اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر تہمت اور الزام لگانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت کیا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ کا کسی تہمت اور الزام کے وقت جو اُس کے نبیوں اوررسولوں کی نسبت کی جاتی ہیں یہ قانونِ قدرت ہے کہ اوّل وہ عیب گیر اور نکتہ چین اور بدگمان لوگوں کو پورے طور پرموقعہ دیتا ہے کہ تا وہ جو چاہیں بکواس کریں اور جس طرح چاہیں کوئی تہمت لگاویں یا بہتان باندھیں۔ پس وہ لوگ بہت خوش ہوکر حملے کرتے ہیں اور اپنے حملوں پر بہت بھروسہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صادقوں کی جماعت ایسے حملوں سے ڈرتی ہے اور انسانی کمزوری کی وجہ سے اس بات سے نومید ہو جاتے ہیں کہ بارانِ رحمت الٰہی اس مفتریانہ داغ کو دھو دے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی عادت ہے کہ بارانِ رحمت نازل توکرتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے لیکن اوّل کسی مدت تک لوگوں کو نومید کر دیتا ہے تا وہ لوگوں کے ایمان کی آزمائش کرے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے نبی اور مرسل پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں۔ شریر لوگوں کی طرف سے بہت بیجا حملے خدا تعالیٰ کے نبیوں پرہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ فاسق اور فاجر ٹھہرائے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر واقعہ ہے کہ ا عتراض کرنے والوں کو اعتراض کرنے کے لئے بہت سی گنجائش دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نکتہ چینی اورعیب گیری کی باتوں کو بہت قوی سمجھنے لگتے ہیں اور اُن پرخوش ہوتے اور اتراتے ہیں اور مومنوں کے دلوں کو ان باتوں سے بہت صدمہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ اُن کی کمر ٹوٹتی ہے اور وہ سخت طور پر آزمائے جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کی نصرت کا مینہ برستا ہے ا ور تمام افتراؤں کے ورق کو دھو ڈالتا ہے اور اپنے نبیوں کے اجتباء اور اصطفاء کے مرتبہ کو ثابت کر دیتا ہے۔ ‘‘(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 96تا97)
اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے لیے اپنی نصرت کی بارش برساتا ہے لیکن تہمت لگانے والے، الزامات لگانے والے اور مخالفت کرنے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے مد مقابل سرگرم رہتے ہیں۔ امام عبد الوہاب الشعرانی جو عظیم صوفی بزرگ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں صوفیاء انہیں قطب ربانی کہتے ہیں۔ آپ مصر میں (897ھ بمطابق 1493ء) میں پیدا ہوئےاور 973ھ بمطابق1565ءقاہرہ میں وفات پائی۔ وہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے بالمقابل مخالفین کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’اکابر کےمقابلے میں اراذل
جلال الدین السیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس زمانے میں بھی کوئی بڑا پایا گیا کمینوں سے اس کا دشمن ضرور سامنے آیا کیونکہ اشراف ہمیشہ آزمائے جاتے رہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے ابلیس۔ حضرت نوح علیہ السلام کے لیے حام وغیرہ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے جالوت۔ اور اس جیسے دوسرے لوگ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے صخر۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے پہلی زندگی میں بخت نصر اور دوسری میں دجال۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے نمرود اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے فرعون تھا اور اسی طرح حضور نبی کریمﷺ کے لیے ابوجہل۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک دشمن تھا جب بھی پاس سے گزرتا مذاق اڑاتا۔ اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو نماز کے بارے میں ریا اور نفاق کی طرف منسوب کیا گیا۔ چنانچہ لوگوں نے آپ کے سر پر گرم کھولتا ہوا پانی ڈال دیا۔ آپ کا چہرہ اور سر جھلس گیا۔ جبکہ آپ کو پتہ تک نہ چلا۔ جب نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا: میرا کیا حال ہے؟ لوگوں نے واقعہ بیان کیا تو کہنے لگے حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل اور ایک عرصہ تک سر اور چہرے کی تکلیف میں مبتلا رہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے نافع بن الازرق تھا۔ آپ کو انتہائی شدید ایذا دیتا۔ اور کہتا کہ یہ علم کے بغیر قرآن کی تفسیر کرتا ہے۔ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے جاہلوں میں بعض جاہل ستایا کرتے تھے باوجود یکہ آپ کے لیے حضورﷺ نے جنت کی گواہی دی اور انہوں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے آپ کی شکایت کی کہ یہ اچھی طرح نماز نہیں پڑھتے۔
ائمہ مجتہدین کی آزمائشیں
