’’خلافت تسکینِ جاں‘‘ (قسط سوم۔آخری)
(محترم منیر احمد جاویدصاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی تقریر سے ماخوذ ایک ایمان افروز تحریر)
ہمارے مالٹا کے مربی نے پچھلے دنوں ایک مالٹی غیر مسلم کرسچن دوست کا واقعہ لکھ کے بھیجا جو وہاں پرنٹنگ پریس چلاتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم بھی ان سے جماعتی کتابیں وغیرہ شائع کرواتے رہتے ہیں اس لیے ان سے کچھ واقفیت ہو گئی تو انہوں نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے میرا کاروبار بہت زیادہ متاثر ہو گیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کہ ہمیں کچھ آسانی کا سانس ملے۔ ہم بہت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ یہ مربی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ میں تو اپنے امام کو، خلیفۃ المسیح کو دعا کے لیے تمہارا پیغام پہنچاؤں گا، ان کی خدمت میں تمہارے لیے دعا کی درخواست کروں گا تو پھر تمہارے کام ان شاء اللہ ٹھیک ہو جائیں گے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا۔ اس خط کی برکت سے اللہ نے اس پر فضل بھی کیا۔ چند دن پہلے اس کا فون آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ
دعاؤں کی برکت سے پچھلے دو ماہ سے ہمارے کام میں بہت برکت پڑی ہے اور اتنا کام آیا ہے کہ اب ہمارے لیے اسے سمیٹنا مشکل ہوا ہوا ہے۔
وہ مالک کہنے لگا کہ اب یہ حالات ہیں کہ پرنٹنگ پیپر ختم ہو گیا ہے اور ہمیں پیپر کے حصول میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے اور پھر کہنے لگا کہ ہمیں بہت بڑے بڑے آرڈر بھی ملے ہیں اور میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور پھر ساتھ ہی ازراہِ تفنن کہنے لگا کہ تھوڑی دعا ذرا کم کر دیں تا کہ ہم کاروبار کو آسانی سے مینج (manage)کر سکیں۔ اس کے تو یہ الفاظ تھے کہ آئندہ جب دعا کریں تو آدھی دعا کر دیں کیونکہ پوری دعا کے بعد تو کام کو سمیٹنا ہی ہمارے لیے بہت مشکل ہو گیا ہے تو پھر کہتے ہیں کہ میں نے اس کو بتایا کہ یہ دعائیں میری نہیں ہیں، یہ دعائیں خلیفۃ المسیح کی دعائیں ہیں جس کے نتیجہ میں تمہیں یہ فیض ملا ہے اور تمہارے کاروبار میں برکت پڑی ہے اور وہ اب تم سے سمیٹا نہیں جا رہا۔ پھر کہتے ہیں کہ وہ اس پر بہت خوش ہوا بہت مطمئن ہوا، کہنے لگا کہ His Holiness the Caliph ان کو میرا سلام کہنا، ان کو میرا شکریہ کہنا اور درخواست کرنا کہ وہ ہمیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ تو احمدی تو احمدی غیر احمدی بھی، غیر مسلم بھی حضور کی دعاؤں کے فیض پا رہے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کو ان دعاؤں کے فیض کے نتیجہ میں دنیاوی برکتیں بھی مل رہی ہیں۔ احمدیوں کو تو دینی برکتیں حاصل ہوتی ہیں ان کو ہر قسم کی برکتیں مل رہی ہیں۔
