احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ ایمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ قناعت، شجاعت، عفت، مروت، وسعت حوصلہ،استغناء،فیاضی اور مہمان نوازی آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔
حضرت اقدسؑ کی والدہ ماجدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ رحمہا اللہ
حضرت اقدس علیہ السلام کاننھیال ایمہ ضلع ہوشیارپور میںتھا۔یہ خاندان اپنی وجاہت ونجابت میں معروف خاندان تھا۔اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب، مرزا رحمت اللہ بیگ صاحب تھے جوحضرت اقدس مسیح موعودؑ کے خاندان میں بطورمختار کام کرتے تھے اورپرانے کام کرنے والےتھے۔ ان کی بابت محترم حضرت عرفانی صاحبؓ تحریرفرماتے ہیں:’’مرزارحمت اللہ بیگ صاحب حضرت ؑکے خاندان میں بطور مختارکام کرتے تھے۔اوریہ رڑکی مغلاں کے مغل خاندان کے ممبرتھے۔یہ وہ خاندان تھا جس کے ساتھ اس خاندان کی رشتہ داری تھی۔حضرت اقدس ؑکی پہلی بیوی،مرزاسلطان احمدصاحب کی بیوی اورمرزافضل احمدمرحوم کی بیوی یہ سب اسی خاندان سے متعلق تھیں۔‘‘(اصحاب احمدجلددوم عرض حال صفحہ 35)
انہوں نے کوئی پچاس سال تک اس خاندان میں کام کیااور اندازاً 1865ء کے قریب وفات ہوئی ہوگی۔ان دونوں امورکی سندحضرت اقدس مسیح موعودؑکی درج ذیل ایک تحریرسے ملتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ 20؍ستمبر1905ء کی ایک رؤیا کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بڑے مرزاصاحب یعنی والدصاحب کاایک پرانا نوکر مرزارحمت اللہ نام جوقریباً پچاس سال تک والدصاحب کی خدمت میں رہاتھااورجس کوفوت ہوئے بھی قریباً چالیس سال ہوئے ہیں۔‘‘(تذکرہ صفحہ 480)
حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحبؒ کی شادی ایمہ مغلاں ضلع ہوشیارپور کے ایک معززمغل خاندان میں مرزاجمعیت بیگ صاحب کی ہمشیرہ محترمہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ ؒکے ساتھ ہوئی ۔
اس شادی کے نتیجہ میں حضرت مرزاغلام مرتضیٰ صاحب کےہاں سب سے پہلے ایک بیٹا پیداہوا جوچھوٹی عمرمیں ہی فوت ہوگیا۔اس کے بعد ایک بیٹی پیداہوئی۔جس کانام مرادبی بی تھا۔ یہ بہت نیک اور صاحب رؤیا خاتون تھیں۔ان کے بعد ایک بیٹا پیداہواجن کانام مرزاغلام قادرصاحب تھا۔ان کے بعد ایک دوبچے پیداہوئے لیکن وہ بچپن کی عمرمیں ہی فوت ہوتے گئے۔ محترمہ چراغ بی بی صاحبہ نے بہت دعائیں کیں کہ خداانہیں بیٹا دے جوعمرپانے والاہو۔
حضرت اقدس ؑکے ایک سوانح نگار حضرت عبدالرحیم صاحب دردؓ (A.R.Dard)لکھتے ہیں :
The first son of Mirza Ghulam Murtaza died in his infancy and was followed by a daughter who was named Murad Bibi. She was a most pious woman. Then was born Mirza Ghulam Qadir (d. 1883 at the age of 55), who was followed by one or two children, who also died in infancy. It is said that Charagh Bibi, the wife of Mirza Ghulam Murtaza, had been long praying for a son who would live long when Hazrat Mirza Ghulam Ahmad was born, on a Friday morning, the 13th of February, 1835.
