احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیاں میں واپس آئے
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کے والد ماجد
آپؒ کا عزم وہمت
اولوالعزمی آپ کی زندگی کا ایک نمایاں وصف تھا۔آپ کی ساری زندگی اسی عزم وہمت اور عالی حوصلگی سے عبارت تھی۔ جس کی ایک نمایاں مثال قادیان کی ریاست کی واپسی کے لیے مسلسل تگ ودو میں آپ کا مصروف رہنا تھا۔آپ ابھی جلاوطنی کی زندگی ہی گزاررہے تھے کہ آپ نے خاندان کی سربراہی ملتے ہی قادیان کی واپسی کی کوششیں شروع کر دیں۔ ایک طرف سارے ہندوستان کا پاپیادہ سفر کرنا بھی اسی مقصد کی ایک کڑی محسوس ہوتا ہے۔اور دوسری طرف جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے رام گڑھیہ مسل اوردوسری مسلوں پر قابو پاتے ہوئے سارے پنجاب پر اپنا تسلط جمالیا اورمہاراجہ کا لقب اختیار کرلیا تو حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دربارمیں بھی رسائی کی۔یہ ساری جدوجہد اشارہ کرتی ہے کہ قادیان واپس جانے کی تڑپ آپ کے دل کو بے چین کیے ہوئے تھی۔یہ عزم وہمت اور عالی حوصلگی آپ کووراثت میں ملی تھی۔
چنانچہ آپ کے والدبزرگواریعنی مرزاعطامحمدصاحب کوایک بار ریاست کپورتھلہ کے سردار جناب فتح سنگھ صاحب آہلووالیہ جو کہ آپ کے خاندان کے شاہی میزبان تھے انہوں نے کئی گاؤں آپ کے خاندان کے لیے بطور جاگیر دینا چاہے اور خواہش کا اظہار کیا کہ یہیں وہ مقیم رہیں لیکن خاندانی وقار اورحمیت وخودداری پیشکش قبول کرنے سے ہمیشہ متنفر رہی۔حضرت صاحبزادہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحبؓ خلیفۃالمسیح الثانیؓ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
راجہ فتح سنگھ نے مرزا عطا محمدصاحب کو دو گاؤں کی پیشکش کی لیکن انہوں نے صاف انکارکرتے ہوئے کہا اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر ہم یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہوجائے گی اوراپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اس کے دل سے جاتارہے گا۔
(ماخوذ از رپورٹ مجلس مشاورت 1937ء صفحہ 20 و تاریخ احمدیت جلداول،باب خاندانی حالات ، صفحہ ،34)
یہ وہ جوہرتھا جواس عظیم باپ نے اپنے اس عظیم بیٹے کے قلب وذہن میں پیدا کیا۔انہی اعلیٰ اوصاف کولے کریہ بیٹا جوان ہوا۔اورواقعی وہ پست ہمت نہ ہوااور اپنی جائداد کو واپس لینے کی لگن دل میں ہمیشہ موجزن رہی۔بلکہ اپنی زندگی کے آخری سانسوں تک یہ لوسینے میں جلتی رہی ہرچندکہ عدالتوں کے فیصلوں نے بظاہرسارے امکان معدوم کردیے لیکن امیدوں کاایک چراغ تھا جوایک جگہ جلتارہااوربجھنے نہ پایانہ اس کی لوکم ہوئی اور وہ اس ایک بیٹے کادل تھا۔مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کادل……
بہرحال قادیان کی ہجرت کے بعد ریاست بیگووال میں قیام کے دوران انہوں نے قادیان کوپانے کی تگ ودوجاری رکھی یہاں تک کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ تک یہ حالات و واقعات پہنچے یا پہنچائے گئے کہ قادیان کا یہ معزز خاندان اپنی ریاست سے جلاوطن ہوکر بیگووال میں پناہ گزیں ہے تو اس نے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒ کو اپنے دربار میں اعزاز کے ساتھ بلایا اور قادیان اور اس کے ساتھ کچھ گاؤں واپس کردیے۔
سرلیپل گریفن اپنی کتاب ’’پنجاب چیفس‘‘ میں لکھتے ہیں :
“Ranjit singh, who had taken possession of all the lands of the Ramgarhia Misal, invited Ghulam Murtaza to return to Kadian, and restored to him a large portion of his ancestral estates.”
