متفرق مضامین

دعوت الیٰ اللہ کےاسلوب واہمیت

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

’’ان دلائل سے اور علمی اور روحانی خزانے سے کام لیتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دئیے ہیں، اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

دعوت دین کا عمل جہاں اہمیت اورعظمت کا حامل ہے وہیں یہ ایک نازک اورجوکھم بھراعمل بھی ہے کیونکہ دعوت دین اوراشاعت اسلام کا منہج صحیح اوردرست ہو تو اس کے فوائد جیسے وسیع ،ہمہ گیر اورہمہ جہتی ہوتے ہیں اسی طرح اگر دعوت اسلام کا منہج غلط اورنادرست ہو تو اس کے نقصانات بھی دوررس اور غیرمحدود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت دین جیسے عظیم الشان فریضہ کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیائےکرام کی بعثت کا سلسلہ جاری فرمایا اورخلق اللہ کی اخلاقی اورروحانی اصلاح کے لیے ایسے انسانوں کا انتخاب فرمایاجن کے نفوس مزکی اورقلوب مصفیٰ تھے ،اورساتھ ہی یہ قدرتی انتظام فرمایا کہ وحی کاسلسلہ بھی جاری فرمایا تاکہ دعوتی کو میدان میں وقتاًفوقتاًمفید ہدایات دی جاتی رہیں ۔

قرآن مجید میں تبلیغ و دعوت کی اہمیت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے دعوتی طریقہ کارپرروشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ۔(النحل:126)

اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو۔ یقیناً تیرا رب ہی اسے جو اس کے راستے سے بھٹک چکا ہے سب سے زیادہ جانتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کا بھی سب سے زیادہ علم رکھتا ہے۔

تبلیغ کی اہمیت اور تبلیغ کرنے والوں کے مقام و مرتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ہے کہ

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۔ (آل عمران:105)

اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو۔ وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بُری باتوں سے روکیں۔ اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ …۔(آل عمران:111)

تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو…۔

بدی کا مقابلہ بہترین نیکی سے

قرآن مجید نے تبلیغ کا ایک نمایاں اسلوب و طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ وہ بدی کا مقابلہ بہترین نیکی سے کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَ لَا تَسۡتَوِی الۡحَسَنَۃُ وَ لَا السَّیِّئَۃُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِیۡ بَیۡنَکَ وَ بَیۡنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیۡمٌ۔(حم السجدہ:35)

نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے (برابر)۔ ایسی چیز سے دفاع کر کہ جو بہترین ہو۔ تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا۔

بات کو کھول کھو ل کر بیان کرنا

قرآن مجید نے تبلیغ کا ایک یہ اسلوب اور طریقہ بیان فرمایا ہےکہ اپنی بات کو صاف الفاظ میںکھول کھول کر بیان کی جائے۔البتہ اگر ایک انداز سے دین کی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو کسی ایسے دوسرے پیرائے میں بیان کرسکتے ہیںجس کا فہم مخاطَب کے لیے آسان ہویا اسے قائل کرسکے۔قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ہی مضمون کو جابجا مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے اور اس کی حکمت کی بابت فرمایا:

وَ کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الۡاٰیٰتِ وَ لِیَقُوۡلُوۡا دَرَسۡتَ وَ لِنُبَیِّنَہٗ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ۔(الانعام:106)

اور اسی طرح ہم نشانات کو پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تا کہ وہ کہہ اٹھیں کہ تُو نے خوب سیکھا اور خوب سکھایا اور تاکہ ہم صاحبِ علم لوگوں پر اس (مضمون) کو خوب روشن کر دیں۔

تبلیغ کے متعلق آنحضرت ﷺ کےعملی نمونے

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے دعوت و تبلیغ کے بارے میںجو احکامات دیے ہیں اس کا اعلیٰ و اتم و اکمل نمونہ ہمارے پیارے آقا خاتم النبیین ﷺ کی حیات مبارکہ میںملتا ہے۔ آپؐ کی زندگی کا اٹھنا بیٹھنا ہی دعوت و تبلیغ تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپؐ کی حیات مبارکہ میںہی سارا عرب ایمان کی دولت سے منور ہو گیا۔ آپؐ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ جس پر چل کر ہم دعوت و تبلیغ کےسلیقے سیکھ سکتےہیں۔ آیے اُن میںسے چند ایک پر غور کریں۔

دعوتی اسلوب میں حکمت ودانشمندی

حکمت بہت بڑی دولت ہے، یہ لفظ اپنے جلو میں بے پناہ وسعت رکھتاہے۔آپ ﷺ کی بعثت کے جہاں اورمقاصد ذکرکیےگئے ہیں ان ہی میں سے ایک تعلیم حکمت بھی ہے۔(آل عمران:165) احادیث شریفہ میں جن چیزوں کوقابل رشک قرار دیا گیا ہے ان میں سے ایک حکمت بھی ہے۔ (بخاری،حدیث نمبر1409)

