متفرق مضامین

رمضان المبارک اور اس کے تقاضے

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

رمضان المبارک کے دن بھی بابرکت ہیں، اور اس کی راتیں بھی پُرنور ہیں، اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس مہینے میں داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے

الحمدللہ ہم رمضان کے بابرکت اور مقدس مہینہ میں سے ایک دفعہ پھر گزر رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ رمضان کا مہینہ آتے ہی نیکیوں کی کھیتیاں لہلہا اُٹھتی ہیں اور برائیوں کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں۔ گویا عبادتوں کا موسم بہار آجاتا ہے اور مسلم معاشرے میں ایک نئی زندگی دوڑ جاتی ہے، جو رحمتوں اور برکتوں سے لبریز ہوتی ہے اس لیے ہم سب اس ماہ مبارک کا نہایت شرح صدر کے ساتھ خیر مقدم کرتےاور خوش آمدید کہتے ہیں اس لیے کہ یہی مہینہ ہے جو ایمان و عمل میں جلا بخشتا ہے۔ اخلاق الٰہیہ کا خوگر بناتا ہے، صبرو اخلاق اور روحانی طاقتوں میں اضافہ کرتا ہے اور مظلوم انسانیت کے لیے ہر سال پوری دُنیا پر یہ سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس لیے ہر سال پوری دُنیا کے مسلمان اس مبارک مہینہ کا استقبال کرتے ہیں کیونکہ یہ عبادتوں کا عالمی اور اعمال صالحہ کا جشن عام کا وقت ہوتا ہے اس میں امیرو غریب ایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے ہیں۔

موجودہ حالات کے تناظر میں تو یہ مضمون مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے جب کورونا کی عالمی وبا کے نتیجے میں قریباً گذشتہ دو سال سے دنیا ایک آفت سماوی میں مبتلا ہےاور دوسری طرف دنیا کے فکرانگیز حالات اور ایٹمی جنگ کے خدشہ کے پیش نظر خداخوفی رکھنےوالا ایک طبقہ اپنے خالق و مالک کی طرف رجوع بھی کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں سچے مومن کے لیے یہ رمضان پہلے سے کہیں بڑھ کر حصول مغفرت و رحمت اورروحانی انوار و برکات کا ذریعہ ہوناچاہیے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرۃ: 184)اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔

حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے آخری روز مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک عظیم اور بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوا چاہتا ہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنے فرض کیے ہیں۔ اور اس کی راتوں کو قیام کرنا نفل ٹھہرایا ہے…ھُوَ شَھْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَاٰخِرُہٗ عِتَّقٌ مِّنَ النَّارِ۔کہ وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اورآخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے…اور جس نے اس میں کسی روزہ دار کو سیر کیا اُسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایسا مشروب پلائے گا کہ اُسے جنت میں داخل ہونے سے پہلے کبھی پیاس نہ لگے گی۔ (صحیح ابن خزیمہ کتاب الصیام باب فضائل شھر رمضان)

اللہ تعالیٰ سورت النور آیت36میں فرماتا ہے کہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہےیعنی وہ تمام انوار اور رحمتوں کا سر چشمہ ہےاور رب العالمین کےنورکےفیض عام سےکوئی بھی خالی نہیں۔ مگر اس کے فیض خاص کی مثال کے لیے نورِ محمد مصطفیٰﷺ کو پیش کرتے ہوئےفرمایا: مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكٰوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍکہ جیسے ایک طاق میں چراغ اور چراغ شیشہ کی مصفٰی قندیل میں ہو۔

ہماری کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ تنویرقلب کے لیے ایساپاک اور برگزیدہ نورانی وجود ہمیں عطا ہوا، جس کی آمد کا بڑا مقصد ہی تاریک دلوں کو روشن کرنا اور صراط مستقیم پر گامزن کرنا تھا۔ اورپھر اسی مجمع الانوار برگزیدہ رسول خاتم الانبیاءﷺ نے پہلےتاریک جزیرہ عرب اورپھر ایک دنیا کو روحانی ضیاء بخشی۔ اللّٰھم صل علی محمد و آل محمدو بارک وسلم انک حمید مجید۔

