حضرت مصلح موعود ؓ

فضائل القرآن (3) (قسط نمبر 5)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(قسط چہارم کے لیے ملاحظہ فرمائیں الفضل انٹرنیشنل شمارہ 05؍اکتوبر 2021ء)

اس کے بعد دوسری بات یہ بتائی کہ پھر یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ سب کچھ دے دو حالانکہ انجیل نے کہا تھا کہ سب کچھ دے دینا چاہئے۔ اس سے اختلاف کیوں کیا۔ اس کی دلیل یہ دی ہے

فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۔ حَسَرَالشَّیْءَ

کے معنی ہوتے ہیں کَشَفَہٗ (اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 190 زیر لفظ ’’حسر‘‘ مطبوعہ بیروت 1899ء)اس نے کھول دیا۔ اور حَسَرَ الْغُصْنَکے معنی ہیں قَشَرَہٗ۔(اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 190 زیر لفظ ’’حسر‘‘ مطبوعہ بیروت 1899ء)ٹہنی کے اوپر کا چھلکا اتار دیا۔ گویا درخت کی چھال اتار دینے کو حَسَرکہتے ہیں۔ اسی طرح حَسَرَ الْبَعِیْرَ کے معنی ہیں

سَاقَہٗ حَتّٰی اَعْیَاہُ

(اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 190 زیر لفظ ’’حسر‘‘ مطبوعہ بیروت 1899ء) اونٹ کو ایسا چلایا کہ وہ تھک کر چلنے کے قابل نہ رہا۔ جس طرح درخت کی اوپر کی موٹی چھال اتار دینے سے درخت سوکھ جاتا ہے اسی طرح جانور کو اتنا چلایا جائے کہ اس میں چلنے کی طاقت نہ رہے تو وہ بھی نہیں چلے گا۔ پس فرمایا خواہ تم کتنا ہی دو دنیا میں محتاج پھر بھی رہیں گے۔ اگر آج تم سارے کا سارا دے کر تھکے ہوئے اونٹ کی طرح بن جائو گے یا چھال اترے ہوئے درخت کی طرح ہو جائو گے تو کل کیا کرو گے۔ جس طرح روزانہ کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی اعمال کا حال ہے۔ پس جو شخص روزانہ نیکی اور تقویٰ میں حصہ لینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے پاس بھی مال رکھے تا کہ بڑھے اور وہ پھر اس میں سے محتاجوں کو دے۔ پھر بڑھے اور پھر دے۔ یورپ میں ایسے ایسے تاجر موجود ہیں جو ایک کروڑ روپیہ تجارت میں لگا کر کئی کروڑ نفع کماتے ہیں۔ اور پھر بڑی بڑی رقمیں خیرات میں دیتے ہیں۔ اگر وہ اپنا سارے کا سارا مال ایک ہی دفعہ دے دیتے ہیں اور سرمایہ تک بھی پاس نہ رکھتے تو پھر نفع کس طرح کماتے اور کس طرح بار بار بڑی بڑی رقمیں خیراتی کاموں میں دیتے۔ پس فرمایا کہ اتنا بھی نہ دو کہ آئندہ سرمایہ پاس نہ رہے اور دوبارہ سر سبز ہونے کے سامان نہ رہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انگریزوں میں مثل مشہور ہے کہ کسی نے سونے کا انڈا حاصل کرنے کیلئے مرغی مار ڈالی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی کی مرغی روزانہ ایک سونے کا انڈہ دیتی تھی۔ اس نے خیال کیا کہ اگر میں اسے زیادہ کھلائوں تو ہر روز دو انڈے دے دیا کرے گی۔ اس طرح زیادہ کھلانے کی وجہ سے وہ مرغی مر گئی۔

پس اگر انسان اس تعلیم پر عمل کرے کہ اپنا سب کچھ ایک ہی دفعہ دے دے تو وہ آئندہ کے لئے محروم ہو جائے گا اور اپنی قابلیتوں سے کام نہ لے سکے گا۔