مصر سے ایک عرب دوست نے لکھا کہ مَیں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں مَیں نے وہاں تبلیغ کی کہ شاید اللہ انہیں ہدایت دے دے لیکن وہ لوگ میرے خلاف بھڑک اٹھے اور کمپنی نے آخر مجھے جاب سے معطل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ ارادہ کیا کہ پہلے تحقیق ہو گی، کمیشن بیٹھے گا اور پھر اس کے بعد اس کو فارغ کر دیا جائے گا۔ کہتے ہیں مجھ سے ایک فارم پہ دستخط بھی کرا لیے گئے جس پر یہ لکھا تھا کہ اگر میں نے کمپنی میں کام کرنا ہے تو آئندہ سے ایسی بات نہیں کروں گا ورنہ فارغ۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں ڈر سا گیا لیکن کچھ دن گزرے تو پھر میرے دل میں تبلیغ کے لیے جوش اٹھا تو میں نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے ایک عرب دوست کے ساتھ بات کی، اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کے بارے میں بتایا اور چھوٹی موٹی تبلیغ کی باتیں شروع کیں تو کہتے ہیں کہ اگلے دن وہ شخص آ کے بڑی رازداری سے کہتا ہے کہ میں نے تم سے ایک بات کرنی ہے۔ کہتے ہیں میں ڈرا کہ اب پتہ نہیں کسی نے اس سے باتیں کرتے ہوئے مجھے دیکھ لیاہے یا یہ خود میری شکایت لگانے لگا ہے تو میں پریشان ہو گیا۔ لیکن خیر میں نے کہا اچھا بتاؤ کیا بات ہے تو کہنے لگا کہ آج فجر سے پہلے میں نے خواب دیکھا ہے۔ تین لوگ ہیں ایک مجھے دائیں طرف سے پکڑ کے کہتا ہے کہ ہماری طرف آؤ، دوسرا بائیں طرف کھینچتا ہے کہ ہماری طرف آؤ اور درمیان والا کہتا ہے کہ تم ہمارے ساتھ آ جاؤ۔ میں نے کہا تمہارے ساتھ کہاں جاؤں۔ تو اس نے کہا قُلْ ھٰذِہِ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْا اِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبعَنِیْ۔ تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ طارق کو جانتے ہو؟ اس خط لکھنے والے کا نام طارق ہے۔ کہتے ہیں میں نے اس سے پوچھا کہ آپ طارق کو جانتے ہیں ؟ یعنی وہ خواب دیکھنے والا جو زیرِ تبلیغ تھا اس نے خواب میں آئے ہوئے تین آدمیوں سے جو اِدھر اُدھر کھینچ رہے تھے پوچھا کہ آپ طارق کو جانتے ہیں ؟ درمیان والا شخص جو کہتا تھا میرے ساتھ آ جاؤ اس نے کہا ہاں وہ میرا بیٹا ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے خواب سن کر اس سے کہا کہ جس شخص نے خواب میں آپ سے کہا تھا کہ طارق میرا بیٹا ہے کیا اس کا حلیہ آپ پر واضح ہے؟ اگر میں آپ کو کوئی تصویر دکھاؤں تو آپ اس کو دیکھ کے بتا سکتے ہیں کہ وہ خواب میں آنے والا اور درمیانے رستے پر چلانے والا، آپ کو دعوت دینے والا وہی ہے جو خواب میں آپ نے دیکھا ہے تو کہتا ہے ہاں ہاں میرے ذہن پہ واضح طور پر اس کا نقش موجود ہے۔ اگر تم مجھے کوئی تصویر دکھاؤ گے تو میں تمہیں بتا دوں گا لیکن اس نے کہا کہ وہ جو خواب میں شخص تھا وہ سفید چوغہ پہنے ہوئے تھا، اس کی داڑھی سفید تھی۔ کہتے ہیں اس پر
میں نے اسے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر دکھائی تو اس نے کہا کہ میں نے اسی شخص کو رات خواب میں دیکھا تھا۔
