الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
سو سال پہلے۔ افریقہ میں احمدیت کا نفوز
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 2014ء میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں مکرم ملک طاہر احمد صاحب نے اسیروں کے رستگار حضرت مصلح موعودؓ کے ذریعے مغربی افریقہ میں احمدیت کے نفوذ کی ایک سو سال قبل کی تاریخ سے احمدی مبلغین کی بےلوث قربانیوں کی جھلک پیش کی ہے۔
1921ء وہ مبارک سال ہے کہ جس میں حضرت مصلح موعودؓنے مغربی افریقہ کے تین ممالک سیرالیون گولڈکوسٹ (غانا) اور نائیجیریا میں اسلام کی اشاعت کے لئے حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب کو روانہ فرمایا جو اُن دنوں لندن میں فریضہ دعوت الی اللہ ادا کررہے تھے۔ حضورؓ اپنے فیصلے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مجھے افریقہ میں تبلیغِ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رؤیا آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنالیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے۔ نہ ٹل سکے۔ چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے۔ اسی بناء پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں بیشک خداتعالیٰ نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پید اکردیئے جن سے افریقہ میں تبلیغ کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا (نعوذ باللہ) میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کاموجب بن جائیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ267)
چنانچہ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ 9؍فروری 1921ء کو لندن سے روانہ ہوئے اور 19؍فروری 1921ء کو سیرالیون پہنچے۔ 20؍فروری 1921ء کو مسلمانوں کے مقامی مدارس میں اور مسجد میں 4 لیکچرز دیئے۔ 21 فروری کی صبح سرکاری حکام سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف توجہ دلائی اور اسی روز بحری جہاز پر سوار ہوکر 28؍فروری 1921ء کو شام ساڑھے چار بجے گولڈکوسٹ (غانا) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر اترے اور مسٹر عبدالرحمٰن پیڈرو کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔
اس وقت گولڈ کوسٹ عملاً عیسائیت کا مرکز تھا۔ اصل باشندوں میں صرف فینٹی قوم مسلمان تھی۔ جس رات حضرت مولانا نیر صاحب وہاں پہنچے تو ان کے چیف (امیر) مہدی نے اسی رات ایک مبشر خواب دیکھا۔ چیف مہدی 45 برس سے مسلمان تھے۔ انہیں یہ ازحد غم تھا کہ ان کی وفات کے بعد کہیں اس علاقہ کے مسلمان سفید فام عیسائی مشنریوں کے رعب میں آکر اسلام کو خیرباد نہ کہہ دیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ کوئی سفید فام مبلغ گولڈ کوسٹ آئے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کچھ روپیہ جمع کرکے ایک شامی مسلمان کو لندن حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی طرف روانہ کیا لیکن اگلے دو سال تک کوئی مربی افریقہ کی طرف نہ بھجوایا جاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں یہاں تک سخت بدگمانی پیدا ہوگئی کہ وہ کہنے لگے کہ سفید آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتے۔ اسی وجہ سے جب تک حضرت نیر صاحب سالٹ پانڈ پہنچ نہیں گئے ان کو یقین نہ تھا۔
پھر چیف مہدی صاحب کا نقیب آپ سے آکر ملا اور 11؍مارچ 1921ء کو اکرافول میں فینٹی مسلمانوں کا جلسہ مقرر ہوا۔ وہاں پر چیف مہدی صاحب نے تقریر کی کہ 45 برس ہوئے ہیں مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے۔ سفید آدمی صرف مسیحیت سکھانے آتے ہیں۔ میں بوڑھا آدمی ہوں، مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان اپنے دین پر رہیں۔ میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپؓ آگئے اور اب یہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں۔ ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جاوے اور دین سکھایا جائے۔ حضرت مولانا نیر صاحبؓ نے اپنی تقریر میں ان کو یقین دلایا کہ احمدی جماعت ان کی تعلیم و تربیت کا کام کرے گی اور ان کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مہدی علیہ السلام کو خود دیکھا اور ان کے مقدس کلمات سنے ہیں۔
