خوف کے بعد امن کے نظارے (قسط اوّل)
(مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج مرکزی پریس اینڈ میڈیا آفس کی ڈائری کا اردو ترجمہ)
خاکسار نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا کہ خلیفہ وقت کس طرح اپنی جماعت کے لوگوں کو خطرات و پریشانی کے گہرے اندھیروں سے نکال کر سہارا بھی دیتے ہیں اور پھران کو وہ قوت و بشاشت بھی عطا فرماتے ہیں کہ وہ زندگی کے سفر میں پسماندہ اور درماندہ رہنے کی بجائے پھر سے آگے قدم اٹھانے لگتے ہیں
تعارف
گذشتہ چند ماہ میں مجھے زندگی کے عجیب نشیب و فراز دیکھنے کا تجربہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلسہ سالانہ برطانیہ کا انعقاد ہوا، گو یہ دو سال کے وقفے کے بعدہی تھا۔ اسی طرح انگلستان کی ذیلی تنظیموں یعنی مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اورلجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجتماعات کا بھی کامیاب انعقادہوا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آن لائن ملاقاتوں اور گوناگوں مصروفیات کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا۔ اس وقت جبکہ میں یہ ڈائری لکھ رہا ہوں تب جلسہ سالانہ جرمنی بھی آن پہنچاہے جس سےحضوربراہ راست خطاب فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ العزیز۔
اسی طرح سب کو معلوم ہی ہوگا کہ 23؍اگست 2021ء کی رات میرا بھانجا سید طالع احمدگھانا میں ایک جماعتی سفر کے دوران فائرنگ کی زد میں آیا جبکہ وہ وہاں ایم ٹی اے کی طرف سے ایک خدمت میں مصروف تھااور اس قیمتی وجود نے چند گھنٹے زندگی اورموت کی کشمکش میں مبتلا رہ کر24؍ اگست 2021ء کی صبح اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی اور شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
دنیا بھر میں رہنے والے احمدیوں نے 3؍ستمبر 2021ء کے خطبہ جمعہ میں شہید کا ذکر خیر سن لیا ہوگا جس میں حضور نے نوجوان شہید کے نیکی وتقویٰ اور اخلاص و اطاعت کے قابل رشک معیار اور اوصافِ حمیدہ کا ایمان افروز تذکرہ فرمایاتھا۔
طالع کے واقعہ شہادت کے بعد خاکسار نے ایک مضمون لکھنے کا ارادہ کیاتھاتا میں اس پیارے وجود کے بارے میں اپنے تاثرات اور مشاہدات لوگوں تک پہنچا سکوں۔ لیکن بعد میں جب میں نےمزید غور کیا تو میں نے سوچاکہ شہید کی زندگی میں جب کبھی بھی ہم دونوں نے کسی بھی پراجیکٹ پر کام کیا تو ہمارا اوّلین مقصد خلافت کی برکات اور اس آسمانی نور کو دنیا پر عیاں کرنا ہی ہوتا تھا اور مزید برآں دربار خلافت سے شہیدکو ملنے والے قابل رشک خراج تحسین اور اس کے تقویٰ اور اخلاص پر قیمتی ترین گواہی ملنے کے بعد میری کسی بات کی ضرورت کم ہی رہ جاتی ہے۔
پس اس پس منظر کے ساتھ خاکساران اگلے صفحات میں محض شہید کی باتیں اور یادیں بتانے کی بجائے حضورکے بارے میں اور دربار خلافت سے متعلق اپنے گذشتہ چند ہفتوں کے تجربات و مشاہدات بیان کرے گا۔