تو پھر کہنے لگا یہ ہیں کون؟ تو کہتے ہیں پھر میں نے ان کو کہا کہ یہ میرے ابو ہیں اور میں ہی ان کا بیٹا طارق ہوں اور ساتھ پھر حضور کا سارا تعارف کروایا اور بتایا کہ یہ خدا کے خلیفہ ہیں اور اللہ ان کی دعائیں سنتا ہے اور میں ان کی جماعت میں شامل ہوں اور میں ہی ان کا بیٹا ہوں تو تمہیں خدا نے سیدھی راہ دکھا دی ہے جس طرف وہ تمہیں بلا رہے تھے اسی پہ چلو گے تو تمہیں کامیابیاں ملیں گی۔
اب ایک اَور پہلو سے ’’خلافت وجہ تسکین‘‘کی کچھ مثالیں بیان کرتا ہوں۔ یہاں ہمارے عربی ڈیسک کے ایک مبلغ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی پہلی بیٹی ولادت سے چند دن پہلے فوت ہو گئی جس کی وجہ سے ان کی بیٹی شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار تھی تو حضور نے اس موقع پر اس سے بہت شفقت فرمائی اور ملاقات میں اسے دعائیں دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نعم البدل عطا فرمائے گا گھبراؤ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک روز خاکسار ملاقات کے لیے حاضر ہوا اور بیٹی کی صحت کے لیے دعا کی درخواست کی تو حضور نے فرمایا میں نے اسے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں نعم البدل سے نوازے گا۔
میری طرف سے اسے پھر کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ ضرور نعم البدل سے نوازے گا۔
تو کہتے ہیں خاکسار کے ذہن میں نجانے کیا آیا کہ فوراً یہ جملہ میں نے اپنی ڈائری کے ایک صفحہ پہ لکھ لیا۔ پھر دیکھا کہ جلدی میں لکھتے ہوئے مَیں نے اتنا خوشخط نہیں لکھا تو میں نے دوسرے صفحہ پر نسبتاً بہتر خط میں وہی جملہ پھر لکھ دیا اور اٹھ کر حضور کی خدمت میں اپنی ڈائری پیش کی کہ اس کے نیچے دستخط فرما دیں۔ کہتے ہیں جب حضور نے ڈائری پکڑلی اور اس پہ دستخط فرما دئیے تو حضور کی نظر سامنے والے صفحہ پر پڑی، وہاں پر بھی وہی جملہ لکھا ہوا تھا تو کہتے ہیں حضور نے وہاں پر بھی دستخط فرما دئیے تو کہتے ہیں خاکسار نے خوشی خوشی گھر آ کے بیٹی کو بتایاکہ اللہ کے فضل سے دو بچوں کی خوشخبری تو تمہیں مل گئی ہے، حضرت صاحب نے نعم البدل کے دو جگہ تو دستخط کر دئیے ہیں، دو بچے تو تمہارے اب پکے ہو گئے ہیں اس لیے اب تم خوش ہو جاؤ اور پریشانی اور ذہن پر جو نفسیاتی بوجھ ڈالا ہوا ہے اس کو اتارو۔ کہتے ہیں حضور کے دستخط اور حضور کے الفاظ کہ اللہ تعالیٰ نعم البدل عطا کرے گا سےمیری بیٹی کو اور ان کے اہل و عیال وغیرہ کو اتنی تسکین ہوئی کہ دل میں یہ الفاظ اتر گئے اور پھر خداتعالیٰ نے کس طرح فضل فرمایا، ایک سال بعد اللہ تعالیٰ نے فوت ہونے والی بیٹی کا نعم البدل ایک خوبصورت اور ذہین بیٹی کی شکل میں عطا فرمایا جو اب ساڑھے تین سال کی ہے۔