حکمت سے مراد وہ بصیر ت وشعورہے جس کے ذریعہ انسان مقتضائے حال کے مناسب کلام کرے، اور ایسا موقع تلاش کرے کہ مخاطب کی طبع نازک پراس کی کوئی بات گراں نہ گزرے ۔یعنی نرمی کی جگہ نرمی ،سختی کی جگہ سختی ،اختصارکی جگہ اختصار اورطوالت کی جگہ طوالت اختیارکرے ۔اورجہاں صراحت کے ساتھ کوئی بات کہنے میں مخاطب کو ناگوار گزرتاہو تو وہاں اشارے اورکنایات سے گفتگوکرے۔

تبلیغی گفتگوکرنے میں حکمت ودانشمندی اختیارکرنے کے ضمن میں بہت سی باتیں آتی ہیں ۔بطورنمونہ چندباتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

مخاطب کی ذہنی سطح کی رعایت

تبلیغ کے وقت مخاطب کی ذہنی سطح اوراس کے علم وفہم کی رعایت کی جائے۔ خود آپﷺ کا ارشاد ہے:

حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَایَعْرِفُون ۔(بخاری ،حدیث نمبر127)

لوگوں سے ان کے فہم کے مطابق گفتگوکرو۔

یعنی ہرشخص کے ساتھ یکساں گفتگونہ کرو بلکہ ہر ایک کی ذہنی سطح اورعلمی لیاقت کے مطابق گفتگو کرو۔یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا تھاکہ کعبۃ اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بنیادوں پر تعمیر کروں لیکن چونکہ قریش نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور کعبۃ اللہ کو منہدم کرکے دوبارہ تعمیر کرنے میں لوگوں کے فتنے میں پڑجانے کااندیشہ تھا اس لیے آپﷺ اس ارادے سے رُک گئے۔ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، حدیث نمبر5732)

اسی لیے آپ ﷺکے دعوتی اسلوب کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی تھاکہ آپ ﷺ ہمیشہ مخاطب کی ذہنی سطح کی رعایت فرماتے تھے۔اس کا اندازہ ابوداؤدکی ایک حدیث سے بھی ہوتاہے۔

حضرت جابربن سلیمؓ فرماتے ہیں کہ مَیں آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا،اورمَیں نے دریافت کیا کہ کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا:مَیں اس خداکارسول ہوں کہ جب تمہیں کوئی نقصان پہنچے پھراس سے دعا کرو تو وہ غلہ اورسبزہ اگائے۔ اورجب تم کسی بے آب وگیاہ سرزمین میں ہو پھرتمہاری اونٹنی گم ہوجائے اورتم اس سے دعا کرو تو وہ تمہاری اونٹنی واپس لائے۔(ابوداؤد،حدیث نمبر4084)

مذکورہ بالاحدیث میں آپ ﷺ نے حضرت جابرؓ کوبہت سی ایسی باتوں کی طرف توجہ دلائی جوان کے روزمرہ کے مشاہدے اورتجربے میں تھیں۔چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا کہ میں اس خداکارسول ہوں جس سے مصیبت میں دعائیں مانگی جاتی ہیں ،اورجوبندے کی ہر چھوٹی بڑی پریشانیوں کودورکرتاہے ،واقعہ یہ ہے کہ اگر تبلیغ کرتے وقت مخاطب کی علمی وذہنی سطح کی رعایت نہ کی جائے تو مدعوکے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور قبول حق کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے مخاطب کے فہم اوراس کی صلاحیت کے مطابق بات کرناہی حکمت ہے ۔

انسانی نفسیات کی رعایت

انسانی نفسیات کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دَورمیں نفسیات ایک فن کی حیثیت اختیارکرگیا ہے ۔ اس لیے دعوتی مذاکرات کے وقت مخاطب کی نفسیات کا خیال رکھے ۔آپﷺ ہمیشہ دعوت دیتے وقت مخاطب کی نفسیات کاخیال رکھاکرتے۔ آپؐ جس کی سیرت طیبہ سے ایک مثال پیش ہے۔

ایک شخص رسو ل اکر م ﷺ سے عرض کرتاہے کہ یارسول اللہ !میں بہت سے گناہوں میں مبتلاہوں اورمجھ میں ان گناہوں سے بچنے کی قدرت نہیں ہے البتہ کسی ایک گناہ کو چھوڑسکتاہوں۔حضور ﷺ نے فرمایا:کیاتم مجھ سے وعدہ کروگے کہ تم کبھی جھوٹ نہیں بولوگے ؟اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !میں عہد کرتا ہوں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اس کے بعد وہ شخص یہ کہتاہواچلاگیاکہ حضور ﷺ نے مجھ سے کتنی آسان چیز کامطالبہ کیا ہے۔جب رات میں تاریکی چھاجاتی ہے تویہ شخص گناہ کے ارادے سے نکلتاہے۔مگر فوراًاس کے ذہن میں آتاہے کہ کل جب حضورﷺ سے میری ملاقات ہوگی اورآپ مجھ سے دریافت کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا؟سچ بولوں تو مجھ پر حدجاری کی جائے گی۔جھوٹ اس لیے نہیں بول سکتاکہ میں آپ ﷺسے ہمیشہ سچ بولنے کا عہد کرچکا ہوں۔ جب بھی اس شخص کے دل میں کسی گناہ کاخیال آتاتو وہ یہی سوچتا۔ چند دنوں کے بعد جب آپ ﷺ سے اس کی ملاقات ہوئی، اورآپ ﷺنے اس سے سارے حالات دریافت کیے تواس نے کہا: اے اللہ کے رسول !جھوٹ نہ بولنے کے عہدنے سارے گناہ چھڑوادیے۔