کیونکہ طالع کی خلافت احمدیہ کے لیے بے انتہا وارفتگی اور عشق کے معیار کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے پورا یقین ہے کہ اگر اسے ایسا موقع ملتا تو وہ بھی خلیفۃ المسیح کے ذکر اور حسین تذکرے کو ہی پسند کرتا۔
ان گزرے دنوں میں خاکسار نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا کہ خلیفہ وقت کس طرح اپنی جماعت کے لوگوں کو خطرات و پریشانی کے گہرے اندھیروں سے نکال کر سہارا بھی دیتے ہیں اور پھران کو وہ قوت و بشاشت بھی عطا فرماتے ہیں کہ وہ زندگی کے سفر میں پسماندہ اور درماندہ رہنے کی بجائے پھر سے آگے قدم اٹھانے لگتے ہیں۔
ان دنوں میں خاکسار اپنے غم و صدمےکی حالت کو دیکھ کر گواہی دے سکتا ہے کہ اگرخلافت احمدیہ کی طرف سے ملنے والا یہ سہارا اور شفقت نہ ہوتی تو شاید میں اپنے صدمے سے کبھی بھی نہ نکل پاتا۔
میں نے خود مشاہدہ کیا کہ ایسے مشکل وقتوں میں خلیفہ وقت اپنی ذاتی تکلیف اور دکھوں کو پس پشت ڈال کر یہ یقینی بناتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی ترقیات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کی رفتار و معیار میں لمحہ بھر کے لیے بھی، ذرّہ بھر بھی کوئی رخنہ یا کمی نہ آئے۔
مَیں نے دیکھا کہ کس طرح خلیفہ وقت جو دوسروں کےغم و اندوہ کے پہاڑوں کو بھی خود تھام لیتا ہے لیکن اس کی اپنی سب گریہ و زاری اور مناجات صرف اور صرف تنہائی میں اپنے حبیب خدا کے سامنے ہی پیش ہوتی ہے۔
سو یہاں خاکساربیان کرنے کی کوشش کرے گا کہ کس طرح خلیفہ وقت نے اس کڑے وقت میں شہید کی اہلیہ، بچوں، والدین، عزیز و اقارب، دوستوں اور رفقائےکار کو دلاسہ دیا، اوراسی طرح مجھے بھی ان گزشۃ ہفتوں کے دوران مختلف معاملات پر راہ نمائی اور برکت حاصل کرنے کی توفیق ملی۔
حضور انور کے باغیچےکی سیر
جلسہ سالانہ انگلستان سے چند روز قبل حضور نے خاکسار کو مختلف کاموں کے سلسلے میں اسلام آباد میں یاد فرمایا اور کام مکمل ہونے کے بعد بھی حضور انور نے از راہ شفقت مجھے کچھ دیر اپنے دفتر میں ہی رکنے کی اجازت دی۔
تب حضور اپنی دفتری ڈاک ملاحظہ فرماتے رہےاوراس دوران حضور نے ذکر فرمایا کہ ایک احمدی کا خط موصول ہوا ہے جس میں اس نے حضور کی ذاتی آمدن کے بارے میں سوال کیا ہے۔ یہ سن کر مجھے شدید دھچکا لگا کہ کوئی احمدی اپنے تجسس میں اس حد تک بھی جاسکتا ہے۔ کوئی احمدی اپنے اخلاص اور سادگی میں خواہ کیسے ہی درجے پر ہو، اس کا خلیفہ وقت سے ان کی ذاتی آمدن کے بارے میں سوال کرنا مجھے کسی طور پر مناسب نہ لگا۔
میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ایسے سوال کہاں قابل جواب ہوتے ہیں۔ لیکن قربان جائیں، پیارے حضور نے ایسے کسی بھی سوال اور وسوسے کا ازالہ کرنا بھی پسند فرمایا مبادا کسی کمزور احمدی کو جواب نہ ملنے سے کوئی ٹھوکر لگے۔