(Life of Ahmad Page 27 Chapter:IV)
ترجمہ:مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کا پہلا بیٹا شیرخوارگی میں ہی فوت ہو گیا اور اس کے بعد ایک بیٹی پیدا ہوئی جن کا نام مراد بی بی رکھا گیا۔وہ ایک بہت تقویٰ شعار خاتون تھیں۔ ان کے بعد مرزا غلام قادر صاحب پیدا ہوئے (آپ کی وفات 1883ء میں 55 سال کی عمر میں ہوئی)۔ ان کے بعد ایک یا دو اور بچے ہوئے لیکن وہ بھی کم عمری میں ہی فوت ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ (حضرت )چراغ بی بی صاحبہ ایک لمبے عرصہ سے ایک ایسے بیٹے کے لیے دعا مانگ رہی تھیں جو لمبی عمر پائے چنانچہ اس کے بعد حضرت مرزا غلام احمد صاحب جمعہ کی صبح 13 فروری 1835ء کو پیدا ہوئے۔
ان بزرگ ماں باپ کی دعائیں اور مناجاتیں تھیں کہ خدانے وہ نوراس بطن سے پیداکیا کہ جوہزاروں سالوں سے نسلاً بعدنسلٍ اوربطناً بعدبطنٍ نیک نسلوں میں منتقل ہوتاچلاآیاتھا۔وہ نور کہ جواس معصومہ کے بطن میں تھا۔جوچراغ نام کے ساتھ خوداسم بامسمیٰ تھی۔جومعنوی اعتبارسے مریم بن کراس مسیح محمدی کی والدہ مکرمہ کاشرف پاگئی۔وہ مسیح محمدی کہ جس کے نام کوآنحضرتﷺ نے یہ کہہ کرشرف بخشا اِسْمُہٗ اسْمِیْ کہ اس کانام میرانام ہوگا اوراس کے والدین کانام میرے والدین کانام ہوگا۔
اس گھرمیں اس مقدس اورمطہروجودکاپیداہونا اس جوڑے کی بزرگی اورپاکیزگی اورمعصومیت اورنیک فطرت ہونے کی خودایک دلیل ہے ذَالِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ۔
آپؑ کی والدہ ماجدہ کے اخلاق وشمائل
جیساکہ بیان ہوا ہے کہ حضرت چراغ بی بی صاحبہؒ ایمہ ضلع ہوشیار پور کے ایک معزز مغل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ قناعت، شجاعت، عفت، مروت، وسعت حوصلہ،استغناء،فیاضی اور مہمان نوازی آپ کی نمایاں خصوصیات تھیں۔ شہرکے مفلوک الحال اور پسماندہ طبقہ کی ضروریات کے مہیا کرنے میں انہیں خاص قلبی وروحانی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ غرباء کے مردوں کو کفن ہمیشہ ان کے ہاں سے ملتا تھا۔ ان کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی مشہور تھی۔ وہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب ؒ کے لیے بہترین مشیر اور غمگسار تھیں اور آپ بھی اپنی ہیبت اور شوکت وجلال کے باوجود خانہ داری کے معاملات میں ان کی خلاف مرضی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو چونکہ ابتدا ہی سے خلوت گزینی، ذکر الٰہی اور مطالعہ سے ہر لمحہ شغف تھا اور اپنے والد صاحب کے دنیوی مشاغل اور دوسرے کاروبار میں حصہ لینے سے طبعاً متنفر تھے اس لیے کبھی کبھی والدصاحب کی تنقیدوتصریح کا نشانہ بنتے تو بنتے۔ لیکن آپ کی والدہ محترمہؒ کو آپ سے بڑی محبت تھی۔ وہ آپ کی نیکی،تقویٰ شعاری،پاک زندگی اور سعادت مندی پر سو جان سے قربان ہوجاتیں اور آپ کی ہر قسم کی ضرورتوں کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ چنانچہ ان کی زندگی میں آپؑ کو کبھی کچھ کہنے کی، مانگنے کی نوبت نہیں آئی۔ کیونکہ وہ ابتدا ہی سے جانتی تھیں کہ آپ اپنے گھر کے دوسرے افراد کے مقابل بالکل درویش طبع ہیں اور اپنی ضروریات کا کسی سے اظہار کرنا آپ کو ہرگز پسند نہیں۔ جب کبھی کسی مہمان یادوست احباب کے لیے کھانے کاکہنا توآپ کی والدہ مہربان ہمیشہ وافرمقدارمیں کھانابھجوایاکرتیں۔اورکبھی بھی کسی بھی ضرورت کے لیے حضرت اقدسؑ کونہ کہناپڑااورنہ پریشان ہوناپڑا۔