18؍مارچ 1921ء کو اکرافول میں دوسرا جلسہ ہوا جس میں آپؓ نے فینٹی قوم اور ان کے چیف کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے اور گزشتہ رسوم و رواج کو ترک کرکے سچے اور مخلص احمدی بننے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ان کی مجلس اکابر نے فیصلہ کیا کہ ہم سب لوگ اپنی جماعتوں سمیت احمدیت میں داخل ہوتے ہیں اور اس طرح ایک ہی دن میں ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے۔
اس کے بعد آپؓ نے اپنی توجہ نائیجیریا کی طرف مبذول کی اور 8؍اپریل 1921ء کو نائیجیریا کے صدر مقام لیگوس پہنچے۔ وہاں پر ان دنوں 35 ہزار کے قریب مسلمان تھے اور 20 ہزار کے قریب عیسائی۔ مگر علم، دولت، تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے پاس تھے۔ چالیس مدارس عیسائیوں کے تھے اور صرف ایک ’’محمڈن سکول‘‘ مسلمانوں کا تھا۔ حضرت مولانا نیر صاحبؓ نے لیگوس میں قدم رکھا اور پہنچتے ہی مختلف بیوت میں لیکچرز دیئے اور پھر پبلک لیکچروں کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کردیا جس سے سعید روحیں احمدیت کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ لیگوس میں ایک فرقہ اہل قرآن تھا۔ ان کے بارہ اکابرین نے احمدیت قبول کرلی۔ آپؓ چار ماہ لیگوس میں دیوانہ وار دعوت الی اللہ کرنے کے بعد 8؍اگست 1921ء کو سالٹ پانڈ آگئے۔
سالٹ پانڈ شہر کے عین وسط میں کمرشل روڈ پر ایک دومنزلہ مکان کرایہ پر لے کر آپؓ نے مشن ہاؤس قائم کیا اور اندرون ملک ایک لمبا دورہ کیا۔ ایک مربیان کلاس جاری کی۔ پھر غانا کو جماعتی لحاظ سے چار حصوں میں تقسیم کرکے ان میں عہدیدار مقرر کئے۔ 15 دسمبر 1921ء کو آپؓ دوبارہ نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس آگئے۔
اسی دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 23 جنوری 1922ء حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ کو غانا روانہ فرمایا جو لندن اور لیگوس سے ہوتے ہوئے 13 مئی 1922ء کو سالٹ پانڈ پہنچ گئے اور غانا مشن کا چارج سنبھال لیا۔
حضرت مولانا نیر صاحبؓ نے نائیجیریا مشن کے مستقل انچارج کی حیثیت سے لیگوس کے باہر پہلے شمالی نائیجیریا کے ایک اہم شہر زاویہ کے امیر اور امیر کا نو تک پیغام حق پہنچایا۔ پھر لیگوس میں 11 ستمبر 1922ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جاری کیا۔ آپؓ نے اتنی ان تھک محنت کی کہ بیمار ہوگئے اور چار ماہ تک بیمار رہے اور گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ پھر ڈاکٹری ہدایت کے تحت تبدیلی آب و ہوا کے لئے 21 جنوری 1923ء کو لندن بھجوا دیے گئے۔
حضرت مولانا نیر صاحبؓ کے بعد مالی مشکلات کی وجہ سے سالہا سال تک کوئی مرکزی مربی نہیں بھجوایا جاسکا۔ آخر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد سے الحاج حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ نے ستمبر 1929ء میں غانا سے واپس آتے ہوئے نائیجیریا کا بھی دورہ کیا۔ پھر آپؓ مرکز میں تشریف لے آئے۔ یہاں آکر آپؓ نے شادی کی جو حضرت حکیم فضل حق صاحبؓ کی بیٹی ثریا بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ بڑا بیٹا لطف المنان پیدا ہوا دوسرے بیٹے عبدالوہاب کی پیدائش سے پہلے ہی آپؓ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حکم سے دوبارہ مغربی افریقہ بھجوادیا گیا۔ چنانچہ آپ فروری 1933ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور لندن، سیرالیون اور غانا میں قیام کرتے ہوئے جولائی 1934ء میں نائیجیریا پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی آپؓ ایک خطرناک اندرونی کشمکش سے دوچار ہوگئے جو بعض لوگوں نے ایک خودساختہ قانون کی بِنا پر پید اکردی تھی۔ معاملہ آخر عدالت تک پہنچا۔ 20 مارچ 1937ء کو اس کا فیصلہ ہوا۔ لیکن اس کے باوجود 1939ء تک حالات مخدوش رہے۔ 1940ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر جماعت کی دوبارہ تشکیل کی گئی جس کے بعد مکرم حکیم صاحب نے جماعت نائیجیریا کی ترقی و استحکام کی طرف پوری توجہ دینی شروع کر دی اور اپنی مسلسل جدوجہد اور قابل رشک اخلاص سے مشن کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا۔ چنانچہ تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کرائی۔ نئی جماعتیں قائم کیں۔ لیگوس میں ایک نہایت خوبصورت مسجد اور مشن ہاؤس تعمیر کیا۔ آنحضرتؐ کی سیرت طیبہ “The Life of Muhammad” کے نام سے تصنیف کی جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور آج تک مغربی افریقہ کے تمام سکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔ جنوری 1945ء میں محترم مولوی نورمحمد نسیم سیفی صاحب نائیجیریا بھجوائے گئے جنہوں نے حکیم صاحب کی واپسی کے بعد، جو 1947ء میں ہوئی، مشن کا چارج لیا۔
حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ نے واپس آکر 1948ء کی ابتداء سے کچھ عرصہ تک وکالت تبشیر اور نظارت اصلاح و ارشاد میں خدمات سرانجام دیں جس کے بعد افسر لنگرخانہ ربوہ مقرر ہوئے۔ 28؍اگست 1955ء کو جگر کے کینسر سے آپؓ صرف 54 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اس مرد مجاہد نے جوانی کی عمر صرف ساڑھے تین سال اپنی بیوی کے ساتھ بسر کی۔ ایک بیٹا پیدا ہوا اور دوسرا بیٹا جو ابھی اپنی والدہ کے پیٹ میں تھا ، ان کو چھوڑ کر دوبارہ افریقہ چلے گئے۔ 14 سال کے بعد جب نومبر 1947ء میں آئے تو بیوی بھی ادھیڑ عمر تھی اور وہ خود بھی جگر کے عارضہ سے علیل۔ لیکن اس کے باوجود پھر 8 سال تک سلسلہ کی خدمت اور خاص پر بطور افسر لنگر خانہ و مہمان خانہ میں دن رات ایک کیا اور حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہے۔
اسیروں کی رستگاری کے موجب بابرکت وجود حضرت مصلح موعودؓ کی دُوربین نگاہ نے ایک صدی قبل جو اقدامات اٹھائے، اُن کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’ایک پیشگوئی یہ کی گئی تھی کہ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو بھی میرے ذریعہ سے پورا کیا۔ اول تو اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ان قوموں کو ہدایت دی جن کی طرف … کو کوئی توجہ ہی نہیں تھی اور وہ نہایت ذلیل اور پست حالت میں تھیں۔ وہ اسیروں کی سی زندگی بسر کرتی تھیں۔ نہ ان میں تعلیم پائی جاتی تھی، نہ ان کا تمدن اعلیٰ درجے کا تھا، نہ ان کی تربیت کا کوئی سامان تھا جیسے افریقن علاقے ہیں کہ ان کو دنیا نے الگ پھینکا ہوا تھا اور وہ صرف بیگار اور خدمت کے کام آتے تھے۔ ابھی مغربی افریقہ کے ایک نمائندہ آپ لوگوں کے سامنے پیش ہوچکے ہیں اس ملک کے بعض لوگ تو تعلیم یافتہ ہیں لیکن اندرون ملک میں کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کپڑے تک نہیں پہنتے تھے اور ننگے پھرا کرتے تھے۔ ایسے وحشی لوگوں میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے ذریعہ ہزارہا لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ وہاں کثرت سے عیسائیت کی تعلیم پھیل رہی تھی اور اب بھی بعض علاقوں میں عیسائیوں کا غلبہ ہے لیکن میری ہدایت کے ماتحت ان علاقوں میں ہمارے مبلغ گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگ مشرکوں میں سے مسلمان کئے اور ہزاروں لوگ عیسائیت میں سے کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے۔ اس کا عیسائیوں پر اس قدر اثر ہے کہ انگلستان میں پادریوں کی ایک بہت بڑی انجمن ہے جو شاہی اختیارات رکھتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے عیسائیت کی تبلیغ اور اس کی نگرانی کے لئے مقرر ہے۔ اس نے ایک کمیشن اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ وہ اس امر کے متعلق رپورٹ کرے کہ مغربی افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے۔ اس کمیشن نے اپنی انجمن کے سامنے جو رپورٹ پیش کی اس میں درجن سے زیادہ جگہ احمدیت کا ذکر آتا ہے اور لکھا ہے کہ اس جماعت نے عیسائیت کی ترقی کو روک دیا ہے۔ غرض مغربی افریقہ اور امریکہ دونوں ملکوں میں حبشی قومیں کثرت سے اسلام لا رہی ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان قوموں میں تبلیغ کا موقع عطا فرما کر مجھے ان اسیروں کا رستگار بنایا اور ان کی زندگی کا معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘
(انوارالعلوم جلد17 ص614)
مضمون نگار مزید بیان کرتے ہیں کہ خاکسار کا بھتیجا عمیر احمد ملک ابن مکرم ملک عبدالرحیم صاحب آف لاہور 28؍مئی 2010ء کو مسجد بیت النور لاہور میں (بعمر 36 سال) شہید کردیا گیا تھا۔ شہداء کی فیملیز کے ساتھ تعزیت کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بیرون ملک کے سرکردہ احمدی احباب کا ایک وفد لاہور بھجوایا تھا جس میں مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب امیر غانا بھی شامل تھے۔ وہ جب شہیدمرحوم کے گھر گئے تو دوران گفتگو محترم بھائی عبدالرحیم صاحب نے اُن کو بتایا کہ وہ حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب کے بھتیجے ہیں۔اس پر محترم عبدالوہاب صاحب کھڑے ہوگئے اور انہوں نے بھائی صاحب کو گلے لگایا اور بوسہ دیا اور کہا کہ 1938ء میں میری پیدائش پر میرا نام حضرت حکیم صاحبؓ نے اپنے چھوٹے بیٹے عبدالوہاب کے نام پر رکھا تھا۔
حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ کے والد حضرت حافظ نبی بخش صاحب ؓکو 1878-79ء سے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل تھا۔ حضورؑ آپ کو گول کمرہ یا مسجد مبارک میں ٹھہرایا کرتے تھے۔ اوائل زمانہ میں آپؓ کو بیت الفکر میں کئی بار سونے کا بھی شرف حاصل ہوا اور کئی دفعہ حضوؑر کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کا موقعہ ملا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عصر کی ایک نماز آپ کی امامت میں بھی ادا فرمائی۔ 1907ء میں آپؓ کا لڑکا عبدالرحمٰن جو ہائی سکول قادیان کی ساتویں جماعت میں تعلیم پارہا تھا وفات پاگیا۔ اس حادثہ کے چند دن بعد آپؓ قادیان آئے اور مسجد مبارک میں پہنچے جہاں حضرت مسیح موعودؑ خدام کے ساتھ تشریف فرماتھے۔ حضوؑر کی نظرِ شفقت جونہی آپؓ پر پڑی تو حضورؑ نے پاس بلاکر بٹھالیا اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپؓ نے اپنے بچے کی وفات پر بڑا صبر کیا ہے۔ پھر کمر پر دستِ شفقت پھیرا اور فرمایا: ’’ہم نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے اور کریں گے۔…اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا۔‘‘ چنانچہ آپؓ کو جو بچہ نعم البدل کے طور پر عطا ہوا وہ حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ تھے جن کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’حکیم فضل الرحمٰن صاحب … شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ کے لئے چلے گئے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے۔ جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہوچکے تھے اور ان کے بچے جوان ہوچکے تھے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد8 صفحہ372)
حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ غالباً 1901ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے والدین کے چھٹے بچے تھے (6 بہنیں اور 4 بھائی کُل 10 بچے تھے)۔ دو بڑے بھائی عبدالرحیم بعمر اڑھائی سال اور عبدالرحمٰن بعمر 12 سال وفات پاگئے تھے۔ ساتویں نمبر پر محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ (والدہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب تھیں) اور آٹھویں نمبر پر خاکسار کے والد محترم ملک حبیب الرحمٰن صاحب (ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ) تھے جو 1905ء میں پیدا ہوئے تھے۔
………٭………٭………٭………
محترمہ عاصمہ پروین صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍مئی 2013ء میں مکرم نصراللہ خان صاحب نے اپنی اہلیہ محترمہ عاصمہ پروین صاحبہ (بنت چودھری غلام دستگیر صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد) کا ذکرخیر کیا ہے جن کی وفات 27؍فروری 2012ءکو ہوئی۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ میرا نکاح جلسہ سالانہ ربوہ 1961ء کے موقع پر ہوا اور شادی نومبر 1962ء میں ہوئی اور شہر میں پرورش پانے والی یہ بندی شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں میرے پاس آبسی۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے عطا کیے جن میں سے ایک بیٹا صغرسنی میں فوت ہوگیا۔ میری ملازمت لاہور میں تھی۔ جب بچے سکول کی عمر کو پہنچے تو ہم لاہور منتقل ہوگئے۔ 1974ء کے فسادات پھوٹے تو ہم نے اپنا ضروری سامان ایک ہمسائے کے گھر رکھوادیا۔ ایک دن اُس کی بیوی میری اہلیہ کے پاس آئی کہ اپنا سامان لے جاؤ کیونکہ فلاں آدمی نے دھمکی دی ہے کہ اگر مرزائیوں کا سامان رکھا تو تمہارے سامان کو بھی آگ لگادیں گے۔ چنانچہ ہم اپنا سامان لے آئے۔ پھر گاؤں جانے کی تیاری کی تو ایک دوسری ہمسائی نے آکر کہا کہ اپنا سامان ہمارے گھر رکھوادو ہم جان دے کر بھی اس کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا کرے۔
میری مالی حالت کمزور تھی۔ گاوں سے غلّہ، گھی وغیرہ کی صورت مدد مل جایا کرتی تھی۔ پھر میری توجہ محکمانہ امتحانات کی طرف ہوئی تو دفتری اوقات کے بعد وہیں امتحان کی تیاری ہوتی اور شام گئے گھروں کو لَوٹتے۔ مرحومہ نے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا۔ سب بچوں کو خود قرآن کریم پڑھایا اور نماز کا عادی بنایا۔ سلیقہ شعاری اور بچوں کے پہناوے سے کسی کو ہمارے گھر کی مالی حالت کا احساس نہ ہوتا تھا۔بہت دعاگو تھیں۔ اپنے سب بچوں کو بھی دعائیہ سیٹ کا تحفہ دیا۔ اپنی نسلوں کے لیے بھی دعائیں کرتیں۔
مرحومہ صاف ستھری عادات کی مالک تھیں۔ بہت کفایت شعار بھی تھیں اور کسی نعمت کا ضیاع بہت ناگوار گزرتا۔ آنحضورﷺ کے ہر چھوٹے سے چھوٹے حکم پر عمل کرتیں مثلاً کپڑوں اور بستر کو جھاڑ کر استعمال کرنا، جوتی کو جھاڑ کر پہننا، پانی ڈھانپ کر رکھنا اور رات کو آگ جلتے نہ چھوڑنا اور دروازوں کا احتیاط سے بند کرنا وغیرہ۔ چغلی سے کراہت تھی۔ طبیعت میں حیا تھی۔ہمیشہ میرے وسائل کے مطابق گھریلو اخراجات رکھے۔ چنانچہ میرے افسران کہا کرتے تھے کہ تم نے دوسروں کی طرح کبھی انسپکشن پر بھجوانے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ بلکہ ریٹائرمنٹ کے وقت ایک افسر نے کہا کہ آپ کو کنٹریکٹ پر رکھ لیتے ہیں تو مَیں نے معذرت کردی اور اُن کے پوچھنے پر، کہ گھر کے اخراجات کیسے چلتے ہیں، بتایا کہ میری بیوی اس سلسلے میں میری معاون و مددگار ہے۔ بےشک نیک بیوی نعمتِ غیرمترقبہ ہوا کرتی ہے۔
مرحومہ کو قرآن کریم سے بہت محبت تھی۔ روزانہ تلاوت کے علاوہ رمضان میں کم از کم تین دَور تو ہوتے۔ آخری ایام تک قرآن کریم کا تلفّظ بہتر کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔ جب تک صحت نے اجازت دی تو رمضان کے روزے رکھے۔ بعد میں فدیہ ادا کرتی رہیں۔ مالی تحریکات میں بشاشتِ قلب سے شامل ہوتیں۔ صدقہ و خیرات کی عادت تھی۔ ہمسایوں سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھتیں، بعض بچوں کو پڑھائی میں بھی مدد دی۔ خلیفہ وقت سے محبت کا تعلق رکھا اور باقاعدگی سے دعا کے لیے خطوط لکھا کرتی تھیں۔