انتہائی ذاتی نوعیت کا سوال ہونے کے باوجود حضور نے اس احمدی کو معین جواب بھیجا۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے اس احمدی کو لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے مجھے نوازا ہوا ہے۔ علاوہ دیگر ذرائع آمدن کے میری پاکستان میں زرعی زمین ہے جو بہت اچھی فصل دیتی ہے جن سے مجھے ذاتی آمدن ہوتی ہے۔ چونکہ میرا زراعت اور کاشت کاری کا وسیع تجربہ ہے اس لیے میں کاشت کاری کے نت نئے طریقے اپناتا ہوں اور مجھے خاطرخواہ کامیابی ملتی رہتی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل میرے شامل حال ہے۔‘‘
حضور کا اتنا پیارا جواب سن کر بھی میرا دلی صدمہ کم نہ ہوا اورمجھے تعجب ہوا کہ کوئی احمدی اپنے آقا سے ایسے معاملات کے بارے میں تجسس کیسے کرسکتا ہے۔
تب مجھے یاد آیا کہ ایک گذشتہ ملاقات میں مجھے یہ جان کر حیرت انگیز مسرت ہوئی تھی کہ کس طرح دیگر ملکوں کے سفروں کے دوران حضوراپنے اور حضرت بیگم صاحبہ کے سفری اخراجات اپنی جیب سے ادا فرماتے ہیں۔
تب میں نے حضور کی خدمت میں عرض کی تھی کہ ان دورہ جات کے دوران تو حضرت بیگم صاحبہ لجنہ سے ملاقاتوں اور دیگر جماعتی پروگراموں میں ہی انتہائی مصروف رہتی ہیں۔
میری یہ گزارش سن کر بھی حضور نے مجھےفرمایا کہ حضور ان سب مصروفیات اور خدمات سے اچھی طرح آگاہ ہیں لیکن کبھی بھی پسند نہیں فرمائیں گے کہ جماعتی اموال کا ایک پیسہ بھی غیر ضروری طورپر خرچ ہو، اس لیے پسند فرماتے ہیں کہ یہ سفری اخراجات نجی طور پر حضور کی طرف سے ہی ادا ہوں۔
حضور نے دل آویز تبسم کے ساتھ سمجھایا کہ اگر انسان کو دلی اطمینان حاصل ہو اوروہ قناعت پسند ہو تو معمولی آمدن کے ساتھ بھی انسان بآسانی گزارہ کرسکتا ہے۔
اللہ کی جماعت
اسی ملاقا ت کے دوران خاکسار نے ذکر کیا کہ سوشل میڈیا پر معاندین جماعت حضور کے خلاف کینہ و بغض میں بعض ناپسندیدہ باتیں کررہے ہیں۔
اس کے جواب میں حضور نے فرمایا: ’’میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ایسی ناواجب باتیں پڑھ کر یا دیکھ کرمتاثر ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ مختلف جگہوں پر بسنے والے بعض کمزور ایمان کے احمدی بھی ان باتوں سے متاثر ہوکر جماعت کو ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ لیکن بالعموم ایسی باتیں نہ تو جماعت کی ترقیات کوروک پاتی ہیں اور نہ ہی جماعت کو کوئی گہرا اور مستقل نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی اپنی جماعت ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں، اس کی مدد مانگیں، اور یہی میرا طریق کار ہے۔‘‘
حضور کے کمال کو پہنچے ہوئے توکل علی اللہ سے بھرے کلمات سن کر مجھے عجیب اطمینان قلب نصیب ہوا۔
بعد ازاں آمدہ جلسہ سالانہ انگلستان کے ضمن میں حضور نے فرمایا: ’’بہرحال اس وقت، ایسے معاملات پر فکرمندہونے کی بجائے زیادہ ضروری ہے کہ ہم جلسہ سالانہ کے کامیاب انعقاد کے لیے دعائیں کر یں کہ اللہ تعالیٰ جلسہ کا انعقاد ہر لحاظ سے خیر وبرکت والا بنادے۔‘‘
کارپارکنگ میں ڈیوٹی کرنےوالے جوانان
الحمدللہ کہ موسم کی سختی کے باوجود6تا 8؍اگست کو منعقد ہونے والا جلسہ سالانہ انگلستان 2021ءتمام شاملین کے لیے دلی خوشی اور روحانی مائدہ کا سامان کرنے والا رہا۔ خواہ یہ شرکاء سفر کرکے حدیقۃ المہدی میں جلسہ گاہ میں پہنچے تھے یاانہوں نے مساجد، مشن ہاوسز اور گھروں میں بیٹھ کر مواصلاتی رابطے کے ذریعہ شرکت کی سعادت پائی۔