رمضان المبارک کو ’’سَیِّدُ الشُّہُوْرِ‘‘ یعنی تمام مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔ یہ مہینہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے۔ چودہ سو برس سے لاکھوں کروڑوں صلحاء و ابرار ان برکات کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی ان برکات سے بہرہ اندوز ہونے والے بزرگ بکثرت موجود ہیں۔ ان ایام میں مخلص روزہ داروں کو خاص روحانی کیف سے نواز ا جاتا ہے، ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔ ان پر انوار کے دروازے کھلتے ہیں۔ انہیں معارف سے بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ وہ کشف، رؤیا اور الہام کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں خد ا کی لقا نصیب ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَالۡفُرۡقَانِ(البقرة: 186)کہ رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لیے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ یعنی یہ مہینہ لوگوں کے لیے ہدایت کا موجب ہے اور ہدایت کے حق و باطل میں فرق کرنے والے روشن نشانات رکھتا ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے اور تنویر قلب عطا کرتا ہے۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ ماہ رمضان کی عظمت و برکات بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ’’شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ سےماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیانے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے۔ اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلیٔ قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 256 ایڈیشن 1984ء)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رمضان میں آپؐ کمرہمت کس لیتے تھے اور پوری کوشش اور محنت فرماتے تھے۔

آنحضورؐ کی ا س عبادت کی کیفیت کا بھی ذکر ملتاہے کہ راتوں کو عبادت کرتے ہوئے آپؐ کا سینہ خدا کے حضور گریاںوبریاں ہوتا۔ دل ابل ابل جاتا اور سینہ میں یوں گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی جیسے ہنڈیا کے ابلنے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ (شمائل ترمذی)

حضرت عائشہؓ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آنحضورؐ رمضان المبارک میں رات کو کیسے عبادت فرماتے تھے؟ فرمایا: حضورؐ رمضان میں اور رمضان کے علاوہ ایام میں بھی گیارہ رکعتوں سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ آپؐ چار رکعات ادا فرماتے۔ ’’ وَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَ طُوْلِھِنَّ‘‘اور تم ان رکعتوں کے حسن اور لمبائی کے متعلق نہ پوچھو ( یعنی میرے پاس الفاظ نہیں کہ حضورؐ کی اس لمبی نماز کی خوبصورتی بیان کروں )۔ پھر اس کے بعد ایسی ہی لمبی اور خوبصورت چار رکعات اور ادا فرماتے اور پھر تین وتر آخر میں پڑھتے تھے۔ (یعنی کل گیارہ رکعات)(بخاری کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان)

ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ’’فرشتے روز ہ دار کے لیے دن رات استغفار کرتے ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد)

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے رمضان المبارک کو عبادت کے لحاظ سے تما م مہینوں سے افضل قرار دیا اور فرمایا: جو شخص رمضان کے مہینہ میں حالت ایمان میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رات کو اٹھ کر عبادت کرتا ہے وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جیسے اس روزتھا جب اس کی ماں نے اسے جنا۔ (سنن نسائی کتاب الصیام، باب ثواب من قام رمضان و صامہ ایمانا و احتساباً)

رمضان المبارک کے دن بھی بابرکت ہیں، اور اس کی راتیں بھی پُرنور ہیں، اور اس کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اس لیے اس مہینے میں داخل ہوتے ہی ایمان والوں پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ادب، عاجزی اور احتیاط کی کیفیت۔ ایسا نہیں ہوتا کہ روزہ افطار کرتے ہی نفس کا جن بوتل سے باہر آ جائے، اور گناہ کی زندگی شروع ہوجائے۔

انسان کا نفسِ امارہ اور شیطان اس کو الٹی راہ پر ڈالتے ہیں۔ رمضان المبارک کا اصل مقصد ہے قربانی، یعنی کم کھانا، کم پینا، کم سونا، زیادہ مال خرچ کرنا، اللہ کی راہ میں خوب جدوجہد کرنا۔ اب شیطان نے انسانوں کو سکھا دیا ہے کہ رمضان المبارک کا مطلب ہے: خوب کھانا کہ پیٹ پھول جائے، خوب پینا کہ پیٹ پھٹنے لگے، خوب سونا کہ بستر بھی تنگ آجائے۔

اس ماہ میں ہمیں کچھ کام بڑھا دینا چاہیے

رمضان المبارک میں عام دنوں سے زیادہ عبادات میں محنت کرنی چاہیے، اور محنت وہ ہوتی ہے جو انسان کو تھکاتی ہے۔ رمضان المبارک کے پہلے لمحے سے لے کر آخری دن سورج غروب ہونے تک، محنت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ چنانچہ فوراً یہ کام بڑھا دینا چاہیے