اور اس کے بعد جب دوسرے بچے کی امید ہوئی تو اس بچی کے حمل کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے، ڈاکٹروں نے بھی خطرے کا اظہار کرنا شروع کیا تو بیٹی حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور دعا کے لیے عرض کی اور حضور سے وقت سے پہلے پیدائش کروانے کے بارے میں بھی پوچھا کہ حضور ڈاکٹر اس طرح کہہ رہے ہیں تو حضور نے یہ الفاط بڑے واضح طور پر فرمائے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے تم ویسے ہی ان شاء اللہ پہلے فارغ ہو جاؤ گی اور پھر حضور نے ازراہ شفقت پوچھا کہ کیا آپ نے معلوم کیا ہے کہ آنے والا بیٹا ہے یا بیٹی ہے؟ تو اس نے عرض کیا کہ حضور ہم نے جان بوجھ کر نہیں پوچھا، ہم اس کو سرپرائز رکھنا چاہتے ہیں تو اس پر حضور نے ان کو بیٹے اور بیٹی دونوں کا نام عطا فرمایا اور پھر اچانک ہی پوچھا کہ تمہارے پاس پہلے کیا ہے؟ تو اس نے کہا حضور پہلے بیٹی ہے تو
حضور نے فرمایا چلیں پھر اس بار بیٹا ہو جائے گا اور فیملی مکمل ہو جائے گی۔
کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے حضور کی زبان مبارک سے نکلا ایک ایک لفظ پورا فرمایا اور ابھی دو ہفتے پہلے اپنے فضل سے انہیں بیٹا عطا فرمایا اور یہ بیٹا وقت سے تقریباً دو ہفتے پہلے پیدا ہوا ہے جیسے حضور نے فرمایا تھا کہ تم ویسے ہی ان شاء اللہ پہلے فارغ ہو جاؤ گی تو اسی طرح وقت سے پہلے ہوا، نعم البدل بیٹا عطا ہوا اور اس طرح حضور انور کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے کلمات من و عن پورے ہوئے اور کہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر اَور کس طرح اداکر سکتے ہیں، اتنی عظیم الشان نعمت خدا نے ہمیں عطا کی ہے کہ جس کے حرف حرف کی خدا تعالیٰ لاج رکھتا ہے اور قدر کرتا ہے اور اس کو اسی طرح پورا کرتا ہے جس طرح فرمایا ہوتا ہے۔
ایک شامی عرب دوست جو آجکل کینیڈا میں ہی مقیم ہیں ان کی اہلیہ نے یہ واقعہ لکھا کہ شادی کے بعد کئی سال تک وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے اور ان کی اہلیہ کو کسی نسوانی بیماری کا عارضہ تھا جس کی بنا پہ یا تو حمل ٹھہرتا نہیں تھا یا پرابلم ہو جاتی تھی اور تیسرے چوتھے یا دوسرے تیسرے مہینے میں ہی اسقاط ہو جاتا تھا تو انہوں نے حضور کی خدمت میں خط لکھا۔ حضور نے انہیں دعائیں بھی دیں اور دوا بھی بھجوائی۔ بالآخر کئی سالوں بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں پہلی بیٹی سے نوازا۔ پھر اس کے بعد دوسری بیٹی اور اب دو بیٹیوں کے بعد ایک بیٹا بھی عطا فرمایا ہے تو اب یہ شامی شخص اور اس کی اہلیہ سے زیادہ اور کون اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ خلیفہ وقت کی دعا یقیناً تسکین جان کا موجب ہوتی ہے۔
ملائیشیا سے ایک دوست نے واقعہ لکھا، کہتے ہیں کہ ہمیں جب اللہ نے بیٹا عطا کیا تو ہم اس سے پہلے ہر مہینے چیک اَپ کرواتے تھے اور اس سارے عرصے میں ہم کثرت سے درود شریف بھی پڑھتے رہے۔ علاج کے لیے اتنے پیسے ہمارے پاس نہیں تھے اور wifeکو تکلیف بھی بہت ہوتی تھی۔ جب پیدائش کا وقت قریب آیا، ہسپتال گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ ستر فیصد تو آپریشن کے چانسز ہیں اس کے بغیر بہت مشکل ہو گا۔ ان کے پاس پیسے تھے نہیں کہ وہ اتنا بڑا خرچہ برداشت کر سکیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے فوراً کاغذ پین پکڑا، دعا کے لیے حضور کی خدمت میں خط لکھ دیا اور خود بیگم کے ساتھ بیٹھ کے درود شریف پڑھنے لگ گئے۔ تو وہ ڈاکٹر جو کہہ گئی تھی کہ آپریشن ہونا ہے اور ساتھ ٹائم بھی بتا گئی تھی کہ صبح چھ بجے ہم نے آپریشن کرنا ہے وہ ایک گھنٹے بعد ہی دوڑتے ہوئے واپس آئی اور کہنے لگی کہ آپریشن کی ضرورت نہیں ہے ابھی کیس ہو گا اور نارمل ہو گا اور
حضور کی دعا کی برکت سے وہ بچہ ایک گھنٹے کے بعد نارمل پیدا ہوا
اور ان بیچاروں کے پاس جو پیسے بھی نہیں تھے اس سے بھی اللہ تعالیٰ نے حضور کی برکت سے انہیں بچایا اور نارمل ولادت کے ذریعہ صحت مند بچہ بھی عطا فرمایا۔ یہ تسکینِ جاں ہے خلافت۔
پاکستان سے ایک مربی نے یہ واقعہ لکھا کہ ایک نوجوان خادم کو سانپ نے ڈس لیا اور اس کی حالت انتہائی تشویشناک ہو گئی۔ کہتے ہیں اس حالت میں مَیں نے حضور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھ دیا۔ دو دن کے اندر اندر اللہ نے حضور کی دعا کی قبولیت کا یہ نشان دکھایا کہ وہ نوجوان جو وینٹی لیٹر پر تھا ڈاکٹر کے بقول اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ چکا تھا، سانس رک چکا تھا صرف دل کام کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے ایک نئی زندگی دی۔ اب وینٹی لیٹر اتر چکا ہے، ہوش میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کو پہچان رہا ہے اور باتیں کر رہا ہے اور اس کی صحت بہتری کی طرف مائل ہے۔
یہاں ہمارے صدر صاحب انصار اللہ ہیں ابھی چند دن پہلے ان کے بھائی کو جو امریکہ میں ہوتے ہیں شدید قسم کا ہیمرج ہوا۔ ان کو فوراً آئی سی یو میں داخل کیا گیا، برین میں بلڈ کلاٹ (blood clot)بن گئے۔ ڈاکٹر نے انہیں ٹیکا لگایا تاکہ بلڈ کلاٹ کم ہو مگر رات کو اس کی وجہ سے دماغ میں مزید بلیڈنگ ہونے لگی جس پر ڈاکٹروں نے آپریشن کا فیصلہ کر لیا تا کہ آپریشن کر کے دماغ سے بلڈ کلاٹ نکال دیا جائے۔ اس کے لیے انہوں نے دماغ کے بائیں جانب خون کی نالی کھولنی تھی۔ کہتے ہیں میں نے اسی وقت رات کو ہی حضور کی خدمت میں دعائیہ پیغام بھجوا دیا تو
حضور کی دعا کی برکت سے آپریشن ہوا اور الحمدللہ بہت کامیاب رہا۔
ڈاکٹرز نے ان کے دماغ سے کافی حد تک بلڈ کلاٹ نکال دیا ہے اور اب وہ کافی حد تک باتوں کو سمجھتے اور بول بھی سکتے ہیں اور اب جلد ہی ان کو آئی سی یو سے نارمل وارڈ میں منتقل کر دیا جائے گا۔ یہ دو دن پہلے کی بات ہے جو انہوں نے مجھے لکھی اور ابھی تھوڑی دیر پہلے میں اپنا فون دیکھ رہا تھا تو اس پہ ان کا میسج آیا ہوا تھا کہ وہ ان کو کل چھٹی دے رہے ہیں، گھر بھیج رہے ہیں۔ الحمد للہ یہ حضور کی دعاؤں کا معجزہ ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے حضور کی دعاؤں کی بدولت یہ معجزہ مشاہدہ کیا ہے۔ خداتعالیٰ ہمارے پیارے امام کو ہمیشہ امن اور سلامتی سے رکھے اور ہم بھی خلافت کی خدمت اور اس کی قدر کرنے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔
ابھی آپ کے ہاں نسیم مہدی صاحب کی بیماری کا معاملہ بھی آپ سب جانتے ہیں۔ آپ لوگوں نے وٹس ایپ وغیرہ پر میسج وغیرہ کر کے بھی اطلاع دی ہے۔ ان کو بھی اسی طرح کی تکلیف تھی۔ ان کی اہلیہ کی طرف سے اور ان کے عزیزوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں دعا کے لیے میسجز آئے۔ حضور نے فوری طور پہ ان کے لیے دعا کی اور دوائی تجویز فرمائی اور دوائی تجویز کر کے پوچھا کہ ان کو پہنچا دی ہے، ان کو بتا دی ہے؟ اور فوری طور پر ڈاکٹر کے ذریعہ ان سے رابطہ کروایا گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند دنوں کے اندر اندر ان کی صحت بہتر ہونی شروع ہوئی اور بحال ہو گئی۔ اب وہ گھر آ چکے ہیں، ٹھیک ٹھاک ہیں۔ تو یہ خلافت کی برکت ہے، یہ خلافت کی نعمت ہے تو کیسے نہ انسان اس کو کہے کہ یہ واقعی تسکینِ جان ہے۔
یہاں یہ لمبا واقعہ ہے لیکن اس میں بھی same معجزہ ہے۔ یہاں ہمارے حافظ ظفر اللہ صاحب ایڈیٹر الفضل انٹرنیشنل ہیں ان کے بہنوئی کے ساتھ بھی بعینہٖ ایسا واقعہ ہوا۔ سٹروک ہوا اور ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ بس اب مشکل ہی ہے، رشتہ دار آ جائیں، فیملی کو بلا لیں۔ کہتے ہیں میں بھی گیا تھا۔ ان کو وینٹی لیٹر پر ڈالے جانے کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ جب مجھے بہنوئی کی اس بیماری کے متعلق میسج ملا تو شام پانچ بج کے پانچ منٹ پہ میں نے حضور کی خدمت میں دعائیہ خط لکھ کے ای میل کر دیا اور کچھ ہی دیر بعد مجھے حضور کی طرف سے ازراہ شفقت اس کا جواب بھی مل گیا اور
حضور نے دعا کی اور اس کے بعد پھر جو حالات ہوئے، اچانک طبیعت سنبھلی، بہتری کی طرف مائل ہونے لگی، ڈاکٹروں نے جو ہمشیرہ کو کہہ دیا تھا کہ رشتہ داروں کو بلا لو انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔
سانس اور GCSبہتر ہونے لگی ہے، وینٹی لیٹر لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر بعد ان کو دوسرے بڑے ہاسپٹل میں منتقل کرنا تھا وہ ایمبولینس میں لے جانے لگے تو انہوں نے، خود بہنوئی نے جو بالکل بے سدھ پڑے تھے نرس کو کہا کہ میری بیوی کو بلاؤ۔ بیوی کو بلایا تو اب کوئی غنودگی نہیں تھی، کوئی کچھ نہیں تھا۔ یادداشت موجود تھی، سب باتیں کر رہے تھے اور بہتری کی طرف مائل تھے اور اپنی wifeسے حال احوال پوچھا اور ساری باتیں ان سے کرتے رہے اور پھر اس کے بعد ان کو ہاسپٹل لے گئے۔ اگلے روز کنسلٹنٹ آیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے چیک کیا تو کہا کہ ہم نے چار دفعہ سی ٹی سکین کیا ہے، تمام سکین جو تھے ان میں مزید خون نہ پھیلنے کی رپورٹ آتی رہی اور یہ ان کے نزدیک ایک بہت اچھی بات تھی۔ اس وارڈ کا جو ہیڈ نرس تھا اس نے تو یہ کہا کہ When he came last night, he was nothing, but you will be surprised to ۔.see him now. تو کہتے ہیں کہ اس کی اس بات کو سننے کے بعد اس نے ہمیں اجازت دی کہ اب آپ وارڈ میں جا کے مل سکتے ہیں تو جب ہم وارڈ میں گئے تو وہ بستر سے ٹیک لگا کے بیٹھے ہوئے ناشتہ کر رہے تھے، ہاتھ میں سینڈوِچ پکڑا ہوا ہے کھا رہے ہیں۔
