الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

اَسماءُالنّبیﷺکی عظیم الشَّان تجلّیات

مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ (شمارہ نمبر 1 اور 2 برائے 2013ء) میں مکرم قمر داؤد کھوکھر صاحب کے قلم سے آنحضرتﷺ کے اسماء کے حوالے سے دو اقساط پر مشتمل ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم اس بات سے تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے قریش کی گالیاں اور لعنتیں کس طرح پھیردیتا ہے۔ وہ مذمّم کو گالیاں دیتے ہیں اور مذمّم پر لعنت کرتے ہیں۔ جبکہ مَیں محمدؐ ہوں۔ (کفار مکہ دعویٰٔ نبوت سے پہلے رسول اللہﷺ کو امین و صدوق کہتے تھے لیکن دعویٰ کے بعد یہی کفار رسول پاکؐ کا نام بگاڑ کر مذمّم کہا کرتے، نعوذباللہ)۔ مکہ کے سردار جو اس استہزاء میں پیش پیش تھے، بدر اور احد کی جنگوں میں اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔ باقی بچنے وا لوں میں سے بعض تو خود مسلمان ہوگئے اور بعض کی نسلیں آپؐ پر ایمان لے آ ئیں۔ مثلاًابوسفیانؓ نےایک بار رسول اللہﷺ کی ہجو کہی تھی جس کا جواب حضرت حسّانؓ بن ثابت نے دیا تھا۔ یہ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن اس کے بعد رسول اللہﷺ کے سامنے شرم و حیا کی وجہ سے کبھی سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔

معاند اسلام ابو جہل کا جگر گو شہ عکرمہ فتح مکہ کے بعد فرار ہوگیا جب رسول اللہﷺ کی طرف سے امان ملی تو اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں جنگ یرموک میں حضرت عکرمہؓ بھی شریک ہوئے اور جنگ کے دوران مسلما نوں سے کہنے لگے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے بہت سے مواقع پر جنگ کی ہے اور کیا آج تم سے بھاگ جاؤں گا۔ پھر دورانِ جنگ یہ پیدل چلے تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے رائے دی کہ ایسا نہ کرو، مسلما نوں کو تمہارا قتل ہوجانا گراں گزرے گا۔ حضرت عکرمہؓ نے فرما یا : اے خالد! مجھے چھوڑدو اس لیے کہ آپ کی حضورﷺکے ساتھ پرا نی معرفت ہے اور مَیں اور میرا باپ رسو ل اللہؐ کے مخا لفین میں سے تھے۔ یہ کہہ کر آگے بڑھے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔

ہندؓ ابو سفیا نؓ کی بیوی جس نے جنگ اُحد میں عم رسولؐ حضرت حمزہؓ کا سینہ چاک کیا تھا، فتح مکہ کے دن اُس نے نقاب پہن کر اسلام قبول کیا تاکہ رسول اللہﷺ پہچا ن نہ سکیں۔ تاہم آپؐ نے اس کی گفتگو سے اسے پہچا ن لیا لیکن اُحد کے واقعہ کا اس سے ذکر تک نہ فرمایا۔ ہندؓ اس بات سے متأثر ہوکر بےاختیار بول اٹھی کہ یا رسول اللہ! پہلے آپؐ کے خیمہ سے مبغوض تر (ناپسندیدہ)خیمہ میری نگاہ میں نہ تھا لیکن آج آپؐ کے خیمہ سے محبوب تر خیمہ میری نگاہ میں کوئی نہیں ہے۔

بنوحنیفہ کے رئیس ثُمامہؓ بن اُثال گرفتار کرکے مدینہ لائے گئے اور رسول اللہﷺ کے حکم پر مسجد کے ستون کے ساتھ باندھ دیے گئے۔ جب حضورؐ مسجد میں تشریف لا ئے تو اُس سے دریافت کیا کہ کیا کہتے ہو؟ اُس نے کہا ’’اے محمدؐ ! اگر مجھے قتل کرو گے تو ایک خو نی کو قتل کرو گے اور اگر احسان کرو گے تو ایک شکر گزار پر احسان ہو گا۔ اور اگر زرِ فدیہ چاہتے ہو تو تم مانگو مَیں دوں گا۔‘‘ یہ جوا ب سن کر آپؐ خا موش ہو گئے۔ دوسرے دن بھی یہی تقریر ہو ئی۔ تیسرے دن بھی جب یہی جواب دیا تو آپؐ نے حکم دیا کہ ثُمامہ کوآزاد کر دو۔ ثُمامہ پر اس خلا فِ توقع عنایت کا یہ اثر ہو ا کہ جا کر غسل کیا اور مسجد میں واپس آکر کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ پھر عرض کیا: یارسول اللہﷺ! دنیا میں کو ئی شخص میری نظر میں آپؐ سے زیادہ مبغوض (ناپسندیدہ) نہ تھا اور اب آپؐ سے زیا دہ دنیا میں مجھے کو ئی محبوب نہیں۔ کوئی مذہب آپؐ کے مذہب سے زیادہ میری آنکھوں میں برا نہ تھا اور اب وہی سب سے زیادہ پیارا ہے۔ کوئی شہر آپؐ کے شہر سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا اور اب وہی پسندیدہ ہے۔