نماز: یعنی فرائض و واجبات کا خوب اہتمام کیا جائے۔ نوافل کثرت سے ادا کیے جائیں۔ رمضان المبارک میں تہجد کا بھرپور اہتمام کیا جائے اور جہاں ممکن ہو نماز تراویح ادا کی جائے۔

تلاوت: زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔ کم از کم روز کا ایک پارہ پڑھا جائے۔ نیز قرآن کا فہم اور اس سے ہدایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔

صدقات: اللہ کی راہ میں مال خرچ کیا جائے۔

ہم ماہ رمضان کا استقبال اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اس مہینے میں گم کردہ انسانیت کو ابدی زندگی کی سرخروی کے لیے قرآن مجید جیسا نسخہ کیمیا ملا۔ یہی قرآن و رمضان ہمیں اسلام کے زریں کارناموں کو یاد دلاتا ہے اور یہی خیر و شر میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ اس کا استقبال ہمیں اس لیے بھی کرنا ضروری ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور پڑوسیوں کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارگی پر اُبھارتا ہے۔ اس مہینے کی آمد کے ساتھ ہی جنت کے دروازے وا اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے فرزندان اسلام کے اندر ایک نئے جوش و ولولہ کا حسین منظر دیکھنے کو ملتا ہے اور رمضان شروع ہوتے ہی ایسی چہل پہل نظر آنے لگتی ہے جس کی دوست و دشمن سبھی یہ گواہی دینے لگتے ہیں کہ

ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں

گویا اس کے انوار وتجلیات کا ظہور عالمی طور پر ہر کاخ و کوخ، ہر شہر، دیہات اور ہر محفل و مجلس میں ہونے لگتا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے۔ دُعاؤں کا مہینہ ہے۔ …میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں، تب روزہ چھوڑتا ہوں۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘(ملفوظات جلداول صفحہ439-440، ایڈیشن1988ء)

’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالَم سے واقف نہیں اُس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتاہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کااثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کَشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جوصرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ102، ایڈیشن1988ء)

آپؑ فرماتے ہیں: ’’چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کرنہایت تضرع اور زاری و ابتہال کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہوجاوے اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد سوم صفحہ616، ایڈیشن1988ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں: ’’رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں …اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص احکام دئیے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خاص تاکید کی ہے…روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دُنیا کے کاموں میں سُکھ کرنے کی راہیں حاصل ہوتی ہیں۔ آرام تو یا مَرکر حاصل ہوتا ہے یا بدیوں سے بچ کر حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے روزے سے بھی سُکھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے انسان قُرب حاصل کر سکتا ہے اور متّقی بن سکتا ہے۔‘‘(حقائق الفرقان جلداول صفحہ306تا307)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کا نام یوسف رکھا ہے اور اس کے ایک جانشین کا بھی۔ اس میں یہ بھی حکمت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں بادشاہ نے خواب دیکھا تھا کہ دُبلی گائیں موٹی گائیوں کو کھا گئی ہیں۔ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ عبادات سے اپنے آپ کودُبلا کرنے والے مرغّن اور مقوّی اَغْذیہ کئی کئی وقت کھا کر موٹا ہونے والے دُشمن پر غالب آ جائیں گے اور مسیح کی دُبلی گائیں موٹی گائیوں کو کھا جائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام گئوپال بھی رکھا گیا ہے۔ اور آپ کی جماعت کے لوگوں کو گائے قرار دیا گیا ہے۔ اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بتایا ہے کہ دُبلی گائیں پلی ہوئی گائیوں کو کھا جائیں گی۔ تم روزے رکھ کر اپنے آپ کو دُبلی گائیں بناتے ہواوراس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یوسف اور گئو پال قرار دیتے ہو۔ اوراس طرح موقع پیدا کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اس رنگ میں اپنا جلال ظاہر کرے کہ موٹی کو دُبلی گائیں کھا جائیں۔ پس مت گھبراؤ کہ روزے رکھ رکھ کر تم دُبلے ہو رہے ہو، کیونکہ یہ روزِ ازل سے مقدّر ہے کہ دُبلابنا کر تمہیں موٹوں پر غالب کیا جائے۔ خدا تعالیٰ کی شان یہی چاہتی ہے اور اس کے دبدبہ اور شوکت کا یہی تقاضا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 13؍جنوری 1933ء مطبوعہ خطبات محمودجلد14صفحہ2-3)

