مسلمان عورت کی غیر مسلم مرد سے شادی کے متعلق اسلامی تعلیم
سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں الازہر یونیورسٹی کی ایک عہدیدار خاتون کا فتویٰ کہ’’قرآن کریم میں کوئی ایسی نص نہیں جو مسلمان لڑکی کو غیر مسلم کے ساتھ شادی سے منع کرتی ہو‘‘کے بارے میں راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 21؍دسمبر 2020ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرآن کریم کے علاوہ بانی اسلام حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی سنت اور قرآن و سنت سے موافقت رکھنے والی احادیث نبویہﷺ پر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کریم میں بیان احکامات کی پیروی کا مسلمانوں کو حکم دیا وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ وَیَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ وَاللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔ قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (آل عمران: 32تا33) یعنی(اے محمدﷺ ) تو کہہ کہ (اے لوگو) اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو (اس صورت میں ) وہ (بھی) تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔ تو کہہ (کہ) تم اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرو (اس پر) اگر وہ منہ پھیر لیں تو (یاد رکھو کہ) اللہ کافروں سے ہر گز محبت نہیں کرتا۔
اسی طرح فرمایاوَمَاۤ اٰتٰٮکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَمَا نَہٰٮکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ۔ (الحشر: 8)کہ یہ رسول جو کچھ تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اللہ کا عذاب یقیناً بہت سخت ہوتا ہے۔
ان بنیادی اصولوں کو جاننے کے بعدجب ہم مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم مرد سے شادی کے معاملہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک مسلمان عورت کی ہر مشرک، ہر کافر اور ہر اہل کتاب مرد سے شادی کی ممانعت کا واضح حکم قرآن کریم میں ملتا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ آیت 222میں حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں اپنی عورتیں نہ بیاہو۔ اور سورۃ المائدۃ کی آیت 6میں جہاں مسلمانوں کےلیے اہل کتاب کا اور اہل کتاب کےلیے مسلمانوں کا کھانا جائز قرار دیا وہاں مسلمان مردوں کو اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی تو اجازت دی لیکن مسلمان عورتوں کے اہل کتاب مردوں سے نکاح کا ذکر نہ فرما کر اس امر کی ممانعت کو قائم فرمایا۔ اور سورۃ الممتحنۃکی آیت 11 میں ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کو کفار کی طرف نہ لوٹانے اور ان عورتوں کو کفار کےلیے اور کفار کو ان مسلمان عورتوں کےلیے جائز نہ ہونے کی ہدایت فرما کر کفار سے بھی مسلمان عورتوں کو بیاہنے کی ممانعت فرما دی۔
ان قرآنی احکامات کے علاوہ آنحضورﷺ کی سنت اور آپ کے ارشادات سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضورﷺ نے اپنی کسی عزیزہ کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو۔ یا ان قرآنی احکامات کے نزول کے بعد صحابہ رسولﷺ نے خود یا حضورﷺ کے ارشاد پر اپنی کسی بچی کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس حضورﷺ نے صحابہ کو عام نصیحت فرمائی کہ جب تمہارے زیر کفالت کسی مسلمان خاتون کا رشتہ کوئی ایسا شخص طلب کرے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس خاتون کو اس سے بیاہ دو، خواہ اس شخص میں کوئی نقص ہو۔ حضورﷺ نے (دین اور اخلاق والے) اس فقرہ کو تین دفعہ دہرایا۔ (سنن ترمذی کتاب النکاح)
اس زمانے کے حکم و عدل اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے آقا و مطاع کی پیروی میں اسی اسلامی تعلیم کے عین مطابق اپنے متبعین کو نصیحت فرمائی کہ ’’غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی تونکاح جائز ہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اورانسان ہدایت پاتا ہے۔ اپنی لڑکی کسی غیر احمد ی کو نہ دینی چاہیئے۔ اگر ملے تولے بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں اوردینے میں گناہ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ525، مطبوعہ 2003ء)
حضور علیہ السلام نے سورۃ المائدۃ میں بیان نص قرآنی کے تحت ہی غیر احمدی مرد کو اپنی لڑکی دینا گناہ قرار دیا ہے کیونکہ اس آیت میں مسلمان مردوں کےلیے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کے جواز کا تو ذکر کیا گیا ہے لیکن مسلمان عورتوں کو اہل کتاب مردوں سے بیاہنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