امسال ایم ٹی اے نیوز کو موقع ملاکہ ہم جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ کی تیاری سے لےکر جلسہ کی کارروائی اور مختلف اجلاسات کی رپورٹنگ کرتے رہے۔
ایسی ہی ایک دلچسپ اورمختصر رپورٹ ان خدام کارکنان کے بارے میں تھی جنہوں نے جلسہ کے تینوں دن کار پارک میں بارش کی وجہ سے ہونے والی پھسلن اور کیچڑمیں پھنسی گاڑیوں کو دھکا لگاکر پختہ جگہ تک پہنچانے کاکٹھن کام کیا۔ اس رپورٹ کی فلمنگ طالع نے ایک شام ایم ٹی اے نیوز کی طرف سے کی تھی۔
جلسہ سالانہ کے دوسرے دن کے اختتام پرطالع نے مکرم ابراہیم اخلف صاحب کی گاڑی میں لفٹ لی تھی تا وہ حدیقۃالمہدی سے کنٹری مارکیٹ میں کھڑی اپنی گاڑی تک پہنچ سکے۔ مگر ابراہیم صاحب کی گاڑی بھی بہت سی دوسری گاڑیوں کی طرح کیچڑ میں پھنس گئی اور جواں ہمت خدام کی مدد کی متلاشی ہوئی جنہوں نے اسے پختہ جگہ تک دھکیل کر پہنچانےکا مشکل کام کیا۔
اس دوران ڈیوٹی پر مامور خدام کے جذبہ خدمت سے متاثر ہوکر طالع نے اپنے موبائل فون سے ان مناظر کی ریکارڈنگ کرنی شروع کردی۔ اور پھر چند گھنٹوں بعد ہی بڑی محبت و محنت سے اسے باقاعدہ رپورٹ کی شکل میں تیار کرکے ایم ٹی اے نیوز کے لیے ’’کارپارک ہیروز‘‘ کے عنوان سے پیش کردیا۔
جلسہ سالانہ کے بعد اگلے ہفتے مورخہ 13؍اگست کے خطبہ جمعہ میں حضور نے بطور خاص ذکر فرمایا کہ لوگ ایم ٹی اے پرخدام کی بے لوث خدمت کے جذبہ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ہیں اور یہ مناظر تبلیغ اور تربیت کے لحاظ سے نہایت مفید ثابت ہوئے ہیں۔
حضور نے فرمایا: ’’بارش کی وجہ سے ایک وقت میں پارکنگ سے کاریں نکالنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہوگیا تھا۔ وہاں رضا کاروں نے غیر معمولی کام کیا ہے اور عملاً کاریں اٹھا کر ہی کیچڑ میں سے باہر رکھی ہیں …بہرحال پہلے اور دوسرے دن یا دوسرے دن کچھ وقت کے لیےجو کاریں وہاں آئی تھیں ان کو وہاں سے نکالنا بڑا مشکل تھا اور اس مشکل کو کیمرے کی آنکھ نے دیکھ لیا اور ایم ٹی اے نے دنیا کو دکھا بھی دیا‘‘
مزید فرمایا: ’’دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے اور غیر جو یہ نظارے دیکھ رہے تھے انہوں نے بڑی حیرت کا اظہار کیا ہے بلکہ غیر از جماعت اور غیر مسلموں نے تو اس نظارے کو دیکھ کر کہا کہ آج کی دنیا میں یہ نظارہ ناقابل یقین ہے۔ کوئی افسر ہے یا مزدور، سب کاروں کو کیچڑ سے نکالنے کے لیے خود کیچڑ میں لت پت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جنّوں کی طرح کام کرتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے ہیں۔‘‘
ایم ٹی اے نیوز کے لیے یہ مختصر سی ریکارڈنگ کرکے طالع نے دکھا دیا کہ وہ جماعت پر خدا کے فضلوں کی بارش دنیا پر ظاہرکرنے کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈنے میں کس قدر کوشاں رہتا تھا۔
جلسہ سالانہ کے بعد والی رونق کہاں گئی!!