اس پورے واقعہ کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ ﷺ نے پوری بصیرت و دانشمندی کے ساتھ اس کی نفسیات کاجائزہ لیا کہ یہ شخص ایک طرف سارے گناہوں کااعتراف کررہاہےاورساتھ ہی یہ بھی کہہ رہاہے کہ میں صرف ایک گناہ کو چھوڑ سکتا ہوں۔ اس سے اندازہ ہورہاہے کہ یہ شخص بڑاراست گو اور جرأت مند ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے مستقبل کا پوراخاکہ ذہن میں رکھتے ہوئے اس کو ایسے گناہ سے بچنے کاحکم دیا جو بالآخر تمام گناہوں کے چھوڑنے کاپیش خیمہ ثابت ہوا۔

اخلاق حسنہ کا مظاہرہ

جن غیرمسلموں کے ساتھ دعوتی واصلاحی موضوعات پر باہمی گفتگو ہو ان کے ساتھ غم خواری اورہمدردی کابرتاؤ کیا جائے۔اچھے اورشریفانہ اخلاق کا ان کے سامنے مظاہرہ کیا جائے کیونکہ اخلاق حسنہ وہ اثر انگیز طلسم ہے جو انسان کی کایا پلٹ دیتاہےدلوں سے حسد ونفرت اوربغض وعداوت کو ختم کردیتا ہے اوراطاعت وقبول کا صالح جذبہ پیداکرتا ہے۔چنانچہ روایتوں میں آتاہے کہ ایک یہودی لڑکا آپ ﷺکی خدمت کیا کرتاتھالیکن جب وہ بیمار پڑاتو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئےاوراس کے سرہانے بیٹھنے کے بعد فرمایا: اے بیٹے! اسلام قبول کرلے۔ اس لڑکے نے مستفسرانہ نگاہوں سے اپنے والدکو دیکھا، والد نے کہا: بیٹا ابو القاسم کی بات مان لے۔ چنانچہ اُس نے کلمہ پڑھا اورمسلمان ہوگیا۔جب آپ ﷺ واپس ہونے کے لیے اٹھے توزبان مبارک پریہ فقرہ تھا:تعریف ہے اس خداکی جس نے اس کو دوزخ کی آگ سے بچالیا ۔(بخاری ،حدیث نمبر1356)

موعظت حسنہ

موعظت حسنہ سے مراد یہ ہے کہ تبلیغ کرتے وقت داعی میں ہمدردی اورخیرکاعنصرغالب ہو۔حق بات کو اچھے اورموثر اندازمیں مخاطب کے سامنے پیش کیا جائے۔حضرت موسیٰ وحضرت ہارون علیہماالصلوٰۃ والسلام کو جب فرعون کی اصلاح کے لیے بھیجاگیا تو انہیں یہ ہدایت دی گئی کہ اس سے نرم بات کرو:

اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی۔ فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی۔(طہ:44تا45)

تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ۔ یقیناً اس نے سرکشی کی ہے۔ پس اس سے نرم بات کہو۔ ہو سکتا ہے وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔

آج جن لوگوں کے ساتھ دعوتی واصلاحی پہلوپر بات کرتے ہیں ظاہر ہے کہ وہ فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں اورہم میں سے کوئی موسیٰ وہارون علیہماالسلام کے برابر مکرم اورقابل احترام نہیں ،توہمیں یہ کیسے حق حاصل ہوگاکہ دعوت دین کے وقت سخت اوردرشت لہجہ اختیارکریں یا کوئی ایساعنوان اختیارکریں جس سے مخاطب کی دل آزاری ہو یا اس کی حیثیت عرفی مجروح ہو۔

تبلیغ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے ارشادات

٭…’’خدا تعالیٰ چاہتاہے کہ ان تمام رُوحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحِد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اَخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ306-307)

آپ علیہ السلام اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں:

