بنیادی مسائل کے جواباتمتفرق مضامین

بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر22)

(ظہیر احمد خان۔ مربی سلسلہ، انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)

(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)

٭… قبل از پیدائش وفات پر بعض سوالات

٭…غیر احمدی مسلمان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے کہ جس نے میری ساری کتب تین دفعہ نہیں پڑھیں اسے میرے دعویٰ کی سمجھ نہیں ہے۔ کیا سب احمدیوں نے یہ کتب تین دفعہ پڑھی ہیں؟

٭…خطبہ جمعہ کے آخر پر امام نیچے بیٹھتا ہے اور پھر اٹھ کر خطبہ ثانیہ پڑھتا ہے، وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟

٭…ایک جماعتی عہدیدار کی احمدی لڑکیوں کوغیر احمدی اور غیر مسلم مردوں سے شادی کی اجازت ملنے پر فکر مندی اور پریشانی کے اظہار پر حضور انور کی ہدایت اورراہ نمائی

٭…کورونا وائرس کےلیے جو آج کل ٹیکہ آیا ہوا ہے کیاوہ ہمیں لگوانا چاہیے یا نہیں ؟

٭…حضور اتنے سارے کام اکٹھے کس طرح کر لیتے ہیں؟

٭…حضور اپنے خطبات جمعہ کی تیاری کس طرح کرتے ہیں؟

٭…کیا اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں، اور اگر وہ جانتا ہے تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟

٭…کورونا وائرس کے ختم ہونے کے بعد دنیا پھر سے ویسے ہی نارمل ہو سکتی ہے جیسے پہلے تھی؟

سوال: ایک خاتون نے اپنی بچی کی قبل از پیدائش وفات پر بعض سوالات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں بغرض استفسار تحریر کیے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍فروری 2020ءمیں ان سوالات کے درج ذیل جوابات ارشاد فرمائے۔ حضور نے فرمایا:

جواب: جو بچی پیدائش سے پہلے فوت ہو گئی ہے اس کی تصویر گھر میں لگا کر اپنے آپ کو مزید تکلیف دینے والی بات ہے۔ اور ویسے بھی چونکہ وہ بچی پیدا ہونے سے پہلے فوت ہو گئی تھی اس لیے ہو سکتا ہے کہ اس کی تصویر اتنی صاف نہ ہو اور دوسرے بچوں کو خوفزدہ کرنے کا باعث ہو۔اس لیے اس بچی کی تصویر گھر میں لگانے اور اپنے پاس رکھنے کی ضرورت نہیں۔

پیدائش سے پہلے فوت ہونے والے بچوں کو عموماً نہ غسل دیا جاتا ہے اور نہ ان کا جنازہ ہوتا ہے لیکن اگر کوئی والدین اپنی دلی تسکین کےلیے ایسا کر لیں تو اس میں حرج بھی کوئی نہیں۔

جہاں تک روزانہ قبرستان جانے کی بات ہے تو اگر آپ بچی کی قبر پر جا کر صبر کر سکتی ہیں اور آپ کے روزانہ قبرستان جانے میں آپ اور باقی گھر والوں کو کوئی تکلیف نہیں ہو تی تو کچھ دن روزانہ قبرستان جا کر دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر وہاں جانے سے آپ کی طبیعت پر بُرا اثر پڑتا ہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہو تو پھر روزانہ قبرستان جانے کی بجائے گھر میں ہی رہ کر دعا کریں۔ اور یاد رکھیں کہ یہ بچی دراصل آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے آپ کو اتنے ہی وقت کےلیے عطا فرمائی تھی اور جب یہ وقت ختم ہوا تو اس نے اپنی امانت واپس لے لی۔ لہٰذا اسے اللہ تعالیٰ کی رضا سمجھ کر آپ کو اس پر صبر کرنا چاہیے۔

