آنحضرت ﷺ اور خلفائے راشدین کی سیاسی بصیرت کے عدیم المثال اور بے نظیر نمونے (قسط اوّل)
’’سیاست‘‘عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کے معنی اصلاحِ ذات، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ حکومت کے ہیں۔(تاج العروس، جلد16،صفحہ 157)
سیاست کا مطلب ایسی تدبیر کرنا ہے جس سے کسی چیز کو استحکام مل جائے، اس کی اصلاح ہوجائے اور وہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوجائے۔یعنی معروف معنی میں سیاست کا مفہوم ملک اور عوام کی اصلاح ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمْ الْاَنْبِیَاءُ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ وَ اِنَّہٗ لَانَبِیَّ بَعْدِیْ وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ… (بخاری، کتاب المناقب باب ما ذکر عن بنی اسرائیل،مسلم و مسند احمد 297/2،بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر 977صفحہ 927)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے پہلے بنی اسرائیل کی سرداری اور حکومت انبیاء کے سپرد ہوتی تھی۔ جب کوئی بھی نبی فوت ہوتا تو اس کا قائم مقام دوسرا نبی بھیج دیا جاتا (جو اپنے احکام جاری کرتا) لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں (جواپنے احکام جاری کرے) بلکہ میرے بعد (میرے ہی احکام کی پیروی کرنے والے ) خلفاء ہوں گے۔…
اس حدیث کو مد نظر رکھ کر دیکھیں تو اسلامی اصطلاح میں نبی یا خلیفہ وہ ہستی یا راہ نما ہے جس کے ذریعے تمام امور کی انجام دہی ہوتی ہے۔وہی اشاعت اسلام کے ساتھ ساتھ قوم کی بہترین راہ نمائی کرتے ہیں اور ان کی خیر خواہی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔اور اگر عام مفہوم دیکھا جائے توراہ نما وہ ہستی ہے جو افراد جماعت یا گروہ کے لیے ایک منزل متعین کرتی ہے، اور نہ صرف منزل کا تعین کرتی ہے بلکہ ایک سچا راہ نما اس منزل تک پہنچنے کے لیے درست راہیں بھی متعین کرتا ہے۔ ایک ترقی پسند راہ نما وہ ہے جو جدت اور تبدیلی کا علمبردار ہو۔ جو کسی بھی معاشرے پر طاری جمود کو توڑ کے اس معاشرے کے افراد میں تبدیلی کا وہ بیج بوئے جو بالآخرانقلاب برپا کرنے کا باعث بنے۔ اگر اس حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کوپرکھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی اپنے زمانے کے اعتبار سے کہیں جدت پسند، کہیں ترقی پسند اور کہیں انقلاب آفرین نظر آتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثالی طرزِ حکمرانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاستِ مدینہ میں تبدیل کر دیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بطورحاکم وفرمانروا،سیاست دان اور عظیم مدبر ومنتظم ہونے کی عمدہ مثال ہے۔
قبل از نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کی مثال
آپؐ کی مکی زندگی میں قبل از نبوت دو واقعات آپ کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبیر کی بہترین مثال ہیں۔ان میں سے پہلا واقعہ تو حلف الفضول کا ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس معاہدے میں شریک تھا۔اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی تدبر کی دوسری شہادت حجر اسود نصب کرنے کاواقعہ ہے۔جب سب نے اپنا حق آپ کو سونپ دیا اور اختلاف ومنافرت کی آگ جو کتنے ہی خرمنوں کو خاکستر کرنے والی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن تدبر سے بجھ گئی اوراہل مکہ پرآپؐ کی عظمت کے ساتھ ساتھ آپؐ کی فراست بھی واضح ہوگئی۔آپؐ نے خدادادفراست سےکام لیتےہوئے حجر اسود کو ایک چادر پر رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں نےاُس چادر کے کونہ کو پکڑا اور اُسےاُس کے مقام تک لے گئے۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر اُس کی جگہ پر رکھ دیا۔
(ماخوذ ازسیرت خاتم النبیینؐ 104تا109)