حضرت یعقوب علی عرفانی صاحبؓ آپ کی والدہ ماجدہؒ کاذکرکرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’حضرت والدہ مکرمہ کی دور اندیشی معاملہ فہمی مشہور تھی۔ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کے لئے وہ ایک بہترین مشیر اور غمگسار تھیں اور یہی وجہ تھی کہ حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب باوجود اپنی ہیبت اور شوکت و جلال کے حضرت مائی صاحبہ کی باتوں کی بہت پرواکرتے تھے۔اور ان کی خلاف مرضی خانہ داری کے انتظامی معاملات میں کوئی بات نہیں کرتے تھے بات بظاہر نہایت معمولی سمجھی جا سکتی ہے مگر حضرت مائی صاحبہ کی فراست اور حیا پروری کی یہ ایک عدیم النظیر مثال ہے…حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ہمشیرہ صاحبہ بی بی مراد بیگم صاحبہ تھیں جو بجائے خود ایک صاحب حال اور عابدہ زاہدہ خاتون تھیں۔خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت وہ عین عنفوان شباب میں بیوہ ہو گئیں۔اورقادیان آگئیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرح ان کی زندگی ایک خدا پرست خاتون کی زندگی تھی۔حضرت مائی صاحبہ کو جیسے حضرت مسیح موعودؑ کے آرام و آسائش کا ہر طرح خیال ہوتا تھا اس خدا پرست خاتون کے لئے بھی وہ بہت دردمند اور محبت سے لبریز دل رکھتی تھیں اور ان کی بیوگی کے زمانہ میں اپنی ذمہ واری کی خصوصیات کو محسوس کرتی تھیں۔ان حالات میں انہوں نے حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو مشورہ دیا کہ زنان خانہ میں وہ ہمیشہ دن کو تشریف لایا کریں۔چنانچہ حضرت مرزا صاحب مرحوم کا اس کے بعد معمول ہو گیا کہ وہ صبح کو اندر جاتے اور گھر کے ضروری معاملات پر مشورہ اور ہدایات کے بعد باہر آ جاتے۔حضرت مائی صاحبہ نے اپنے اس بیٹے اور بیٹی کے لئے اپنے تمام آرام اور آسائشوں کو قربان کر دیا تھااور ان کے دن رات ان دونوں عزیزوں کے آرام کے انتظام میں بسر ہوتے تھے۔الله تعالیٰ ان پر بڑے بڑے رحم اور کرم کرے اور اپنے فضل سے انہیں اس مقام پر اٹھائے جو اس کی رضا کا مقام ہے۔آمین
بہر حال حضرت اقدس ؑنے ایسی شفیق اور مہربان ماں کی گود میں پرورش پائی تھی جو اپنی صفات عالیہ کے لحاظ سے خواتین اسلام میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔اس خاتون کی عزت و وقار کا کیا کہنا جس کے بطن مبارک سے وہ عظیم الشان انسان پیدا ہوا۔جو نبیوں کا موعود تھا اور جس کو آنحضرتﷺ نے اپنا سلام کہا۔اور خدا تعالیٰ نے جس کے مدارج اور مناقب میں فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنْکَ۔‘‘(حیات احمدؑ جلداول صفحہ 219-220)
آپؑ کی والدہ ماجدہ ؒجب تک زندہ رہیں آپ کے لیے (ظاہری لحاظ سے ) سپر بنی رہیں۔ والد خفگی کا اظہار کرتے تو ماں کی مامتا فرط محبت سے جوش میں آجاتی۔ حضور جب والد بزرگوار کے اصرار پر سیالکوٹ آگئے تو باقاعدہ آپ کے لیے کپڑے وغیرہ بنا کر بھجواتی رہیں۔ غرض کہ ان کا وجود آپ کے لیے سایہ رحمت تھا۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی آپ سے بے پناہ محبت تھی۔ جب کبھی ان کا ذکر فرماتے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے تھے۔
حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب ؓ حضرت اقدسؑ کی والدہ صاحبہ کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں کہ’’ان کوحضرت صاحب سے بہت محبت تھی اور آپ کوان سے بہت محبت تھی۔میں نے کئی دفعہ دیکھاہے کہ جب آپ ان کاذکر فرماتے تھے توآپ کی آنکھیں ڈبڈباآتی تھیں۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 10)
حضرت والدہ صاحبہ نہایت خدا رسیدہ اور بزرگ خاتون تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بار ان کی بزرگی کا ذکر فرمایا جوحضرت اماں جان ؓکی روایت سے محفوظ ہوگیا: ’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ان سے حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمایا کہ جب بڑے مرزا صاحب(یعنی حضرت مسیح موعودؑ کے والد صاحب۔) کشمیر میں ملازم تھے تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ہماری والدہ نے کہا کہ آج میرا دل کہتا ہے کہ کشمیر سے کچھ آئے گا تو اسی دن کشمیر سے آدمی آگیا اور بعض اوقات تو ایسا ہوا کہ ادھر والدہ صاحبہ نے یہ کہا اور ادھر دروازہ پر کسی نے دستک دی۔ دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ کشمیر سے آدمی آیا ہے۔‘‘(سیرت المہدی جلد اول ،روایت نمبر 10)
(باقی آئندہ)