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

٭…’’یہ صحیح ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں۔ ابتداء میںاہلِ دنیا اُن کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اُنہیں قسم قسم کی تکلیفیں دیتے اور ا ُن کی راہ میں روڑ ے اَٹکاتے ہیں۔ کوئی پیغمبر اور مرسل نہیں آیا جس نے دکھ نہ اُٹھایا ہو، مکار،فریبی، دکاندار اس کا نام نہ رکھا ہو۔ مگر باوجود اس کے کہ کروڑہا بندوں نے اس پر ہر قسم کے تیر چلانے چاہے۔ پتھر مارے، گالیاں دیں۔ انہوں نے کسی بات کی پروا نہیں کی۔ کوئی امر اُن کی راہ میں روک نہیں ہوسکا۔ وہ دنیا کو خد اتعالیٰ کاکلام سناتے رہے اور وہ پیغام جو لے کر آئے تھے۔ اس کے پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس تکلیفوں اور ایذاء رسانیوں نے جو نادان دنیاداروں کی طرف سے پہنچیں نےاُن کو سست نہیں کیا بلکہ وہ اور تیز قدم ہوتے گئے یہاںتک کہ وہ زمانہ آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ مشکلات ان پر آسان کر دیں اور مخالفوں کو سمجھ آنے لگی اور پھر وہی مخالف دنیا ان کے قدموں پر آگری اور اُن کی راستبازی اور سچائی کا اعتراف ہونے لگا۔ دل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں وہ جب چاہتا ہے بدل دیتا ہے۔ یقینا ًیاد رکھو۔تمام انبیاء کو اپنی تبلیغ میں مشکلات آئی ہیں۔ آنحضرت ﷺ جو سب انبیاء علیہم السلام سے افضل اور بہتر تھے۔ یہاں تک کہ آپﷺ پر سلسلۂ نبوت اللہ تعالیٰ نے ختم کر دیا یعنی تمام کمالات نبوت آپ پر طبعی طور پر ختم ہو گئے۔ باوجود ایسے جلیل الشان نبی ہونے کے کون نہیں جانتا کہ آپ ﷺ کو تبلیغ رسالت میں کس قدر مشکلات اور تکالیف پیش آئیں اور کفار نے کس حدتک آپؐ کو ستایا اور دُکھ دیا۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ152،ایڈیشن1988ء)

٭…’’ہم اپنی طرف سے بات پہنچادینا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پو چھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح سے نہیں بتا یا۔ اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے۔ تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 590،ایڈیشن1988ء)

٭…’’عوام الناس کے کانوں تک ایک دفعہ خدا تعالیٰ کے پیغام کو پہنچا دیا جاوے کیونکہ عوام الناس میں ایک بڑا حصّہ ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو کہ تعصّب اور تکبر وغیرہ سے خالی ہوتے ہیں اور محض مولویوں کے کہنے سننے سے وہ حق سے محروم رہتے ہیں۔جو کچھ یہ مولوی کہہ دیتے ہیں۔ اُسے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہہ کر مان لیتے ہیں۔ ہماری طرف کی باتوں اور دعووں اور دلیلوں سے محض نا آشنا ہوتے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 551)

صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبلیغ کا شوق و جذبہ

اصحاب احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میںہمیںتبلیغ کے ایک سے بڑھ کر ایک واقعات نظر آتے ہیں۔ چند ایک پیش ہیں۔

٭…حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں نے بیعت کر لی۔ حضرت اقدس کی کتابیں پڑھیں۔ ایک جوش پیدا ہوا اور تبلیغ شروع کر دی۔ اُن ایام میں میری تبلیغ کا طریق یہ تھا کہ جہاں چار پانچ آدمی اکٹھے بیٹھے دیکھتا، جاتے ہی السلام علیکم کہہ کر کہتا کہ مبارک ہو۔ لوگ متوجہ ہو کر پوچھتے کہ کیا بات ہے؟ میں کہتا کہ حضرت امام مہدی آ گئے ہیں۔ اس پر کوئی ہنسی اڑاتا۔ کوئی مخول کرتا۔ کوئی مزید تفصیل سے پوچھتا۔ غرض یہ کہ کسی نہ کسی رنگ میں بات شروع ہو جاتی اور میں تبلیغ کا موقعہ نکال لیتا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ32روایت حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ)

٭…حضرت شیر محمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ’’مَیں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ ایک کنواں دودھ کا بھرا ہوا ہے اور میں نے بعض دوستوں کو کنویں میں سے بالٹیاں بھر بھر کر دودھ پلایا۔ لہٰذا وہ کنواں خشک ہو گیا۔اس پر مَیں مولوی فتح دین صاحب کے پاس گیا اور اُن کو یہ خواب سنائی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس جاؤ یا مولوی نورالدین صاحب کے پاس جاؤ۔ اس پر مَیں قادیان میں آیا اور مولوی عبدالکریم صاحب کو یہ خواب سنائی تو انہوں نے فرمایا کہ ’’دودھ‘‘ سے مراد علم ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں تو ایک حرف تک پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ اس علم سے مراد وہ علم ہے جو خدا سکھائے۔ اور جو بالٹیاں بھر بھر کے پلایا ہے، اس سے یہ مراد ہے کہ کئی دوست آپ سے مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے متعلق فیض اُٹھائیں گے۔ اور کنواں خشک ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو تمہیں تبلیغ کرنے سے روکتے تھے اور حضرت اقدسؑ (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو مہدی کہنے سے روکتے تھے، وہ ایک دن تیرے سامنے مردہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا یہ تینوں باتیںپوری ہو گئیں، اور خان فتح میں میری اتنی مخالفت کے باوجود تمام گاؤں کا گاؤں ہی میری تبلیغ اور خدا تعالیٰ کی مدد اور حضور کی دعاؤں سے احمدی ہو گیا۔‘‘

(رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 82 روایت حضرت شیر محمد صاحبؓ بحوالہ خطبہ جمعہ فرمودہ 09؍مارچ 2012ء)

٭…حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ لاہور میں ایک غیر احمدی کا لڑکا جو ریلوے میں ملازم تھا، آریہ خیالات کا ہو گیا۔ اُس کے والدین کو اس سے بڑی پریشانی ہوئی۔ اور وہ اُس کو بیگم شاہی مسجد کے ایک مولوی کے پاس لے گئے۔ اُس نے مولوی صاحب کےسامنے جب چند آریوں کے اعتراضات پیش کئے تو وہ بہت طیش میں آ گیا اور اُس کو مارنے کے لئے دوڑا۔ جس پر وہ نوجوان اپنی پگڑی وغیرہ وہیں چھوڑ کر بھاگ پڑا۔ لوگ بھی اُس کے پیچھے بھاگے۔ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر ایک احمدی احمد دین صاحب جو رفو گری کا کام کرتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لئے اور اُس کے مکان تک ساتھ گئے۔ اصل واقعہ معلوم کرنے کے بعد احمد دین صاحب میرے پاس آیا۔ اور مجھے اس لڑکے کے حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اُس کو ضرور ملنا چاہئے اور اس کے خیالات کی اصلاح کی کوشش ہونی چاہئے۔چنانچہ مَیں اُن کے ہمراہ اُس لڑکے کے مکان پر گیا۔ پہلے تو وہ گفتگو ہی کرنے سے گریز کرتا تھا اور صاف کہتا تھا کہ مَیں تو آریہ ہو چکا ہوں۔ مجھ پر اب آپ کی باتوں کاکوئی اثر نہیں ہو سکتااور اُس نے گوشت وغیرہ ترک کر کے آریہ طریق اختیار کر لیا ہوا تھا۔ اُن کی مجالس میں جاتا اور اُن کی عبادات میں شریک ہوتا تھا۔ میرے بار بار جانے اور اصرار کرنے پر وہ کسی قدر مجھ سے مانوس ہوا۔ جب وہ سیر کو جاتا تو میں بھی اُس کے ہمراہ ہو جاتا۔ بعض اوقات میں اُس کے لئے انتظار بھی کرتا کہ جب وہ سیر کو نکلے گا تو مَیں اُس کے ہمراہ ہو جاؤں گا۔ تھوڑے دنوں کے بعد اِیسٹر کی تعطیلات آگئیں۔ مَیں نے اُسے کہا کہ میرے ساتھ قادیان چلو مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوتا تھا اور کہتا تھا کہ مَیں مولویوں کے پاس جانے کو تیار نہیں ہوں۔ اس پر میں نے اُس کو بہت سمجھایا کہ قادیان میں کسی تکلیف کا اندیشہ نہیں اور آپ سے کسی قسم کا برا سلوک نہ ہوگا۔ جو چاہیں اعتراضات پیش کریں اور میں ہر قسم کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ آخر بڑے اصرار کے بعد وہ آمادہ ہو گیا … (اور ہم قادیان گئے۔) وہاں جا کر ہم حضرت مولوی صاحب سے ملے۔ (یعنی حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ سے ملے۔) آپ نہایت شفقت سے پیش آئے اور (اُس لڑکے کو) فرمایا کہ آپ جو چاہیں اعتراض کریں جواب دیا جائے گا۔مَیں نے آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ حضور انہوں نے گوشت وغیرہ ترک کر دیا ہوا ہے۔ اور ہندؤوانہ طریق اختیار کیا ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب نے اپنے گھر سے مونگی کی دال اور چند روٹیاں مہمان خانے میں اُس کے لئے بھجوا دیں۔ اس بات سے وہ بہت متأثر ہوا کہ میرے کھانے کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اُس دن ظہر کی نماز کے لئے جب مَیں گیا تو اُس کو ساتھ لے گیا۔ نماز کے بعد حضور مسجد مبارک میں تشریف فرما ہوئے۔اُن دنوں حضور (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام) آریوں کے متعلق کوئی تصنیف فرمارہے تھے۔چنانچہ اُس وقت حضرت صاحب نے آریہ لوگوں کے اعتراضات کا ذکر مجلس میں کر کے اُن کے جوابات دئیے۔اس کا اُس (لڑکے) پر بہت اثر ہوا۔ اور اس کے بہت سے اعتراضات خود بخود دور ہو گئے اور اسلام سے بھی ایک گونہ دلچسپی پیدا ہو گئی۔ عصر کی نماز کے بعد مَیں اُس کو حضرت مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ) کے درس القرآن پر لے گیا۔ جو مسجد اقصیٰ میں ہوتا تھا۔ اُس کے بعد ہم دونوں مولوی صاحب کی خدمت میں گئے اور مَیں نے عرض کی کہ حضور! انہیں کچھ سمجھائیں، مولوی صاحب نے فرمایا کہ ان کو جو اعتراض ہے وہ کریں۔اس پر اُس نے گوشت خوری کے متعلق دریافت کیاجس کا جواب مولوی صاحب نے نہایت عمدہ طریق پر اُسے دیا اور اُس کی اس سے تسلی ہو گئی۔ مغرب کی نماز کے بعد پھر ہم حضور علیہ السلام کی خدمت میں مسجد مبارک میں حاضر ہوئے۔ حضور علیہ السلام شہ نشین پر بیٹھ کر گفتگو فرماتے رہے۔ لوگ عموماً مولوی عبدالکریم صاحب کی معرفت سوال و جواب کرتے تھے۔ چنانچہ یہ لڑکا گفتگو سنتا رہا۔ اس کے بعد اُس نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ دوسرے دن نماز ظہر کے وقت اُس نے وضو کیا اور جا کر نماز ادا کی۔ اُس دن پھر مولوی صاحب کا درس سنا۔ اور تیسرے دن اس آریہ لڑکےنے حضور علیہ السلام کی بیعت کر لی اور پھر اسلام میں داخل ہوا ۔ اور اب اسےاسلام کے ساتھ ایسا اُنس پیدا ہوا ہےکہ وہ آریہ سماج کی مجلسوں میں جا کر اسلام کی خوبیاں بیان کرتا اور آریوں کے اعتراضات کا جواب دیتا۔(ماخوز ازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 30تا 32۔ روایت حضرت میاں عبدالرشید صاحب ؓ)