اہل عرب کا سیاسی نظام قبل از اسلام
ہادی کامل رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس معاشرے میں مبعوث ہوئے وہاں سیاسی طور پر دو طرح کی صورت حال نظر آتی ہے۔ ایک طرف طوائف الملوکی کا دَور دورہ تھا جس میں نہ کوئی مرکزی حکومت، نہ قانون اور آئین اور نہ ہی انسانی حقوق کی پاسداری کا کوئی تصورنظر آتا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس واحد مروّجہ قانون تھا۔چھوٹے چھوٹے قبائل پر مشتمل سرداری نظام اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ مروّج تھا۔دوسری جانب روم اور ایران جیسی سپر پاورزکا جائزہ لیا جائے تو وہاں مکمل طور پہ ملوکیت تھی۔ بادشاہ وقت مختارکُل تھا۔ اسی کی ذات آئین تھی اور وہی قانون تھا۔ عوام الناس میں قوانین کی پابندی تو ملتی تھی لیکن وہاں بھی انسانی حقوق کا کوئی خاص تصور نہیں تھا۔
ریاست مدینہ کے اسلامی خدو خال
ان دو انتہاؤں کے بیچ اگر ہم اسلام کی قائم کردہ ریاست کا جائزہ لیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ مدینہ کی ریاست ہر اعتبار سے ایک مضبوط،متوازن اور عدل وانصاف کا مکمل نمونہ نظر آتی ہے۔
1۔مواخات مدینہ
بحیثیت سیاستدان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر وفراست کی عملی آزمائش ہجرت کے بعد مدینہ میں پیش آئی جب آپؐ نے انتہائی مشکل حالات میں اپنی خداداد بصیرت سے قیامِ امن کی راہیں نکال لیں۔مدینہ میں آپؐ نے شہریت کی کامل تنظیم کا آغاز کیاجس میں آپ کو منتظم ریاست کادرجہ حاصل ہوگیا۔مستحکم معاشرت اور پرسکون اجتماعیت کے لیے آپؐ نے شاندار اقدامات کیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آنے والے مہاجر مسلمانوں میں اور انصار میں ہم آہنگی،یکجہتی اوراستحکام کابڑا مسئلہ آپ نے اپنی سیاسی حکمت عملی سے طے کیا اور مسلم معاشرت کی بنیاد اس مواخات کے اصول پر مضبوط کردی جو انصار ومہاجرین کے مابین طے کی گئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قیام کے ساتھ ہی ایسے اقدامات کیے جن سے آپ کی سیاسی حیثیت اُبھر کر سامنے آگئی۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدینِ حکومت کو ہدایات مسجدنبوی سے روانہ کی جاتیں۔سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہٴ کرامؓ سے یہیں مشورہ کرتے۔ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجدِنبوی میں ہوتا۔ مسجد مسلمانوں کی مشترکہ عبادت، فوج اور سیاسی اجتماع کی جگہ تھی۔ نماز پڑھانے والا امام ہی اہل ایمان کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا کہ ساری دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مالِ غنیمت مسجدنبوی میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تقسیم کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ مسلمانوں کی آباد کاری کا تھا۔اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اوّلیت دی گئی۔ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصارِ مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی۔ایسی حالت میں محسنِ انسانیت نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک جماعت موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔اس جماعت میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا، وہ ختم ہو گیا۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت کی سب سے اہم مثال ہے۔جس سے مسلم معاشرے میں استحکام ہوا اور اسے جارحیت کے خلاف مجتمع ہوکر لڑنے میں مدد دی۔بحیثیت حکمران آپ کی فکر بے مثال تھی۔جسے آپ نے ایک نئی فکر کی طرح اس دقت نظری اور دور اندیشی کے بعد قائم کیا کہ ارباب دانش کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی اصابت فکر کے سامنے سرجھکائے بنا چارہ نہ رہا۔مدینہ میں قائم ہونے والے اس جدید مستقر کو آپ نے ایسی وحدت میں منسلک کردیا جو آج تک عرب کے وہم وخیال میں بھی نہ آسکتی تھی۔
