کی شرائط کے ذکر سے کچھ گھبرا رہے ہیں۔ اس گھبراہٹ کی ایک وجہ ہے۔

اس کی وجہ سمجھنے کے لیے ہمیں خصوصی کمیٹی کی 21اور 22 اگست کی کارروائی پر نظر ڈالنی ہو گی۔ ان دو دنوں میں جہاد اور اس کی شرائط کے بارے میں سوال و جواب ہوئے تھے۔اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ پیشگوئی تھی کہ مسیح کی آمد ثانی کے وقت قتال کی شرائط پوری نہیں ہوں گی اس لیے یہ وقت دین کے نام پر قتال کرنے کا نہیں ہو گا۔اور فرمایا تھا کہ اگر قتال کی قرآنی شرائط پوری نہ ہوں اور قتال کیا جائے تو یہ حرام ہوگا۔جب اٹارنی جنرل صاحب نے اس بحث کو لمبا چلایا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒنے اہل حدیث احباب کے مشہور لیڈر اور جماعت احمدیہ کے اشد مخالف مولانا نذیر حسین صاحب کا فتویٰ پڑھ کر سنایا۔ اور اہل حدیث احباب کا یہ فتویٰ کتاب ’’خصوصی کمیٹی میں کیا گذری ‘‘ میںمن و عن درج کیا گیا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس دور میں خود اہل حدیث احباب نے دوسرے فرقوں کی طرح جہاد یعنی قتال کی ممانعت اور ناجائز ہونے کا فتویٰ دیا تھا۔

(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء صفحہ 1096تا 1109)

دائود ارشد صاحب یا رسالہ الاعتصام یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ ان کے ماضی کے ان گمنام گوشوں سے پردہ اُٹھے کیونکہ اب وہ لوگوں کو یہی یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب انگریز یہاں پر حکمران تھے تو ہم تو ہمیشہ جہاد کے لیے تیار رہتے تھے۔یہ احمدی تھے جو کہ اس وقت جہاد بالسیف کی مخالفت کر رہے تھے۔اور حقیقت کیا تھی؟ اس کے بارے میں ہم حوالے پہلے ہی درج کر چکے ہیں۔

اہل حدیث کا فتویٰ کہ مسیح کے دَور میں حکم جہاد اُٹھا دیا جائے گا

اب ہم اس پہلو کا جائزہ لیتے ہیں کہ آنے والے مسیح اور مہدی کے زمانے میں جہاد بالسیف کے حوالے سے اہل حدیث فرقہ کے کیا عقائد تھے؟ کیا ان کا یہ عقیدہ تھا کہ جب مسیح و مہدی کا ظہورہوگا تو وہ اعلان جہاد کریں گے۔ یا ان کے عقائد اس کے بالکل برعکس تھے۔ہم اہل حدیث کے مشہور عالم اور جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریروں کے حوالے پیش کرتےہیں۔مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تحریر کرتے ہیں:’’امام مہدی کا آنا حضرت مسیح کی آمد ثانی کےلئے نشان اور بطور شرط ہونا تبعاََ و ضمناََ بیان ہوا ہے۔ اب ان کی آمد پر مستقل بحث کی جاتی ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوگا ہے کہ وہ بھی حضرت مسیح کی طرح اپنے مشن میں سیفی جنگ و تلوار و تفنگ سے کام نہ لینگے بلکہ صرف آسمانی نشانات اور روحانی برکات سے دنیا میں دین اسلام کی اشاعت کریں گے۔‘‘

(اشاعۃ السنہ جلد 22 نمبر 4صفحہ113)

اب ہم اس مضمون کی خصائص و برکات امام مہدی کی انہی لوگوں کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ تلوار و تفنگ اور خون ریزی و جنگ امام مہدی کے شایان شایان نہیں ہے۔ اور ان کی آسمانی برکات خون ریزی و جنگ سیفی سے ان کو مستغنی کریں گے۔و باللہ التوفیق…

’’امام مہدی کسی سوتے کو نہ جگائینگے اور کسی جان کا خون نہ بہائینگے اور نہ کسی کو کسی جان کی خون ریزی کا حکم دینگے۔‘‘

(اشاعۃ السنہ جلد 22نمبر 4صفحہ133)

