حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

قرآن کریم کی تلاوت کا حق کیسے ادا کیا جاسکتا ہے؟

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ مارچ 2008ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

پہلی بات تو یہ ہے کہ احمدی جب بیعت کرتا ہے، یہ عہد کرتا ہے کہ میں روحانی تبدیلی کے لئے زمانے کے امام کی بیعت میں آیا ہوں تو وہ خود بخود اس طرف متوجہ ہو کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھانا ہے جو کہ اس کا حقیقی عبد بن کے ہی بڑھ سکتا ہے، جوکہ عبادتوں کے معیار بلند کرنے سے ہی ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس تعلیم کی طرف توجہ ہوجوقرآن کریم کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میری کتاب کو اس کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھو۔ جیسا کہ میں نے ابھی جو آیت تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی در آنحالیکہ وہ اس کی ایسی تلاوت کرتے ہیں (جبکہ وہ ایسی تلاوت کرتے ہیں) جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو (درحقیقت) اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں۔

تلاوت کا حق کیا ہے؟ تلاوت کا حق یہ ہے کہ جب قرآن کریم پڑھیں تو جو اوامرونواہی ہیں ان پر غور کریں۔ جن کے کرنے کا حکم ہے ان کو کیا جائے۔ جن سے رُکنے کا حکم ہے ان سے رُکا جائے۔ آنحضرتﷺ کے سامنے یہود و نصاریٰ کا یہی دعویٰ تھا کہ ہمارے پاس بھی کتاب ہے۔ چاہتے تھے کہ مسلمان ان کی بات مان لیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایک توان یہود کا یہ رد کر دیا کہ تمہاری کتاب اب اس قابل نہیں رہی کہ اسے اب سچی کہا جا سکے کیونکہ تمہارے عمل اس کے خلاف ہیں۔ بعض باتوں کو چھپاتے ہو بعض کو ظاہر کرتے ہو۔پس تمہاری کتاب اب ہدایت نہیں دے سکتی۔ بلکہ آنحضرتﷺ کی بعثت کے بعد، اس شریعت کے اترنے کے بعد، یہ قرآن کریم ہی ہے جو ہدایت کا راستہ دکھانے والی کتاب ہے جس نے اب دنیا میں ہدایت قائم کرنی ہے۔ پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ ثابت کیا، ان کی زندگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ وہ مومن ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تلاوت کا حق ادا کیا اور یہی ایمان لانے والے کہلائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کو اعمال صالحہ کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ پس حقیقی مومن وہ ہیں جو تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور حقیقی مومن وہ ہیں جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہیں۔لہٰذاتلاوت کا حق وہی اداکرنے والے ہیں جو نیک اعمال کرنے والے ہیں۔ پس اس زمانے میں یہ مسلمانوں کے لئے انذار بھی ہے کہ اگر تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو اور وہ عمل نہیں جن کا کتاب میں حکم ہے تو ایمان کامل نہیں۔ اس زمانے کے حالات کے بارے میں (جو حضرت مسیح موعود ؑکے زمانے کے حالات تھے) آنحضرتﷺ نے انذار فرمایا ہے جو ظاہر و باہر ہے، ہر ایک کو پتہ ہے۔ احادیث میں ذکر ہے اور ایسے حالات میں ہی مسیح موعود کا ظہور ہونا تھا جب یہ حالات پیدا ہونے تھے۔پس حقِ تلاوت ادا کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو فی زمانہ اس مہدی کی جماعت میں شامل ہو کرقرآن کریم کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔ پس یہ ذمہ داری ہے ہر احمدی کی کہ وہ اپنے جائزے لے کہ کس حد تک ان احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں دئیے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں۔ جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے۔ نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لئے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ’’ق‘‘ اور ’’ع‘‘ کو پورے طور پر ادا کر دیا۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے۔ مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر ے۔ یہ یاد رکھو کہ قرآن شریف میں ایک عجیب و غریب اور سچا فلسفہ ہے۔ اس میں ایک نظام ہے جس کی قدر نہیں کی جاتی۔ جب تک نظام اور ترتیب قرآنی کومدنظر نہ رکھا جاوے، اس پر پورا غور نہ کیا جاوے، قرآن شریف کی تلاوت کے اغراض پورے نہ ہوں گے‘‘۔(الحکم جلد 5نمبر12 مورخہ 31؍مارچ1901ء صفحہ3)

پس یہ ہے تلاوت کا حق جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وضاحت فرمائی ہے۔

ایک وقت تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ صحیح طورپر قرآن کریم نہیں پڑھا جاتا جماعت کوصحتِ تلفّظ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس طرح پڑھا جائے۔ کیونکہ زیر زبر پیش کی بعض ایسی غلطیاں ہو جاتی تھیں، کہ ان غلطیوں کی وجہ سے معنے بدل جاتے ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ تو اس طرح آپ نے صحتِ تلفّظ کی طرف توجہ دلائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد جماعت میں اس طرف خاص توجہ پیدا ہوئی۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ترجمۂ قرآن کی طرف بھی توجہ دی جائے۔ ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں۔ جماعتی نظام بھی کام کرے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصاراللہ یو کے نے شروع کیا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی پڑھا رہے ہیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ ترجمہ آئے گا تو پھر ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ احکامات کیا ہیں ؟جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ غور کروتبھی غور کی عادت پڑے گی۔ عمل کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور یہی تلاوت کا حق ہے۔

ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:’’قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْآنُ۔ یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں ‘‘۔ پڑھنے والے ہیں کہ ’’جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے‘‘۔ فرمایا :’’تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خداتعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خداتعالیٰ کے عذاب سے خداتعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘۔(ملفوظات جلد5صفحہ 157،ایڈیشن 1988ء)

پس یہ اسلوب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے کے بارے میں بتا دیا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا یہ تبھی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ آتا ہو گا۔

…پرانی قومیں جنہوں نے نبیوں کا انکار کیا اور اس انکار کی وجہ سے ان سے جو سلوک ہوا اس پر ایک خدا کا خوف رکھنے والا، قرآن کریم کا ترجمہ سمجھنے والا، اس کے الفاظ کو سمجھنے والا استغفار کرتا ہے کہ خداتعالیٰ نے ہمیں اس حالت سے بچایا ہوا ہے اور آئندہ بھی بچائے رکھے۔ تو جتنا جتنا فہم و ادراک ہو گااتنا اتنا اللہ تعالیٰ کی کامل کتاب پر ایمان اور یقین بڑھتا جائے گا۔ اور یہی چیز ہے جو حق تلاوت ادا کرنے والی ہے۔

آنحضرتﷺ اس بارہ میں کیا نصیحت فرماتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ کہ حضرت عُبیدہ مُلیکی رضی اللہ عنہ جو صحابہ ؓ میں سے ہیں یہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے اہل قرآن! قرآن پڑھے بغیر نہ سو یا کرو اور اس کی تلاوت رات کواور دن کے وقت اس انداز میں کرو جیسے اس کی تلاوت کرنے کا حق ہے۔ اور اس کو پھیلاؤ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھا کرو اور اس کے مضامین پر غور کیا کرو تا کہ تم فلاح پاؤ۔(رواہ البیہقی فی شعب الایمان بحوالہ مشکاۃ المصابیح کتاب الفضائل کتاب فضائل القرآن حدیث نمبر2210)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button