حضور نے جلسہ سالانہ کے بعد اگلے روز عصر کی نماز کے بعد خاکسار کو یاد فرمایا اور مجھے اس حسین اور پاک وجود کی صحبت میں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
دنیا بھر سے احمدیوں نے جلسہ سالانہ میں اپنی شمولیت کے حوالے سےقلبی تاثرات لکھ بھیجے تھے، خواہ یہ لوگ حدیقۃالمہدی میں جلسہ گاہ میں حاضر ہونے والے خوش نصیب تھے یا اپنے اپنے ملکوں میں آن لائن استفادہ کرنے والے تھے، میں لوگوں کے ان تاثرات کی رپورٹ پیش کرتاگیااور اس دوران حضور نے اپنی دوسری دفتری ڈاک کی بھاری فائل کا مطالعہ جاری رکھا۔
میرے پاس لوگوں کے بھیجے ہوئے صفحات کا انبار تھا کہ کس طرح لوگوں نے دلی خوشی کے جذبات سے پُر ہوکر جلسہ کی کارروائی سے استفادہ کیا۔ اور اس جلسہ نے انہیں کیسی روحانی تروتازگی عطا کی ہے۔ ایسے چند تاثرات پیش کرکے میں حضور انور سے اجازت طلب کرتا کہ مزید کچھ پیش کروں تو ہر دفعہ حضور مزید پڑھنے کی اجازت مرحمت فرماتے۔
اور جب میں لوگوں کے بھیجے ہوئے تمام تاثرات پیش کرچکا تو حضور انور نے استفسار فرمایا کہ اس جلسہ کے بارے میں خاکسار کے اپنے کیا تاثرات ہیں؟
خاکسارنے جواباًعرض کیا: ’’گو اس دفعہ جلسہ کا انعقاد خاصے محدودپیمانے پر کیا گیا تھا لیکن پھر بھی جلسہ کا انتظام محدود محسوس نہیں ہوا۔ مجھے تو مکمل جلسہ کی طرح ہی لگتا رہا۔‘‘
اس پر حضور انور نے فرمایا: ’’ہاں۔ جلسہ محدود تو نہیں لگ رہا تھا۔ صرف جب میں نے جلسہ گاہ کا اوپرسے فضائی نظارہ دیکھا تو وہ 2019ء کے جلسہ سالانہ کے انتظامات کے مقابل پر کچھ کم تھا، ورنہ اور تو کوئی بھی خاص بڑا فرق نہیں تھا۔‘‘
پھرحضورانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’اس کے علاوہ بارش نے بھی اپنا کام دکھایا۔ چونکہ باہر بارش برستی رہی اس لیے لوگ مارکی کے اندر ہی رہے بجائے ادھر ادھر پھرنے کے۔ اور اس طرح سے بھی لوگوں کا پھیلاؤمعمول سے کچھ مختلف رہا۔‘‘
میں نے حضور انور سے اس واقعہ کے بارے میں دریافت کیا جو حضور نے جلسے کے پہلے دن سنایا تھا جب حضور انور جلسہ سالانہ انگلستان میں بطور مہمان شریک ہوئے تھے اور نماز کی ادائیگی کے دوران پانی میں سب بھیگ گئے تھے۔
حضور انور نے جواباً فرمایا: ’’یہ 1988ء کا جلسہ سالانہ تھا تب میں مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے نمائندہ کے طور پر آیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ تب مارکی کے اندر بھی پانی جمع ہوگیا تھا اور جس جگہ میں نے نماز ادا کی تھی وہاں بہت سا پانی کھڑا ہو گیا تھا۔ میرا سارا جسم چہرہ سمیت اس پانی سے بھیگ گیا تھا لیکن محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور جلسہ سالانہ کی وجہ سے کسی کو بھی ان مشکلات کا سامنا کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔‘‘
ملاقات کے اختتام کے قریب، حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: ’’ا س سال جلسہ سالانہ کا دیگر جلسوں سے ایک اور بہت بڑافرق تھا۔ کیونکہ عموماً جلسے کے اختتام کے بعد بھی جلسےکا ماحول اور اس کی رونق اگلے کئی ہفتوں تک قائم اور برقرار رہتی ہے اور میری مختلف ملکوں سے آنے والے وفود اور مہمانوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا کرتا ہے، لیکن ا س سال جب میں جلسہ گاہ سے واپس اسلام آباد پہنچا تو مکمل خاموشی تھی۔ آج صبح امیر صاحب جرمنی اور ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب دفتری ملاقات کے لیے حاضر ہوئے لیکن اداسی کا احساس موجود رہا۔ یہ اداسی کا احساس جلسے کے بعد سے اسی طرح موجود ہے۔ اس لیے میں نے تمہیں بلا لیا کہ چلو، کوئی تو میرے پاس بیٹھے گا، میں اس سے باتیں کرلوں گا اور احمدیوں کے تاثرات بھی مجھ تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