سوال:ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ غیر احمدی مسلمان جن میں میرے خاندان والے بھی شامل ہیں اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود لکھا ہے کہ جس نے میری ساری کتب تین دفعہ نہیں پڑھیں اسے میرے دعویٰ کی سمجھ نہیں ہے۔ اور پھر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا سب احمدیوں نے یہ کتب تین دفعہ پڑھی ہیں؟ اس کا کیا جواب دیا جائے؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 20؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ جس نے میری ساری کتب تین دفعہ نہیں پڑھیں اسے میرے دعویٰ کی سمجھ نہیں ہے۔ بلکہ حضور علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے کہ ’’اور وہ جو خدا کے مامور اور مرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبر سے ایک حصہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘

(نزول المسیح،روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 403)

حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کا مطلب ہے کہ جن لوگوں کی دنیاوی کتب اور علوم کی طرف توجہ رہتی ہے اور دینی کتب اور علوم کی طرف توجہ نہیں کرتے ان میں ایک طرح کا تکبر پایا جاتا ہے کیونکہ وہ دنیاوی علوم کو ہی کافی سمجھتے ہیں حالانکہ انسان کی نجات کےلیے دینی علوم کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے۔اور دینی علم دینی کتب کے پڑھنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

ایک جگہ حضور علیہ السلام نے اپنی تصنیف حقیقۃ الوحی کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا:’’ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ حقیقۃ الوحی کو اوّل سے آخر تک بغور پڑھیں بلکہ اس کو یاد کر لیں۔ کوئی مولوی ان کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا کیونکہ ہر قسم کے ضروری امور کا اس میں بیان کیا گیا ہے اور اعتراضوں کے جواب دئیے گئے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 235،ایڈیشن 1988ء)

پس اگر یہ بات درست ہوتی کہ جو شخص حضور علیہ السلام کی تمام کتب کو تین تین مرتبہ نہیں پڑھتا اسے دعویٰ کی سمجھ نہیں آسکتی تو حضور علیہ السلام حقیقۃ الوحی کے بارے میں ایک دفعہ غور سے پڑھنے کی تاکید نہ فرماتے بلکہ فرماتے کہ اسے بھی باقی کتب کی طرح تین تین دفعہ پڑھیں۔

حضورعلیہ السلام نے خود ایسا کہیں نہیں تحریر فرمایا البتہ سیرت المہدی میں ایک روایت ہے کہ ’’حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم ازکم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 365 روایت نمبر410)

اور اس روایت کا بھی وہی مطلب ہے جو اوپر میں نے بیان کر دیا ہے کہ دینی کتب کو چھوڑ کر صرف دنیوی کتب پڑھنا اور دینی علوم کو چھوڑ کر صرف دنیوی علوم حاصل کرنا انسان میں کبر کے پائے جانے کی عکاسی کرتا ہے۔پس ہر احمدی کو زیادہ سے زیادہ ان روحانی خزائن سے استفادہ کرنا چاہیے۔

سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزسے دریافت کیا کہ خطبہ جمعہ کے آخر پر امام نیچے بیٹھتا ہے اور پھر اٹھ کر خطبہ ثانیہ پڑھتا ہے، وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 23؍فروری 2020ءمیں اس مسئلہ کے بارے میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: یہ آنحضور ﷺ کی سنت ہے۔ چنانچہ کتب احادیث میں حضورﷺ کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کا یہ طریق بیان ہوا ہے کہ آپ پہلے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے اور جب وعظ و نصیحت وغیرہ سے فارغ ہوتے تو چند لمحوں کےلیے خاموشی سے نیچے بیٹھ جاتے اور پھر اٹھ کر خطبہ ثانیہ ارشاد فرماتے۔ اس کی وجہ جیسا کہ بعض علماء نے لکھا ہے شاید یہ ہے کہ اس کے ذریعہ دونوں خطبوں میں فرق واضح کیا جاسکے۔

لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر کوئی امام کسی تکلیف کی وجہ سے بیٹھ نہ سکے تو وہ پہلا خطبہ دےکر چند لمحے خاموشی سے کھڑے رہ کر خطبہ ثانیہ پڑھ سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کیا کرتے تھے، جب آپ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے نیچے بیٹھ نہیں سکتے تھے۔ اس وقت آپ پہلا خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد چند لمحوں کےلیے خاموشی سے کھڑے رہتے اور پھر خطبہ ثانیہ پڑھا کرتے تھے۔ اسی طرح جب میرا پتّے کا آپریشن ہوا تھا تو اس کے بعد جو پہلا جمعہ آیا تھا اس کے خطبے کے دوران میں نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا کہ چند لمحے خاموشی سے کھڑے رہ کر خطبہ ثانیہ پڑھا تھا۔