٭……اسم محمدؐ کی شان

ابن ہشام میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہﷺ کی ولادت کے بعد آپ کے دادا عبدالمطّلب پوتے کے تولد کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ میں لے جاکر اس کے لیے دعا مانگی۔ ساتویں دن عقیقہ کرکے محمدؐ نام رکھا اور کُل قریش کی دعوت کی۔ قریش نے اس نامانوس نام رکھنے کا سبب پوچھا تو کہا کہ یہ نام اس لیے رکھا ہے تاکہ میرا فرزند ساری دنیا میں مدح کا سزاوار قرار پائے۔

ابن ہشام کی ہی روایت کے مطابق آپؐ کے پیدا ہوتے ہی حضرت آمنہ نے حضرت عبدالمطّلب کو اطلاع بھجوائی تو وہ فوراً خوشی کے جوش میں چلے آئے۔ آمنہ نے ان کے سامنے لڑکا پیش کیا اور کہا کہ مَیں نے خواب میں اس کا نام محمدؐ دیکھا تھا۔ عبدالمطّلب بچے کواپنے ہا تھوں میں اٹھا کر بیت اللہ میں لے گئے، وہاں جاکر خدا کا شکر ادا کیا اور بچے کا نا م محمدؐ رکھا۔

اس روایت کی تصدیق حضرت ارباضؓ بن ساریہ سے مروی یہ حدیث بھی کرتی ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: مَیں اپنی وا لدہ کا خواب ہوں، جب مَیں پیدا ہو ا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نُور اُن سے نکلا ہے جس سے شام کے محلاّت روشن ہوگئے ہیں۔

اللہ عزّ و جل نے قرآن کریم میں رسول اللہﷺ کو محمدؐ کے نام سے چار مقامات پر مخا طب فرمایا ہے۔

(1) وَ مَا محمدٌ اِلّا رسول… (آل عمران:145)

(2) مَا کانَ محمدٌ اَبَا اَحَدٍ… ( الاحزاب:41)

(3) و آمِنُو ا بِمَا نُزِّ لَ عَلیٰ محمد… (محمد:3)

(4) محمدٌ رَّسول اللّٰہ وَالَّذین مَعَہٗ … (الفتح:30)

توریت میں بھی آنے والے عظیم الشان رسول کا نا م محمدؐ ہی بتا یا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے بائبل نویسوں نے اس نام کا بھی ترجمہ کر ڈالا اور اصل نام پردہ اخفاء میں چلا گیا۔ چنانچہ بائبل کی کتاب ’غزل الغزلات‘جو کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کی جاتی ہے اور اسے ایک روحانی تمثیل(Spiritual Allegory) قرار دیا جا تا ہے۔ اس کتا ب کے باب 5 کی آیت 16 میں عبرا نی زبان میں لکھا ہے : ’’خِلُّو محمدیم زہ دودی و زہ رَ عی بلوث یروشلیم‘‘ (وہ تو ٹھیک محمدؐ ہے۔ میرا خلیل، میرا حبیب یہی ہے، اے یرو شلم کی بیٹیو۔)

لیکن مترجمین نے لفظ محمدیم کا ترجمہ عجیب انداز سے کیاہے۔ چنانچہ کنگ جیمز کے معروف نسخوں میں اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ :

“His mouth is most sweet: yea, he is altogather lovely. This is my beloved, and this is my friend, O daughters of Jerusalem.” (Solomon‘s Song;5;16)

جبکہ آسٹریلیا سے ترجمہ ہو کر شا ئع کی جا نے والی بائبل ’Good News Bible‘ میں ترجمہ اس طرح ہے:

“His mouth is sweet to kiss; everything about him enchants me. That is what my lover is like, women of Jerusalem.” (Song of Songs;5:16)

اسی طرح اردو با ئبل میں ترجمہ یوں کیا گیا ہے:

’’اس کا منہ از بس شیریں ہے۔ ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب، یہ ہے میرا پیارا۔‘‘ (غزل الغزلات، باب:5 آیت:16 )

پس رسول اللہﷺ کا نام محمدؐ آپؐ کی پیدا ئش کے بعد الٰہی منشا کے تحت رکھا گیا۔ قرآن میں بھی یہی نام مذکور ہے اور بائبل (توریت)کی پیشگو ئیوں میں بھی یہی نام ملتا ہے۔