’’مہدی علیہ السلام کا وقت جو کہ [جو بعینہ حضرت مسیح کی آمد ثانی کا وقت ہے]حکم جہاد جو ابتداء بعثت نبوی بلکہ اس سے بھی پہلے نبیوں کے وقت سے مستمر چلا آتا تھا اٹھا دینے کا وقت ہوگا۔‘‘

(اشاعۃ السنہ جلد 22 نمبر 4 صفحہ 134)

یہ اعلان اہل حدیث احباب کی طرف سے کیا گیا تھا کہ ان کے نزدیک مہدی اور مسیح کے زمانے میں جہاد کا حکم اٹھا دیا جائے گا۔ ہم نے حوالے درج کر دیے ہیں۔دائود ارشد صاحب سے درخواست ہے کہ وہ ان کو من و عن رسالہ الاعتصام میں شائع کریں۔ اور اس کے نیچے یاتو یہ اقرار شائع کریں کہ ہم ان نظریات سے متفق ہیں۔یا پھر یہ تبصرہ درج کریں کہ برطانوی عہد میں اہل حدیث فرقے کے علماء انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنے عقائد تبدیل کر کے شائع کررہے تھے۔اس پس منظر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ بودا اعتراض کہ نعوذُباللہ انہوں نے مستقل قرآنی حکم کو بدل دیا تھا ایک نامعقول اعتراض سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ان اہل حدیث مصنفین کو جو جماعت احمدیہ پر اس قسم کا اعتراض کرتے ہیں میرا ایک مشورہ ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ اس اعتراض کو ترک کر دیں کیونکہ اگر اس اعتراض کو دہرایا گیا تو خود ان کے مسلک کے بزرگوں کی ایسی تحریریں سامنے آئیں گی جن کے سامنے آنے کو وہ پسند نہیں کریں گے۔ خوامخواہ اپنی پردہ دری کروانے کا کیا فائدہ۔ ہم نے نہایت اختصار سے چند حوالے درج کیے ہیں۔ ورنہ اس قسم کے ثبوتوں کا تو ایک انبار موجود ہے۔

کیا خصوصی کمیٹی میں ایک حوالہ بھی غلط ثابت نہیں ہوا تھا؟

جیسا کہ گذشتہ اقساط میں ذکر کیا گیا تھا کہ کسی وجہ سے الاعتصام کے یہ مضمون نگار پسند نہیں کرتے کہ 1974ء میں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی کا ذکر کریں یا اس پر بحث کریں۔اور نہ ہی ان کا ارادہ ہے کہ جس کتاب پر تبصرہ کرنے کے لیے انہوں نے مضامین کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا، اس کتاب میں اُٹھائے گئے نکات کا کوئی جواب عنایت فرمائیں۔

اس مضمون کی چھٹی قسط میں وہ اس طرف کا رخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے اس قسط کا آغاز ان الفاظ سے کیا :

’’ ڈاکٹر سلطان صاحب نے اپنی کتاب میں بھرپور تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ قومی اسمبلی میں کئی ایک حوالے جعلی ثابت ہوئے تھے۔

حالانکہ یہ سرے سےکذب اور دروغ گوئی ہے، ہم پوری ذمہ داری اور اپنی دین و ایمان کی محکمیکی بناء پر کہتے ہیں کہ کوئی ایک حوالہ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا جو سرے سے قادیانی کتب میں موجود نہ ہو، پوری قادیانیت سر توڑ کوشش کے باوجود اس کی ایک مثال بھی ثابت نہیں کر سکتی جو سلطان صاحب نے کی ہے، ان کی حقیقت آگے بفضلہ تعالیٰ آرہی ہے۔‘‘

(الاعتصام 2؍تا 8؍جولائی 2021ءصفحہ18)

اس دعوے کے بعد پڑھنے والا یہ امید کرے گا کہ اس کے فوری بعد وہ اس کتاب میں اُٹھائے گئے نکات کا جواب دیں گے۔ اور یہ ثبوت دیں گے کہ اس کتاب میں فلاں حوالے کے متعلق یہ لکھا گیا تھا کہ اسے اس کمیٹی میں پیش کیا گیا لیکن یہ جعلی ثابت ہوا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ حوالہ بالکل درست دیا گیا تھا اور اس کا ثبوت اس مضمون میں درج کیا جاتا ہے۔

