مقامِ مسیح موعود علیہ السلام احادیث مبارکہ اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں (قسط دوم)
’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کو ئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہو ں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ ‘‘
حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ نبوت
حضرت مسیح موعوؑد تحریر فرماتے ہیں: ’’میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہو ں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکا را ہے اور اس نے میری تصدیق کے لیے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں‘‘۔(تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ 503)
حضرت مسیح موعودؑ ایک دوسرے مقام پرتحریر فرماتے ہیں کہ’’مجھے خدا تعا لیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکا را ہے۔ اور ان دو نو ں ناموں کے سننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہو تی ہے۔ اور میں شکر کرتاہوں کہ اس مرکب نام سے مجھے عزت دی گئی ہے۔‘‘( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ 355)
غلبہ اسلام مسیح موعودؑ اور امام مہدی کے ساتھ وابستہ ہے
قرآن کریم میں اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ۔ (التوبہ: 33)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے سب دینو ں پر غالب کر دے خواہ مشرک کیسا ہی نا پسند کریں۔
اسی طرح کی آیت دو اَور مقامات پر بھی آتی ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا۔ (الفتح: 29)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے سب دینو ں پر غالب کر دے اور گواہ کے طور پر اللہ بہت کا فی ہے۔
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَدِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَلَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ۔ (الصف: 10)وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے سب دینو ں پر غالب کر دے خواہ مشرک کیسا ہی نا پسند کریں۔
ان آیات میں دو آیات کے کلمات تو ایک ہی ہیں لیکن سورۃ الفتح میں آخری کلمات میں فرق ہے۔ سورت فتح کے آخری کلمات ’’ اور گواہ کے طور پر اللہ بہت کا فی ہے ‘‘ میں اللہ تعا لیٰ نے اپنے آپ کو گواہ قرار دیا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ یہی اس کی تقدیر ہے کہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کیا جائے۔ بالفاظ دیگر ان آیات میں رسو ل اللہﷺ کی بعثت کے مقصد عظیم کو بیان فرمایا گیا ہے یعنی آپؐ کے ذریعہ دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنا۔ اس غلبہ کے حسب ذیل تین مطالب بیان کیے جا تے ہیں:
اول: دلائل کے لحاظ سے غلبہ۔ یہ غلبہ اسلام کو قیامت تک حاصل رہے گا کیو نکہ دلائل کے اعتبار سے کسی مذہب میں یہ طاقت نہیں کہ اسلام کے دلائل کا مقابلہ کر سکے۔
دوم: شان و شوکت کے لحاظ سے غلبہ۔ یہ غلبہ اسلام کو رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کے زمانے میں حاصل ہو چکا۔
سوم: ان معنوں میں غلبہ کہ پورے عالم سے کفر کا خاتمہ ہو۔ یہ غلبہ قیامت کے قریب مسیح موعودؑ اور امام مہدیؑ کے زمانے میں ہو گا۔
