خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍ اپریل 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حوالہ جات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین کو اُن کے ارتداد کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کی بغاوت اور جنگ کی وجہ سے سزا دی تھی
٭… حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے مصائب اگر پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے لیکن آپؓ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا
٭… حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓکی خلافت مستحکم ہونے کے بعد اللہ نے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا
٭… مصنفین لکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓکی قیادت میں سیاسی مہارت علمی تجربہ علم راسخ اور ربانی فتح اور نصرت نمایاں ہوتی ہیں
٭… حضرت ابوبکرؓ کا خط بنام عرب قبائل حضرت مسیح موعود ؑنے اپنی تصنیف سر الخلافہ میں درج کیا تاکہ پڑھنے والے ایمان اور بصیرت میں ترقی کریں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 15؍اپریل 2022ء بمطابق 15؍شہادت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 15؍اپریل 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ گزشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکے مرتدین کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ مختلف حوالہ جات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین کو اُن کے ارتداد کی وجہ سے نہیں بلکہ اُن کی بغاوت اور جنگ کی وجہ سے سزا دی تھی۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس ارتداد کو سرکشی اور بغاوت سے تعبیر کیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام اور مسلمانوں پر مصائب ٹوٹ پڑے۔ بہت سے منافق مرتد ہو گئے۔افترا پردازوں کے ایک گروہ نے دعویٰ نبوت کر دیا۔مسیلمہ کذاب کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب جاہل اور بدکردار آدمی مل گئے اور فتنے بھڑک اٹھے۔ مومنوں پر ایک شدید زلزلہ طاری ہو گیا۔ ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ بنائے گئے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب میرے والد خلیفہ بنائے گئے تو آغاز ہی میں آپؓ نے ہر طرح سے فتنوں کو موجزن اور جھوٹے مدعیان نبوت کی سرگرمیوں اور منافق مرتدوں کی بغاوت کو دیکھا اور آپؓ پر اتنے مصائب ٹوٹے کہ اگر وہ پہاڑوں پر ٹوٹتے تو وہ پیوست زمین ہو جاتے لیکن آپؓ کو رسولوں جیسا صبر عطا کیا گیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آن پہنچی۔جھوٹے نبی قتل اور مرتد ہلاک کر دیے گئے۔ فتنے دُور کر دیے گئے۔ اللہ نے مومنوں کو آفت سے بچا کر اُن کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔دین کو تمکنت بخشی اور ایک جہان کو حق پر قائم کر دیا۔ مفسدوں کے چہرے کالے کر دیے اور اپنا وعدہ پورا کیا۔اس تکلیف کے بعد مومنوں کے دل روشن اور چہرے شاداب ہوگئے۔ وہ آپؓ کو ایک مبارک وجود اور نبیوں کی طرح تائید یافتہ سمجھتے تھے اور یہ سب کچھ حضرت ابوبکرؓ کے صدق اور گہرے یقین کی وجہ سے تھا۔