تبلیغ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ارشادات

٭…’’تبلیغ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک سخت مشکل کام ہے۔ ایک مَحَل تیار کر لینا آسان ہے لیکن ایک شخص کا دل پھیر دینا آسان نہیں۔ کیونکہ بغیر مناسب تدابیر اور دلائل کے کسی شخص کا دل پھیرا نہیں جا سکتا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 9صفحہ125)

٭…’’ہمار ا کام کیا ہے؟ یہ کہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہم اس تعلیم کو پہنچا دیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں حاصل ہوئی ہے اور جس کی اس زمانہ کا تمدن اور عَام رَو مخالفت کر رہی ہے۔ اس تعلیم کو پہنچانے میں ہماری مخالفتیں ہوئیں اور ہو رہی ہیں ہمیں تکلیفیں دی گئیں اور دی جا رہی ہیں۔ ہم سے تعلقات منقطع کئے گئے اور کئے جا رہے ہیں۔ہم سے رشتہ داریاں چھوڑی گئیں اور چھوڑی جا رہی ہیں…پس ہم کو اس کام سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔بلکہ ہمارا قدم آگے ہی آگے بڑھناچاہئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد9 صفحہ208)

٭…’’تبلیغ کے کام میں ہم سے پہلے لوگوں نے تلواروں کے سایہ میں بھی سستی نہیں کی۔حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ ہر طرف سے دشمنوں میں گھر ے ہوئے تھے۔ قسطنطنیہ میں عیسائیوں کی حکومت تھی اور یہ آدھی دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ اور ادھر ایران میں جو حکومت تھی اس کا بھی آدھی دنیا پر اثر تھا۔اس وقت مسلمانوں پر ہر طرف سے حملے ہو رہے تھے لیکن مسلمان تلواروں کے مقابلہ میں نہیں ڈرتے تھے تو کیا آج ہم دشمن کی زبان اور اس کے روپیہ سے ڈر سکتے ہیں۔ پس ہمیں اس کے لئے تیار ہونا چاہئے اور ہر ایک قربانی جس کی ضرورت ہو اس کے لئے آمادہ ہونا چاہئے۔‘‘

(خطبات محمود جلد8 صفحہ47تا48)

٭…’’پس تبلیغ کے متعلق بھی ہر ایک شخص کو حکم عام سمجھنا چاہئے اور اپنے ہی نفس کو اس حکم کا مخاطب جاننا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ یہ حکم مجھے ہی بجا لانا ہے اور اگر تم سب کے سب اس پر عمل بھی شروع کر دو گے تو تم کامیاب ہو جاؤ گےاور اگر صرف ارادہ ہی کرو گے تو پھر کامیابی مُحَال ہے۔ کیونکہ بہت ارادے بھول جاتے ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد7 صفحہ10)

