نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 12)
آج کے دَورکے فیصلوں کی اہمیت
’’گو آج ہماری پوزیشن معمولی ہے مگر کل جب احمدیت پھیلے گی اور دنیا میں اسے ترقی حاصل ہوگی تو ہماری باتیں ان کے نزدیک اس سے بھی بڑا درجہ رکھیں گی جو آج امام ابوحنیفہؒ کی باتوں کو حاصل ہے اور گو بعد میں بڑے بڑے فقہاء پیدا ہوں اور ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت آگے بڑھے ہوئے ہوں پھر بھی احمدیت کو جو مقام حاصل ہونے والا ہے اس کے باعث آپ لوگوں کی حیثیت ان فقہاء اور علماء سے ہمیشہ بڑی سمجھی جائے گی۔ آج یہاں جو فیصلے کئے جاتے ہیں یہ صرف یہیں تک محدود نہیں رہ سکتے بلکہ یہ دنیا کی راہنمائی کے لئے ستارے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ یعنی جس طرح ستارے قائم ہیں اسی طرح ان کی ہدایت بھی ہر وقت قائم رہے گی اور تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چل پڑو گے ہدایت پا جائو گے اور یاد رکھو کہ آئندہ نورِ ہدایت کی اشاعت اور دنیا کی راہ نمائی اسی سلسلہ سے ہوگی۔ باقی سب راستے بند ہو چکے ہیں اور وہ ایسی کھڑکیاں ہیں جن کو بند کر دیا گیا مگر احمدیت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور آئندہ لوگ اِسی سے ہدایت اور راہ نمائی حاصل کریں گے اور اس بات کو ہر وقت مدنظر رکھنا چاہئے اور اپنے اقوال اور افعال کی نگرانی کرتے رہنا چاہئے۔‘‘(خطاب فرمودہ 12؍اپریل1941ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ524)
باتوں اور مشوروں میں سنجیدگی ہو
’’میں پھر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دوست باتوں میں اور مشوروں میں سنجیدگی کو مدنظر رکھیں اور ان کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ ہم نے دنیا میں ایک نیا انقلاب پیدا کرنا ہے اور ہماری باتوں پر آئندہ نسلیں دینی مسائل کی بنیاد رکھیں گی۔ ہمارے سپرد بہت بڑا کام ہے اور ایسے بڑے کام ہمیشہ خشیت اللہ کے ماتحت ہی سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔ پس چاہئے کہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی برتری کا جذبہ ہر وقت موجزن رہے، بے جا نکتہ چینی، تلخ فقرے نہیں ہونے چاہئیں، بحث اور مناظرے کا رنگ نہیں ہونا چاہئے۔‘‘(خطاب فرمودہ 12؍ اپریل1941ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ532)
بحث مباحثوں سےپرہیز کیا جائے
’’میں نے افسوس کے ساتھ دیکھا ہے کہ ہمارے علماء کو بحث مباحثہ کابہت شوق ہے حالانکہ یہ تو ایسی چیز ہے کہ اس سے جس قدر ممکن ہو بچنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہاماً اِس سے روکا گیا۔ گو یہ جائز تو ہے مگر ناپسندیدہ ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جائز چیزوں میں سے خداتعالیٰ کو سب سے زیادہ ناراض کرنے والی چیز طلاق ہے۔ اسی طرح یہ بھی جائز تو ہے مگر پسندیدہ نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو شروع میں اجازت تھی مگر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کر دیا۔ جب بحث مباحثہ کی عادت ہو جائے تو دل سے خشیت مٹ جاتی ہے اور بعض اوقات تو انسان کو ایسی باتوں میں بھی بحث کی دلیری ہوجاتی ہے جن میں بحث مباحثہ جائز نہیں۔ پس جہاں تک ممکن ہو بحث مباحثہ سے گریز کرو اور اخلاص کے ساتھ دوسرے کو بات سمجھائو اور اگر تم ایسا کرو گے تودیکھو گے کہ اُس پر ضرور اثر ہوگا۔ چاہئے کہ تمہاری شکلوں سے رقّت ظاہر ہو، تمہاری شکلوں سے معلوم ہو کہ تمہارے دل خداتعالیٰ کے خوف سے کانپ رہے ہیں۔ اگر یہ حالت ہو تو ہو نہیں سکتا کہ دوسروں پر اس کا اثر نہ ہو۔‘‘(خطاب فرمودہ 12؍ اپریل1941ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ532)
سب کمیٹیوں کے ممبران کا چناؤ کیسے افراد پر مشتمل ہو
’’ان کمیٹیوں میں ایسے ہی آدمیوں کے نام لینے چاہییں جو اِس کے لئے کافی وقت دے سکیں اور ان مضامین کے ساتھ اُن کو کچھ مناسبت ہو۔ پھر یہ امر بھی مد نظر رکھا جائے کہ ہر قسم کے لوگوں کو نمائندگی کا موقع دینا چاہئے۔ وہ گاؤں کے لوگ بھی ہوں وہ ان پڑھ بھی ہوں اور وہ مختلف صوبوں کے بھی ہوں۔ جہاں تک مضامین کے ساتھ مناسبت کا سوال ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اِس بارہ میں پڑھوں اور اَن پڑھوں میں کس قدر امتیاز کی ضرورت ہے۔ میں نے دیکھا ہے بہت سے اَن پڑھ ہوتے ہیں مگر اُنہیں سوچنے کی عادت ہوتی ہے اس لئے مختلف مضامین کے متعلق پہلے سے سوچی ہوئی تجاویز کو ایسی عمدگی سے پیش کر دیتے ہیں کہ کئی پڑھے لکھے آدمی جن کو سوچنے کی عادت نہیں ہوتی وہ اس عمدگی کے ساتھ تجاویز پیش نہیں کر سکتے۔ پس جب میں نے یہ کہا کہ ایسے ہی لوگوں کو سب کمیٹیوں کے لئے مقرر کرنا چاہئے جو ان سب کمیٹیوں کے کام کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں تو اِس سے میری مراد ذہنی مناسبت ہے۔ یہ مراد نہیں کہ وہ گریجوایٹ ہوں یا کسی خاص حد تک تعلیم حاصل کئے ہوئے ہوں بلکہ اخلاص اور تقویٰ ہی ایسی چیزیں ہیں جو کسی شخص کو دینی کاموں کا اہل ثابت کرتی ہیں۔ اگر انسان کے اندر تقویٰ اور اخلاص پایا جاتا ہو تو وہ ایسی ایسی باتیں نکال لیتا ہے کہ وہ شخص جو پڑھا لکھا تو ہو مگر تقویٰ اور اخلاص اُس کے اندر نہ ہو وہ نہیں نکال سکتا۔ ہمارا یہ روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک شخص بظاہر ایک لفظ بھی پڑھا ہؤا نہیں ہوتا مگر دین کے متعلق چونکہ غور کرنے کا عادی ہوتا ہے اور تقویٰ اور اخلاص اُس کے دل میں پایا جاتا ہے اس لئے وہ تقویٰ اور اخلاص اور اپنے دل کی محبت کی وجہ سے خداتعالیٰ سے وہ علوم حاصل کر لیتا ہے جو دوسرا شخص باوجود ظاہری علوم رکھنے اور عالم کہلانے کے حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘(خطاب فرمودہ 23؍اپریل1943ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ636)
کیاشوریٰ کو صدر انجمن کے کسی قاعدے میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہے
مجلسِ مشاورت 1943ء میں ایک دوست نے یہ سوال اُٹھایا کہ انتخابِ عہدیداران کے متعلق ایک قاعدہ صدر انجمن احمدیہ کا چلا آ رہا ہے شوریٰ کو صدر انجمن کے کسی قاعدے میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ ایک اہم معاملہ ہے جس کی وضاحت ضروری ہے اِس لئے کہ یہ سوال حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر اِس سوال کو بغیر توجہ کے چھوڑ دیا جائے تو اِس سے کئی قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بات یہ ہے کہ مجلس شوریٰ کبھی بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتی اور یہ ایک ایسا امر ہے جسے متواتر بار بار ظاہر کیا گیا ہے اور بارہا بتایا جا چکا ہے کہ مجلس شوریٰ کوئی فیصلہ نہیں کرتی بلکہ مجلس شوریٰ خلیفۂ وقت کے مطالبہ پر اپنا مشورہ پیش کرتی ہے۔ پس مجلس شوریٰ مشورہ نہیں دیتی بلکہ قرآن کریم کے اِس حکم کے مطابق کہ شاوِرھُم فِی الاَمرِ تولوگوں سے مشورہ لے، خلیفۂ وقت لوگوں سے اُن کا مشورہ مانگتا ہے اس پر لوگ اسے مشورہ دیتے ہیں۔ اور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے خلیفۂ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات ہونی چاہئے اور کونسی نہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ مجلس شوریٰ خود بخود کوئی فیصلہ کر دیتی ہو۔ پس جب یہ سوال ہو کہ کیا ہم صدر انجمن احمدیہ کے کسی قاعدہ میں ترمیم کر سکتے ہیں اور ہم سے مراد یہ لی جائے کہ کیا شوریٰ کو یہ طاقت حاصل ہے یا نہیں؟ تو اِس کے معنے یہ ہوں گے کہ شوریٰ صدر انجمن کے مقابل میں ایک الگ اور مستقل نظام ہے جس کا اثر ایک دوسرے پر ردّ عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور جو کسی اور واسطہ سے آزاد ہو کر مختلف امور کا فیصلہ کرتی ہے اور یہ خیال ایسا ہے جو بِالبداہت باطل ہے۔ اس لئے کہ ’’ہم‘‘ کا کوئی وجود ہی نہیں جو براہ راست عمل کرے یا کسی ردِّ عمل کا موجب بنے۔ اور اگر’’ہم‘‘ سے مراد شوریٰ لے لی جائے اور شوریٰ کا انعقاد بصدارت خلیفۂ وقت ہوتا ہے اور شوریٰ تبھی کوئی مشورہ دیتی ہے جب اُس سے خلیفۂ وقت کی طرف سے مشورہ مانگا جائے اِس لئے اِس صورت میں اِن الفاظ کے یہ معنے بن جائیں گے کہ کیا خلیفۂ وقت یہ طاقت رکھتا ہے کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے کسی قاعدہ میں ترمیم کرے؟ اور یہ بات پیش کرنا بھی بالکل غلط ہے۔ غرض اِس سوال کے دونوں پہلو غلط ہیں۔ نہ یہ درست ہے کہ مجلس شوریٰ کوئی آزاد اور مستقل مجلس ہے جو صدر انجمن احمدیہ کے مقابل میں عمل یا ردّ عمل کرتی ہے۔ مجلس شوریٰ ایسی کوئی مستقل چیز نہیں۔ شوریٰ صرف مشورہ دیتی ہے اور مشورہ بھی اُس وقت دیتی ہے جب خلیفۂ وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اُس سے مشورہ مانگتا ہے۔ پس دوست اگر مشورہ دیتے ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کے ایک حکم کی تعمیل میں، سلسلہ کی ضروریات کو سب سے مقدم سمجھتے ہوئے، نہ اِس لئے کہ اُن کاوجود کوئی مستقل حیثیت رکھتا ہے اِس لئے یہ کہنا کہ ہم کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ بالکل غلط ہے۔ مجلس کوئی فیصلہ نہیں کرتی اُن معنوں میں جن معنوں میں مجالس قانون ساز فیصلہ کیا کرتی ہیں۔ اور اگر ’’ہم‘‘ کے معنے مجلس شوریٰ کے نظام کے ہوں اور یہ نظام بصدارت خلیفۂ وقت ہوتا ہے کیونکہ وہی لوگوں سے مشورہ مانگنے والا ہوتا ہے تو پھر اِس کے معنے یہ بنیں گے کہ کیا خلیفۂ وقت صدر انجمن احمدیہ کے کسی قاعدہ کو ردّ کر سکتا ہے یا نہیں؟ او ر یہ سوال بھی بالکل غلط ہے۔ خلیفۂ وقت بہرحال بالا حیثیت رکھتا ہے اور وہ صدر انجمن کے قوانین میں ترمیم و تنسیخ کا کامل مجاز ہے۔ پس یہ سوال کسی کے دل میں خلش کا موجب نہیں ہونا چاہئے۔‘‘(خطاب فرمودہ 24؍ اپریل1943ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ647تا648)
