حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب

بیویوں پر الزام تراشی اور ناروا سلوک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’بعض مرد اس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں، طاقت زیادہ ہے، باہر پھرنا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں۔ پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑیں۔

بعض تو ظلموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی احمدی کہلاتے ہیں۔ ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلاّ رہی ہے۔ ماں پرغلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤاور پھر اس مرد کے، ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کررہے ہوتے ہیں ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہئے کہ فوری طورپر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش کرے۔ یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا جا رہا ہوتا۔ تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں۔ ایسے مرد اپنی اَناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مر جاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اپنی اَنا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں۔

…بہرحال جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کو ختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے۔ اس لئے جماعتی عہدیدار بھی اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے۔ اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ خداتعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے۔ فیصلے کرتے وقت، خلیفۂ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کرسفارش کیا کریں۔ اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دو دن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تاکہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہواور فریقین بھی یاد رکھیں کہ بعض اوقات اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ ناجائز حق مانگتے ہیں۔

…جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض ماں باپ بچوں کو دوسرے ملک میں لے گئے یا انہیں چھپا لیا یا کورٹ سے غلط بیان دے کر یا دلوا کر بچے چھین لئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدہ کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے، اور نہ والد کو اس کے بچے کی وجہ سے دکھ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم تقویٰ سے کام نہیں لو گے اور ایک دوسرے کے حق ادا نہیں کرو گے تو یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز جانتا ہے۔ وہ جانتا بھی ہے اور دیکھ بھی رہا ہےاور اللہ پھر ظالموں کو یوں نہیں چھوڑاکرتا۔ پس اللہ سے ڈرو، ہر وقت یہ پیش نظر رہے کہ جس طرح آپ پر آپ کی ماں کا حق ہے اسی طرح آپ کے بچوں پر ان کی ماں کا بھی حق ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اور جائزہ میں بھی سامنے آیاعموماً باپوں کی طرف سے یہ ظلم زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے میں مردوں کو توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنی بیویوں کا خیال رکھیں۔ ان کے حقوق دیں۔ اگر آپ نیکی اور تقویٰ پر قدم مارنے والے ہیں تو الاّماشاء اللہ عموماً پھر بیویاں آپ کے تابع فرمان رہیں گی۔ آپ کے گھر ٹوٹنے والے گھروں کی بجائے، بننے والے گھر ہوں گے جو ماحول کو بھی اپنے خوبصورت نظارے دکھا رہے ہوں گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)

(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 96تا98)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button