(ماخوذ ازسیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 275تا277)
مہاجروں کے معاشی استحکام کے لیےعملی اقدامات
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا،مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دوکیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرضِ حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیاگیا۔ مواخات مدینہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی اطمینان حاصل ہوگیا۔کیونکہ مدینہ کے منافقین قبائل اوس وخزرج میں پھوٹ ڈالنے کے لیے تدابیر کررہے تھے۔اسی طرح مدینہ میں منافقوں نے مہاجرین وانصار کے مابین اختلاف ومنافرت پھیلانے کی مہم بھی شروع کررکھی تھی مگر معاہدہ ٔمواخات نے ان کی چالیں ختم کردیں۔ان حالات میں اس معاہدہ مواخات کی حکمت اور سیاست کی اہمیت تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔مسلمانوں کےدرمیان منافق عبداللہ بن ابی کی وجہ سے اختلاف پھیلایا جارہاتھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت بادشاہ بننے والاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست وسیاست ہی تھی جس نے منافقین ویہود کی تمام ریشہ دوانیوں کے خلاف مسلمانوں کو سیسہ پلائی د یوار بنادیا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے سیرت خاتم النبیینؐ میں مواخاتِ مدینہ کے کئی رنگ میں مفیدوبابرکت ہونے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ
’’اوّل: جو پریشانی اور بے اطمینانی مہاجرین کے دلوں میں اس بے وطنی وبے سروسامانی کی حالت میں پیدا ہوسکتی تھی وہ اس سے بڑی حد تک محفوظ ہوگئے۔
دوم :رشتہ داروں اور عزیزوں سے علیحدگی کے نتیجہ میں جس تکلیف کے پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ وہ ان نئے روحانی رشتہ داروں کے مل جانے سے جو جسمانی رشتہ داروں کی نسبت بھی زیادہ محبت کرنے والے اور زیادہ وفادار تھے پیدا نہ ہوئی۔
سوم :انصار ومہاجرین کے درمیان جو محبت واتحاد مذہبی اور سیاسی اور تمدنی لحاظ سے ان ایام میں ضروری تھا وہ مضبوط ہوگیا۔
چہارم:بعض غریب اور بے کار مہاجرین کے لیے ایک سہارا اور ذریعہ معاش پید اہوگیا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 277)
داخلی سیاسی پالیسی کا نفاذ
معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا۔ان غیر مسلموں کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔امورِ داخلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی توجہ استحکامِ امن اور اخلاقی تربیت کی طرف رکھی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے اور استحکام بخشنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔
موٴاخات اور میثاقِ مدینہ کے علاوہ قریبی قبائل سے معاہدے کیے۔اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تدبیر یہ اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے،تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و سیاسی پوزیشن مزید مستحکم ہو۔
میثاق مدینہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی پالیسی کی دوسری اہم مثال میثاق مدینہ ہے۔یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا، جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکابِ جرم پر گرفت اور مواخذہ نے دباؤ ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی اس میں رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقا کا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں ) پر دستِ استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوتِ اسلام موٴثر طریق سے دی جا سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں۔لیکن اب آپؐ منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔
مواخات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہالیان مدینہ کو مستحکم کیا۔اب اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے مسلم اور غیر مسلم کوخاص نکتے پر جمع کیا کیونکہ یہ اس وقت کی شدید ضرورت تھی کہ اہل مدینہ خواہ مسلم ہوں یا یہود،متفق ہوں۔اور ان کے باہمی اختلافات کو ہوانہ ملے۔ اوربیرون مدینہ کے لوگ بھی مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کریں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسیاسی تدبر سے مدینہ کو حفاظت وسکون کے حالات میسر آئے۔میثاق مدینہ بلا شک وشبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدا داد بصیرت کا عظیم شاہکار ہے۔ ایک ایسا شخص جسے اُس کے ہم وطنوں نے وطن چھوڑ دینے پر مجبور کردیا تھا، ہجرت کی مشکلات اور صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے یثرب (مدینہ) پہنچتا ہے اور اس شہر کے چند محلوں پر مشتمل ایک ایسی ریاست قائم کرتا ہے جس نے آگے چل کر قبائلی عصبیت وقومیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے عالمگیر برادری کی بنیادیں استوار کردیں۔آپؐ رنگ ونسل، خاندان،زبان،وطن اور مذہب سے بالاتر ایک ایسی ریاست کا قیام عمل میں لائے جس میں مختلف غیر مسلموں اور مذہبی جماعتوں کو برابری کے حقوق وفرائض تفویض کیے گئے۔ریاست اور شہریوں کے حقوق وفرائض کی وضاحت کی گئی۔ انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے اصول وضوابط وضع کیے گئے اورانصاف ہر شہری کا بنیادی حق قرار پایا۔
میثاق مدینہ کے اہم نکات
میثاق مدینہ درج ذیل شرائط پرمشتمل تھا۔
٭…مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے۔
٭… ہر قوم کو مذہبی آزادی ہو گی۔
٭…تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا۔ سوائے اس کے کہ کوئی شخص جرم یا ظلم کا مرتکب ہو۔
٭…ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلے کےلیے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم (یعنی ہر قوم کی اپنی شریعت) کے مطابق کیا جائے گا۔
٭…کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے لیے نہ نکلے گا۔
٭…اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے۔
٭…اسی طرح اگر مدینہ پر حملہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
٭…قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی۔
٭…ہر قوم اپنے اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی۔
٭…اس معاہدہ کی رو سے کوئی ظالم یا گنہگار یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہوگا کہ اسے سزا دی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ279)
پس اس معاہدے کی بدولت مدینہ میں شہری ریاست کا آغاز ہوا اور رسول کریمﷺ مسلمانوں اور غیرمسلموں کی طرف سے اس ریاست کے سربراہ تسلیم کرلیے گئے اور اس طرح آپ کو ایک بین الاقوامی معاشرہ تشکیل دینے کا موقع ملا۔اس معاہدے کے ذریعہ مذہبی آزادی کا اصول وضع ہوا نیز غیرمسلموں کے ساتھ اتحادو تعاون کے اصول بھی وضع ہوگئے۔ اسی طرح مسلمانوں کے باہمی حقوق وفرائض اور جملہ شہریوں کے آپس میں تعلقات، فرائض اور حقوق کا بھی تعین کیا گیا۔ آپؐ نے اس معاہدے کے ذریعہ ظلم، نا انصافی، عدم مساوات اور ان جیسی دیگر خرابیوں کا سدّباب کیا۔ میثاق مدینہ میں کمزوروں، مظلوموں اور ناداروں کی داد رسی کا پورا خیال رکھا گیا۔نیز اس معاہدے کے ذریعہ ریاست کے شہریوں کے اندر مذہب، قانون، اخلاق اور انسانی قدروں کے احترام کا بھرپور جذبہ پیدا کیا گیا۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی روا داری غیروں کی نظر میں
اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے اسلامی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:’’قرآن شریف فرماتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں…محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان خدائی احکام کی پیروی کرتے تھے اور سب مذاہب کے ساتھ عموماً اورتوحید پرست مذاہب کے ساتھ خصوصاً بہت رواداری برتتے تھے۔آپ کفار کے مقابلہ میں صبراختیار کرتے تھے…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے متعلق یہ ذمہ لیا کہ عیسائی ادارے محفوظ رکھے جائیں گے اور یمن کی مہم کے سپہ سالار کو حکم دیا کہ کسی یہودی کو اس کے مذہب کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے۔ آپؐ کے خلفاء بھی اپنے سپہ سالاروں کو یہ تلقین کرتے تھے…‘‘
(اسلام پر نظرصفحہ14ترجمہ An Interpretation of Islam مترجم شیخ محمد احمد مظہر بحوالہ اسوۂ انسان کاملؐ)
مشہور مستشرق سر ولیم میور اس معاہدے کے ضمن میں تحریر کرتے ہیں:’’آپؐ نے ایک عظیم مدبّر اور سیاست دان کی طرح مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ اور آپس میں منتشر لوگوں کو متحد اور یکجا کرنے کا کام بڑی مہارت سے سرانجام دیا۔ آپؐ ایک ایسی ریاست اور ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو بین الاقوامی اصول پر مبنی تھا۔‘‘
(The Spirit of Islam، صفحہ 58۔از جناب سید امیر علی، کراچی 1969ء)
سرولیم میور (Sir William Muir) رسول کریمؐ کے انداز حکومت کے متعلق لکھتے ہیں:’’…آپ تک ہر کس وناکس کی پہنچ ہوتی جیسے دریا کی پہنچ کنارے تک ہوتی ہے۔ باہر سے آئے ہوئے وفود کو عزت واحترم سے خوش آمدید کہتے۔ ان وفود کی آمد اور دیگر حکومتی معاملات کے متعلق تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ محمدؐکے اندر ایک قابل حکمران کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے۔‘‘
(The Life of Mahomet by William Muir, Vol.IV, London:Smith, Elder and Co.,65 Cornhill, 1861,p.510 to 513)
بیرونی جارحیت سے محفوظ رکھنے کے لیے مشاورت کا نظام
آپؐ نے صدیوں سے جاری قبائلی نظام جو کہ اس وقت عرب کے باسیوں کا واحد نظام حکومت تھا، اس کی گرفت کو کمزور کرکے عوام الناس میں آزادانہ رائے اور خود مختارانہ عمل کا رویہ پروان چڑھایا۔ شہنشاہیت اور قبائلی سرداروں کی آمریت کے برعکس اسلامی معاشرے میں جمہوری سوچ کو پروان چڑھا کر عوام الناس میں شعور اجاگر کیا گیا۔حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت میں عام تقسیم کے مطابق دینی و دنیاوی دونوں حیثیتیں جامع طور پر موجود تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اساسی طور پر دینی تھی،اس لیے آپ کی سیاست بھی دینی تھی۔ انتظامِ سلطنت کے بعض امور وہ تھے جن کا تعلق وحی اور الہام سے ہوتاتھا، اس میں آپ کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں تھی، باقی امور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ مختلف معاملات میں صحابہٴ کرام ؓسے مشورہ کیا کرتے تھے۔ ریاست مدینہ میں جنگی حکمت عملی کے طور پر بہت بڑے بڑے دو فیصلے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتی رائے کو پس پشت ڈال کر عوامی رائے کے مطابق فرمائے۔
اس کی دو مثالیں پیش کرنا چاہوں گی۔پہلا موقع غزوۂ احد کا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم شہر کے اندر رہ کے لڑائی لڑنا چاہتے تھے۔ لیکن صحابہ کرامؓ کی رائے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلے میدان میں جنگ کے لیے نکل آئے۔ اسی طرح غزوۂ خندق کے موقع پر ایک آزاد کردہ غلام حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے پر شہر کے گرد خندق کھود کے جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اس وقت کے سیاسی منظر نامے میں ایسی انقلابی تبدیلی تھی کہ اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اسی طرح صلح نامہ حدیبیہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی بصیرت کا ایک اور شاہکار ہے، جو کہ اسلامی تاریخ کے اوراق میںمانند چراغ آج بھی جگمگاتا ہے۔ لیکن اس وقت کے حالات کے پیش نظر صحابہ کرام ؓاس فیصلے سے سخت دل گرفتہ اور مایوس تھے۔ مایوسی کی اس انتہا پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابرانہ یا آمرانہ انداز میں اپنی مرضی کرنے کا اعلان نہیں فرمایا بلکہ صحابہ کرام ؓکو اسی وقت اعتماد میں لیا اور انہیں اس فیصلے کے نتائج و عواقب کے بارے میں پوری بریفنگ دے کر انہیں اس فیصلے کے درست ہونے کا یقین دلایا۔ یہ اس دَور کے اعتبار سے ایک ناقابل یقین سیاسی انقلاب تھا۔جب مسلمانوں کو دو خطرے تھے۔آپؐ نے مکہ کی طرف سے جنگ کو اس صلح کے ذریعے بند کردیا کہ ان کو جانبدار کردیا اور اس معاوضے میں تجارتی راستہ کھول دیا،یہ زبردست فتح تھی جو مسلمانوں کو ملی۔
مسلمانوں کے حالات کے مطابق سیاست دانی کااقتضا یہی ہوسکتا تھا کہ دونوں میں سے کسی ایک دشمن سے صلح کرلی جائے اور دوسرے کے مقابلے میں اس کو دوست یاطرفدار بنالیا جائے کہ دوسرا خود ہی ہتھیار ڈال دے اور اہل مکہ سے صلح خیبر کے بجائے اس لیے کی گئی کہ مکہ مسلمانوں کے لیے رعایتوں کا متقاضی تھا۔صلح حدیبیہ سفارتی سرگرمی کا پیش خیمہ تھی جو بعد میں فتح مکہ کی بنیاد بنی۔
غزوات النبی میں آپ کی قائدانہ صلاحیت اور دور اندیشی کے نمونے
جیسا کہ مضمون کے آغاز میں ذکر ہوچکا ہے کہ ایک لیڈر یا راہ نما حقیقتاً راہ نما تبھی کہلا سکتا ہے جب وہ ہر پہلو سے اپنی رعایا کے تحفظ اور امور سلطنت کو چلانےکے لیے ہر وہ اقدام کرے جس سے اس کی ریاست کو داخلی اور خارجی بنیادوں پرمستحکم کرنے میں مدد ملے۔اس پہلو سے بھی اگر جائزہ لیں تو غزوات النبی میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کھل کر سامنے آئے، وہاں آپؐ کی قائدانہ صلاحیتوں، حکمت عملی اوردور اندیشی کا بھی کھل کر اظہار ہوا۔ غزوۂ احد کے موقع پر جب آپؐ نے شہر مدینہ سے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کا ارادہ فرمایا تو دشمن آپ کی جرأت مندانہ صف بندی سے حیران و ششدر رہ گیا۔ آپؐ نے احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا، اسی دوران حضورؐ کی نظر اس پہاڑی درے پر پڑی جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوسکتاتھا۔ آپؐ نے وہاں پچاس تیر انداز حضرت عبداللہؓ بن جُبیر کی سرکردگی میں مقرر فرمائے اور انہیں جو ہدایات دیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کوایک بہترین جرنیل ہوتے ہوئے درّے کی نزاکت کا کتنا احساس تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ’’ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو اچک رہے ہیں پھر بھی تم نے درّہ نہیں چھوڑنا سوائے اس کے کہ میرا پیغام تمہیں پہنچے۔‘‘(بخاری کتاب المغازی باب11)
جنگ احد کے بعد جنگ احزاب مسلمانانِ مدینہ کا ایک بہت سخت اور کڑا امتحان تھا۔ جس میں مدینہ سے نکالے گئے یہودبنی نَضیر کے اُکسانے پر قبائل عرب بنو غطفان، بنوسُلیم وغیرہ نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر مدینہ پر اجتماعی حملہ کا خوفناک منصوبہ بنایا۔قبائل عرب کی متحدہ فوجوں کےدس ہزار کے لشکرکے مقابل مسلمان صرف تین ہزارتھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی اطلاع پاکر صحابہ سے مشورہ کیا اور سلمان فارسیؓ کی رائے قبول کرتے ہوئے مدینہ کی حفاظت کے لیے اس کے ایک جانب ایک خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا۔ اس مدبرانہ فیصلے سے مسلمانوں کے جان و مال تمام متحدہ قبائل عرب سے محفوظ رہے، ورنہ وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے مسلمانوں کو اچک لینے کے ارادے لے کر آئے تھے۔اس نہایت نازک موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں،ہر چندکہ یہ موقع مسلمانوں کی زندگی کے سب سے بڑے خطرے کا تھا۔قرآن شریف کے بیان کے مطابق ان کی زندگیوں پر ایک زلزلہ طاری تھا اور جانیں حلق تک پہنچی ہوئی تھیں۔مگر رسولِ خداؐ تھے کہ سب کےلیے ڈھارس، حوصلے اور سہارے کا موجب تھے۔