پھر حَسَر کے معنی ننگے ہو جانے کے بھی ہیں۔ (اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 190 زیر لفظ ’’حسر‘‘ مطبوعہ بیروت 1899ء)اس لئے محسورا کے معنی یہ بھی ہوئے کہ وہ ننگا ہو جائے گا۔ اور جو ننگا ہو وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے اور گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ پس فرمایا۔ اگر تم اپنا سارا مال دے دو گے تو پھر تمہیں گھر میں بے کار ہو کر بیٹھنا پڑے گا۔ اور تم کسی کام کے قابل نہ رہو گے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب دنیا میں لوگ ہمیں محتاج نظر آتے ہیں تو پھر کیا کریں۔ کس طرح کچھ حصہ دے کر باقی مال اپنے پاس رکھ لیں؟ اس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ رَبَّكَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَقْدِرُ اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا

جب کسی کے پاس دولت آتی ہے تو ہمارے مقررہ قانون کے ماتحت آتی ہے۔ ہم اسی کو دولت دیتے ہیں جس میں دولت کمانے کی قابلیت ہوتی ہے۔ اگر ایسی قابلیت رکھنے والوں کو ناقابل کر دیا جائے تو دنیا میں تباہی آ جائے۔

جو لوگ بڑھتے اور ترقی کرتے ہیں ان میں بڑھنے کی خاص قابلیت ہوتی ہے۔ اگر ان سے سارے کا سارا مال لے کر غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ دیا جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کمانے کی قابلیت رکھنے والے بھی روپیہ نہ کما سکیں گے اور ملک تباہ ہو جائے گا۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم جسے دولت دیتے ہیں اسی قانون کے ماتحت دیتے ہیں کہ اس میں ترقی کرنے کی قابلیت ہوتی ہے۔ اور اسی لئے دیتے ہیں کہ وہ ترقی کرے۔ چونکہ ایسے لوگوں کا سارے کا سارا مال دے دینا قوم کی تباہی کا موجب ہو سکتا ہے اس لئے ہم اس کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ لوگ قابلیت رکھتے ہیں انڈسٹری کی۔ وہ قابلیت رکھتے ہیں تجارت کی۔ وہ قابلیت رکھتے ہیں صنعت و حرفت کی۔ اگر ان کا سارے کا سارا مال فقیروں میں بانٹ دیا جائے تو پھر وہ ترقی نہ کر سکیں گے۔ غرباء اور مساکین کے پاس تو جو کچھ جائے گا وہ اسے کھا جائیں گے۔ لیکن ایک تاجر کے پاس مال رہتا ہے تو وہ اس سے اور کماتا ہے۔ اور نفع میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرتا ہے اور غریبوں کو بھی دیتا ہے۔ رہی یہ بات کہ پھر بھی ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جن کو دیکھ کر رحم آتا ہے تو اس کے متعلق فرمایا

اِنَّهٗ كَانَ بِعِبَادِهٖ خَبِیْرًۢا بَصِیْرًا

ہم اپنے بندوں کی حالت کو خوب جانتے ہیں اسی لئے ہم نے ایسا انتظام کیا ہے۔ تم ہم سے زیادہ بندوں پر رحم نہیں کر سکتے۔ ہم اپنے بندوں کی حالت تم سے زیادہ جانتے ہیں اور ان کی حالت کے مطابق ہم نے قانون بنا دیئے ہیں۔

اسی طرح ہاتھ گردن سے باندھنے کا محاورہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ اگر بالکل کچھ نہ دیا جائے تو بھی قوم تباہ ہو جاتی ہے۔ یعنی اس طرح بھی قوت عملیہ ماری جاتی ہے کیونکہ ایسے محتاج بھی ہو سکتے ہیں جو کام کرنے کی قابلیت بھی رکھتے ہوں ان کو ضرور دینا چاہئے۔ پھر جب تک غرباء کو اٹھایا نہ جائے امراء بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ گویا غرباء کے نہ ابھارنے کی وجہ سے امراء بھی گر جاتے ہیں۔ اور امراء کو مار دینے سے غرباء لاوارث ہو جاتے ہیں۔ پس امراء کا رہنا بھی ضروری ہے گو ان پر غرباء کی مدد کرنا بھی فرض ہے۔ اب دیکھو اسلام نے کس طرح خرچ کی مقدار بھی بتا دی اور اس کی دلیل بھی دے دی۔

اسراف اور بخل سے بچنے کی نصیحت

دوسری جگہ فرماتا ہے

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا (الفرقان:68)

اس میں بتایا کہ ہمارے بندوں کی درمیانی حالت ہوتی ہے۔ جنہیں ہم مال و دولت دیں ان کا فرض ہے کہ وہ نہ تو اپنی ذات پر ساری کی ساری دولت خرچ کر دیں اور نہ ساری دولت لوگوں کو دے دیں بلکہ ان کی درمیانی حالت ہو۔ وہ کچھ لوگوں پر خرچ کریں اور کچھ اپنے اوپر۔