صحا بی رسولﷺ حضرت مقدادؓ کی بیان کردہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لَا یَبْقَی عَلٰی ظَہْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدرٍ وَلَا وَبَرٍ اِلَّا اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃِ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَ ذِلِّ ذَلِیْلٍ۔ (مشکوٰۃ المصا بیح کتا ب الایمان حدیث 37، مسند احمد)یعنی زمین کی پشت پر کو ئی کچا پکا گھر ایسا نہ رہے گا جہا ں اللہ دین اسلام کو داخل نہ کر دے۔ خواہ رغبت سے ہو یا لو گ مجبو را ً اسلام قبول کریں۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے تیسرے معنی غلبہ کے یہ ہیں کہ پورے عالم سے کفر کا خاتمہ ہو۔ یہ کب ہو گا؟ اور کیسے ہو گا اس کے بارے میں مفسرین اور علمائے اسلام وائمہ حدیث نے حسب ذیل دو آرا کا ذکر فرمایا ہے۔
پہلی رائے: یہ غلبہ قیامت سے پہلے مسیح موعودؑ کے وقت میں ہو گا۔
تفسیر رو ح المعانی میں اس آیت کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ ’’وَ ذَالِکَ عِنْدَ نُزُوْلِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلام‘‘ کہ یہ وعدہ مسیح موعودؑ کے وقت میں ہو گا۔
امام فخر الدین رازیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’رُوِیَ عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃ اَنَّہٗ قَالَ ھٰذَا وَعَدٌ مِّنَ اللّٰہِ بِاَنَّہٗ تَعَالیٰ یَجْعَلُ الْاِسْلَامَ عَالِیًا عَلیٰ جَمِیْعِ الْاَدْیَانِ وَ تَمَامُ ھٰذَا اِنّمَا یُحْصَلُ عِنْدَ خُرُوجِ عِیْسٰی وَ قَالَ السُّدَیُّ ذَالِکَ عِنْدَ خُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ۔‘‘(تفسیر کبیراز امام رازیؒ زیر آیت سورت توبہ: 33)یعنی حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ اس آیت میں وعدہ ہے کہ اللہ تعا لیٰ تمام دینوں پر اسلام کو غالب کرے گا اور اس وعدہ کی تکمیل مسیح موعودؑ کے وقت میں ہو گی اور سدیؒ کہتے ہیں کہ یہ وعدہ مہدی کے وقت میں پو را ہو گا۔
تفسیر قرطبی میں لکھا ہے کہ ’’ قَالَ اَبُوْ ہُرَیْرَۃَ وَالضَّحَّاکُ ھٰذَا عِنْدَ نُزُوْلِ عِیْسٰی وَ قَالَ السُّدَیُّ ذَالِکَ عِنْدَ خُرُوْجِ الْمَہْدِیِّ‘‘(الجامع لاحکام القرآن، المعروف تفسیر قرطبی، از امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابو بکر القرطبیؒ، زیر آیت سورہ توبہ 33)یعنی حضرت ابو ہریرہؓ اور ضحاکؒ نے بیان کیا ہے کہ یہ غلبہ نزول عیسٰیؑ کے وقت پورا ہو گا۔ جبکہ سدیؒ کہتے ہیں کہ ظہور مہدیؑ پر یہ وعدہ پورا ہو گا۔
امام محمود بن عمر الزمخشریؒ (وفات825 ہجری) اپنی تفسیر’’الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل‘‘ میں زیر تبصرہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ تمام دینو ں پر اسلام کا غلبہ مسیح موعودؑ کے زمانہ میں ہو گا اور یہ غلبہ دلائل و براہین اور آیات ربانیہ کے ذریعہ سے ہو گا۔‘‘(تفسیرالکشاف، جز ثالث، صفحہ 428 مطبوعہ مصر)
تفسیر روح البیان از علامہ محمد اسمٰعیل حقی البروسویؒ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ دین اسلام کا غلبہ تدریجاً ہو گا اور قیامت کے قریب عیسٰیؑ کے نزول کے وقت اس کی تکمیل ہو گی اور اسلام کا غلبہ ہو گا۔
