خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍ اکتوبر 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭… بوقتِ وفات آپؓ کی عمر مختلف روایات میں ترپن سے لے کر پینسٹھ برس تک بیان کی گئی ہے
٭…5مرحومین :صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب، مکرمہ کلارا آپاصاحبہ اہلیہ رولان سائن با ئیف صاحب سابق امیر جماعت قزاقستان،مکرم وِنگ کمانڈر عبدالرشید صاحب، مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ کریم احمد نعیم صاحب آف امریکہ اور مکرم حفیظ احمد گھمن صاحب کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍ اکتوبر 2021ء بمطابق 22؍اخاء1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 22؍ اکتوبر 1202ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
گذشتہ خطبےمیں حضرت عمرؓکی شہادت کے ضمن میں حضرت عبیداللہ بن عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کے باہمی الجھاؤکا ذکر کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جب ان دونوں کا الجھاؤ ہوا تب حضرت عثمانؓ ابھی مسندِ خلافت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ پہلےپہل تو حضرت عبیداللہ بن عمرؓ کا ارادہ تھا کہ وہ مدینے میں موجود تمام قیدیوں اور غلاموں کو قتل کردیں لیکن مہاجرین صحابہ کے سمجھانے پر وہ اپنے اس ارادے سے رُک گئے۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ منتخب ہوگئے تو عبیداللہ بن عمر کو آپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ حضرت علیؓ نے عبید اللہ کے قتل کا مشورہ دیا تاہم دیگر صحابہ نے اس مشورے کے برخلاف رائے دی اور کہا کہ کل حضرت عمر ؓقتل ہوئے ہیں اور آج ان کا بیٹا قتل کردیا جائے یہ ناقابلِ برداشت شدّت اور سختی ہے۔ اس صورتِ حال میں حضرت عثمانؓ نے اپنے مال سے مقتولین کا خون بہا ادا کیا۔
تاریخ طبری کے مطابق حضرت عثمانؓ نے قصاص کے طور پر عبیداللہ کو ہرمزان کے بیٹے کے سپرد کردیا تھا ۔ جب وہ عبیداللہ کو قتل کرنے کے لیے لے جانے لگا تو لوگوں نے بار بار اس سے عبیداللہ کو چھوڑ دینے کی درخواست کی۔ جس پر ہرمزان کے بیٹے نے خدا اور ان لوگوں کی خاطر عبیداللہ کو چھوڑ دیا۔ کیا مقتول معاہد کافر کے بدلے میں مسلمان قاتل کو سزا دی جاسکتی ہے ، اس مسئلے کے حل کےلیے حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعے کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ صحابہ کا طریقِ عمل یہی تھا کہ وہ غیرمسلم کے مسلم قاتل کو سزائے قتل دیتے تھے۔
حضرت عمرؓ کے الحاح اور عجزوانکسار کا یہ حال تھا کہ آپؓ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو کہا کہ میرے کفن اور میری قبر میں میانہ روی سے کام لینا۔ مجھے کستوری وغیرہ سے غسل نہ دینا، میرے جنازےکے ساتھ کسی عورت کو نہ لے کر جانا اور میری ایسی تعریف نہ کرنا جو مجھ میں نہیں ۔ جب حضرت ابنِ عباسؓ نے حضرت عمر ؓکی تعریف کی اور کہا کہ اللہ نے آپ کے ذریعے نئے شہر آباد کیے ، بہت سی فتوحات عطا کیں آپؓ نے فلاں فلاں کام کیے۔ حضرت عمر ؓنے یہ سنا تو فرمایا کہ میری تو تمنّا ہے کہ اس حال میں دنیا سے جاؤں کہ نہ میرے لیے کوئی اجر ہو اور نہ کوئی بوجھ یعنی نہ مجھ پر کچھ عذاب ہو اور نہ میرے لیے کوئی ثواب ۔ جب حضرت عمر ؓفوت ہونے لگے تو اُن کی آنکھیں نَم ہوگئیں اور وہ کہتے تھے کہ خدایا! مَیں کسی انعام کا مستحق نہیں ہوں مَیں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ سزا سے بچ جاؤں۔