باغیوں کا قلع قمع کرنے کےلیے حضرت ابوبکر ؓنے فوج کو تقسیم کیا اور گیارہ سپہ سالاروں کو اسلامی جھنڈے دے کر مختلف علاقوں میں محاذوں پر بھیجا۔ حضرت خالد بن ولیدؓ کو طلیحہ بن خویلد اور بطاح مالک بن نویرہ سے، حضرت عکرمہؓ بن ابو جہل کو مسیلمہ سے، حضرت مہاجر بن ابوامیہؓ کو عنسی کی فوجوں،قیس بن مکشوح اور کندہ سے، حضرت خالد بن سعید بن عاصؓ کو حمقتین میں، حضرت عمرو بن عاصؓ کو قضاعہ ودیعہ اور حارث کی جمعیتوں سے، حضرت حذیفہ بن محصن غلفانیؓ کو اہل دبا سے، حضرت عرفجہ ھرثمہؓ کو مُہرہ میں، حضرت شرحبیل بن حسنہؓ کو یمامہ اور قضاعہ میں، حضرت طریفہ بن حاجز ؓکو بنو سلیم اور ہوازن سے، حضرت سوید بن مقرنؓ کو تہامہ میں اور حضرت علاءبن حضرمی ؓکو بحرین میں باغیوں سے مقابلےکا حکم دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ہر دستے کے امیر کو حکم دیا کہ جہاں جہاں سے وہ گزریں وہاں کے طاقتور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیں اور بعض طاقتور افراد کو وہیں اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑ دیں۔
حضرت ابوبکرؓ کی اس تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ ان مہمات کے لیے ذوالقصہ فوجی مرکز قرار پایا۔ یہاں سے منظم اسلامی افواج ارتداد کی تحریک کو کچلنے کے لیے مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئیں۔ دستوں کی تقسیم اور ان کے مواقع کی تحدید سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکرؓ جغرافیہ کا دقیق علم رکھتے تھے اور انسانی آبادیوں اور جزیرة العرب کے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ لشکروں کے ساتھ رابطہ بھی انتہائی دقیق تھا۔ تمام لشکر آپس میں مربوط تھے اور یہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا کیونکہ ان لشکروں کے اندر قیادت کی مہارت کے ساتھ حسنِ تنظیم بھی موجود تھا۔ مرتدین اپنے اپنے علاقوں میں متفرق تھےاور یہ تصور کیے ہوئے تھے کہ چند ماہ میں تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیں گے۔ اسی لیے ابوبکر ؓنے چاہا کہ اچانک اُن کی شوکت و قوت کا صفایا کیا جائے اور اُن کا فتنہ بڑھنے سے قبل ہی اُن کی خبر لی اور انہیں اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنا سر اٹھا سکیں اورمسلمانوں کو تکلیف پہنچا سکیں۔
حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے قائدین کی تقرری کے حوالے سے مختلف امور کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک اور مصنف ڈاکٹر علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ صدیق اکبرؓ نے دارالخلافہ مدینہ کی حفاظت کے لیے فوج کا ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور اسی طرح امور حکومت میں رائے اور مشورہ کے لیے کبار صحابہ کی ایک جماعت اپنے پاس رکھی۔قائدین کو حکم فرمایا کہ ارتداد سے متاثرہ علاقوں میں موجود مسلمان جو قوت اور طاقت کے مالک ہیں ان کو اپنے ساتھ شامل کر لیں اور ان علاقوں کی حفاظت کی خاطر کچھ افراد کو وہاں مقرر کر دیں۔مرتدین کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ابوبکرؓ نے اَلْحَرْبُ خُدْعَةٌ کے اصول کو اپنایا یعنی فوج کے اہداف کچھ ظاہر کرتے حالانکہ مقصود کچھ اَور ہی ہوتا۔اس طرح ابوبکر ؓکی قیادت میں سیاسی مہارت علمی تجربہ علم راسخ اور ربانی فتح اور نصرت نمایاں ہوتی ہیں۔
اس موقع پر حضرت ابوبکر ؓنے دو فرمان بھی لکھے تھے؛ ایک عرب قبائل کے نام اور دوسرا سپہ سالاران فوج کی ہدایت کے لیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تصنیف لطیف سر الخلافہ میں عرب قبائل کے نام لکھے جانے والے خط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مناسب ہے کہ ہم یہاں وہ خط درج کر دیں (تاکہ) اس خط پر اطلاع پانے والے صدیق اکبرؓ کی شعائر اللہ کی ترویج اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام سنن کے دفاع میں مضبوطی کو دیکھ کر ایمان اور بصیرت میں ترقی کریں۔