٭…… رسول اللہﷺ کے بعض اَور اسماء

رسول اللہﷺ کا دوسرا نام ’احمد‘ہے جس کا ذکر حضرت عیسیٰ ؑ کی پیشگوئی میں ملتا ہے۔ جسے قرآن کریم کی سورہ صف کی آیت 7 میں بیا ن کیا گیا ہے۔ اور احادیث میں بھی یہ نام مذکور ہے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ رو ایت کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا کہ میرے کئی نام ہیں۔ میں محمدؐ ہوں، احمدؐ ہوں اور ماحی ہوں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفر کو مٹاتا ہے۔ اور میں حاشرہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔

حضرت ابو مو سیٰ اشعریؓ نے فرمایاکہ رسول اللہﷺ اپنے کئی نام بیا ن فرما یا کرتے۔ فرماتے: مَیں محمدؐ ہوں اور احمدؐ ہوں، میرا نام المُقفِّی، الحاشر، نبی التوبہ اور نبی الرحمۃ ہے۔

’’سنن دارمی‘‘ میں روا یت ہے جس میں آپؐ نے فرمایا کہ مَیں حبیب اللہ ہوں، قیا مت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔

’’تفسیرجلا لَین‘‘ میں کعب احبارؓ کی روایت درج ہے کہ نبی کریمﷺ کا نام جنتیوں کے ہاں عبدالکریم، دوزخیوں کے ہاں عبدالجبار، اہل عرش کے نزدیک عبدالمجید، دیگر ملائکہ کے ہاں عبدالحمید، انبیاءکرام کے ہاں عبدالوھاب، شیاطین کے ہاں عبدالقاہر، جنوں کے ہاں عبدالرحیم، پہاڑوں میں عبدالخالق، جنگل میں عبدالقادر، سمندر میں عبدالمہیمن، حشرات کے ہاں عبدالغیاث اور جانوروں کے ہاں عبدالرزاق ہے۔

’’صحیح بخاری‘‘کی چند احا دیث میں آنحضرتﷺ کا ایک نا م ’قاسم‘ بھی وارد ہوا ہے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا:

اَنَا قَاسِمٌ وَ خَازِنٌ وَاللّٰہُ یُعْطِی

کہ مَیں قاسم یعنی تقسیم کرنے والا ہوں اور خازن ہوں، دیتا تو اللہ تعا لیٰ ہی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’آنحضرتﷺ کے اسم قاسم کا بھی یہی سرّ ہے کہ آپ اللہ تعا لیٰ سے لیتے ہیں اور پھر مخلوق کو پہنچا تے ہیں۔ پس مخلوق کو پہنچانے کے واسطے آپؐ کا نزول ہو ا۔‘‘ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 2)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ رسول اللہﷺ کی بعثت سے پہلے تمام انبیاءؑ سے رسول اللہﷺ کی بعثت کے اقرار کا ایک عہد لیا گیا تھا کہ ایک عظیم الشان رسول محمدؐ مبعوث ہو نے وا لا ہے۔ اس عہد یعنی میثاق النبیین کا ذکر سورہ آل عمران کی آیت 82 اور سورہ احزاب کی آیت 8 میں آیا ہے۔ چنانچہ اہل کتاب اُنہی علامات یا صفات کو آپؐ کی ذات مبارک میں تلاش کرتے تھے جو اُن کے انبیاءؑنے بیان کی ہوئی تھیں۔

حضرت عطاء بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کو کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ کی وہ صفت بیان کریں جو توریت میں ہے۔ تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم توریت میں بعض صفات کا تذکرہ کیا گیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کہ اے نبی ہم نے تجھ کو اُمّت پر شاہد بناکر اور خوشخبری دینے وا لا اور ڈرا نے وا لا بناکر بھیجا ہے۔ تُو امّیوں کی جائے پناہ ہے۔ تو میرا بندہ اور رسول ہے۔ میں نے تیرا نا م متوکّل رکھا ہے۔ تُو بدخو، سخت گو اور بازاروں میں غل مچانے والا نہیں ہے۔ تُو برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتا بلکہ معاف کردیتا ہے۔ اور بخش دیتا ہے۔ ( مشکٰوۃ باب فضائل سید المرسلینؐ)