حضرت عمر ؓکی نمازِ جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی اور آپ کو قبر میں اتارنےوالوں میں حضرت عثمانؓ ، سعید بن زیدؓ، حضرت علیؓ، عبدالرحمٰن بن عوفؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت طلحہؓ او ر بعض دیگر جیّد صحابہ شامل تھے۔ بوقتِ وفات آپؓ کی عمر مختلف روایات میں ترپن سے لے کر پینسٹھ برس تک بیان کی گئی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ صلحا کے پہلو میں دفن بھی ایک نعمت ہے۔ جو شخص بکمال شوق اللہ کے دامن سے وابستہ ہوجاتاہے تو وہ اسے ضائع نہیں کرتا۔ ابوبکر اور عمر کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے کہ وہ دونوں ایسے مبارک مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو بصد شوق وہاں دفن ہونے کی تمنّا کرتے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ فوت ہونے لگے تو انہوں نے اس بات کےلیے بڑی تڑپ ظاہر کی کہ آپ کو رسولِ کریمﷺ کے قدموں میں جگہ مل جائے ۔ حضرت عمرؓ وہ انسان تھے جن کے متعلق عیسائی مؤرخ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ایسی حکومت کی جو دنیا میں اَور کسی نے نہیں کی۔ عیسائی مؤرخ رسول کریمﷺ کو گالیاں دیتے ہیں لیکن حضرت عمر کی تعریف کرتے ہیں۔ ایسا شخص ہر وقت کی صحبت میں رہنے والا مرتے وقت بھی حسرت رکھتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کے قدموں میں اسے جگہ مل جائے۔
حضرت عمر ؓکے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہوکر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ آپؓ نے کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جو آپ سے بڑھ کر مجھے اس لحاظ سے پیارا ہو کہ مَیں اس کے اعمال جیسے عمل کروں۔ اللہ کی قسم! مجھے اس چادر میں لپٹے ہوئے انسان سے زیادہ روئے زمین پر کوئی شخص پسند نہیں۔ مَیں نے نبی کریمﷺ سے بہت دفعہ سنا ہے کہ آپؐ فرمایا کرتے کہ مَیں اور ابوبکر اور عمر داخل ہوئے، مَیں اور ابوبکر اور عمر نکلے۔ یعنی یوں آپؐ مختلف فقرات فرماتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓنے حضرت عمر ؓکی وفات پر فرمایا کہ آپؓ اسلام کےلیے حصنِ حصین تھے ۔اگر آپ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور باقی تمام انسانوں کا علم دوسرے پلڑے میں تو حضرت عمرؓ کا پلڑا بھاری ہوگا۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا کہ حضرت عمر ؓکے دَور میں اسلام کی مثال اس شخص کی طرح تھی جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ حضرت عبداللہ بن سلام نے کہا حضرت عمر حق کے لیے سخی اور باطل کے لیے بخیل تھے۔آپ کی وفات پر سعید بن زیدنے روتے ہوئے فرمایا کہ عمر کی وفات سے اسلام میں ایسا رخنہ پیدا ہوگیا ہے جو قیامت تک پُر نہیں ہوگا۔
حضرت عمر ؓنے مختلف وقتوں میں دس شادیاں کیں جن سے نَو بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
مشہور مستشرق ایڈورڈ گبن لکھتا ہے کہ حضرت عمر ؓکی پرہیزگاری اور عاجزی حضرت ابوبکرؓ سے کم نہ تھی۔آپ کے کھانے میں جَو کی روٹی اور کھجوریں ہی ہوتیں، پانی آپ کا مشروب تھا۔