اس خط میں حضرت ابوبکرؓ نے قبائل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ مَیں تمہیں اللہ کے تقویٰ کی اور تمہارے اس بخت کی اور نصیب کے حصول کی جو اللہ کے ہاں تمہارے لیے مقرر ہے اور وہ تعلیم جو تمہارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس لے کر آیا اس پر عمل کرنے کی تمہیں تاکید کرتا ہوں اور یہ کہ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی سے راہنمائی حاصل کرو اور اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑے رکھو کیونکہ ہر وہ شخص جسے اللہ ہدایت نہ دے وہ گمراہ ہے اور ہر وہ شخص جسے وہ نہ بچائے وہ آزمائش میں پڑے گا اور ہر وہ شخص جس کی وہ اعانت نہ فرمائے وہ بے یارومددگار ہے۔ پس جسے اللہ ہدایت دے وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ قرار دے وہ گمراہ ہے۔پھر انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے پیغامبر کو حکم دیا ہے کہ وہ میرے اس خط کو تمہارے ہر مجمع میں پڑھ کر سنا دے اور اذان ہی اسلام کا اعلان ہے پس جب مسلمان اذان دیں تو وہ بھی اذان دے دیں اور ان پر حملہ سے رک جائیں اور اگر وہ اذان نہ دیں تو ان پر حملہ جلد کرو اور جب وہ اذان دے دیں تو جو ان پر فرائض ہیں ان کا مطالبہ کرو اور اگر وہ انکار کریں تو ان پر جلد حملہ کرو اور اگر اقرار کر لیں تو ان سے قبول کر لیا جائے۔
حضرت ابوبکرؓ نے دوسرا خط گیارہ امرائے لشکر کے نام تحریر فرمایا اور ہر امیر کو تاکیدی حکم دیاکہ وہ ہر معاملے میں ظاہر اور باہر میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے۔ جہاں تک اس کی استطاعت ہے اور اس کو اللہ کے معاملے میں جدوجہد کا اور ان لوگوں سے جہاد کا حکم دیا ہے جنہوں نے اللہ سے پیٹھ پھیر لی اور اسلام سے رجوع کرتے ہوئے شیطانی آرزوؤںکو اختیار کر لیا ہے۔ سب سے پہلے اُن پر اتمام حجت کرے اُنہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو اُن لوگوں سے لڑائی سے رک جائے اور اگر وہ اس کو قبول نہ کریں تو اُن پر فی الفور حملہ کرے یہاں تک کہ اس کے سامنے جھک جائیں۔ پھر وہ اُن لوگوں کو اُن کے حقوق اور فرائض بتائے اور وہ اُن سے وصول کرے جو اُن پر فرض ہے اور اُنہیں دے جو اُن کے حقوق ہیں۔ جس نے انکار کیا تو اس سے لڑائی کی جائے۔ اگر اللہ اسے اُن پر فتح عطا کرے تو اُن کو بری طرح اسلحہ اور آگ کے ذریعہ قتل کیا جائے گا۔
ڈاکٹر علی محمد صلابی لکھتے ہیں کہ اس خط میں یہ ذکر ہے کہ مرتدین باغیوں کو آگ میں جلا دیا جائے۔ کسی کو جلانے کی سزا دینا تو جائز نہیں ہے۔آگ کے ذریعہ عذاب دینا صرف اللہ کا کام ہے لیکن یہاں انہیں جلانے کا حکم اس لیے دیا گیا کہ ان بدمعاشوں نے اہل ایمان کے ساتھ یہی برتاؤ کیا تھا لہٰذا یہ قصاص کے طور پر تھا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بھی یہی فرمایا ہے کہ جیسا کوئی کرتا ہے اُس کو اس کے مطابق ہی سزا دو بدلہ لینے کے لیے۔باغیوں نے مسلمانوں کو جلانے اور اُنہیں گھناؤنے طریقے سے قتل کرنے کے جرم کا ارتکاب کیا تھالہٰذا حضرت ابوبکرؓ نے اسی طرح اُن کو قتل کرنے اور سلوک کرنے کا حکم دیا تھا جیسا اُنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔
حضور انور نےآخرمیں فرمایا کہ یہ ذکر آگے بھی ان شاء اللہ بیان ہو گا۔ رمضان میں شاید دوسرے خطبہ بھی بیچ میں آتے رہیں گے ہو سکتا ہے وقت لگ جائے لیکن بہرحال جو بھی آئندہ خطبہ اس پہ آئے گا اس میں تفصیل بیان ہو گی۔
٭…٭…٭…