حضرت کعب احبارؓ فرماتے ہیں کہ ہم توریت میں لکھا ہوا پاتے ہیں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، میرے پسندیدہ اور چنیدہ بندے ہیں۔ نہ سخت گو ہیں نہ درشت خُو۔ نہ بازاروں میں چِلّانے والے ہیں۔ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کردیتے ہیں اور بخش دیتے ہیں۔ ان کی جائے پیدا ئش مکہ اور ہجرت کی جگہ مدینہ ہے۔ ان کی بادشاہی شام ہے۔ ان کی اُمّت بہت حمد کرنے والی ہے۔ وہ شادی اور غمی میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں، ہر منزل میں اللہ کی حمد بیان کرتے ہیں، ہر بلند جگہ پر اللہ کی بڑا ئی بیان کرتے ہیں۔ وہ سورج کا خیال رکھنے وا لے (یعنی وقت کا لحا ظ رکھنے والے) ہیں، جب نماز کا وقت آتا ہے نماز پڑھتے ہیں۔ آدھی پنڈلیوں پر تہبند باندھتے ہیں اور اپنے اطراف پر وضو کرتے ہیں۔ ان کا پکارنے والا آسمانی فضا میں ندا کرتا ہے۔ لڑائی میں ان کی صف نماز میں صف باندھنے کی طرح ہے۔ رات کو ان کی آواز اس طرح پست ہوتی ہے جس طرح شہد کی مکھی کی آواز ہے۔ (ایضاً)

مذکورہ دونوں روا یا ت میں یسعیا ہ نبی کی پیشگوئی کو اپنے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جو بائبل یسعیاہ (Isaiah) کے ابواب 35، 42، 51 اور 60 میں ملتی ہے۔

٭…اسم محمدﷺ کی عظمت

عربی لفظ محمد ’حمد‘ کا مفعول ہے جس میں مبالغہ پایا جاتا ہے۔ یہ کہا جا تا ہے کہ محمد وہ ذات ہے جس کی ہمیشہ تعریف کی جائے۔ یا دوسرے لفظو ں میں ’’بہت تعریف کیا گیا ‘‘۔

صاحبِ زرقانی لکھتے ہیں : محمد اس کو کہتے ہیں جس کی بار بار تعریف کی جائے یا محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں نیک خصلتیں کمال کو پہنچی ہوئی ہوں۔

’مجمع البحار‘ میں لکھا ہے: آنحضرتﷺ کا نام محمدؐ اس لیے رکھا گیا تا آپؐ کی کثرتِ حمد پر دلا لت کرے۔

حضرت مسیح موعودؑ کا ایک عربی شعر ہے: اللہ جو وحید ہے اور اس کے فرشتے آپؐ کی حمد کرتے ہیں۔ اور صبح بھی جب لو گو ں کو اٹھا تی ہے تو وہ بھی آپؐ کی ثنا کرتی ہے۔

نام ’’احمدؐ‘‘ بھی عربی لفظ ’حمد‘سے بنا ہے جس کا معنی ہے کہ آپؐ نے اللہ کی دوسرو ں سے زیادہ حمد کی یا آپؐ اللہ کی سب سے زیا دہ تعریف کرنے والے ہیں۔

حضرت امام ابن قیِّمؒ لکھتے ہیں: ’’آنحضرتﷺ کا نا م محمدؐ اس لیے ہے کہ اس نا م کے مسمّٰی بہت سی حمدوں کے جامع ہیں۔ آپؐ کی اللہ تعا لیٰ کی طرف سے حمد کی گئی ہے، آپؐ فرشتو ں اور مرسلین کے نزدیک بھی حمد کیے گئے ہیں اور روئے زمین کے سب لو گ آپؐ کی حمد کرتے ہیں۔‘‘(جِلائُ الاَفْہَام)

مزید فرماتے ہیں: ’’محمدؐ کا لفظ حمد کے کثیر خصا ئل کی حامل ہستی پر بو لا جائے گا۔ اور احمد کا مطلب دوسرو ں سے زیادہ حمد کا سزا وار ہونا ہے۔ پس محمدؐ کثرت و کمیتِ حمد اور احمدؐ صفت و کیفیتِ حمد کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ الحاصل رسول اللہﷺ دوسروں سے زیا دہ حمد کے سزا وار اور دوسرو ں سے زیادہ افضلیت کے حا مل ہیں۔ آج تک انسانی معا شر ہ نے رسول اللہﷺ سے بڑھ کر کسی کی حمد نہیں کی۔ یہ دونوں آپؐ کے نا م ہیں۔ مدح اور معنیٰ کے لحا ظ سے یہ دونوں نا م سب سے بلیغ اور کا مل ہیں۔‘‘ (ذادالمعاد)

پھر فرماتے ہیں : ’’رسول اللہﷺ کے اسماء دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ جو آپؐ کے لیے خاص ہیں اور دوسرا کو ئی رسول اس میں شریک نہیں جیسے محمدؐ، احمدؐ، عاقب، حاشر، المُقفِّی اور نبی الملحمہ۔ دوسرے وہ اسماء جن میں دوسرے رسول بھی آپؐ کے ساتھ شریک ہیں لیکن ان میں آپؐ کو کمال حاصل ہے۔ پس ان صفات میں کمال آپ کے لیے خاص ہے نہ کہ اصل صفت جیسے رسول، نبی، عبد، شا ہد، مبشر، نذیر، نبی رحمت اورنبی توبہ۔ اور اگر آپؐ کی ہر صفت سے آپؐ کا نا م بنایا جائے تو آپؐ کے نا م دو سو سے بھی زیا دہ ہو جائیں گے۔ جیسے صا دق، مصدوق، رؤف اور رحیم وغیرہ۔‘‘ (ذادالمعاد)