اور رہے ائمہ مجتہدین تو حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کو خلفاء سے جن شدتوں کا سامنا کرنا پڑا اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو جو سختیاں جھیلنا پڑیں کہ 25سال تک چھپے رہے جمعہ اور جماعت کے لیے باہر نہیں آتے تھے اور اسی طرح اہل عراق اور اہل مصر کی طرف سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو جن حالات کاسامنا کرناپڑا کسی پر مخفی نہیں۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل کو جو سزا اور قید بھگتنا پڑی اور امام بخاری پر جو گزری جب آپ کو بخارا سے خرتنگ کی طرف نکالا گیا بھی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کئی عمائدین کو جلا وطن کیا گیا جن میں سےشیخ ابو عبد الرحمٰن السلمی۔ احمد بن خلکان اور شیخ عبدالغفار القوصی وغیرہم ہیں۔ انہوں نے بسطام کے علماء کی ایک جماعت کے واسطے سے ابو یزید البسطامی کو بسطام سے سات مرتبہ جلاوطن کیا۔ ذوالنون مصری کو مصر سے بغداد تک بیڑیاں اور طوق ڈال کر گھمایا گیا۔ اور اہل مصر نے آپ کے خلاف بے دین ہونے کی گواہی کے لیے آپ کے ساتھ سفر کیا۔ سمنون المحب کو جو کہ قشیری کے رجال میں سے ایک ہیں بڑے بڑے جرموں کی تہمت لگائی گئی۔ اور انہوں نے بازاری عورتوں میں سے ایک عورت کو رشوت دی جس نے آپ کے متعلق دعویٰ کیا کہ یہ اور ان کے ساتھی اس کے پاس آتے ہیں۔ اس بنا پر آپ ایک سال تک روپوش رہے۔
اور سہل بن عبد اللہ التستری کو ان کے شہر سے بصرہ کی طرف نکالا گیا اور آپ کی امامت اور بزرگی کے باوجود آپ کو بری حرکات کی طرف منسوب کیا گیا اور کافر تک کہا گیا اور آپ حین وفات تک بصرہ میں ہی رہے۔ اور ابو سعید الخراز پر بڑے جرمون کی تہمت رکھی گئی۔ علماء نے ان الفاظ کی وجہ سے جو کہ آپ کی کتابوں میں پائے گئے آپ کے کفر کا فتویٰ دیا۔ اور حضرت جنید پر کئی بار کفرکی گواہی دی گئی جبکہ آپ مجمع عام میں علم توحید میں گفتگو فرماتے تھے۔ پس آپ اپنے گھر کے اندر تقریر فرمانے لگے حتی کہ وفات پائی۔ اور آپ پراور ردیم۔ سمنون۔ علی ابن عطاء اور مشائخ عراق پر شدید انکار کرنے والوں میں ابن دانیال ہے۔ ان کے متعلق سخت بدگوئی کرتا اور جب کسی کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سن پاتا تو غضبناک ہوجاتا اور اس کا رنگ بدل جاتا۔ اور محمد بن الفضل البلخی کو بلخ سے نکال دیا گیا …اور امام یوسف بن الحسین الرازی کو نکالا گیا اور ری کے زاہدوں اور صوفیوں نے ان کے خلاف مہم چلائی اور ابو عثمان المغربی کو ان کے مجاہدہ کی کثرت اور ان کے علم وحال کے کمال کے باوجود مکہ معظمہ سے نکالا گیا۔ شدید زدوکوب کیا گیا اور اونٹ پر بٹھا کر گھمایا گیا۔ پس آ پ بغداد میں قیام پذیر ہوئے یہاں تک کہ وہیں وفات پائی۔ اور کمال اور کثرت مجاہدات کے باوجود شبلی پر کئی بار کفر کی گواہی دی گئی۔ آپ کے مریدوں نے آپ کو طویل مدت تک کے لیے ہسپتال میں داخل کردیا تاکہ لوگ آپ سے لوٹ جائیں اور امام ابو بکر النابلسی کو ان کی فضیلت، کثرت علم اور اپنے طریقے پر استقامت کے باوجود غرب سے مصر کی طرف جلاوطن کیا گیا اور لوگوں نے سلطان مصر کے پاس آپ کے زندقہ کی گواہی دی تو اس نے الٹا کرکے آپ کی کھال کھینچنے کا حکم دیا۔ پس آپ تدبر اور خشوع کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگے اور آپ کی کھال کھینچ رہے تھے…اسی طرح حلب میں نسیمی کی کھال ادھیڑی گئی۔ اور انہوں نے آپ کے لیے ایک حیلہ کیا جبکہ آپ انہیں دلائل کے ساتھ لاجواب کر دیتے تھے۔ وہ حیلہ یہ تھا کہ انہوں نے سورۃ اخلاص لکھی اور جوتے سینے والے کو رشوت دی کہ یہ محبت اور قبولیت کا کاغذ ہے اسے ہمارے لیے جوتے کی تہہ کے درمیان سی دو۔ پھر انہوں نے وہ جوتا لیا اور دور کی راہ سے وہ بطور ہدیہ شیخ کو پیش کر دیا۔ آپ نے پہن لیا جبکہ صورت حال کا پتا نہ تھا۔ پھر حلب کے حاکم کے پاس پہنچے اور اسے کہا کہ ہمیں باوثوق ذرائع سے یہ بات پہنچی ہے کہ نسیمی نے قل ھوا للّٰہ احد لکھ کر اپنے جوتے کی تہہ میں رکھی ہے اور اگر آپ ہماری تصدیق نہیں کرتے تو اسے بلا بھیجیں اور ملاحظہ کر لیں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ کاغذ نکل آیا۔ ‘‘(الیواقیت والجواہر فی بیان عقائد الاکابر از سیدی عبد الوہاب شعرانی، مترجم: سید محمد محفوظ الحق شاہ صاحب، صفحہ 77تا78، نوریہ رضویہ پبلی کیشنز لاہور )
اللہ تعالیٰ کے پیاروں کی مخالفت کرنے والوں کی ایک مختصر سی تاریخی جھلک دکھانے کا مقصد یہ ہے کہ مخالفت تو ہوتی ہے اور ہوسکتا ہے وقتی طور پر ان مخالفین کو کامیابی بھی مل جائے لیکن انجام کار دائمی اور حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے حصہ میں ہی آتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
یہ اگر انسان کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں !
ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار
کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہر یار
اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذاب کی
کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار
(مرسلہ: ابن قدسی)