سوال: ایک جماعتی عہدیدار نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں احمدی لڑکیوں کوغیر احمدی اور غیر مسلم مردوں سے شادی کی اجازت ملنے پر فکر مندی اور پریشانی کا اظہار کر کے اس بارے میں راہ نمائی چاہی؟ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 29؍فروری 2020ءمیں اس بارے میں درج ذیل ہدایات سے نوازا۔ حضور نے فرمایا:

جواب:اسلام کے بعض احکامات انتظامی نوعیت کے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کوتو ان میں کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں دیا لیکن اپنے نبی اور اس کی نیابت میں خلفاء کو ان میں تبدیلی کرنے اور حالات کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔

میرے نزدیک مسلمان مرد اور عورت کا غیر مسلموں کے ساتھ نکاح کا معاملہ بھی اسی قسم کے انتظامی معاملات میں سے ہے۔ پس احمدی مرد ہو یا عورت اس کا کسی غیر احمدی یا غیر مسلم سے نکاح کی اجازت کا معاملہ خلیفۂ وقت کی صوابدید پر ہے، کسی اور کے پاس اس کا اختیار نہیں۔ خلیفۂ وقت ہر کیس میں حالات کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ لہٰذا جب میرے سے اجازت کےلیے رابطہ کیا جاتا ہے تو آپ کا کام ہے کہ آپ اپنی رائے کے ساتھ مجھے رپورٹ بھجوائیں۔ آپ لوگوں کا اس سے زیادہ کام نہیں ہے۔

سوال:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اطفال الاحمدیہ جرمنی کی Virtual ملاقات مورخہ 29؍نومبر 2020ء میں ایک طفل کے اس سوال پر کہ کورونا وائرس کےلیے جو آج کل ٹیکہ آیا ہوا ہے کیاوہ ہمیں لگوانا چاہیے یا نہیں ؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کے جواب میں فرمایا:

جواب:اگر ثابت ہو جائے کہ وہ اچھا علاج ہے اور اگر گورنمنٹ کہتی ہے کہ لگواؤ تو لگوا لو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن پہلے اس کا لوگوں کو تجربہ تو ہوجائے کہ جن کو لگا ہے ان کو فائدہ بھی ہوتاہے یا نہیں۔صرف سوئی چبھو نے کےلیے نہ ٹیکہ لگوا لو۔ اگر فائدہ ہوتا ہے تو ضرور لگوانا چاہیے، کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے عرض کیا کہ حضور اتنے سارے کام اکٹھے کس طرح کر لیتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:

جواب: ایک یہ کہ جب وقت ملے اپنا روز کا کام روز کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ دوسرا یہ کہ بعض دو دو کام ایک وقت میں بھی ہو جاتے ہیں۔ اب میں کسی کی باتیں سن رہا ہوں اور ساتھ کوئی خط بھی پڑھ لوں تو دو کام ایک وقت میں کر سکتا ہوں۔ اس طرح پھر تھوڑے وقت میں زیادہ کام ہو جاتا ہے۔ پھر یہ کہ انسان کا ارادہ ہو کہ میں نے اپنا کام ختم کرنا ہے۔ جب کام ختم کرنے کا ارادہ ہو تو پھر انسان توجہ سےکام کرتاہے تو کام ختم ہو جاتا ہے۔ تم لوگ بھی محنت کرو گے تو تمہارا کام بھی ختم ہو جایا کرے گا۔اگر تم محنت کی عادت ڈال لو تو تم بھی اسی طرح کر لو گے،یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے عرض کیا کہ حضور اپنے خطبات جمعہ کی تیاری کس طرح کرتے ہیں؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں فرمایا:

جواب:بعض ریسرچ والے مضامین ہوتے ہیں۔ مثلاً آج کل میں صحابہ کی ہسٹری بیان کر رہا ہوں۔اس میں جو ریسرچ والی ٹیم میرے ساتھ ہے وہ حوالے وغیرہ نکال کے مجھے دیتے ہیں۔ لیکن بعض ایسے خطبات جو عموماً تحریک جدید پہ،وقف جدید پہ یا تربیت پہ میں دیتا ہوں اس کےلیے میں خود کوئی نہ کوئی قرآنی آیت لے کے اورپھر اس کی تشریح اورتفسیر کرنے کےلیے میں خود اپنے ہاتھ سے سارے حوالے تیار کرلیتا ہوں۔ اس میں بھی اگر کوئی حوالے لینے ہوں تو یہ ریسرچ ٹیم میری مدد کردیتی ہے۔بعض دفعہ میں خود ہی سارے حوالے نکال لیتا ہوں اور بعض دفعہ میں اپنی ٹیم سے کہتا ہوں کہ مجھے فلاں فلاں ریفرنس نکال کے دےدو۔ پھر میں خطبہ جمعہ تیار کرلیتا ہوں۔

سوال: اسی ملاقات میں ایک اور طفل نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ پہلے سے جانتا ہے کہ ہم جنت میں جائیں گے یا دوزخ میں، اور اگر وہ جانتا ہے تو پھر ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب:دیکھوایک اللہ تعالیٰ کا علم ہے اور ایک ہمارا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ فلاں شخص دوزخ میں جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ ہر شخص کو رستہ بتاتا ہے کہ تم یہ نیک کام کرو گے تو جنت میں جاؤ گے۔یہ بُرے کام ہیں، یہ کروگے تو دوزخ میں جاؤ گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے انجام بخیر ہونے کی دعا مانگنی چاہیے کہ جب ہمارا مرنے کا وقت آئے تو اس وقت ہم اللہ کی باتوں پہ ایمان لانے والے ہوں تاکہ ہم جنت میں جائیں۔ یا ہماری ایسی کوشش ہو۔ قرآن شریف نے بھی ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ ہم اس وقت مریں جب اللہ تعالیٰ ہمارے سے راضی ہو۔ تو مقصد یہی ہے کہ ہم اُس وقت جنت میں جائیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں۔باقی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے وہ کسی کو بخش بھی دیتی ہے۔ ایک شخص کے بارے میں روایت میں آتا ہے کہ وہ بہت گناہ گار تھا، اس نے بے شمار قتل کیے ہوئے تھے، ننانوے قتل کیے ہوئے تھے۔ اس کو خیال آیا کہ میں بڑا بُرا آدمی ہوں، میں اپنی اصلاح کرلوں تاکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے اور میں جنت میں چلا جاؤں۔ وہ ایک مولوی کے پاس گیا۔اس نے اس سے پوچھا کہ میں نے اتنے قتل کیے ہیں، بہت گناہ گار ہوں۔ کیا میں جنت میں جا سکتا ہوں؟ اس نے کہہ دیا کہ نہیں تم جنت میں نہیں جاسکتے۔ تم دوزخ میں جاؤ گے ہی جاؤ گے۔ اس پہ اس نے اس کو بھی قتل کردیا کہ جہاں ننانوے قتل کیے ہیں ایک اور قتل کرو تا کہ سو پورے ہو جائیں۔ سو قتل کرنے کے بعد پھر اس نے کسی اور سے پوچھا کہ بھئی کوئی ایسا رستہ ہے جہاں میں اللہ کو راضی کرسکوں؟ اس شخص نے کہا ہاں فلاں شہر میں ایک شخص بیٹھا ہے وہ تمہیں صحیح رستہ بتا سکتا ہے، اس کے پاس جاؤ۔ جب وہ وہاں جا رہا تھا تو وہ راستے میں مر گیا، اس کو موت آگئی۔ جب وہ فوت ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نےاس شہر کو جس سے وہ قتل کرکے نکلا تھا اس سے دور کردیا اور جس طرف وہ جا رہا تھا اس کو اس کے قریب کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ایک تمثیلی زبان استعمال کی۔ اور پھر فرشتوں کو کہا کہ جاؤ اور بتاؤ اس کے متعلق کیا فیصلہ ہے۔دونوں فرشتے آئے ایک دوزخ میں لے جانے والا اور ایک جنت میں لے جانے والا۔اب دونوں لے جانے والوں میں جھگڑا ہو گیا۔ جو دوزخ میں لے جانے والا فرشتہ تھا وہ کہتا تھا کہ اس نے سو قتل کیے ہیں میں نے اللہ تعالیٰ سے کہہ کر اس کو دوزخ میں ڈلوا دینا ہے۔ جو جنت میں لےجانے والا تھا وہ کہتا تھا کہ نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے کہ جا کر اس کا راستہ ناپو۔ اس نے کہا اچھا۔ پھر فیصلہ یہ ہوا کہ ہم فاصلہ ناپتے ہیں اگر تو یہ اس شہر کے قریب ہوا جہاں یہ اپنے گناہ بخشوانے کےلیے جا رہا تھا تو یہ جنت میں چلا جائے گا اور اگر یہ اس شہر کے قریب ہوا جہا ں سے یہ قتل کر کے نکل رہا تھا تو دوزخ میں جائے گا۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے وہ فاصلہ کم کردیا اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس شہر کے وہ زیادہ قریب ہو گیا جہاں وہ گناہ بخشوانے کےلیے جا رہا تھا۔ اور صرف ایک بالشت کا فاصلہ تھا، ایک ہاتھ کا، (اس موقعہ پر حضور انور نے اپنے ہاتھ کی بالشت بنا کر اطفال کو دکھاتے ہوئے فرمایا)صرف اتنا فاصلہ اس طرف کم تھا اور دوسری طرف زیادہ تھا۔اور اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا اور جنت میں لے گیا۔تو یہ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت ہے۔اورایک دوسری روایت بھی ہے کہ ایک شخص نے کسی کو کہا کہ کیا میں بخشا جاؤں گا؟ اس نے کہا نہیں، تم بہت گناہ گار آدمی ہو، تم نہیں بخشے جا سکتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے وہ جو نیک آدمی تھا، بڑی نمازیں پڑھنے والا تھا، اپنے آپ کو بڑا نیک سمجھتا تھا، اس کو کہا کہ تم کون ہوتے ہو فیصلہ کرنے والے کہ کون جنت میں جائے گا اور کون دوزخ میں جائے گا۔پھرقسمت سے دونوں ایک ہی وقت میں اکٹھے مرگئے۔اورپھر جب اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تواللہ تعالیٰ نے اس نیک آدمی کو جس نے گناہ گار آدمی کو کہا تھا کہ تم دوزخ میں جاؤ گے اور میں جنت میں جانے والا ہوں، میری گارنٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا تمہاری گارنٹی کہاں سے آ گئی؟ چلو تمہیں میں دوزخ میں ڈالتا ہوں اور جس کو تم کہہ رہے تھے کہ دوزخ میں جاؤ گے اورجنت میں نہیں جاؤ گے اس کو میں جنت میں ڈالتا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت تو یہ ہے۔ اس لیے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کا علم بھی ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز پہ قادر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ رحمٰن بھی ہے، اس کی رحمانیت بھی ہے۔اور اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے، بخشنے والا بھی ہے۔ تو آخر میں آکر اللہ تعالیٰ ا پنے فیصلے کو بدل کے تقدیر بدل بھی سکتا ہے۔جب اس میں ہر قدرت ہے تو اس کو یہ قدرت بھی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ بدل دے۔ اس لیے اگر تم نے یہ کہہ دیا کہ جی اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہم نے دوزخ میں جانا ہے تو چلو گناہ کرتے رہو کوئی بات نہیں۔ فلاں کام کرتے رہو، حرام چیزیں کھاتے رہو اور سور کھاتے رہو اور شراب پیتے رہو اور گناہ کرتے رہو تو کچھ نہیں ہو گا۔ اب اتنا کچھ کرلیا ہے، اللہ نےہمیں کہاں بخشنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے نہیں، کوشش کرو، کوشش کرو میں آخر میں بھی تمہیں بخش سکتا ہوں۔ اس لیے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ شروع میں ہی بخش دے اور پھر انسا ن یہ دعا مانگے کہ میرا انجام بخیر ہو اور میں آخر تک نیکیاں ہی کرتا رہوں۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے ناں؟ اللہ تعالیٰ مالک ہے اس کو ہر چیز کااختیار ہے۔ وہ آخر میں آکے تمہیں بخش بھی سکتا ہے۔ تم نے کہہ دینا ہے کہ میری تقدیر کا فیصلہ ہو گیا میں تو گناہ گار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا اگر میں سو قتل کرنے والے کو بخش سکتا ہوں تو تمہیں بھی بخش سکتا ہوں۔

سوال: اسی Virtual ملاقات مورخہ 29؍نومبر 2020ء میں ایک اور طفل نے حضورانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ کورونا وائرس کے ختم ہونے کے بعد دنیا پھر سے ویسے ہی نارمل ہو سکتی ہے جیسے پہلے تھی؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جواب: یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ نارمل ہو جائے گی لیکن کورونا وائرس کے بعد دنیا کے جو معاشی حالات، Economic حالات ہو گئے ہیں اس کا اثر دنیا پہ پڑے گا۔ اور اگر معاشی لحاظ سے کچھ نہ بھی ہو، اگر جنگ نہ بھی ہو تب بھی معاشی حالات کو Stable ہوتے ہوتے کئی سال لگ جائیں گے۔لیکن عموماً یہی دیکھا گیا ہے کہ جب ایسے حالات ہوتے ہیں تو معاشی حالات بگڑتے ہیں اور پھر جنگوں کی صورت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور آج کل جو دنیا کی حالت ہے وہ یہ ہے کہ جنگوں کے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ اور اگر کورونا وائرس کے بعد جنگ ہو جاتی ہے تو پھر اور بھی خطرناک حالات ہو جائیں گے۔اور پھر اس کو نارمل ہوتے ہوتے بھی کئی سال لگ جائیں گے۔ اس لیے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور جو دنیا والے ہیں اس عرصے میں دنیا کی طرف جھکنے اور آپس میں ایک دوسرے کے حقوق مارنے اور غصب کرنے کی بجائے عقل کریں،ان کے لیڈر عقل کریں اور امن اور سکون سے رہنے کی کوشش کریں اور آپس میں اکٹھے ہو کے، دنیا کو ایک رکھ کے کوشش کریں تو جلدی دوبارہ نارمل حالات پیدا کرلیں گے۔ لیکن اگر انہوں نے یہ کوشش نہ کی تو پھر حالات نارمل نہیں ہو ں گے۔پھر حالات نارمل ہوتے ہوئےکئی سال لگیں گے اور بڑی خوفناک صورت حال پیدا ہو گی۔ ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ کورونا وائرس ختم ہونے کے بعد کہیں جنگوں کے حالات نہ شروع ہو جائیں۔اور پھر حالات نارمل ہوتے ہوتے کئی سال لگ جائیں گے۔ اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ نہ کرے کہ جنگوں کے حالات ہوں اور جو دنیا کے لیڈر ہیں وہ عقل کریں اوریہ کوشش کریں کہ جلدی سے جلدی نارمل حالات قائم ہو جائیں۔ لیکن اس کے لیے یہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ اگر اللہ کی طرف رجوع نہیں کریں گے تو پھر کوئی اور وبا، کوئی اور بلا،کوئی اور چیز ان پہ آئے گی اورپھر ان کو مار پڑے گی۔ تو جب تک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتے، اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتے اور اس کے بندوں کے حق ادا نہیں کرتے اس وقت تک حالات نارمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ہم احمدیوں کو بھی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے، تبلیغ کرنی چاہیے اور لوگوں کو بتانا چاہیے کہ دنیا کے حالات نارمل کرنے کےلیے ایک ہی علاج ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف جھکو، اللہ تعالیٰ کی طرف واپس آجاؤ، اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والے بنو اور اس کے بندوں کے حق ادا کرنے والے بنو۔ٹھیک ہے؟

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button