لیکن اس راستہ کو اختیار کرنے کی بجائے اس قسط میں دائود ارشد صاحب ایک بار پھر فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور یہ ذکر شروع کر دیتے ہیں کہ احمدیوں نے بارہا اپنی کتب میں جعل سازی کی ہے اور دو پیراگراف کے بعد یہ غیر متعلقہ بحث لے بیٹھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جائیداد کی کل قیمت کتنی تھی؟بھلا اس کا اس بات سے کیا تعلق کہ قومی اسمبلی میں جو حوالے پیش کیے گئے وہ صحیح تھے یا غلط تھے۔

حوالے کس طرح پیش ہوتے تھے؟

اب ہم اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں کہ قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے مخالفین کا پیش کردہ کوئی حوالہ غلط نہیں ہوا تھا۔ معین مثالیں پیش کرنے سے قبل چند باتوں کا واضح کر دینا ضروری ہے۔یہ ممبران اپنے اعتراضات کے ساتھ جو حوالے پیش کرتے تھے، کارروائی شروع کرنے سے قبل ہی ان کے علم میں ہوتا تھا کہ آج یہ سوال اور یہ حوالہ پیش کرنا ہے اور انہیں تیاری کے لیے کئی دن بھی مل جاتے تھے۔ اور انہیں اختیار ہوتا تھا کہ وہ کوئی حوالہ پیش کریں یا نہ کریں۔اور جن کتابوں سے حوالے پیش کیے جا رہے تھے، وہ کتابیں سامنے پڑی ہوتی تھیں اور سپیکر صاحب نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ جس کتاب سے جو حوالہ پیش کرنا ہو وہ حوالہ اس کتاب سے نکال کر وفد کے سامنے رکھا جائے۔ اور ایک کمیٹی کے علاوہ ایک لائبریرین بھی ان کی اعانت کر رہا تھا۔اگر اس سارے اہتمام کے بعد بھی ان کے پیش کردہ حوالے متواتر غلط ہوتے رہے تو ان با کمال غلطیوں سے کیا نتیجہ نکالا جا سکتا ہے؟ اور حیرت کی بات ہے کہ جیسا کہ ہم گذشتہ اقساط میں حوالہ درج کر چکے ہیں کہ سپیکر صاحب نے خود ہی ابتدائی دنوں میں یہ اعتراف کیا تھا کہ حوالے صحیح طرح پیش نہیں کیے جا رہے اور یہاں تک بھی ہو رہا ہے کہ جس کتاب سے حوالہ پیش کیا جاتا ہے اس کتاب کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس کے بعد اس حقیقت سے انکار کرنے پر’’مدعی سست اور گواہ چست‘‘والی مثل پوری ہوتی ہے۔

اس کے برعکس جماعت احمدیہ کے وفد کو دو تین کتابوں سے زائد کتابوں کو اپنے ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ انہیں سوال کا علم اسی وقت ہوتا تھا جب وہ سوال خصوصی کمیٹی میں پڑھا جاتا تھا۔ البتہ وفد کو یہ اختیار ہوتا تھا کہ وہ اس حوالے کو چیک کرنے کے لیے وقت لے لیں۔

سپیکر صاحب کی تاکید

اب ذرا 6؍اگست 1974ءکی کارروائی کے آغاز کا مطالعہ فرمائیں۔اس کے آغاز کے وقت سپیکر صاحب نے اٹارنی جنرل صاحب سے کہا کہ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ جن کتب کا حوالہ دینا ہے وہ کتب آپ کے قریب رکھ دی جائیں۔ اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا کہ

They are available

ترجمہ: انہیں مہیا کر دیا گیا ہے

قدرتی بات ہے کہ ایک وکیل ہونے کی وجہ سے سپیکر صاحب اس بات کی اہمیت کو سمجھتے تھے کہ جو حوالے پیش کیے جائیں وہ درست ہوں اور انہیں صحیح طرح پیش کیا جائے۔ اس لیے انہوں نے بہت معین طریق پر دریافت کیا کہ

All are available ?