٭…’’ایک انگریز نے ایک رسالہ لکھا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جماعت تو اسلامی سمندر میں ایک کیڑے کے برابر ہے۔ واقعہ میں اس کی یہ بات صحیح ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہم ایک قطرے کی طرح ہیں مگر بعض وقت ایک قطرہ اپنا اثر تمام پانی پر ڈال دیتا ہے۔ مثلاً سنکھیا ہی ہے کتنی تھوڑی سی چیز ہے مگر اس کا تھو ڑا سا کھا لینا بھی انسان کو ہلاک کر دیتا ہے۔اور کثرت سے اس قسم کی زہریلی دوائیں ہیں کہ تنکے کے اوپر جس قدر حصہ آتا ہے۔وہی کھاتے ہیں۔ اگر اس سے زیادہ کھایا جائے تو بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ پھر ایک دیا سلائی کتنی چھوٹی سی چیز ہے۔مگر تمام جنگل کو جلا دیتی ہے اور شہروں کو خاک و سیاہ کر سکتی ہے۔پھر ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ کی پیش گوئیاں اور بڑے بڑے وعدے بھی ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد 5صفحہ21)

٭…’’ہماری جماعت نے خداتعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذمہ لیا ہے۔ لیکن ہماری جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ لوگ ہماری بات کو نہیں سنتے….. اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں…..یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی اور ان کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے خواہ کوئی مسلمان ہو یا نہ ہو مانے یا نہ مانے…یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو۔ تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ جو کوشش کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا۔ خواہ کوئی اس کی بات کو مانے یا نہ مانے۔‘‘

(خطبات محمود جلد5 صفحہ20)

٭…’’اس وقت ہماری جماعت نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ذمہ لیا ہے

…… یَدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ۔

یعنی ان کی کوششیں کامیاب ہوتی ہیں اور ان کو ان کی کوششوں کا بدلہ دیا جاتا ہے خواہ کوئی مسلمان ہو یا نہ ہو۔ مانے یا نہ مانے۔ اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہ اگر کوئی مسلمان ہی ہو تو تب تمہیں بدلہ دیا جائے گا۔ بلکہ یہ فرمایا کہ جو کوشش کرے گا اسے بدلہ دیا جائے گا‘‘

(خطبات محمود جلدپنجم صفحہ20)

٭…’’جو خدا کی تعلیم سے بھاگنے والوں کو واپس خدا کی طرف لائیں گے خدا تعالیٰ یقیناً ان کو کامیاب اور مظفر و منصور کرے گا وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوں گے۔ اس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے‘‘

(خطبات محمود جلد پنجم صفحہ 19)

تبلیغ کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے ارشادات

٭…’’جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے …… فریضہ ہے اور ایسی شدّت کے ساتھ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ آنحضرت ﷺکو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تُو نے رسالت کو ہی ضائع کر دیا اگر تبلیغ نہ کی تو۔آپ کی امت بھی جوابدہ ہے، ہم میں سے ہر ایک جوابدہ ہے پیغام رسانی لازماً ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کسی وقت انسان غافل ہو نہیں سکتا۔ اجازت نہیں ہے کہ غافِل رہے‘‘

(خطبات طاہر جلد چہارم صفحہ 631تا632)

٭…’’تبلیغ کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا احمدی سینوں میں یہ لَو جل رہی ہے اس کو بجھنے نہیں دینا۔ اس مقدس امانت کی حفاظت کرو۔ میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم اس شمع کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا۔ یہ لَو بلند تر ہو گی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن تر ہوتی چلی جائے گی۔ اور تمام روئے زمین کو گھیرلے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی۔‘‘

(خطبات طاہر جلد2 صفحہ422)

تبلیغ کے متعلق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشادات

٭…’’یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں تجھے غلبہ عطا کروں گا۔ یہ غلبہ یورپ میں بھی ہے اور ایشیا میں بھی ہے، افریقہ میں بھی ہے اور امریکہ میں بھی انشاء اللہ ہوگا۔ اور جزائر کے رہنے والے بھی اس فیض سے خالی نہیں ہوں گے انشاء اللہ۔ پس آپ کا کام ہے کہ خالص اللہ کے ہو کر کامل فرمانبرداری دکھاتے ہوئے اور اعمال صالحہ بجا لاتے ہوئے اس کے پیغام کو پہنچاتے چلے جائیں تاکہ ان برکتوں سے فیضیاب ہو سکیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے والے کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھ دی ہیں۔…

پس یہ کام تو ہونا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام سعید روحوں کو اسلام کی آغوش میں لانا ہے۔ یہ مخالفین اور یہ مذہب سے ہنسی ٹھٹھا کے جو موقعے پیدا ہورہے ہیں یا ہوتے ہیں یہ ہمیں اپنے کام کی طرف توجہ دلانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں کہ آخری فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے کیا ہوا ہے لیکن تمہارے میں جو سستی پیدا ہوگئی ہے اس کو دُور کرکے اللہ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اللہ کی نظر میں بہترین بات کہنے والے بن کر اسلام کا حقیقی نجات کا پیغام اپنے ملک کے ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا دو کہ یہ آج سب سے بڑی خدمت انسانیت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ22؍دسمبر2006ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل12؍جنوری2007ءصفحہ8)