(The Punjab Chiefs vol:2 Pg. 41)
یعنی رنجیت سنگھ، جوکہ رام گڑھیہ مسل کے تمام علاقہ پرقابض ہوچکاتھااس نے غلام مرتضیٰ کوقادیان واپس لوٹانے کاعندیہ دیا اور اس کی جدی ریاست کے ایک بڑے حصہ کوبحال کردیا۔ [سرلیپل گریفن جواس کتاب کے مصنف تھے۔یہ ایک اعلیٰ انتظامی عہدیدارتھے اور ترقی کرتے کرتے نمایاں مقام پایا۔لیکن حیرت ہے کہ یہاں انہوں نے جوبات لکھی ہے وہ تاریخی حقائق کے سراسرمنافی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ restored to him a large portion of his ancestral estates حالانکہ یہ تو بٹالہ کاپٹواری بھی جانتاتھا کہ حضرت مرزاصاحب کے آباؤاجدادکی ریاست کئی سودیہات پرمشتمل تھی اور سکھوں کے زمانہ تک بھی 85گاؤں جوکہ اصل میں کم ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔اور رنجیت سنگھ نے جب قادیان کی بستی واپس کی تو صرف پانچ گاؤں واپس کیے۔اب ان پانچ گاؤں کو Large portion لکھنا ایک حیرت انگیزبات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مصنف سے سہو ہوا ہے۔(’اےویلم‘)]
حضرت اقدسؑ نے اس واپس ملنے والی جاگیرکوایک قطرہ بلکہ اس سے بھی کم بیان فرمایاہے۔چنانچہ آپ اس کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثم رد اللّٰہ الٰی أبی بعض القرّیٰ فی عہد الدولۃ البرطانیۃ، فوجد قطرۃً او اقل منہا من بحر الاملاک الفانیۃ۔‘‘
(الاستفتاء، روحانی خزائن جلد22صفحہ704)
ترجمہ: پھراللہ تعالیٰ نے دولت برطانیہ کے عہدمیں بعض گاؤں واپس لوٹادیے اوریوں اس ضائع شدہ ملوکیت کے سمندرمیں سے گویاایک قطرہ یااس سے بھی کم انہوں نے پالیا۔
ایک اور جگہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس جائدادکی واپسی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’پھر انگریزی سلطنت کے عہد سے کچھ عرصہ پہلے یعنی ان دنوں میں جبکہ رنجیت سنگھ کا عام تسلط پنجاب پر ہوگیا تھا اس عاجز کے والد صاحب یعنی میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم دوبارہ اس قصبہ میں آکر آبادہوئے۔‘‘
(ازالہ اوہام ،روحانی خزائن زائن جلد 3صفحہ 165حاشیہ)
ایک اورجگہ آپؑ تحریرفرماتے ہیں :
’’پھر رنجیت سنگھ کی سلطنت کے آخری زمانہ میں میرے والد صاحب مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ قادیاں میں واپس آئے اورمرزا صاحب موصوف کو اپنے والد صاحب کے دیہات میں سے پانچ گاؤں واپس ملے کیونکہ اس عرصہ میں رنجیت سنگھ نے دوسری اکثر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو دبا کر ایک بڑی ریاست اپنی بنالی تھی۔ سو ہمارے تمام دیہات بھی رنجیت سنگھ کے قبضہ میں آگئے تھے اور لاہور سے لے کر پشاور تک اور دوسری طرف لودھیانہ تک اس کی ملک داری کا سلسلہ پھیل گیا تھا۔ غرض ہماری پرانی ریاست خاک میں مل کر آخر پانچ گاؤں ہاتھ میں رہ گئے۔ پھر بھی بلحاظ پرانے خاندان کے میرے والد صاحب مرزا غلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک مشہور رئیس تھے گورنر جنرل کے دربار میں بزمرہ کرسی نشین رئیسوں کے ہمیشہ بلائے جاتے تھے۔‘‘
(کتاب البریہ،روحانی جلد13صفحہ175۔176حاشیہ)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحب ؓ اپنی تصنیف سیرت المہدی میں بیان فرماتے ہیں :