٭…سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسماء النبیؐ سے متعلق دیا جا نے وا لا علم لدُّ نِّی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’مجھے خدا تعالیٰ نے اس چود ھویں صدی کے سر پر اپنی طرف سے مامور کرکے دین متین اسلام کی تجدید اور تا ئید کے لیے بھیجا ہے تاکہ مَیں اس پُرآشوب زمانہ میں قرآن کی خوبیاں اور حضرت رسول اللہﷺ کی عظمتیں ظاہر کروں۔‘‘

(برکات الدعا صفحہ23)

لہٰذا یہ ضروری تھا کہ آپؑ کے ذریعہ رسول اللہﷺ کی عظمت پہلے سے بڑھ کر ظاہر ہوتی۔ اس کا ثبوت آپؑ کی کتب اور آپؑ کے ملفوظات ہیں جو اسلام اور محمد مصطفیٰﷺ کی عظمتِ شان، ارفع و اعلیٰ مقام اور علو مرتبت کے عظیم الشان مضا مین پر مشتمل ہیں۔ اسماء النبیﷺ سے متعلق بے شمار معرفت کے نکا ت بھی آپؑ نے بیان فرما ئے ہیں مثلاً محمدؐ نام کی عظمت بیا ن کرتے ہو ئے فرماتے ہیں:

(ترجمہ) اس کے رسولِؐ اُمیّ پر درود و سلام ہو جس کا نام محمدؐ اور احمدؐ ہے۔ یہ دو نو ں نا م اس کے وہ ہیں کہ جب حضرت آدم کے سا منے تمام چیزو ں کے نا م پیش کیے گئے تھے توسب سے اوّل یہی دو نا م پیش ہوئے تھے۔ کیو نکہ اس دنیا کی پیدا ئش میں وہی دو نا م علّتِ غا ئی ہیں۔ اور خدا تعا لیٰ کے علم میں وہی اشرف اور اقدم ہیں۔ پس آنحضرتﷺ بوجہ ان دونوں نامو ں کے تمام انبیاء علیہم السلام سے اول درجہ پر ہیں۔

(نجم الھدیٰ، صفحہ3-4)

نیز فرما یا : ’’یہی با ت سچ ہے کہ اس نام کا مستحق اور وا قعی حقدار ایک تھا جو محمدؐ کہلا یا۔ یہ دا د ِالٰہی ہے، جس کے دل و دماغ میںچا ہے یہ قو تیں رکھ دیتی ہے۔ اور خدا خوب جا نتا ہے کہ ان قوتو ں کا محل اور مو قع کو ن ہے۔ ہر ایک کا کا م نہیں کہ اس را ز کو سمجھ سکے۔ اور ہر ایک کے منہ میں وہ زبان نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اِنّی رسول اللّٰہ الیکم جمیعًا۔ جب تک روح القدس کی خا ص تا ئید نہ ہو یہ کام نہیں نکل سکتا۔ رسول اللہ میں وہ سا ری قوتیں اور طاقتیں رکھی گئی تھیں جو محمدؐ بنا دیتی ہیں۔‘‘

(الحکم 17 جنوری1901ء صفحہ 3)

مزید تحریر فرما تے ہیں: ’’ہمارے نبیﷺ کا نام مذمت کرنے وا لو ں کے ردّ کے لیے محمدؐ رکھا گیا۔ تا اس با ت کی طرف اشارہ ہو کہ اس قا بل تعریف نبی کی شریر اور خبیث لوگ مذمّت کریں گے۔ مگر وہ محمدؐ ہے یعنی نہا یت تعریف کیا گیا نہ کہ مذمّم۔‘‘ ( انجا م آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ296)

٭…محمدﷺ کے وجود میں تمام انبیا ء کی شانیں

دوسرا عظیم الشان نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرما یا ہے کہ تمام سابقہ انبیاء کی شانیں آپؐ کی ذات پاک میں جمع کردی گئی ہیں۔ فرمایا: ’’قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ہر ایک نبی آنحضرتﷺ کی اُمّت میں داخل ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِتُؤْ مِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ۔ پس اس طرح تمام انبیاء علیہم السلام آنحضرتﷺ کی اُمّت ہوئے۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، صفحہ 300)

اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارے نبیﷺ تمام انبیاء ؑ کے نا م اپنے اندر جمع رکھتے ہیں کیو نکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے۔ پس وہ مو سیٰؑ بھی ہے اور عیسیٰ ؑ بھی اور آدمؑ بھی اور ابراہیم ؑ بھی اور یوسفؑ بھی اور یعقوبؑ بھی۔ اِ سی کی طرف اللہ جلَّ شانہ اشارہ فرماتا ہے فبھدٰ ہم اقتدہ یعنی اے رسول تو ان تمام ہدا یا ت متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کرلے۔ جو ہر ایک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیا ء کی شا نیں آنحضرتﷺ کی ذات میں شا مل تھیں اور درحقیقت محمدﷺ کا نام اسی کی طرف اشا رہ کرتا ہے۔ کیو نکہ محمدؐ کے یہ معنے ہیں بغایت تعریف کیا گیا۔ اور غا یت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالاتِ متفرقہ اور صفات خاصہ، آنحضرتﷺ میں جمع ہوں۔ چنانچہ …آنحضرتؐ کی ذاتِ پاک باعتبار اپنی صفات اور کما لا ت کے مجموعہ انبیاء تھی۔ اور ہر ایک نبی نے اپنے وجود کے ساتھ مناسبت پا کر یہی خیا ل کیا کہ میرے نام پر وہ آنے والا ہے۔ اور قرآن کریم ایک جگہ فرماتا ہے کہ سب سے زیادہ ابرا ہیمؑ سے منا سبت رکھنے وا لا یہ نبیؐ ہے۔ اور بخاری میں ایک حدیث ہے جس میں آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میری مسیحؑ سے بشدّت منا سبت ہے۔ اور اس کے وجو د سے میرا وجود ملا ہوا ہے۔ پس اس حدیث میں حضرت مسیح ؑکے اس فقرہ کی تصدیق ہے کہ وہ نبی میرے نا م پر آئے گا۔ سو ایسا ہی ہوا کہ ہمارا مسیح جب آیا تو اس نے مسیحؑ ناصری کے ناتمام کا مو ں کو پورا کیا۔ اور اس کی صداقت کے لیے گوا ہی دی۔اور ان تہمتوں سے اس کو بری قرار دیا جو یہود اور نصاریٰ نے اس پر لگا ئی تھیں اور مسیحؑ کی روح کو خوشی پہنچائی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام صفحہ 343)

٭…اسم احمدؐ کی ارفع شان

تیسرا نکتہ حضرت مسیح موعودؑ نے رسول اللہﷺ کے نام ’احمدؐ ‘ کی عظمت کے حوا لہ سے یوں بیا ن فرمایا ہے: ترجمہ: نبیﷺ کی روح نے اللہ تعالیٰ کی وہ تعریف کی جو کو ئی فکر اس کے بھید و ں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور کو ئی آنکھ اس کے نوروں کی حدود کو پا نہیں سکتی۔ اور اس نے خدا کی تعریف کو کمال تک پہنچا یا یہا ں تک کہ اس کے ذکروں میں گم اور فنا ہو گیا۔ (نجم الھدیٰ، رو حا نی خزائن جلد14صفحہ6-5، یہ ترجمہ حضورؑ کا ہی ہے)

اور اسی کتا ب میں ایک دوسرے مقام پر فرما تے ہیں: ترجمہ: ’’پس اسی وجہ سے کوئی نبی یا رسول پہلے نبیو ں اور رسولوں میں سے احمدؐ کے نام سے مو سوم نہیں ہو ا۔ کیو نکہ ان میں سے کسی نے خدا کی تو حید اور ثناء ایسی نہیں کی جیساکہ آنحضرتﷺ نے۔‘‘

(نجم الھدیٰ، صفحہ7، یہ ترجمہ حضورؑ کا ہی ہے)

٭…محمدؐ اور احمدؐ دو جدا جدا کمال ہیں

چوتھا نکتہ اسما ء النبیﷺ کے حوا لہ سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بیان فرما یا ہے:

’’آپؐ کے مبارک نا مو ں میں سِر یہ ہے کہ محمدؐ اور احمدؐ جو دو نام ہیں ان میں دو جدا جدا کمال ہیں۔ محمدؐ کا نا م جلال اور کبریائی کو چا ہتا ہے جو نہا یت درجہ تعریف کیا گیا ہے۔ اور اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے۔ کیو نکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے۔ پس اس میں جلالی رنگ ہو نا ضروری ہے۔ مگر احمدؐ کا نا م اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتا ہے کیو نکہ تعریف کرنا عا شق کا کا م ہے۔ وہ اپنے محبوب اورمعشوق کی تعریف کرتا ہے۔ اس لیے جیسے محمدؐ محبوبانہ شا ن میں جلال اور کبریا ئی کو چا ہتا ہے اسی طرح احمدؐ عاشقانہ شان میں ہو کر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے۔ اس میں ایک سِر یہ تھا کہ آپؐ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کر دی گئی۔ …مکہ کی زندگی میں اسم احمدؐ کی تجلّی تھی۔ اس وقت آپؐ کی دن را ت خدا تعا لیٰ کے حضور گریہ و بکا اور طلب استعانت اور دعا میں گذرتی تھی۔ …جو تضرّع اور زاری آپؐ نے اس مکی زندگی میں کی ہے وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلا ش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا۔ پھر آپؐ کی تضرّع اپنے لیے نہ تھی بلکہ یہ تضرّع دنیا کی حا لت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی۔ خداپرستی کا نام و نشان چونکہ مٹ چکا تھا اور آپؐ کی روح اور خمیر میں اللہ تعا لیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذت اور سرور آچکا تھا۔ اور فطرتاً دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے۔ ادھر دنیا کی حا لت کو دیکھتے تھے تو ان کی استعدادیں اور فطرتیں عجیب طرز پر وا قع ہو چکی تھیں۔ اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سا منا تھا۔ غرض دنیا کی اس حالت پر آپؐ گریہ و زاری کرتے تھے اور یہا ں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی۔ اسی کی طرف اشارہ کرکے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:لَعَلَّک بَاخعٌ نَفْسک اَلَّا یَکُونُوا مؤمِنین (الشعراء:4) یہ آپؐ کی متضرعا نہ زندگی تھی اور اسم احمدؐ کا ظہور تھا۔ اس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے۔ اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمدؐ کی تجلّی کے وقت ہوا جیسا کہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے:

وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ کُلُّ جبَّارٍ عنیدٍ (ابراھیم:16)

(ملفوظات جلد2صفحہ 178)

٭…اسماء النبیؐ درا صل صفات الہٰیہ کے مظہر ہیں

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پا نچوا ں نکتہ عظیمہ یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے محمدﷺ کا نام محمدؐ اور احمدؐ رکھا۔ اور اس نے ان نامو ں سے عیسٰی ؑ اور موسیٰؑ کلیم اللہ کو نہیں پکارا۔ اور اس نے آپؐ کو اس وجہ سے کہ آپؐ پر اس کا بڑا فضل تھا اپنی صفت رحمان اور رحیم میں شریک بنایا۔

(اعجازالمسیح۔صفحہ108-107)

اس نکتہ کی وضا حت کرتے ہو ئے حضورؑ فرماتے ہیں:

’’اگر تم سوال کرو کہ خلق عظیم کیا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ آپؐ رحمان اور رحیم ہیں اور آپؐ کو یہ دونوں نور اس زما نہ سے عطا کئے گئے ہیں جبکہ حضرت آدم علیہ السلام پانی اور مٹی کے درمیا ن تھے۔ اور آپؐ اس وقت بھی نبی تھے جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا نام و نشان بھی موجود نہ تھا۔ اور اللہ تعا لیٰ نے جو نور ہی نور ہے ارادہ کیا کہ وہ ایک نور کو پیدا کرے تب اس نے اس درّ یتیم یعنی محمد رسول اللہﷺ کو پیدا کیا۔ اور آپؐ کے دونوں ناموں کو اپنی ان دونوں صفات میں شریک ٹھہرا یا جس کی وجہ سے آپؐ ہر قلب سلیم پر فو قیت لے گئے۔ اور آپؐ کے یہ دونوں نام قرآن کریم کی تعلیم میں درخشاں ہیں۔ اور ہمارے نبی کریمﷺ کا روحانی وجود حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے نوروں سے مرکب ہے۔ جیسا کہ وہ خدا تعا لیٰ کی صفات رحمان اور رحیم سے مرکب ہے۔ پس اس ترکیب نے تقاضا کیا کہ آپ کو یہ عجیب و غریب مقا م عطا ہو۔ اسی لئے خداتعالیٰ نے آپؐ کا نا م محمدؐ بھی رکھا اور احمدؐ بھی۔ اور آپؐ خدا تعا لیٰ کے نورِجمال اور نورِ جلا ل کے وارث ہیں۔ اور اس شا ن میں آپؐ منفرد ہیں۔ اور آپؐ کو محبوبیت کی شا ن بھی عطا کی گئی ہے۔ اور محبّوں والا دل بھی آپؐ کو عنا یت کیا گیا ہے۔ جیسا کہ یہ دونوں شانیں ربّ العالمین میں پائی جا تی ہیں۔ پس آپؐ محمودین اور حا مدین دو نو ں کے برگزیدہ ہیں۔ اللہ تعا لیٰ نے آپؐ کو اپنی ان دونو ں صفات میں شریک کیا ہے اور اپنی ان دونوں رحمتوں سے آپؐ کو حصہ وافر عطا فرمایا ہے۔‘‘ (اعجازالمسیح۔ صفحہ 120-118)

