امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ کی (آن لائن) ملاقات
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 13؍نومبر 2021ء کو نیشنل عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ ممبران مجلس خدام الاحمدیہ نے اس آن لائن ملاقات میں احمدیہ مشن ہاؤس Helsinki فن لینڈسے شرکت کی۔
دعا کے ساتھ اس ملاقات کا آغاز کرنے کے بعد حضور انور نے ہر ممبر مجلس عاملہ سے گفتگو فرمائی اور انہیں ان کے شعبہ کے حوالہ سے ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلائی جس کے ساتھ ساتھ ہر ممبر مجلس عاملہ کو انفرادی طور پر اپنے شعبہ کی مساعی کے حوالہ سے اپنی رپورٹ پیش کرنے کا موقع ملا اور حضور انور سے راہنمائی طلب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
دوران ملاقات حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ ممبران مجلس عاملہ مثالی رنگ میں اپنا نمونہ پیش کریں۔ حضور انور نے ممبران عاملہ پر خصوصی زور دیا کہ وہ پنجوقتہ نماز باقاعدگی سے ادا کریں۔ پھر اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے نئے طریقے ڈھونڈنے کے متعلق حضور انور نے فرمایا کہ اس خیال پر مصر نہ ہوں کہ آپ نے وہی پرانے اسلام کو پھیلانے کے طریقے ہی استعمال کرنے ہیں اور بس یہی وہ راستے ہیںبلکہ آپ کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کون سے مؤثر طریق اور راستے ہیں جن کے ذریعہ یہ لوگ اسلام کے پیغام کو قبول کر سکتے ہیں اور پھر آپ کو ان نئے اور مؤثر طریقوں کو بروئے کار لانا چاہیے۔
ایک غانین خادم جو مہتمم خدمت خلق ہیں انہیں اپنے شعبہ کی درست اصطلاح کا علم نہیں تھا جس پر حضور انور نے ازراہ شفقت متعدد بار ان کے لیے مہتمم خدمت خلق کی اصطلاح دہرائی تاکہ انہیں ذہن نشین ہو جائے اور فرمایا کہ اب آپ کو اس اصطلاح کا علم ہونا چاہیے اور آپ کویہ اصطلاح بولنی آنی چاہیے۔
حضور انور نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ آپ کا خدمت خلق کا کیا منصوبہ ہے؟
اس خادم نے عرض کی کہ ہمارے یہاں کئی منصوبے ہیں۔ یہاں خدمت خلق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ہمارا کام تو معمولی ہی ہے تاہم اس کا اچھا اثر ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو عمر رسیدہ لوگوں کے گھروں میں جانا چاہیے۔ ان ملکوں میں یہ لوگ محروم ہیں اور اگر آپ ان کو ملنے جائیں تو وہ خوش ہوتے ہیںکیونکہ ان کے اپنے عزیزو اقارب ان کو ملنے نہیں جاتے۔ اسی طرح آپ کو کسی افریقن ملک میں ہینڈ پمپ لگانے کے لیے کم از کم ہر سال کچھ رقم اکٹھی کرنی چاہیے۔ اگر آپ اس سے زیادہ خرچ نہیں کر سکتے تو سال میں کم از کم ایک ہینڈ پمپ فن لینڈ جماعت کی طرف سے لگنا چاہیے۔ آپ اس کے لیے منصوبہ بنائیں۔
مہتمم صاحب اطفال کو ہدایات سے نوازتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اچھا یہ خیال رکھیں کہ پندرہ سال تک اتنی ٹریننگ ہو جائے اطفال کی کہ جب وہ خدام میں جائیں تب بھی اٹیچ رہیں جماعت سے اور مجلس سے۔ اطفال الاحمدیہ کی حد تک تو بڑے اچھے ہوتے ہیں۔ جب پندرہ سال کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہ آزادی ملتی ہے تو پھر بالکل ہی بگڑ جاتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ پندرہ سال کے بعد سنبھالنا اور اگر پندرہ سال تک اچھی طرح سنبھالا جائے تو پھر ہمیشہ اٹیچ رہتے ہیں۔ اس طرف خاص توجہ کریں۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ جن خدام سے بار بار رابطہ قائم کرنے کے باوجود بھی رابطہ قائم نہیں ہو رہا اس حوالے سے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ چھوٹا سا ملک ہے۔ رابطہ قائم (کریں) کوئی آسٹریلیا تو نہیں ہے جو ایک کونے سے دوسرے کارنر تک رابطہ نہیں قائم ہو رہا۔ تو کوشش کریں رابطے قائم ہونے چاہئیں اس کا مطلب ہے آپ میں سستی ہے۔ جس سے رابطہ قائم نہیں ہو رہا عاملہ کی سستی ہے۔ عہدیداروں کی سستی ہے جو رابطہ قائم نہیں کرتے۔ سمجھ آئی۔ کوئی نظام ایسا بنائیں کہ ہر ایک تک پہنچیں۔ میں نے مربی صاحب کوکہا تھا کہ اٹھ کے السلام علیکم وعلیکم السلام کہہ کے حال پوچھ لیا کریں اگراور کچھ بھی نہ کہیں ناں تو اسی سے رابطے ہو جاتے ہیں۔ آپ رابطہ کرتے ہیں اس وقت جب آپ نے چندہ لینا ہوتا ہے، جب آپ نے رپورٹ مانگنی ہوتی ہے جب آپ نے وقار عمل کرانا ہوتا ہے جب آپ نے کچھ اَور اپنا مقصد پورا کرنا ہوتا ہے تو اس وقت رابطہ کر لیتے ہیں۔ کبھی خیال نہیں آیا کہ چلو ویسے ہی اپنے بھائی کی طبیعت پوچھ لو کیا حال ہے اس کا۔ عید والے دن اس کو السلام علیکم وعلیکم السلام کر کے عید کاتحفہ بھیج دیں۔ خدام الاحمدیہ چاہے بھیج دیا کرے آپ لوگ غریب ہیں تو اپنے بجٹ میں سے نہیں بھیج سکتے؟ تو اسی سے ان کو احساس ہو گا کہ ہاں جماعت سے ہمارا رابطہ ہے جماعت ہمارا خیال رکھتی ہے تو اس طرح رابطے بڑھائیں کہ جب کوئی کام نہیں تب بھی آپ ان سے السلام علیکم وعلیکم السلام ہوتا ہو۔ پھر ان میں بھی احساس پیدا ہو گا۔ کوئی انتہائی بے شرم ہو گا تو اس کو شرم نہیں آئے گی باقی کو شرم آہی جائے گی۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے حوالہ سے خدام کو کس طرح مؤثر رنگ میں توجہ دلائی جا سکتی ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ مہتمم تربیت کو چاہیے کہ گاہے بگاہے خدا م کو جمعہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا رہے۔ انہیں یہ بتانا چاہیے کہ ایک جمعہ ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے آپ کے دل پر ایک داغ لگ جا تا ہے اور اگلا جمعہ ادا نہ کرنے سے ایک اَور داغ لگ جاتا ہے اور تیسرا جمعہ ادا نہ کرنے سے سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ کہ ایسے لوگوں کے سوا جنہیں بہت شدید اور ناگزیر عذر ہو، ہر شخص کو جمعہ ادا کرنا چاہیے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ ان کو بتائیں کہ اس عہد کا کیا مطلب ہے جو ہم نے کیا ہے کہ ہم دین کو تمام دنیاوی امور پر ترجیح دیں گے۔ اگر مسجد دور ہے تو چار یا پانچ خدام باہم مل کر با جماعت نماز جمعہ ادا کر سکتے ہیں۔ بہر حال آپ کو بار بار نماز جمعہ کی ادائیگی پر زور دینا چاہیے اور توجہ دلانی چاہیے۔ یہ شعبہ تربیت کی ذمہ داری ہے۔