٭…’’ان دلائل سے اور علمی اور روحانی خزانے سے کام لیتے ہوئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دئیے ہیں، اپنی تبلیغی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ …اس کے لئے عملی نمونے اور علمی اور روحانی ترقی کی طرف قدم بڑھانا ضروری ہے۔ تقویٰ میں ترقی ضروری ہے۔ کیونکہ جب تک ہماری روحانی ترقی نہیں ہوتی ہماری تبلیغ میں بھی برکت نہیں پڑ سکتی۔…

پس ایک داعی الی اللہ کے لئے یہ ضروری ہے اور صرف یہ داعی الی اللہ کو یاد رکھنا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی چاہے وہ فعال ہو کر تبلیغ کرتا ہے یا نہیں اگر دنیا کے علم میں ہے کہ فلاں شخص احمدی ہے، اگر ماحول اور معاشرہ جانتا ہے کہ فلاں شخص احمدی ہے تو وہ احمدی یاد رکھے کہ اس کے ساتھ احمدی کا لفظ لگتا ہے، اگر وہ تبلیغ نہیں بھی کر رہا تو تب بھی اس کا احمدی ہونا اسے خاموش داعی الی اللہ بنا دیتا ہے۔

ہر احمدی جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال اس لئے درست رکھے کہ اس پر ہر ایک کی نظر ہے۔ اگر کسی قسم کا ایسا دینی علم نہیں بھی ہے جو اسے فعّال داعی الی اللہ بنا سکے تب بھی اس کا ہر فعل اور عمل اور قول دوسروں کی توجہ کھینچنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر نیک اعمال ہیں تو لوگ نیکی سے متاثر ہو کر قریب آئیں گے۔…

دلوں کو مائل کرنا خدا تعالیٰ کا کام ہے اور تبلیغ کرنا انبیاء کے ساتھ الٰہی جماعتوں کے افراد کا کام ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 9؍اپریل2010ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 30؍اپریل 2010ءصفحہ5تا7)

٭…’’ایم ٹی اے کا تبلیغ کے میدان میں بہت بڑا کردار ہے۔ دنیا میں اس کی وجہ سے نہ صرف احمدیت کا تعارف ہو رہا ہے بلکہ اکثر ممالک کی اکثر جگہوں پر احمدیت اور اسلام کا پیغام اس کے ذریعہ سے سے پہنچ چکا ہے۔ اب صرف ملکوں یا چند شہروں میں پیغام پہنچا دینا ہی کافی نہیں ہم نے دنیا کے ہر شہر، ہر گاؤں، ہرقصبے اور ہر گلی میں اس کا پیغام پہنچانا ہے‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ7؍نومبر2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل28؍نومبر2008ءصفحہ8)

قرآن مجید ، اسوہ رسول ﷺ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے احکامات، اسوہ حسنہ اور ارشادات کی روشنی میں تبلیغ کی اہمت و اسلوب نمایاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے زمانے میں اسلام کی حقیقی تعلیم چونکہ جماعت احمدیہ کے پاس ہی ہے ۔ اس لیےاس کو دوسروں تک جلد از جلد پہچانا ہماری اوّلین ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیںاس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےایک موقع پر ہمیںتبلیغ کے طریقہ کار اور اہمیت کو بیان کرتےہوئے فرمایا: ’’دعوت الی اللہ کریں۔ حکمت سے کریں، ایک تسلسل سے کریں، مستقل مزاجی سے کریں، اور ٹھنڈے مزاج ے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کرتے چلے جائیں۔ دوسرے کے جذبات کا بھی خیال رکھیں اور دلیل کے لئے ہمیشہ قرآن کریم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں سے حوالے نکالیں۔ پھر ہر علم، عقل اور طبقے کے آدمی کے لئے اس کے مطابق بات کریں۔ خدا کے نام پر جب آپ نیک نیتی سے بات کر رہے ہوں گے تو اگلے کے بھی جذبات اَور ہوتے ہیں۔ نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے نام پر کی گئی بات اثر کرتی ہے۔ ایک تکلیف سے ایک درد سے جب بات کی جاتی ہے تو وہ اثر کرتی ہے۔ تمام انبیاء بھی اسی اصول کے تحت اپنے پیغام پہنچاتے رہے۔ اور ہر ایک نے اپنی قوم کو یہی کہا ہے کہ میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، نیک باتوں کی طرف بلاتا ہوں اور اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا۔ یہی ہمیں قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے۔

…اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم انتہائی محنت، انتہائی ہمت اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے یہ کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ نیک فطرتوں کو تمہارے ساتھ ملاتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ8؍اکتوبر2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍اکتوبر2004ءصفحہ6)

اللہ تعالیٰ ہمیں احسن رنگ میں دعوت الیٰ اللہ کی توفیق عطا فرمائے۔ تا نیک فطرتوں کو خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ملاتا چلا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button