٭…رسول اللہﷺ سے اللہ کے وعدے

قرآن کریم میں رسول اللہﷺ سے کئے گئے اللہ تعالیٰ کے بے شما ر وعدوں کا ذکر ملتا ہے جو اپنی پوری شان کے ساتھ رسول اللہﷺ کی حیات طیبہ کے دوران بھی پور ے ہوتے رہے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ مثلاً:

(1) فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ۔ (البقرہ:138)

پس اللہ تیرے لئے ان سے نپٹنے کے لئے کا فی ہے۔

(2) وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاس (المائدہ:68)

اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے رکھے گا۔

(3) اِنَّا کَفَیْنَاکَ الْمُسْتھْزِئِینَ (الحجر:96)

یقیناً ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تیرے لئے کا فی ہیں۔

(4) اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ (بنی اسرائیل:61)

یقیناً تیرے ربّ نے انسانوں کو گھیر لیا ہے۔

(5) اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ (الزمر:38)

کیا اللہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں۔

(6)وَاصْبِر لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِناَ (الطور:49)

اور اپنے ربّ کے حکم کی خاطر صبر کر۔ تُو ہما ری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے۔

کچھ اور وعدے بھی ہیں جن کا یوم آخرت میں پورے ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے۔ مثلاً :

عَسَیٰ اَن یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُودًا (بنی اسرائیل:80)

قریب ہے کہ تیرا ربّ تجھے مقامِ محمود پر فائز کر دے۔

متعدد صحا بہ کبارؓ اور مفسرین کی رائے ہے کہ مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے۔ امام ابن کثیر ؒ نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ مقا م محمود سے مراد ’مقامِ حَمد‘ہے یعنی ہم تجھے اس مقام پر کھڑا کریں گے کہ جہا ں کھڑا ہونے پر تمام مخلو ق آپؐ کی تعریف کرے گی اور خود خالق اکبر (اللہ تعالیٰ ) بھی آپؐ کی حمد کرے گا۔‘‘ (تفسیرابن کثیر)

حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’مقاماً محمودًا میں ایک بہت بڑی پیشگو ئی کی گئی ہے۔ دنیا میں کسی شخص کو اتنی گالیاں نہیں دی گئیں جتنی کہ آنحضرتﷺ کو دی گئیں۔ … مقام محمود عطا فرماکر اللہ تعالیٰ نے ان گالیوں کا آپؐ کو صلہ دیا ہے فرماتا ہے جس طرح دشمن گالیاں دیتا ہے ہم مومنوں سے تیرے حق میں درود پڑھو ائیں گے اسی طرح عرش سے خود بھی تیری تعریف کریں گے۔ اس کے مقابل پر دشمن کی گا لیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں۔

مقام محمود سے مرادمقا م شفا عت بھی ہے۔ کیو نکہ جیسا کہ حدیثو ں سے ثا بت ہے کہ (آخرت کے دن) سب اقوام کے لو گ سب نبیوں کے پا س سے ما یو س ہوکر رسول کریمﷺ کے پاس شفاعت کی غرض سے آئیں گے اور آپؐ شفاعت کریں گے۔ اس طرح گویا ان سب اقوام کے منہ سے آپؐ کے لیے اظہا ر عقیدت کروایا جائے گا جو اس دنیا میں آپؐ کو گا لیاں دیتی تھیں۔ اور یہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مقام محمود ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلدچہا رم، صفحہ 375 )

حضرت مسیح موعودؑ نے اس آیت کے حوالے سے تحریر فرمایا: ’’خدا تجھے اس مقام پر اٹھا ئے گا جس میں تُو تعریف کیا جائے گا۔‘‘ (تبلیغ رسالت، مجموعہ اشتہا را ت، جلد دوم صفحہ93)

اسی طرح فرما یا : ’’مَیں ایسے مقا م پر تجھے کھڑا کروں گا کہ دنیا تیری حمد و ثنا کرے گی۔‘‘ (دافع البلاء صفحہ8)

پس کسی مخالفت یا توہین کی ناپاک کوشش کیا کرے گی جب خود خا لق کائنات نے یہ تقدیر بیان فرمادی ہو کہ

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکْ (الانشراح:5)

اے محمدؐ ہم نے تیرا ذکر تیرے لئے بلند کر دیا ہے۔ اور درحقیقت آج دنیا کے ہر خطّے میں جہاں مسلمان آباد ہیں، اللہ کے نا م کے سا تھ محمد رسول اللہﷺ کا ذکر بھی بلند ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کی ہر مجلس، محفل، گھر، گلی اور شہر میں اسی محبوبؐ نا م کے چرچے ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button