ترجمہ: کیا تمام موجود ہیں

اس کے جواب میں سپیکر صاحب نے سپیشل کمیٹی کے روبرو یہ آن ریکارڈ فخریہ دعویٰ دوبارہ پیش کیا

They are available

ترجمہ: انہیں مہیا کر دیا گیا ہے

اس پر تیسری مرتبہ سپیکر صاحب نے تاکید کی کہ جو حوالہ بھی پیش کیا جائے وہ حوالہ وفد کو دکھا دیا جائے کہ یہ ہے وہ حوالہ۔اتنے دعووں اور اتنی تاکیدوں کے بعد کیا ہوا؟ دائود ارشد صاحب سے درخواست ہے کہ وہ صفحہ نمبر 218 اور 219 پر دیا گیا حوالہ پڑھیں۔اٹارنی جنرل صاحب نے حوالہ پڑھا ریویو آف ریلجنز صفحہ 129۔کیا ان کے ذہن رسا میں یہ نہیں آیا کہ یہ بتا دیں کہ یہ صفحہ نمبر ریویو آف ریلیجنز کے کون سے شمارے یا کون سی جلد کا ہے۔اٹارنی جنرل صاحب نے یہ دعویٰ کیا کہ ریویو آف ریلیجنز میں درج یہ تحریر خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہے۔جبکہ یہ تحریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نہیں ہے۔جو تحریر وہ پڑھ رہے تھے وہ اس رسالے کی جلد 14 کے صفحہ نمبر 169پر شائع ہوئی تھی۔اس پر یہ عذر پیش کیا جائے گا کہ کیا ہوا اگر یہ تحریر خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی نہیں کسی اور کی تو ہے۔ لیکن یہ ایک بودا عذر ہے۔ اگر یہ حوالہ ان کے سامنے تھا تو پھر خلاف واقعہ یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ یہ تحریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ہے۔اگر ان کے سامنے حوالہ نہیں تھا تو پھر سپیشل کمیٹی کے سامنے یہ غلط دعویٰ نہیں پیش کرنا چاہیے تھا کہ جو حوالے وہ پیش کر رہے ہیں وہ ان کے سامنے موجود ہیں۔لیکن یہ تو ابتداتھی ملاحظہ فرمائیں اس کے بعد کیا ہوا؟

اب اسی روز کی کارروائی کے صفحہ 261پر نظر ڈالیں۔ اٹارنی جنرل صاحب نے کہا کہ الفضل28؍اکتوبر 1952ء میں اس بارے میں وضاحت شائع ہوئی تھی کہ حضرت چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مکمل حوالہ پڑھا جائے تو اس میں اس بات کوئی ذکر ہی نہیں کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحبؓ نے قائد اعظم کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا۔یہ غلط بیانی نہیں تو اور غلط بیانی کسے کہتے ہیں؟

ابھی اس کارنامے کو چند منٹ گذرے تھے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے اپنی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب ’’ آئینہ صداقت ‘‘ کا حوالہ پڑھنے کی کوشش کی اور کہا ’’یہ جی مرزا غلام احمد نے آئینہ صداقت میں‘‘۔پھر خود ہی ڈگمگاکر پوچھنے لگے کہ ’’ یہ ان کی تصنیف ہے؟‘‘۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی تصنیف نہیں ہے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ بتائیں کہ یہ کس کی تصنیف ہے تو وہ یقین سے یہ نہیں بتا سکے کہ یہ کس کی تصنیف ہے۔(کارروائی سپیشل کمیٹی صفحہ 287)اس صورت حال میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے اور ان کی ٹیم نے سپیشل کمیٹی کے سامنے واضح غلط بیانی کی تھی کہ وہ جو حوالے پیش کر رہے ہیں، ان کی کتابیں ان کے سامنے اس وقت موجود ہیں۔ چونکہ جماعت احمدیہ کے وفد کو وہاں پر دو تین سے زائد کتب لانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے اس طرح کی غلط بیانیوں سے جماعت احمدیہ کے وفد کو دبائو میں لانے کی موہوم کوشش کر رہے تھے۔