ایک دوسرے خادم نے سوال کیا کہ تبلیغی پمفلٹ جو ہم تقسیم کرتے ہیں ان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم مبارک بھی ہوتا ہے اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلفاء کی تصاویر بھی ہوتی ہیں تو جب ہم پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں تو بعض لوگ ان پمفلٹس کو یا تو پھاڑ کے پھینک دیتے ہیں یا ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں تو حضور اس سلسلہ میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟حضور سے راہنمائی کی درخواست ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ جہاں بہت ضروری ہے وہاں تصویر شائع کریں جہاں تصویر شائع کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے وہاں ضرورت کوئی نہیں تصویر کی۔ ٹھیک ہے اور جو جس کو تقسیم کرتے ہیں اس سے پوچھ لیں کہ یہ ہم دے رہے ہیں تم لوگے، لینا چاہتے ہو۔ جو لینا چاہتے ہیں ان کو دیں باقی ٹھیک ہے تصویریں ضائع تو کرتے ہی ہیں لوگ یا ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں یا ویسے پھاڑ کے سڑک پر پھینک دیتے ہیں اوپر لوگ چل رہے ہوتے ہیں تو ہر ایک کو زبردستی دینے کی ضرورت کوئی نہیں۔ کہ یہ ہمارے پمفلٹ ہیں لینا چاہو گے جو لینا چاہے اس کو دیں تو بہرحال ان کو تو کوئی قدر نہیں ہے ناں انہوں نے تو اس طرح کرنا ہی ہے جب تک ان کو سمجھ نہ آئے تو جہاں انتہائی ضرورت ہے وہاں تصویر شائع کرنی چاہیے ۔ باقی ضرورت کوئی نہیں ہے شائع کرنے کی۔ باقی تو تبلیغ کرنے کے لیے یہ چیزیں تو پھر کرنی پڑتی ہیں کچھ نہ کچھ تو مشکلات ہیں اور بعض دفعہ جذباتی تکلیف بھی پہنچتی ہے اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک خادم نے سوال کیا کہ کچھ لوگ خود سے کام نہ کرنے کا عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ حکومتی benefits سے بھی اتنی ہی آمدنی ہو جاتی ہے جتنی خود کام کر کے۔ ایسے احباب کو کس طرح خود کام کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے؟
حضور انور نے فرمایا کہ اچھا ان سے کہیں تم لوگ صدقہ لینا پسند کرتے ہو یا صدقہ دینا پسند کرتے ہو۔ اسلام تو کہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ تو بجائے اس کے کہ تم مسلمان کہلاتے ہوئے اور احمدی مسلمان کہلاتے ہوئے اسلام کی تعلیم پہ عمل کرو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر عمل کرو کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے،تم لوگوں نےنیچے ہاتھ رکھ کے مانگنا شروع کر دیا ہے صدقہ لے رہے ہو حالانکہ ایک نوجوان آدمی جو صحت مند بھی ہے اور کام کر سکتا ہے اس کو مطلب ہی کوئی نہیں صدقہ لینا۔ اس سے کہو قابل شرم بات ہے کہ تم فقیر بن کے رہ رہے ہو ۔ پاکستان میں اگر ہوتے تو فقیر بن کے مانگنا برداشت کرتے؟ یہاں آتے ہو تو فقیر بن جاتے ہو۔ تھوڑی سی غیرت دلائیں تو آپ ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔
بعد ازاں محترم صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ فن لینڈ نے حضور انور سے ا س خواہش کا اظہار کیا کہ اگر نو منتخب ممبران مجلس عاملہ حضور انور کے پیچھے عہد دہرا سکیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ جو میں نے باتیں کہہ دی ہیں اس پہ عمل کریں اور جو planہے اس کے مطابق کام کریں اور ایک نئے جذبے اور جوش سے اپنا نیا کام شروع کریں اور کوشش یہ کریں کہ ہم نے سو فیصد اپنے ٹارگٹ جو ہیں اپنے plan جو ہیں ان کو achieveکرنا ہے۔ یہی اصل چیز ہے عہد دہرانے سے کچھ نہیں ہو گا کہ عہد دہرا کے اس کے بعد کہہ دیاکہ ہم نے عہد دہرایا تھا اور ختم ہو گئی بات۔ ہم نے دعا کر لی نئی عاملہ نے دعا کر لی اس دعا میں سارا کچھ شامل ہو گیا۔
٭…٭…٭