اب ڈاکٹروں کا یہ کہنا کہ چند لمحے ہیں، فیملی کو بلا لو، یہ کر لو وہ کر لو اور ادھر خلیفۃ المسیح کی دعا! خدا تعالیٰ کے فضل سے عرش کے پائے ہل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعاؤں کی قبولیت کا جو فیضان جاری ہوتا ہے اور وہ دعائیں احمدیوں کے لیے تسکین جان کا موجب بنتی ہیں۔
اور یہ سب واقعات میں جو میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں ان میں برملا ہر واقعہ اسی چیز کا اظہار کر رہا ہے۔ یہ معجزے محض حضور کی دعاؤں کی بدولت ہیں۔ ہم تو گناہگار اور کم مایہ خدام ہیں لیکن حضور ہمارے لیے مسیحا ہیں اور حضور کی دعاؤں کی قبولیت کے باعث ہی ہمارے شدید خوف اور کرب کی حالتیں امن میں بدلتی ہیں اور اللہ تعالیٰ تسکین کے سامان پیدا کرتا ہے اور اللہ کرے کہ ہمیشہ ہر احمدی گھرانہ اس سلسلہ سے فیض پاتا رہے۔
ایک واقعہ اور بتا دیتا ہوں۔ امریکہ سے ہی ایک دوست نے لکھا تھا کہ کچھ ہفتے پہلے یہاں کرپٹو کرنسی (Crypto Currency)کے حوالے سے تبشیر کے ذریعہ ارشاد ملا جو جنرل سیکرٹری کے آفس کے ذریعہ پھر احباب تک بھی پہنچایا گیا اور اس ارشاد مبارک کے بعد کئی مرتدین اور منافقین نے انٹرنیٹ پر اس کے متعلق حسبِ عادت منفی اور تنقیدی discussions شروع کر دیں۔ پھر کچھ اَور افرادِ جماعت کے بھی اس کے متعلق تحفظات آئے اور اس سلسلہ میں امیر صاحب کی راہنمائی سے ان لوگوں کو جواب بھی دیا گیا لیکن حضور نے جو بات کہی تھی خدا تعالیٰ نے اس کی لاج کس طرح رکھی کہ خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضور کے اس ارشاد کے بھجوائے جانے اور سرکلر کیے جانے کے کچھ ہی ہفتے بعد کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ گری اور اس کے بعد یہ خبر بھی آئی کہ ترکی کا، کرپٹو کرنسی کا ایک کرتا دھرتا جو آدمی تھا وہ انویسٹر دو ارب ڈالر کے فنڈز لے کر فرار ہو گیا اور اس طرح خود لوگوں کو احساس ہو گیا کہ یہ چیز غلط تھی اور بعض احمدی جو سمجھتے تھے کہ یہ چیز فائدہ مند ہے اور اس میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن حضور شروع سے ہی یہ فرما رہے ہیں کہ جؤا ہے اور ایک ایسی چیز جو unseenہے وہ تو جائز ہو ہی نہیں سکتی اس لیے جن احمدیوں نے اپنے آپ کو اس سے الگ کیا ان کی انویسٹمنٹ بچ گئی، جن لوگوں نے حضور کے ارشاد کی پروا نہیں کی انہوں نے پھر بھگتا اور ان کے نقصان ہوئے۔