اس غلط حوالے کو چند منٹ گذرے تھے کہ اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک اور کتاب ’’نہج المصلی‘‘بھی دریافت کر لی۔ پہلے انہوں نے کہا ’’یہ جی نہج المصلی صفحہ نمبر 382‘‘۔اس کتاب کے نام کو سن کر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے فرمایا:’’یہ کس کی لکھی ہوئی ہے؟ ‘‘اب کتنا واضح سوال تھا۔ اگر جن کتابوں کے حوالے دیے جا رہے تھے، وہ کتابیں ان کے دعوے کے مطابق سامنے موجود تھیں تو کتنا آسان کام تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب کتاب اُٹھا کر جماعت کے وفد کو دے دیتے اور بتا دیتے کہ یہ ان صاحب کی لکھی ہوئی کتاب ہے؟ لیکن سٹپٹا کر انہوں نے کہا ’’یہ کہتے ہیں سوال کرنے والے کہ یہ مرزا صاحب۔ مرزا غلام احمد صاحب نے یہ کہا اور انہوں…‘‘ اس جواب سے تو یہی سمجھ آتی ہے کہ وہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لکھی ہوئی کتاب کا حوالہ پیش کر رہے ہیں۔اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ اس نام کی کتاب جماعت میں کسی اتھارٹی نے نہیں لکھی۔اس پر اٹارنی جنرل صاحب نے اپنا بھانڈا خود ہی پھوڑ دیا اور کہا ’’ یعنی آپaccept نہیں کرتے۔ آپ کےکسی opponentنے لکھی ہے۔‘‘ان کی سادگی ملاحظہ فرمائیں کہ وہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں سنجیدہ بحث کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور اس تگ و دو میں ایک حوالہ پیش کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ یہ کتاب کس نے لکھی ہے۔ کسی احمدی نے لکھی ہے یا جماعت کے مخالف نے لکھی ہے۔کوئی ذی ہوش اس کارروائی کے بارے میں کیا رائے قائم کر سکتا ہے۔

جب وقفہ ہوا تو سپیکر صاحب نے پھر ڈانٹ ڈپٹ شروع کی کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ حوالوں پر نشان لگا کر رکھیں۔ جس نے سوال دیا ہے وہ حوالہ نکال کر بھی دے۔ اور خود ان کا اعتراف شائع ہونے والی کارروائی میں موجود ہے کہ اب حوالہ جات پیش کرنے کا وقت آیا ہے اور کچھ حوالے نہیں مل سکے۔(ملاحظہ فرمائیں کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء صفحہ300تا301)

دائود ارشد صاحب ان صفحات پر درج سپیکر صاحب کے اعتراف پر غور فرمائیں کہ اس خصوصی کمیٹی کا صدر تو اعتراف کر رہا تھا کہ کچھ حوالے مل نہیں سکے۔ اور اس کے بعد بھی ان کے ایسے ہی اعتراف کا ایک اورحوالہ گذشتہ اقساط میں شائع کیا جا چکا ہے۔ اس واضح اعتراف کی موجودگی میں اتنی دہائیوں بعد کوئی اور شخص جو اس کارروائی کے دوران موجود بھی نہیں تھا یہ دعویٰ کس طرح کر سکتا ہے کہ اس کارروائی کے دوران ایک بھی حوالہ غلط ثابت نہیں ہوا۔

اور اس کے بعد کے اجلاس میں بھی اٹارنی جنرل صاحب کی حوالہ دانی کا یہ عالم رہا کہ ایک ٹوٹی پھوٹی عبارت پڑھ کر انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ عبارت الفضل 26؍جنوری 1915ءمیں شائع ہوئی تھی اور اگلے صفحے ہی پر اٹارنی جنرل صاحب یہ فرما رہے ہیں یہ عبارت 29؍جنوری 1915ء کے الفضل میں شائع ہوئی تھی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ عبارت ان دونوں شماروں میں شائع نہیں ہوئی تھی۔

(کارروائی خصوصی کمیٹی1974ءصفحہ330تا331)

یہ صرف دو تین گھنٹے کی کارروائی سے چند مثالیں پیش کی گئی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں باربار غلط حوالے پیش کیے گئے تھے اگر ایک دو مرتبہ ایسا ہوتا تو اس پر گرفت کرنے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن ایسا تو آخر تک اور بار بار ہوتا رہا۔

پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صحیح حوالہ پیش کرنا کیا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی کتاب کا حوالہ دینا ہے تو حوالہ پیش کرنے والا بتائے کہ کتاب کا نام یہ ہے اور مصنف کا نام یہ ہے اور کتاب کے اس ایڈیشن کے اس صفحے پرجو اس ناشر نے شائع کیا یہ معین عبارت لکھی ہے۔یہ کہنا کہ یہ عبارت احمدیوں کی کسی نہ کسی تحریر میں ضرور موجود ہو گی یا یہ دعویٰ کہ ہم اب ایسا حوالہ پیش کر دیں گے، ایسا ہی عبث دعویٰ ہے جسے مشت بعد از جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے۔جنگ 1974ء میں لڑی گئی جس میں حوالے غلط ثابت ہو گئے اور صحیح حوالے دینے کا خیال 2021ءمیں آ رہا ہے۔(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button