اس موقع پر جہاں میرے دل میں حضورکی اس شفقت پر اظہار تشکرکے جذبات ابھرنے لگے وہاں مجھے افسوس بھی ہونے لگا کہ حضور کس طرح سب مہمانوں اور جلسے کے خاص ماحول کی کمی کو محسوس کررہے ہیں جو جلسہ سالانہ سے کئی ہفتے قبل شروع ہوکر کئی ہفتے بعد تک جاری رہا کرتا تھا۔
حضور کی اپنی جماعت سے سچی اور گہری محبت آپ کے ان کلمات سے کھل کر سامنے آرہی تھی، مَیں دعا کرنے لگا کہ اے اللہ ! تو جلد کورونا وائرس کی وبا کا خاتمہ کردے تا زندگی پھر سے پہلی سی ڈگر پر آجائے۔
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کاررواں ہمارا
کورونا وائرس کی وبا کے دوران میں ہر جمعہ کے دن اسلام آباد حاضر ہوتارہا یا پھر ان دنوں میں جب آن لائن ملاقاتوں کا انعقاد ہوتا تھا۔
یا پھر باقی دنوں میں، جب کبھی حضور از راہ شفقت مجھے فون پر یاد فرمالیتے تھے۔ لیکن پھر بھی ان گذشتہ 18مہینوں میں مجھے اداسی اور بے چینی ستاتی رہی۔ اور ہمیشہ میرے دل میں خیال اٹھتا کہ مجھے تو روزانہ کی بنیاد پر اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہوکر اپنی مفوضہ رپورٹ پیش کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ حضور انور کو مجھے فون کرنا پڑے۔
اس وباکے آغاز کے دنوں میں حضور نے مجھے اشارۃً فرمادیا تھا کہ تمہارے روزمرہ کے معمول میں یہ تبدیلی محض وقتی ہے۔ لیکن گذشتہ چند ماہ سے مجھے یہ خیال آنے لگاتھا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ یہ عارضی اور وقتی انتظام مستقل معمول ہی بن جائے۔
لیکن مجھے بہت اطمینان اور خوشی ملی جب جلسہ سالانہ کے بعد حضور نے مجھے روزانہ اسلام آباد آنے کی اجازت مرحمت فرمادی۔
یہ تصوّر کرنا ہی میرے لیے ایک بڑی خوشی، اطمینان اور جذبات شکر لیے ہوئے تھا کہ میں اپنی روزانہ کی ڈیوٹی پر دوبارہ سے حاضر ہورہا ہوں اور مجھے روزانہ اسلام آباد آکر ملاقات کی اجازت مل گئی ہے۔ الحمدللہ
حضور کی افغانستان کے متعلق راہ نمائی
اگست کے مہینے میں افغانستان کے اندر سیاسی اور سماجی بحران شدیدتر ہونےلگا جب مغربی طاقتوں نے امریکہ کی سرکردگی میں چند دنو ں میں ہی فوجی انخلاء کا فیصلہ کیا۔ اور اس دوران طالبان نے نہایت تیز رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے ملک کے شہروں اور آبادیوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔
میں نے حضورکی خدمت میں تازہ صورت حال کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بحران کی شدت بتا کر راہ نمائی فرمانے کی درخواست کی تا کہ ہم میڈیا کے سوالوں کا جواب مہیا کرسکیں اور اپنی جماعت کا نقطہ نظر دوسروں تک پہنچا سکیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: ’’کئی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ کس طرح مایوسی کے عالم میں افغانستان سے جہازوں پر سوارہوکر نکلنا چاہ رہے ہیں یہاں تک کہ بعض اس کوشش میں جہازوں سے لٹک گئے اور نیچے گر کر اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ معصوم شہریوں کی دردناک صورت حال کو دیکھ کر انسان افسوس اور دکھ ہی کر سکتا ہے اور یقیناً ہماری ہمدردیاں اور دعائیں معصوم عوام کے لیے ہیں۔ افغان حکمران تو بدعنوان تھے اور امریکہ اور دوسرے ممالک افغانستان میں اپنے ناجائز مفادات کے لیے جمع تھے، اسی لیے عام عوام کوجن کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں انہیں حالات کی سنگینی کو بھگتنا پڑا ہے۔ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ملک میں جلد از جلد امن اور استحکام کا دوبارہ قیام ہوجائے۔‘‘