تفسیرمظہری میں یہ ذکر ہے کہ ’’ بغویؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور ضحاکؒ نے فرمایا ہے کہ یہ بات حضرت عیسٰیؑ کے نزول کے وقت ہو جائے گی اور تمام مذاہب والے مسلمان ہو جا ئیں گے۔‘‘( تفسیرمظہری از قاضی ثناء اللہؒ مجددی پانی پتی زیر آیت سورہ توبہ 33)
ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے مسیح موعودؑ کے وقت میں غلبہ اسلام کی ان الفاظ میں بھی پیشگو ئی فرمائی تھی: یُہْلِکُ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا اِلَّا الْاِسْلَامَ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال)کہ اللہ تعا لیٰ مسیح موعودؑ کے وقت میں اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کو دلائل کے لحاظ سے مردہ ثابت فرمائے گا۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی اپنی امت میں آمد کے بارے میں خبر دیتے ہوئے یہ فرمایاکہ وَ یُعْطِلُ الْمِلَلَ حَتّٰی یُہْلِکَ اللّٰہُ فِیْ زَمَانِہِ الْمِلَلَ کُلَّہَا غَیْرَ الْاِسْلَامِ۔ (مسند احمد بن حنبلؒ بحوالہ حدیقۃ الصالحین مرتبہ ملک سیف الرحمٰن، حدیث 945صفحہ895تا897، شائع کردہ نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان، جنوری 2015ء)یعنی اس کے زمانے میں اسلام کے سوا اللہ تعا لیٰ باقی ادیان کو روحانی لحاظ سے بھی اور شوکت کے لحاظ سے بھی مٹادے گا۔
اس حدیث سے بھی یہی مراد تھی کہ مسیح موعودؑ کے دَور میں اسلام کو تمام مذاہب پر علمی و روحانی غلبہ عطا کیا جائے گا۔
دوسری رائے: یہ غلبہ امام مہدیؑ کے وقت میں ہوگا۔
جیسا کہ گذشتہ سطور میں یہ ذکر ہو چکا ہے کہ امام رازیؒ، سدیؒ اور امام قرطبیؒ کے نزدیک یہ غلبۂ اسلام امام مہدیؑ کے دَور میں ہو گا۔ اس کے علاوہ اس زیر تبصرہ آیت کے متعلق تفسیر ابن جریر میں لکھا ہے کہ ’’ ھٰذَا عِنْدَ خُرُوْ جِ الْمَہْدِیِّ‘‘کہ اسلام کا یہ غلبہ تمام ادیان پر امام مہدیؑ کے زمانہ میں ہو گا۔
شیعوں کی حدیث کی کتاب ’’بحار الانوار‘‘ میں لکھا ہے کہ’’ نَزَلَتْ فِی الْقَائِمِ مِنْ آلِ مُحَمَّدٍؐ ‘‘(بحار الانوار جلد12صفحہ 12)کہ یہ آیت آل محمدؐ کے القائم یعنی امام مہدی کے بارے میں نازل ہو ئی ہے۔
اہل تشیع کی فارسی زبان میں ایک معتبر کتاب ’’غایۃ المقصود‘‘ میں لکھا ہے کہ’’مراد از رسول دریں جا امام مہدیؑ موعوداست ‘‘کہ اس آیت میں جو رسول موعود ہے اس سے مراد امام مہدی ہیں۔ ( غایۃ المقصود، جلد2 صفحہ 123)
اسی طرح اہل تشیع کی ایک اَور مستند و معروف تصنیف ’’اکمال الدین‘‘میں یہ لکھا ہے کہ ’’امام مہدی یہ قرآنی آیت اپنے اوپر چسپاں کریں گے فَوَھَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ (الشعراء: 22)تب میرے رب نے مجھے حکمت عطا کی اور مجھے پیغمبرو ں میں سے بنا دیا۔ گو یا امام مہدی مرسلین میں سے ہو ں گے۔‘‘( اکمال الدین صفحہ189)
شیعہ کتب کے ان تینوں حوالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ علماء اور بزرگ امام مہدی کو نبی و رسول مانتے ہیں۔ یعنی امام مہدیؑ رسول اللہﷺ سے الگ ہو کر رسول نہ ہو گا بلکہ آپؐ کے دامن فیوض سے وابستہ ہو کر امتی نبی اور رسول ہو گا۔
شہید بالا کوٹ حضرت مولوی محمد اسمٰعیلؒ اس آیت کے معنی بیان کرتے ہو ئے تحریر فرماتے ہیں: ’’و ظا ہر است کہ ابتدائے ظہوردین در زمان پیغمبرﷺ بوقوع آمدہ و اتمام آں از دستِ حضرتِ مہدی واقع خواہد گردید۔‘‘(منصب امامت از حضرت مولوی محمد اسمٰعیلؒ، صفحہ 70)