’’رام گڑھی سکھوں کے زمانہ میں ہمارے خاندان کو بہت مصائب دیکھنے پڑے اور سخت تباہی آئی لیکن پھر راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے عہد میں ہماری جاگیر کا کچھ حصہ ہمارے آباء کو واپس مل گیا تھا۔‘‘
(سیرت المہدی، جلد اول روایت نمبر 44)
لیکن یہ چند گاؤں یعنی پانچ گاؤں ان کئی سو گاؤں کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ اس لیے آپ ؒ کے دل میں مسلسل یہ لگن تھی کہ یہ کھوئی ہوئی ریاست واپس لے کر رہیں گے۔ چنانچہ اس کے لیے جب تک سکھ حکومت رہی تو آپ نے یہاں اپنی کوششیں جاری رکھیں۔اور جب سکھ حکومت ختم ہوگئی اور انگریزوں کا تسلط ہوگیا اور آپ کی یہ جاگیر جو پانچ گاؤں پر مشتمل تھی وہ بھی ضبط کرلی گئی تو آپ نے اس وقت کی انگریز حکومت کی عدالت کے دروازے پردستک دی اور اس جائدادکوپانے کے لیے مقدمات کا ایساسلسلہ شروع ہوا کہ آپ کو اپنی زندگی بھر اس میں ناکامی کا ہی سامنا کرناپڑا۔آپ نے اپنی تمام تر جمع پونجی ان مقدمات میں صرف کردی حالانکہ جتنا روپیہ ان مقدمات میں صرف ہوا اس رقم سے موجودہ جائداد سےسَوگنا زیادہ جائداد بنائی جاسکتی تھی۔
ان مقدمات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہارے دادا نے قادیان کی جائیداد پر حقوق مالکانہ برقرار رکھوانے کے لئے شروع شروع میں بہت مقدمات کئے اور جتنا کشمیر کی ملازمت میں اور اس کے بعد روپیہ جمع کیا تھااور وہ قریباً ایک لاکھ تھا سب ان مقدمات پر صرف کر دیا۔ والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اس زمانے میں اتنے روپے سے سو گنے بڑی جائیداد خریدی جا سکتی تھی۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کو یہ خیال تھا کہ خواہ کچھ ہوقادیان اور علاقہ کے پرانے جدّی حقوق ہاتھ سے نہ جائیں اور ہم نے سنا ہے کہ دادا صاحب کہا کرتے تھے کہ قادیان کی ملکیت مجھے ایک ریاست سے اچھی ہے۔نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادیان ہمارے بزرگوں کا آباد کیا ہوا ہے جو آخر عہد بابری میں ہندوستان آئے تھے۔قادیان اور کئی میل تک اس کے ارد گرد کے دیہات ہمارے آباء کے پاس بطور ریاست یا جاگیر کے تھے۔ رام گڑھی سکھوں کے زمانہ میں ہمارے خاندان کو بہت مصائب دیکھنے پڑے اور سخت تباہی آئی لیکن پھر راجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے عہد میں ہماری جاگیر کا کچھ حصہ ہمارے آباء کو واپس مل گیا تھا۔لیکن پھر ابتداء سلطنت انگریزی میں پچھلے کئی حقوق ضبط ہو گئے اور کئی مقدمات کے بعد جن پر دادا صاحب کا زَرِ کثیر صرف ہوا صرف قادیان اوراس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ اور قادیان کے قریب کے تین دیہات پر حقوق تعلقہ داری ہمارے خاندان کے لئے تسلیم کئے گئے۔یہ حقوق اب تک قائم ہیں…(اس روایت میں جو خاکسار کی طرف سے یہ فقرہ درج ہوا ہے کہ ’’قادیان اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات پر حقوق مالکانہ … تسلیم کئے گئے‘‘ یہ درست نہیں ہے بلکہ سہو قلم سے یہ الفاظ درج ہو گئے ہیں کیونکہ حق یہ ہے کہ قادیان کے مشمولہ دو گاؤں جن کا نام قادر آباد اور احمد آباد ہے وہ دونوں دادا صاحب نے سلطنت انگریزی کے قیام کے بعد آباد کئے تھے اس لئے الفاظ ’’اور اس کے اندر مشمولہ دو دیہات‘‘ حذف سمجھے جانے چاہئیں۔)‘‘
(سیرت المہدی، جلد اول روایت نمبر44)
(باقی آئندہ)