میں نے عرض کی کہ کیا یہ اچھا نہیں تھا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی افواج افغانستان میں ہی رہتیں تا امن وامان برقرار رہتا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: ’’اب تو یہ لوگ اپنا فیصلہ کرچکے کہ فوج کا انخلا ہی کرناہے۔ اس لیے ان کو وہاں ہی رہنے کا مشورہ دینا بے مقصد ہوگیا۔ میرے خیال میں اس موقع پر اقوام متحدہ کو آگے آنا چاہیےاور امن مشن بھیج کرافغانستان کے امن و استحکام کو یقینی بنانا چاہیے اور پوری کوشش کرنی چاہیے کہ افغانستان دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی آماجگاہ نہ بن جائے۔ اگر اقوام متحدہ مضبوط اور انصاف پسند ہوتی تو اب تک اس کو ایسے اقدامات کرکے یہ یقینی بنا لینا چاہیے تھا کہ افغان عوام کے حقوق، املاک اور آزادیاں محفوظ رہیں۔‘‘
میں نے حضورسے مزید سوال کیا کہ کیا دنیا کے مختلف ملکوں اور حکومتوں کوسرکاری طور پر طالبان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔
اس پر حضور انور نے فرمایا: ’’اگر طالبان اپنی طاقت کا بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں، افغان عوام کے حقوق کے انکاری ہیں، اور انتہاپسندی پر قائم ہیں تو دنیا کوان کی شدید ترین مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن اگر یہ طالبان پُرامن ہیں، اپنے ملک کے لوگوں کے حقوق کے محافظ ہیں، اورملک کی اکثریت ان کی حامی ہے تب اور معاملہ ہوگا۔ کیونکہ ہر ملک خودمختار ہے، اور سوائے افغان عوام کے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا، خواہ وہ مغربی ممالک ہوں یا کوئی اور، کہ وہ افغان حکومت کا انتخاب کریں۔
تاہم مجھے توابھی سے ہی طالبان کی طرف سے کیےجانے والے سنگین مظالم کی رپورٹس ملنا شروع ہوگئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ طالبان نے عوام کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہاں تمام احمدیوں اور دوسرے معصوم لوگوں کو محفوظ رکھے۔‘‘
بچوں جیسی سادگی
سکول میں موسم گرما کی تعطیلات کے دوران میں نے ارادہ کیا کہ اپنے بڑے بیٹے ماہد کو سائیکل چلانا سکھاؤں۔ لیکن کئی دن کی کوشش کے باوجود ہم کامیاب نہ ہوسکے جس کا اثر ہم دونوں پر تھا۔ اس پر میں نے اپنے رفیق کار، فرہاد احمد صاحب(مربی سلسلہ، پریس اینڈ میڈیا آفس )سے معاونت کی درخواست کی۔ کیونکہ ان کو اپنے خاندان کے کئی چھوٹے بچوں کو سائیکل سکھانے کا وسیع تجربہ تھا۔ یوں مکرم فرہاد صاحب کی محنت رنگ لائی اور ماہد دیکھتے ہی دیکھتے سائیکل چلانے لگا۔
اپنی اگلی ملاقات میں خاکسار نے حضور انور کو بھی اس پیش رفت سے آگاہ کیا اور گلیوں میں سائیکل چلاتے ہوئے ماہد کی ایک وڈیو بھی دکھائی۔ حضور نے سن کر اور وڈیودیکھ کر خوشی کا اظہار فرمایا۔
اگلی صبح مَیں اور ماہدکچھ جلدی جاگ گئے۔ مَیں اور ماہد سائیکل سمیت گھر سے نکلے اور قریب ہی واقع ایک سائیکل ٹریک پر سائیکل چلانے کی مشق کرنے لگے۔ یاد رہے کہ یہ ٹریک سڑک ہی کے ایک حصہ پر تھا۔
گذشتہ دن والی حضور انور کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میں نے موقع پا کر اپنی ملاقات میں تازہ پیش رفت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ آج صبح ہم کہاں جاکر سائیکل چلاتے رہے۔