اب بعض اسائلم کے کیسز آتے ہیں اور ان میں بھی بےشمار لوگ پریشان ہوتے ہیں اور بار بار خطوط آتے ہیں، حضور کی خدمت میں دعاؤں کی درخواستیں کی ہوتی ہیں۔ ایک دوست جرمنی سے لکھتے ہیں کہ میرا کیس تھا اللہ نے حضور کی دعا کی برکت سے چالیس دن میں ہی پاس کروا دیا اور کہتے ہیں میرا ایک ہی کام تھا کہ میں اس دوران حضور کی خدمت میں خط لکھتا رہا۔ دو دن مسلسل مجھے جب حضور کی طرف سے جواب آیا تو میرا دل تسلی پکڑ گیا۔ آخر تیسرے دن حکومت کی طر ف سے بھی خط آ گیا کہ آپ کا کیس پاس ہو گیا ہے۔ اس کے بعد سے میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ
جب بھی حضور کی طرف سے کوئی دعائیہ خط آتا ہےتو اس کے بعد اللہ کی طرف سے فضل ضرور ہی نازل ہوتا ہے۔
ریحان محمود صاحب جرمنی سے یہ کہتے ہیں کہ میں نے اسائلم کیا ہوا تھا حضور کی خدمت میں دعا کے لیے خط لکھا تو حضور کا جواب یہ ملا۔ آپ پریشان نہ ہوں کیس پاس ہو جائے گا۔ تو کہتے ہیں اس کے چند دنوں کے بعد ہی اللہ کے فضل سے میرا کیس پاس ہو گیا۔
ایک اور خادم نے جرمنی سے لکھا کہ مَیں 2016ء میں ہجرت کر کے جرمنی آیا۔ پاکستان میں دو بیٹیاں، بیوی چھوڑ آیا تھا۔ بہت پریشان تھا اور حضور کی خدمت میں ہر ہفتہ کم از کم دو خط دعا کے لیے لکھتا تھا۔ حضور کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ نے یہ سامان پیدا کیا اور انہی دنوں کیمپ میں اسائلم کیسز کے انٹرویو شروع ہو گئے جبکہ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیمپ میں آ کے اسائلم کیس کے انٹرویوکریں۔ توحضور کی دعا کی برکت سے پہلا ٹرن (turn)یہ ہوا۔ پھر کہتے ہیں کہ اپریل 2017ء میں حضور تشریف لائے تو حضور سے ملاقات کا شرف ملا اور حضور کو میں نے کچھ نذرانہ پیش کرنا چاہا تو حضور نے فرمایا اس کو اپنی جیب میں رکھیں اور
جائیں اور جا کر اپنا کیس پاس کروائیں۔
کہتے ہیں ملاقات کے ٹھیک چار دن بعد عدالت میں فیصلہ کرنے کے لیے جج صاحبان کا بنچ بیٹھا اور انہوں نے فیصلہ کر کے خط بھیجا کہ ہم آپ کو یہاں مہاجر کی حیثیت دینا چاہتے ہیں اگر آپ کو یہاں رہنا قبول ہے تو عدالت کو بتائیں۔ کہتے ہیں یہ وہ دن تھا کہ جب خاکسار شدید پریشان تھا اور حضور کو خط لکھ کر ڈاک میں ڈالنے کے لیے گھر سے نکل چکا تھا کہ راستہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے خوشخبری بھجوا دی جبکہ دعائیہ خط ابھی میرے ہاتھ میں ہی تھا۔ خدا تعالیٰ کے پیارے خلیفہ کی زبان مبارک سے جیسے الفاظ نکلے۔ اللہ تعالیٰ نے ویسے انہیں پورا کیا۔ عدالت کا مجھ سے پوچھنا ایسا ہی ہے جیسے میں نے خود کیس پاس کروایا ہو۔ حضور نے فرمایا تھا جائیں جاکے کیس پاس کروائیں۔ الحمد للہ جرمنی آنے کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصہ میں میرا کیس پاس ہو گیا۔
تو بات یہ ہے کہ
ہماری جاں خلافت پر فدا ہے
یہ روحانی مریضوں کی دوا ہے
اندھیرا دل کا اس سے مٹ گیا ہے
یہی ظلمات میں شمعِ ھُدیٰ ہے
حصارِ امن و ایمان و یقیں ہے
کنارِ عافیت حبلُ المتیں ہے
جوارِ رحمت و خُلدِ بریں ہے
خدا نے ہم پہ یہ احساں کیا ہے
خلافت سے ہے ہر اِک کامیابی
خدا کا قرب اس کی ہمکلامی
رہی جس کے لیے صدیاں ترستی
یہ وہ آئینۂ خالق نما ہے
واٰخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
٭…٭…٭