ایک دنیا کا لیڈر جب اپنے ساتھیوں اور جاں نثاروں کی مدد سے کوئی فتح یا غلبہ پاتا ہے تو اس کے لیے لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس موقع پر اپنے ان رفیقوں کے بھی جذبات کا خیال رکھے خواہ وہ اخلاق اور انسانیت سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں نہ ہوں اور دنیا کی فتوحات کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے۔
ہمارے آقا و مولیٰ کا اسوہ اس میدان میں بھی بے مثال ہے۔ فتوحات حاصل کرنے کے بعد آپؐ نے بھی اپنے صحابہؓ اور جاں نثاروں کا خیال کیا مگر اس طور پر کہ کوئی ایسی معمولی سی حرکت بھی سرزد نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی منشا اور اس کی اعلیٰ تعلیمات کے خلاف ہو۔ آپؐ نے ایسے فتوحات کے مواقع کو ان کی تربیت کےلیے اتنے عمدہ رنگ میں استعمال کیا کہ ان کی خواہشات اور تمنائوں کو ارفع مقاصد کی طرف موڑ دیا اور وہ بھی اپنے آقا کے شانہ بشانہ ان ابتلائوں کو بڑے حسن وخوبی کے ساتھ طے کر گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانی دشمنوں پر غلبہ پایا جنہوں نے آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ کو دکھوں کے جنگلوں سے ننگے پائوں گزرنے پر مجبور کیا تھا۔ اس موقع پر یہ طبعی بات تھی کہ کئی مظلوم صحابہ آج اپنے بدلے اتارنا چاہتے ہوں گے۔ چنانچہ مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے ایک صحابی نے کہا کہ آج جنگ و جدل کا دن ہے اور آج کعبہ کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھا جائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دارالامن کے متعلق اس قسم کے ناپسندیدہ کلمات سنے تو فوراً اس صحابی حضرت سعد بن عبادہ کو لشکر کی کمان سے معزول کر دیا مگر دلجوئی اتنے لطیف طریق سے کی کہ اس کا دل راضی ہو گیا ہوگا۔ آپؐ نے اسی کے بیٹے قیس کو اس قافلہ کا سالار بنا دیا اور فرمایا آج تو رحمت عام کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب این رکز النبی حدیث نمبر3944۔ و شرح فتح الباری زیر حدیث مذکورہ)
رسول کریمؐ کی سیرت کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ آنحضورؐ کا دل نوع انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات سے موجزن تھا۔انسان تو انسان آپؐ سب مخلوقات کے لیے نہایت مہربان اور رحیم وکریم وجود تھے۔جنگوں کے دوران بھی دنیا نے آپ کی رأفت ومحبت اور شفقت علیٰ خلق اللہ کے ایسے عجیب نظارے دیکھے کہ دشمن بھی اُن کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔چنانچہ مشہور مورخ جناب ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon) نبی کریمؐ کی لائی ہوئی پرامن تعلیم کے بارے میں لکھتے ہیں:’’ہر انصاف پسند آدمی ا س حقیقت کا اقرار کرنے کےلیے مجبورہے کہ قرآن ایک بے نظیر قانون ہدایت ہے۔ اس کی تعلیمات فطرتِ انسانی کے مطابق ہیں اور وہ اپنے اثر کے لحاظ سے ایک حیرت انگیز پوزیشن رکھتا ہے۔اس نے وحشی عربوں کی زبردست اصلاح کی۔ ہمدردی اور محبت کے جذبات سے ان کے دلوں کو معمور کردیا اور قتل وخونریزی کو ممنوع قرار دیا۔ یہ اس کا عظیم الشان کارنامہ ہے۔‘‘
(ہسٹری آف دی ورلڈ صفحہ 288 بحوالہ الفرقان ربوہ فروری1955ءصفحہ26)
سفر مکہ کے افشائے راز کا خطرہ
رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت خاموش حکمت عملی کے ساتھ مکہ کوچ کرنے کا قصد فرمایا اور تدابیر کے ساتھ دعائیں بھی کیں کہ قریش کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔اس تمام کاوش کا مقصد قریش کو کشت و خون سے بچانا تھا۔لیکن لشکر اسلام کی اس خاموش تیاری کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے مکہ پرچڑھائی کا راز کھل جانے کا سخت خطرہ پیداہوگیا۔ہوا یوں کہ ایک صحابی حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے مکّہ جانےوالی ایک عورت کے ذریعے قریش کو خط لکھ کر یہ اطلاع بھجوادی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر تیار ہے۔ یہ معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچاؤ کرلو۔ میرا مقصد اس خط سے تم پر ایک احسان کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مخبری کی اطلاع کردی۔ آپؐ نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت علی ؓ کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں بھیجاجو یہ خط واپس لے آئے۔رسول کریمؐ نے حاطب ؓ کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کیاکیا؟ حاطب ؓ نے سچ سچ کہہ دیا کہ یا رسول اللہؐ میں قریش میں سے نہیں ہوں مگر اس خط کے ذریعے میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھا تاکہ وہ مکے میں میرے گھر بار کی حفاظت کریں۔حضرت عمر ؓ اس مجلس میں موجود تھےوہ کہنے لگے۔یارسول اللہؐ!مجھے اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں۔حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف عمرؓ کی سختی پر تحمل سے کام لیا تو دوسری طرف حاطبؓ کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا عمر ؓ! تم جانتے نہیں یہ شخص جنگ بدر میں شامل ہوا تھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور ان کے حق میں فرماتا ہے
اِعْمَلُوْ امَاشِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ
کہ جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہے۔یعنی اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے دلوں میں گناہ کی ایسی نفرت ڈال دی ہے کہ بالارادہ ان سے کوئی گناہ نہیں ہوسکتا۔
(بخاری کتاب المغازی باب 44)
اس رؤوف و رحیم رسول ؐکی شفقت بے پایاں کا یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ کرحضرت عمرؓ بے اختیار رونے لگے۔ان کی حیرانی بجاتھی کہ اپنی زندگی کے اہم،نازک ترین اور تاریخ ساز موڑ پر توکوئی بھی فاتح اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی روک کو قطعاً برداشت نہیں کیا کرتا۔ ایسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کی بھی کوئی پروا نہیں کی جاتی اور آئندہ خطرے سے بچنے کے لیے کم ازکم احتیاط یہ سمجھی جاتی ہے کہ ایسے قومی مجرم کو زیر حراست رکھا جائے، لیکن اس دربار عفو و کرم کی شان دیکھو جس سے حاطبؓ کے لیے بھی مکمل معافی کا اعلان جاری ہوا۔
حیرت ناک حکمت عملی
مرالظہران کے وسیع میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداداد فراست کو کام میں لاتے ہوئے جنگی حکمت عملی کا ایک حیرت انگیز منصوبہ بنایا۔ آپؐ نے صحابہ ؓ کو حکم دیا کہ وہ مختلف ٹیلوں پر بکھر جائیں اور ہر شخص آگ کا ایک الاؤ روشن کرے۔اس طرح اس رات دس ہزار آگیں روشن ہوکر مرالظہران کے ٹیلوں پر ایک پر شکوہ اور ہیبت ناک منظر پیش کرنے لگیں۔
(بخاری کتاب المغازی،باب 44 بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 12؍نومبر 2019ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلامی جنگوں کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’اسلام کی لڑائیاں تین قسم سےباہر نہیں۔(۱)دفاعی طورپر یعنی بہ طریق حفاظت خودمختیاری، (۲)بطور سزایعنی خون کے عوض میں خون، (۳)بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنےکے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔‘‘
(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ12)
بے شک ہمارے آقا و مولاﷺ نے ہمیں جنگ کے ایسے اصول سکھائے جن سے دنیا اس سے قبل نا آشنا تھی تا ہم حضورؐ کی دلی تمنا اور آپ کی خواہش یہی تھی کہ جنگ و جدل کا سلسلہ نہ ہی ہو اور امن کا ماحول میسر ہو تا اشاعت اسلام کے زریں مواقع پیدا ہو سکیں۔
(جاری ہے)