فرمایا: ’’تم اتنی جلدی اسے سڑک پرلے گئے! بہتر ہوتا کہ وہ کم از کم ہفتہ دس دن گھر کے سامنے سائیکل چلانے کی مشق کرتا اور سڑک اور دوسرے سائیکل سواروں کے قریب جانے سے پہلے کچھ مزید اعتماد اور مہارت حاصل کرلیتا۔‘‘
پھر اپنی دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا: ’’لگتا ہے کہ تم خود ایک چھوٹے بچے کی طرح جذباتی ہوگئے اور صرف ایک دن میں ہی اسے لےکر سڑک کے قریب پہنچ گئے۔‘‘
میں صرف ہاں میں سر ہلا سکا کیونکہ حضور انور بالکل درست فرمارہےتھے۔
لیکن میں نے بعد میں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر اداکیا کہ میری جلدبازی کے باوجود کوئی ناخوشگوار واقعہ یا حادثہ پیش نہیں آگیا۔ اور خدا تعالیٰ کی ذات کے بے شمار احسانات پر بھی میری روح جذبات شکر سے جھک گئی کہ ایسے بالکل معمولی اور نجی معاملات پر بھی مجھے حضور کی راہ نمائی اور توجہ حاصل ہے۔
طالع کا آغازِ سفر
مورخہ 11؍اگست کی صبح طالع کارکن ایم ٹی اے نیوز اپنے سفر پر روانہ ہوا، اس دوران ایک طے شدہ پروگرام کے تحت عزیز موصوف نے اگلے 35دنوں میں غانا، سیرالیون اور گیمبیا کا سفر کرنا تھا۔
طالع نے ایم ٹی اے نیوز کے لیےایک ڈاکومنٹری تیار کرنی تھی، اسی سلسلہ میں وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ ’’نصرت جہاں سکیم‘‘ کے تحت افریقہ میں قائم کیے جانے والے تعلیم او رصحت کے منصوبوں کی ریکارڈنگ کرنے افریقہ جارہا تھا۔
طالع کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹریز دیکھنے والے آگاہ ہی ہوں گے کہ اس پیارے وجود کا اپنے کام کے دوران بھی خلافت سے تعلق اور محبت کا پہلو ظاہر ہوتا رہتا تھا، جیسا کہ اس سفر پر روانہ ہونے سے قبل تیاری کے دوران وہ افریقہ کے ان لوگوں کے بارے میں معلومات جمع کرتا رہا جو خلافت کے زیادہ قریب رہے تا کہ وہاں جاکر ان کے انٹرویو کرسکے۔
طالع کی خواہش تھی کہ وہ وہاں جاکر زیادہ سے زیادہ ایسے لوگوں کے انٹرویو کرسکے جو حضورکے قیام غانا کے دوران وہاں حضور کے آس پاس رہے، اوران پس ماندہ اور دوردراز علاقوں میں رہنے والوں کی تعلیم اورصحت کے میدان میں ترقی کے منصوبوں کو کیمرہ کی مدد سے اجاگر کرسکےاورخلافت احمدیہ کے زیر سایہ انسانیت کی اس عظیم الشان مدد اور بالخصوص حضور انور کی افریقہ میں خدمات کو زیادہ سے زیادہ دنیا کے سامنے لاسکے۔
غانا پہنچ کر طالع نے ابتدائی چند روز بڑے جوش اور توجہ سے سخت محنت و تیاری کرتے گزارے تاوہ اپنے اس سفر کے دوران زیادہ سے زیادہ مفید کام مکمل کرسکے۔ اسی طرح وہ مجھے بھی ساتھ ساتھ اپنی بعض مشکلات کا بھی بتاتا رہا جیسا کہ ایک دفعہ اس نے مجھے وہاں تندو تیز بارش کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال کی خبر دی لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے اس عزم کو بھی دہراتا رہا کہ وہ ہر مشکل کے مقابل پر اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے کمربستہ رہے گا۔
مجھے اس کے مضبوط عزم و ہمت نے بہت ہی متاثر کیا کہ اس پیارے وجود نے افریقہ پہنچ کر مجھے ایک دفعہ بھی وہاں ملنے والی اپنی رہائش کے معیار اور دیگر متوقع مقامی مشکلات کا ذکر تک نہ کیا۔ میری جب بھی میسج پر یا فون پراس سے بات چیت ہوئی میں نے اسے جوش و جذبے سے بھرا ہوا ہی پایا، ایک ایسا وجود جو ہمیشہ مثبت سوچتاہو اور اپنے مفوضہ کام کو احسن ترین رنگ میں مکمل کرنےپر کمربستہ ہو۔
(جاری ہے)