یعنی ا س آیت سے ظاہر ہے کہ دین کی ابتدا حضرت رسول مقبولﷺ سے ہو ئی لیکن اس کی تکمیل امام مہدی کے ہاتھ پر ہو گی۔ اور سورۃ الاعراف کی آیت159(قُلْ یٰٓا اَیُّہَا النَّاسُ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا)کے تحت بھی انہی معنی کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ’’ و ظاہر است کہ تبلیغ رسالت بہ نسبت جمیع ناس از آنجناب متحقق نگشتہ بلکہ امر دعوت از شروع گردیدہ یوما فیوما بواسطہ خلفاء راشدین و ائمہ مہدیین روبہ تزاید کشید تا اینکہ بواسطہ امام مہدی با تمام خواہد رسید۔‘‘(منصب امامت از حضرت مولوی محمد اسمٰعیلؒ، صفحہ 71)یعنی تمام لو گو ں تک آنحضرتﷺ کی رسالت کی تبلیغ آپؐ کے زمانہ میں نہیں ہوئی۔ بلکہ آہستہ آہستہ خلفائے راشدین اور دیگر ائمہ مہدیین کے ذریعہ بڑھتی رہی ہے۔ اور اس کی تکمیل امام مہدی کے ذریعہ ہو گی۔
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ سورت توبہ کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ’’یہ آیات قرآنی الہا می پیرا یہ میں اس عاجز کے حق میں ہیں اور رسول سے مراد مامور اور فرستادہ ہے۔ جو دین اسلام کی تا ئید کے لئے ظاہر ہوا۔ اس پیشگو ئی کاماحصل یہ ہے کہ خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ تا اس کے ہا تھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے۔ اور ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو لیکن آخر میں فتح ہو گی اور یہ دین اس ما مور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آجائے گا۔ اور دوسری تمام ملتیں بیّنہکے ساتھ ہلاک ہو جا ئیں گی۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد2 صفحہ624 بحوالہ سراج منیر، صفحہ36تا37)
حضورؑ مزید فرماتے ہیں کہ’’روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حجج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو۔‘‘(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد4صفحہ351بحوالہ براہین احمدیہ، صفحہ 499 حاشیہ درحاشیہ 3)
اس تعلق میں سیدنا حضرت مسیح موعودؑ نے ایک اہم نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’ یاد رکھنا چا ہیئے کہ آنحضرتﷺ پر جو اتمام نعمت اور اکمال الدین ہوا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اول،تکمیل ہدایت۔ دوسری تکمیل اشاعت ہدایت۔ تکمیل ہدایت من کل الوجوہ آپؐ کی آمد اوّل سے ہو ئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپؐ کی آمد ثانی سے ہو ئی کیونکہ سورہ جمعہ میں جوآخَرِیْنَ مِنْہُمْ والی آیت آپؐ کے فیض اور تعلیم سے ایک اَور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کی ایک بعثت اَور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے جو اس وقت ہو رہی ہے۔ پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد4صفحہ 10 ایڈیشن 1984ء)
(نوٹ: نیز ملاحظہ ہوتفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد4صفحہ351تا 364)
رسول اللہﷺ کے کامل ظل اور بروز
اس تعلق میں ایک اور پہلو کو سمجھنا بھی ضروری ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کے مقام سے تعلق رکھتا ہے۔ علمائے امت اور اہل اللہ نے یہ بات لکھی ہے کہ مسیح موعودؑ اور امام مہدیؑ میں رسول اللہﷺ کے روحانی انوار منعکس ہو ں گے اور وہ آپﷺ کی صفات کے مظہر اور کامل ظل اور بروز ہوں گے۔