………٭………٭………٭………
مکرم ڈاکٹر سیّد طاہر احمد صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍ستمبر 2013ء میں مکرم ڈاکٹر سیّد طاہر احمد صاحب آف کراچی کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جنہیں 31؍اگست 2013ء کو بعمر 55 سال ان کے کلینک واقع لانڈھی میں فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن میں شہید مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ڈاکٹر سید منظور احمد صاحب کے بیٹے ہیں۔ 31؍اگست کو یہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے مریضوں کو چیک کر رہے تھے اسی دوران دو مرد اور دو خواتین مریض کے روپ میں کلینک میں داخل ہوئے اور ان میں سے ایک مردنے مکرم ڈاکٹر صاحب پر فائرنگ کر دی۔ ڈاکٹر صاحب کو چھ گولیاں لگیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے گولیوں کی آواز سنی تو معمول کی فائرنگ سمجھی مگر ان کے پڑوسی فائرنگ کی آواز سن کر باہر نکلے تو کلینک سے چار افراد کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔ وہ فوراً کلینک کی طرف آئے تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب خون میں لت پت زمین پر گرے ہوئے ہیں۔ وہ ڈاکٹر صاحب کو فوراً ایک گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے مگر آپ راستے میں ہی جامِ شہادت نوش فرما گئے۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا مکرم حکیم فضل الٰہی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دورِ خلافت میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ کے دادا کا تعلق تلونڈی ضلع گوجرانوالہ سے تھا اور 1970ء میں ان کے دادا کراچی شفٹ ہو گئے تھے۔ شہید مرحوم نے انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد مکینیکل انجینئرنگ میں ایسوسی ایٹنگ انجینئر کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے ڈی ایچ ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ نیشنل آئل ریفائنری میں کم و بیش تیس سال ملازمت کی اور اب تین سال کے بعد ریٹائر ہونے والے تھے۔ شہید مرحوم شہادت کے وقت بطور سیکرٹری دعوتِ الی اللہ حلقہ لانڈھی خدمات کی توفیق پا رہے تھے۔ اس سے پہلے بھی مختلف عہدوں پر یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ مرحوم انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ بڑے ہنس مکھ، صلح جُو، ملنسار۔ آپ کا حلقہ احباب انتہائی وسیع تھا۔ اپنے علاقے میں ایک معزز شخصیت تھے۔ آپ کی شہادت کے بعد محلے داروں کی ایک کثیر تعداد تعزیت کی غرض سے آپ کے گھر میں جمع ہو گئی۔ عزیز رشتہ داروں کے ساتھ بھی بہت اچھا تعلق تھا۔ اگر کوئی زیادتی بھی کر جاتا تو درگزر کرتے اور خود آگے بڑھ کر صلح کا ہاتھ بڑھاتے۔ آپ ایک کامیاب ہومیو پیتھ ڈاکٹر تھے۔ مستقل مریضوں کی تعداد بھی بہت وسیع تھی۔ کئی مرتبہ دفتر سے تھکے ہوئے آئے اور گھر آتے ہی مریض آ گئے تو فوراً اُن کا علاج شروع کر دیا۔ نمازوں کے پابند اور باقاعدگی کے ساتھ تہجد کا التزام بھی کیا کرتے تھے۔ بے انتہا مصروفیت کے باوجود حلقے میں دورہ جات کے لئے حتی الوسع اپنی بیوی کی، جو صدر لجنہ ہے، معاونت کرتے۔ انتہائی شفیق باپ اور بچوں کی پڑھائی اور تربیت پر توجہ دینے والے۔ ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ طاہرہ طاہر صاحبہ اور تین بیٹے عزیزم رضوان طاہر عمر 32سال، فرحان طاہر 29سال، مجتبیٰ طاہر 19سال اور بیٹیاں صبوحی عثمان اور عزیزہ رباب طاہرہ انہوں نے سوگوار چھوڑے ہیں ۔
………٭………٭………٭………