نمائندگان شوریٰ اپنی جماعتوں میں جا کر تجاویز پر عمل کروائیں
’’ہر نمائندہ یہاں سے جا کر ایک میٹنگ کرے اور اس میں وہ تمام باتیں سُنائے جو یہاں بیان ہوئی ہیں۔ مَیں نے بھی کئی دفعہ کہا ہے کہ آپ لوگ یہاں اپنی مرضی سے نہیں آتے بلکہ بعض اَور لوگ آپ کو یہاں اپنے نمائندہ کی حیثیت سے بھجواتے ہیں۔ پس آپ کا فرض ہے کہ جب آپ یہاں سے واپس جائیں تو اُن کو بتائیں کہ یہاں کیا کیا باتیں ہوئیں اور کون کون سے فیصلے ہوئے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو سودا لینے کے لئے بھیجے اور وہ سَودا خرید کر اپنے گھر میں رکھ لے تو وہ دیانتدار نہیں سمجھا جاسکتا مگر مَیں نے لوگوں میں یہ عام طور پر نقص دیکھا ہے کہ وہ ایسے مواقع پر جو کام اُن کے سپرد ہو وہ تو کر لیتے ہیں۔ مگر جس نے انہیں بھیجا ہو اُسے بتاتے نہیں کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں۔ اپنے کارکنوں میں ہی مَیں نے بارہا دیکھا ہے کہ جب مَیں اُن میں سے کسی کو کام کے لئے بھیجوں تو وہ کام کرنے کے بعد گھر میں بیٹھ جاتا ہے اور مجھے یہ اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھتا کہ کام ہو گیا ہے یا نہیں۔ آخر مجھے خود اس کی طرف آدمی بھجوانا پڑتا ہے کہ تم مجھے بھی تو بتاؤ کہ آخر کیا کرکے آئے ہو۔ تو یہ چیز ایسی ہے کہ اس کے بغیر وہ مفید نتائج کبھی حاصل نہیں ہوسکتے جو اس مجلس شوریٰ سے حاصل ہونے چاہئیں۔ اگر ہماری جماعت کی طرف سے پانچ سَو یا ہزار نمائندے یہاں آ جائیں اور واپس جا کر جماعتوں میں ایک نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں تو محض مجلس شوریٰ کسی بیداری کے پیدا کرنے کا موجب نہیں ہو سکتی۔ بیداری اسی صورت میں پیدا ہو سکتی ہے جب وہ یہاں سے جاتے ہی تمام کارروائی لوگوں کو سُنائیں اور پھر بار بار سُناتے رہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجلس شوریٰ کی رپورٹ چھپ جاتی ہے مگر اوّل تو رپورٹ بہت دیر کے بعد شائع ہوتی ہے دوسرےؔ رپورٹ پڑھنے کا وہ اثر نہیں ہوتا جو اپنے نمائندوں کے منہ سے سن کر اثر ہوتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے مَیں آپ لوگوں کی طرف سے مجلس شوریٰ میں شامل ہوا تھا اور مَیں نے یہ عہد کیا تھا کہ ہمارے چندہ کی وصولی اس سال سَو فی صدی ہو گی تو انسانی غیرت اور حمیّت جوش میں آجاتی ہے اور تمام جماعت میں ایک بیداری پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارا نمائندہ ذلیل ہو جائے گا اور یہ احساس ایسی چیز ہے جو انسان کو بڑی سے بڑی قربانی کرنے پر تیار کر دیتا ہے۔‘‘(خطاب فرمودہ 25؍اپریل1943ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلددوم صفحہ702تا703)
(جاری ہے)