مائیکل ایچ ہارٹ نے اپنی کتاب The Hundred میں حضرت عمر ؓکا ذکر باون نمبر پر کیا ہے ۔ یہ لکھتا ہے کہ حضرت عمر غالباً مسلمانوں کے سب سے عظیم خلیفہ تھے۔عمر 634ءمیں خلیفہ بنے اور 644ءتک اقتدارِ خلافت میں رہے۔ حضرت عمر کا دس سالہ دَورِ خلافت ہی تھا جس میں عربوں نے سب سے اہم فتوحات حاصل کیں۔ جس قدر حضرت عمر ؓکی فتوحات کی وسعت کی اہمیت ہے اسی قدر ان فتوحات کی پائیداری بھی اہم ہے۔عمر کی کامیابیاں بلاشبہ متاثر کُن ہیں۔ محمدﷺ کے بعد آپ اسلام کے پھیلاؤ میں کلیدی شخصیت تھے۔ عمر کے دَور میں عربوں کی فتوحات شارلیمن اور جولیس سیزر کے مقابلے میں بلحاظ حجم اور وقت کے بہت زیادہ اہم ہیں۔
پروفیسر فلپ کے اے ٹی لکھتے ہیں کہ سادہ ،کفایت شعار اور آپؐ کے متحرک اور باصلاحیت جانشین عمر بلند قامت اور مضبوط جسم والے تھے۔ آپ نے ایک بادیہ نشین کی طرح سادگی سے زندگی گزاری۔ آپ کا بلند وبالا کردار تمام باضمیر جانشینوں کےلیے پیروی کا نمونہ بن گیا۔
حضرت عمر ؓکا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
1۔ صاحبزادی آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب جو گذشتہ دنوں 92 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔آپ حضرت مسیح موعودؑ کی نواسی، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مجھ سے ان کے مختلف رشتے تھے یہ میری دادی کی بہن بھی تھیں، رشتے میں خالہ اور پھوپھی بھی بنتی تھیں۔ ان سب رشتوں کے باجود کہتیں کہ مَیں بس خلیفہ وقت کی تابع دار ہوں۔ ان کے پسماندگان میں ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ مرحومہ غریبوں، ماتحتوں،ملازموں اور رشتے داروں کا بےحد خیال رکھنے والی، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پابند، خلافت کی مطیع اور عاشق، بہت مخیّر خاتون تھیں۔ عبادات اور مالی قربانیوں میں بہت بڑھی ہوئی تھیں۔
2۔ مکرمہ کلارا آپاصاحبہ اہلیہ رولان سائن بائیف صاحب سابق امیر جماعت قزاقستان ۔ آپ گذشتہ ماہ وفات پا گئی تھیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ نے 1994ءیا 1995ء میں بیعت کی تھی۔ آپ بہت اچھی مترجم اور مصنفہ تھیں، انہیں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی سعادت بھی عطا ہوئی۔ آپ جماعت قزاقستان کی نہایت متحرک ممبر اورسرپرست تھیں۔
3۔ مکرم وِنگ کمانڈر عبدالرشید صاحب جو گذشتہ ماہ وفات پاگئےتھے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے انہیں لیبیا کا پہلا امیر جماعت مقرر فرمایا تھا۔ مرحوم عبادت گزار، تلاوت قرآن کریم کرنے والے، چندہ جات میں باقاعدہ، غریبوں کا خیال کرنے والے اور خلافت سے بڑا گہرا اطاعت کا تعلق رکھنے والے تھے۔
4۔ مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ کریم احمد نعیم صاحب آف امریکہ۔ جن کی گذشتہ ماہ وفات ہوئی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ کی چھوٹی بہو تھیں۔مرحومہ تہجدگزار، دعاگو، خلافت کی شیدائی، مخلص، غریب پرور خاتون تھیں۔ آپ شہید ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب کی ساس تھیں۔
5۔ مکرم حفیظ احمد گھمن صاحب جو گذشتہ دنوں وفات پاگئے تھے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم قرآن کریم کے ترجمہ اور تفسیر کا خاص شوق رکھتے تھے۔آپ ہمدردی خلق میں بڑھے ہوئے،وقت کے بےحد پابند، دینی خدمت کرنے والے، سادہ مزاج اور محنتی شخصیت کے مالک تھے۔
حضورِانورنے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