قرآن شریف سےراہ نمائی ملتی ہے کہ دل کی روحانی بیماریوں میں بغض و کینہ، جھوٹ، بدظنی، تجسس، غیبت، قساوت قلبی، غیض و غضب اور بخل، نفرت وعناد وغیرہ شامل ہیں۔ ان امراض سینہ سے نجات کے لیے مجاہدات رمضان ایک مجرب نسخہ ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ پانچ بنیادی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔

پہلے تو روزہ ہے دوسرے نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر قیام اللیل یعنی رات کے نوافل پڑھے جاتے ہیں۔ تیسرے قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت ہے چوتھے سخاوت اور پانچویں آفاتِ نفس سے بچنا ہے ان پانچ بنیادی عبادات کا مجموعہ عبادات ماہِ رمضان کہلاتی ہیں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 7؍نومبر1969ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد2صفحہ954)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں: ’’کبھی کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمت کے ایسے چھینٹے نہیں پھینکے جاتے جو دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں برس رہے ہوں اور جس کسی پر بھی پڑیں اُسے خوش نصیب بنا دیں۔ اس لئے رمضان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رمضان مبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی، چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍اپریل1988ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ258)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’پس اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ جو رمضان کا مہینہ ہے، جو روزہ رکھنے کے دن ہیں، ہمیں اس طرف توجہ دلائی کہ ان دنوں میں میری خاطر، میری رضا کے حصول کی خاطر، صرف ناجائز چیزوں سے ہی نہیں بچنا بلکہ کان، آنکھ، زبان، ہاتھ کو تو ایک خاص کوشش سے معمولی سے بھی ناجائز کام سے بچا کر رکھنا ہے۔ اس کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک مجاہدہ توکرنا ہی ہے لیکن جائز چیزوں سے بھی بچنا ہے۔ ایک ایسا جہاد کرنا ہے جس سے تمہارے اندر صبر اور برداشت پیدا ہو اور ڈسپلن پید اہو۔ پھر یہ مجاہدہ ایسا ہو گا جو تمہاری روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ کا قُرب دلانے کا ذریعہ بنے گا، دُعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بنے گا۔

…پس یہ روزے اس کا قرب پانے کا ذریعہ ہیں اور دُعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہیں۔ پس ان دنوں میں ہمارا کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر چِلاّ چِلاّ کر، گِڑ گِڑا کر اپنے ربّ کو پکاریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ستمبر2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ستمبر2008ءصفحہ6)

’’یہ رمضان ہمیں ایک دفعہ پھر موقع دے رہا ہے کہ ہم خدا کے آگے جھکیں جس طرح جھکنے کا حق ہے۔ اُس کی عبادت کریں، جس طرح عبادت کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ ہماری دُعاؤں کا یقیناً جواب دے گا اور یہ عہد کریں کہ آئندہ ہم اِن عبادتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ اگر یہ ہو جائے تو اِس سے ہم اِنْ شَاءَ اللّٰہُ تَعَالیٰ جماعت کی سالوں میں ہونے والی ترقیات کو دِنوں میں واقع ہوتے دیکھیں گے۔ اِس لئے مَیں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں۔ دوسروں کے پاس دُعائیں کروانے کی بجائے خود اللہ تعالیٰ کی ذات کی قدرتوں کا تجربہ حاصل کریں۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اکتوبر2004ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 5؍نومبر2004ءصفحہ6)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ رمضان کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور اس کی برکت سے رحمت و مغفرت نصیب فرماکر اپنے نوروافر سے حصہ عطا فرمائےاورموجودہ حالات میں ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےجن دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے ہمیں ان دعاؤں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیساکہ حضورانورنے فرمایا: ’’ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھلا ہے۔ ہمیں اس یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دعاؤں کا راستہ کھولا ہے اور خدا تعالیٰ دعائیں سنتا ہے۔ اگر خالص ہو کر اس کے آگے جھکا جائے تو وہ قبول کرتا ہے، کس رنگ میں قبول کرتا ہے یہ وہ بہتر جانتا ہے۔ اپنے لیے، اپنے پیاروں کے لیے، اپنے عزیزوں کے لیے، جماعت کے لیے اور عمومی طور پر انسانیت کے لیے دعائیں کرنی چاہئیں …آج کل دعاؤں، دعاؤں اور دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو ہر لحاظ سے اور مجموعی طور پر جماعت کو بھی ہر لحاظ سے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اورآپ کو بھی دعائیں کرنے اور دعاؤں کی قبولیت سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍اپریل2020ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی2020ءصفحہ6)

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان کے ان فیوض و برکات سے بے انتہا فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ رمضان ہمارے لیے بےانتہا برکتیں لے کر آئے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button