بروز اور ظل کے معنی
ظل اور بروز یہ صوفیاء کی اصطلاحات ہیں۔ بروز سے مراد یہ ہے کہ ایک روح کسی دوسری کامل رو ح سے فیض حاصل کرتی ہے یعنی روحانی مشابہت اور مماثلت کو ظل اور بروز کہا جاتا ہے۔ اس کی تعریف میں یہ لکھا ہے کہ ’’اللہ کے نزدیک ایک اصل ہے جسے اعیان ثابتہ یا اعیان حقیقہ کہتے ہیں۔ اور ان اعیان حقیقہ کو وجود خارجی عطا کرنا ظل کہلا تا ہے یعنی وجود ظلی اپنے اصل کا پرتو( عکس) ہو تا ہے۔‘‘( تفسیرمظہری از قاضی ثناء اللہ مجددی پانی پتیؒ زیر آیت سورۃ الحجر 22 جلد 6صفحہ223)
شیخ محمد اکرم صابری بروز کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ’’روحانیت کمل گاہے بر ارباب ریاضت چناں تصرف میفرماید کہ فاعل افعال شاں مے گردد۔ وایں مرتبہ را صوفیاء بروز مے گو ئند ‘‘کہ کامل لو گو ں کی رو حانیت ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ روحانیت ان کے افعال کی فاعل ہو جاتی ہے۔ اس مرتبہ کو صوفیاء بروز کہتے ہیں۔ (اقتباس الانوار، صفحہ 52)
ہندوستان سے تعلق رکھنے والے بارہویں صدی کے مجددحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بروز کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وَتَارَۃً اُخْرٰی بِاَنْ تَشْتَبِکَ بِحَقِیْقَۃِ رَجُلٍ مِنْ آلِہٖ اَوِ الْمُتَوَسِّلِیْنَ اِلَیْہِ کَمَا وَقَعَ لِنَبِیِّنَا بِالنِّسْبَۃِ اِلیٰ ظُہُوْ رِا لْمَہْدِیِّ‘‘(تفہیمات الٰہیہ جزثانی تفہیم 228صفحہ 198مطبوعہ مدینہ برقی پریس، بجنور، 1936ء )یعنی کبھی ایسا ہو تا ہے کہ ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین دا خل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبیﷺ کی مہدی سے نسبت کی بنا پر بروزی حقیقت ظاہر ہو گی۔ یعنی مہدی نبی کریمﷺ کا حقیقی بروز ہو گا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ مزید لکھتے ہیں: ’’َاَعْظَمَ الْاَنْبِیَآءِ شَاْ نًا مَنْ لَہٗ نَوْعٌ آخرٌ مِّنَ الْبَعْثِ اَیْضًا وَ ذَالِکَ اَنْ یَکُوْ نُ مُرَادُ اللّٰہِ تَعَالیٰ فِیْہِ اَنْ یَکُوْ نَ سَبَبًا لِخُرُوْجِ النَّاسِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّوْرِ وَ اَنْ یَکُوْ نَ قَوْمُہٗ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ فَیَکُوْنُ بَعْثَہٗ یَتَنَاوَلُ بَعْثًا آخَرَ۔ ( حجۃ اللہ البالغہ، جلد اول باب حقیقۃ النبوۃ و خواصہا، صفحہ 83مطبوعہ مصر 1284ہجری)یعنی شان میں سب سے بڑا نبی وہ ہے جس کی ایک دوسری قسم کی بعثت بھی ہو۔ اور اس دوسری بعثت سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ تا وہ تمام لو گو ں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانے کا سبب ہو اور اس کی قوم خیر امت ہو جو تمام لو گوں کے لیے نکا لی گئی ہو۔ لہٰذا اس نبی کی پہلی بعثت دوسری بعثت کو بھی لیے ہو ئے ہو گی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رسول اللہﷺ کی امت میں ظاہر ہو نے والے مسیح موعودؑ کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’ الخیر الکثیر‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حَقٌّ لَہٗ اَنْ یَّنْعَکِسَ فِیْہِ اَنَوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَﷺ وَ یَزْعَمُ الْعَامَۃُ اَنَّہٗ اِذَا نَزَلَ اِلیَ الْاَرْضِ کَانَ وَاحِدًا مِّنَ الْاُ مَّۃِ، کَلَّا بَلْ ہُوَ شَرْحٌ لِّلْاِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِیِّ وَ نُسْخَۃٌ مُّنْتَسِخَۃٌ مِّنْہُ۔ فَشَتَّانٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنَ الْاُمَّۃِ‘‘(الخیر الکثیر از حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، صفحہ 72 مطبوعہ بجنور )یعنی امت محمدیہ میں آنے والے مسیح کا حق یہ ہے کہ اس میں سیدالمرسلینﷺ کے انوار کا انعکاس ہو۔ عوام کا خیال ہے کہ مسیحؑ جب زمین کی طرف نازل ہو گا تو وہ صرف ایک امتی ہو گا۔ ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پو ری تشریح ہو گا اور اس کا دوسرا نسخہ( True Image) ہو گا۔ پس اس میں اور ایک عام امتی کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
اسی طرح شرح فصوص الحکم میں حضرت امام عبد الرزاق قاشانیؒ نے حضرت سید عبد القادر جیلانیؒ کا یہ قول لکھا ہے کہ اَلْمَہْدِیُّ الَّذِیْ یَجِیُْٔ فِیْ آخِرِ الزَّمَانِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْاَحْکَامِ الشَّرْعِیَّۃِ تَابِعًا لِّمُحَمَّدٍﷺ وَ فِی الْمَعَارِفِ وَ الْعُلُوْمِ وَ الْحَقِیْقَۃِ تَکُوْنُ جَمِیْعُ الْاَنْبِیَاءِِ وَالْاَوْلِیَاءِِ تَابِعِیْنَ لَہٗ کُلُّہُمْ لِاَنَّہٗ بَاطِنَہٗ بَاطِنُ مُحَمَّدٍﷺ۔ (شرح فصوص الحکم، ازحضرت امام عبد الرزاق قاشانی، صفحہ52، مطبوعہ مصر)یعنی آخری زمانہ میں آنے والے مہدی احکام شرعیہ میں تو محمد رسول اللہﷺ کے تابع ہو ں گے لیکن علوم و معارف اور حقائق میں تمام انبیاء اور اولیاء مہدی کے تابع ہو ں گے۔ کیونکہ مہدی کا با طن محمد رسول اللہﷺ کا باطن ہو گا۔
اس حوالے میں بھی امام مہدیؑ کے باطن کو رسول اللہﷺ کا باطن قرار د ے کر انہیں رسول اللہﷺ کا ظل اور عکس قرارد یا گیا ہے۔
شیخ محمد اکرم صابری اپنی فارسی تصنیف میں لکھتے ہیں کہ ’’محمد بود کہ بصورت آدم در مبداء ظہو ر نمود یعنی بطور بروز در ابتدا ء آدم، رو حانیت محمد مصطفیٰﷺ در آدم متجلی شد۔ و ہم او باشد کہ در آخر بصورت ِخاتم ظاہر گردد یعنی در خاتم الولایت کہ مہدی است نیز روحانیت محمد مصطفیٰﷺ بروز و ظہور خواہد کرد و تصرفہا خواہد نمود۔‘‘(اقتباس الانوار صفحہ 52مؤلفہ شیخ محمد اکرم صابری )یعنی وہ محمدﷺ ہی تھے جنہو ں نے آدم کی صورت میں دنیا کی ابتدا میں ظہو ر فرمایا یعنی ابتدائے عالم میں محمد مصطفیٰﷺ کی رو حانیت برو ز کے طور پر حضرت آدمؑ میں ظاہر ہو ئی اور محمد مصطفیٰﷺ ہی ہو ں گے جو آخری زمانے میں خاتم الولایت امام مہدی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ یعنی رسول اللہﷺ کی رو حانیت مہدی میں بروز اور ظہور کرے گی۔
حضرت ملّا جامیؒ نے بھی حضرت امام مہدی کو رسول اللہﷺ کی صفات کا مظہر اور بروز قرار دیا ہے۔ حضرت ملّا جامیؒ خاتم الولایت امام مہدی کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ فَمِشْکٰوۃُ خَاتَمِ الْاَنْبِیَآءِِ ہِیَ الْوِلَا یَۃَالْخَاصَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ وَ ہِیَ بِعَیْنِہَا مِشْکٰوۃُ خَاتَمِ الْاَوْلِیَاءِِ لِاَنَّہٗ قَائِمٌ بِمَظْہَرِیَّتِہَا‘‘( شرح فصوص الحکم ہندی صفحہ 69)یعنی خاتم الانبیاءﷺ کا مشکوٰۃ ہی محمدی ولایتِ خاصہ ہے اور وہی بجنسہٖ خاتم الاولیاء حضرت امام مہدی کا مشکوٰۃ باطن ہے کیونکہ امام مہدی دراصل آپﷺ ہی کے کامل مظہر ہیں۔