اس میں اسلام نے کچھ اپنے اوپر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ بعض دفعہ اپنی ذات پر خرچ نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک گناہ ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ بادام روغن،مشک اور عنبر وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ آپ ان کے جواب میں سید عبدالقادر جیلانیؒ کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ وہ ایک ایک ہزار دینار کے کپڑے پہنتے۔ گویا ۱۶ ہزار روپیہ کا ان کا صرف ایک سوٹ ہوتا تھا۔ اس کے متعلق کسی نے ان سے پوچھا۔ تو انہوں نے فرمایا۔ میری تو یہ حالت ہے کہ میں کبھی کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو کھانا کھا۔ اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے یہ نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو فلاں کپڑا پہن۔(تذکرۃالاولیاء)حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دماغی کام کرتے تھے اور دماغی کام کرنے والے کے لئے جتنی مقویات کی ضرورت ہوتی ہے اتنی کسی اَور کیلئے نہیں ہو سکتی۔ ایسا انسان اگر اپنے اوپر خرچ نہ کرے گا تو وہ گنہگار ہو گا۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے گئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ کچھ لوگوں نے روزے رکھے ہوئے تھے اور کچھ نے نہ رکھے تھے جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا وہ تو منزل پر پہنچ کر لیٹ گئے لیکن جو روزہ سے نہ تھے وہ خیمے لگانے اور دوسرے کام کرنے لگ گئے یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے بڑھ گئے۔(مسلم کتاب الصیام باب جواز الصوم والفطر فی شہر رمضان للمسافر) پس اسلام کہتا ہے۔ جہاں کھانا مفید ہے اور اس سے خدمت دین میں مدد ملتی ہے وہاں اگر کوئی عمدہ کھانا نہ کھائے گا تو گناہگار ہوگا۔ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو سوتے تو مختلف محلوں کے لوگوں نے باریاں تقسیم کی ہوئی تھیں۔ وہ باری باری رات کو آپ کے مکان کا پہرہ دیتے۔ اس کے لئے اجازت دینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا۔ اور صحابہ ؓ کا یہ فرض تھا کہ رات کو آپﷺکی حفاظت کا انتظام کرتے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہونا اسلام کو نقصان پہنچانے والا تھا اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بادشاہت جتلاتے تھے اور اپنے لئے پہرہ مقرر کرتے تھے۔ پہرہ آپﷺ کے لئے ضروری تھا اور اس کا مقرر نہ کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہوتا۔

صدقہ و خیرات کی تقسیم کے متعلق ہدایات

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا ۔ اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا۔(بنی اسرائیل:27-28)

اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان کی گئی ہیں۔

اول۔ انسان مال و دولت بالکل ہی نہ لٹا دے بلکہ اپنے اہل و عیال کے لئے بھی رکھ لے۔ گویا ساری کی ساری خیرات نہ کرے بلکہ اس میں سے کچھ خیرات کرے۔

دوم۔ اس طرح خیرات نہ کرے کہ اس سے کسی کو فائدہ نہ پہنچے۔

تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا

کے معنی ہیں۔ بکھیر دینا۔ اگر دس بھوکے آئیں اور ایک روٹی دینے کے لئے ہو تو سب کو اس کا ایک ایک ٹکڑا دینے سے کسی کے بھی کام نہ آئے گی۔ وہی روٹی اگر ایک کو دیدو اور دوسروں سے کہہ دو کہ یہی ایک روٹی تھی تو یہ بہتر ہوگا۔ یا مثلاً بہت سے آدمی بیمار پڑے ہوں اور صرف پانچ گرین کونین ہو تو سب کو تھوڑی تھوڑی دینے سے کسی کو بھی فائدہ نہ ہوگا لیکن اگر ایک کو دے دی جائے تو اس کے لئے مفید ثابت ہو سکے گی۔ تو فرمایا اول تو یہ حکم ہے کہ سارا مال تقسیم نہ کر دو اور دوسرے یہ کہ اس طرح تقسیم کرو کہ جسے دو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا۔

اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا

ایسا انسان شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ اس طرح مال تقسیم کرنے سے کسی کو فائدہ نہ ہوگا۔ اور ناشکری پیدا کرے گا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button