مولانا محمدقاسم نانوتوی تحریر فرماتے ہیں کہ’’انبیاءؑ میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس ِمحمدی ہے کوئی ذاتی کمال نہیں۔‘‘ (تحذیر الناس، صفحہ 29)
حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ ظلّی نبوت
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس تعلق میں فرماتے ہیں کہ ’’سو اس وقت خدا نے جیسا کہ حقوق عباد کے تلف کے لحاظ سے میرا نام مسیح رکھا اور مجھے خو اور بو اور رنگ اور روپ کے لحاظ سے حضرت عیسٰی مسیح کا اوتار کر کے بھیجا۔ ایسا ہی اس نے حقوق خالق کے تلف کے لحاظ سے میرا نام محمد اور احمد رکھا۔ اور مجھے تو حید پھیلانے کے لیے تمام خو اور بو اور رنگ اور روپ اور جامہ محمدی پہنا کر حضرت محمدﷺ کا اوتار بنا دیا۔ سو میں ان معنو ں کر کے عیسٰی مسیح بھی ہو ں اور محمد مہدی بھی۔ مسیح ایک لقب ہے جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کو دیا گیا تھا جس کے معنے ہیں خدا کو چھونے والا اور خدا ئی انعام میں سے کچھ لینے والا۔اور اس کا خلیفہ اور صدق اور راستبازی کو اختیار کرنے والا۔ اور مہدی ایک لقب ہے جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو دیا گیا تھاجس کے معنے ہیں کہ فطرتاً ہدا یت یافتہ اور تمام ہدا یتو ں کا وارث اور اسم ہادی کے پو رے عکس کامحل۔سوخدا تعا لیٰ کے فضل اور رحمت نے اس زمانہ میں ان دونوں لقبو ں کا مجھے وارث بنا دیا۔ اور یہ دو نو ں لقب میرے وجود میں اکٹھے کر دیئے۔ سو میں ان معنو ں کے رو سے عیسٰی مسیح بھی ہو ں اور محمد مہدی بھی۔ اور یہ وہ طریق ظہو ر ہے جس کو اسلامی اصطلاح میں بروز کہتے ہیں۔ سو مجھے دو بروز عطا ہو ئے ہیں بروز عیسٰی اور بروز محمدﷺ۔‘‘(گورنمنٹ انگریزی اور جہاد، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 28)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں شریعت والا نبی کو ئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہو ں اور نبی بھی۔ اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ وہی نبوت محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہو ئی ہے‘‘۔( تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20صفحہ 412)
’’اسی طرح خدا تعا لیٰ کی طرف سے دو نام میں نے پائے۔ ایک میرا نام امتی رکھا گیا جیسا کہ میرے نام غلام احمد سے ظاہر ہے۔ دوسرے میرا نام ظلّی طور پر نبی رکھا گیا۔ جیسا کہ خدا تعا لیٰ نے حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میرا نام احمد رکھا۔ اور اسی نام سے بار بار مجھ کو پکا را اور یہ اسی بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں ظلّی طور پر نبی ہوں۔ پس میں امتی بھی ہوں اور ظلّی طور پر نبی بھی ہوں۔ …پس اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا۔اور پورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا۔ پس اس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہو ئے۔‘‘( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، رو حانی خزائن جلد 21صفحہ360)
(جاری ہے)