واقعہ افک خلافت کے خلاف ایک مذموم و مکروہ اور ناکام سازش (قسط اوّل)
اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا مدنظر ہے کہ نورِخلافت نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کے ساتھ کلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے
مدینہ سے آٹھ منزل کی دوری پر ایک قبیلہ بنومصطلق آبادتھا۔جس کے سردارکانام حارث بن ضرارتھا۔ یہ قبیلہ مسلسل قریش کے ساتھ مل کرمدینہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہا تھا۔اورجنگوں میں قریش کی حمایت میں رہتاتھا۔6ہجری میں جب نبی اکرمﷺ کو یہ اطلاعات ملیں کہ یہ قبیلہ مدینہ پرلشکرکشی کی تیاری کررہاہے تو نبی اکرمﷺ ایک لشکر لے کرشعبان 6ہجری میں بنومصطلق کی خبرلینے کے لیے روانہ ہوئے۔اس غزوہ کوغزوۂ بنومصطلق کہاجاتاہے۔نبی اکرمﷺکی آمدکی خبرسن کر بنومصطلق کا سردار تو اپنے ساتھیوں سمیت بھاگ گیا لیکن اس قبیلے کے قریب پہنچ کرمریسیع کے چشمہ پر مسلمانوں کامقابلہ ایک پارٹی نے کیا جس میں دشمنوں کے 10 افرادمارے گئے اور سات سو کے قریب قیدی ہوئے،علاوہ بہت سے مال مویشی کے جومال غنیمت میںہاتھ آیا۔ اسی چشمہ کے نا م کی وجہ سے اس غزوہ کوغزوۂ مریسیع بھی کہاجاتاہے۔
جنگ کے اعتبارسے تو یہ مختصر سی جنگ سمجھی جاتی ہے۔ لیکن اس مہم کے دوران بعض ایسے اہم ترین واقعات ہوئے جواسلامی تاریخ کے نمایاں ترین اور ہمیشہ یادرکھے جانے والے واقعات کی فہرست میں شمارہوتے ہیں۔
آیت تیمم بھی اسی سفرمیں نازل ہوئی۔(فتح الباری کتاب التیمم از علامہ ابن حجر)پھراسی غزوہ کے نتیجے میں قبیلہ بنومصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺ کی شادی ہوئی۔اور ساراقبیلہ بعدمیں مسلمان بھی ہوگیا۔ اسی سفرکے دو ایسے واقعات بھی ہیں جومنافقین کی کھلم کھلا سرگرمیوں پرروشنی ڈالتے ہیں۔
دراصل اس مہم میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہوئی تھی۔اورشایدہی اس سے پہلے یااس کے بعد اتنی تعدادمیں منافق کسی مہم میں شامل ہوئے ہوں۔اس سے پہلے جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کا ایک ہزارکالشکر مدینہ سے کفارکامقابلہ کرنے کے لیے نکلا تو راستے سے ہی منافقین کاسردار عبداللہ بن ابی اپنے تین سوساتھیوں کے ساتھ اس لشکر سے واپس لوٹ آیا اور یوں ایک ہزارکی بجائے سات سوکالشکررہ گیا۔ اور صاف معلوم ہوتاہے کہ منافقین ایک منصوبہ بندی کے تحت شاملِ لشکر ہوئے تھے اورمقصد یہ تھا کہ اس طرح سے جب اچانک راستہ میں الگ ہوں گے تو باقی مسلمانوں کادل بیٹھ جائے گا اور شاید وہ دوسرے مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔منافقین کاسارازوراسی طرح کی سازشوں میں صرف ہوتارہتاتھا کہ وہ کیاکیاطریق ہوسکتے ہیں کہ خاص طور پر مدینہ والوں کونبی اکرمﷺ سے بدظن کیاجائے اور ایسے حالات پیداکیے جائیں کہ اہل مدینہ آنحضرتﷺ اور مہاجرین صحابہ سے منہ موڑ لیں اور یہ لوگ مدینہ سے چلے جائیں۔کیونکہ عبداللہ بن ابی وہ شخص تھا کہ جس کومدینہ کاوالی اور بادشاہ بنائے جانے کا فیصلہ ہوچکاتھا۔ یہاں تک کہ بادشاہی کاتاج اس کے سرپررکھنے کی تمام ترتیاریاں مکمل ہوچکی تھیں کہ حالات نے ایساپلٹا کھایا کہ نبی اکرمﷺ مدینہ تشریف لے آئے جس کے نتیجے میں اہل مدینہ کے رخ اس رُخِ انورکی طرف متوجہ ہوگئے اور روحانی سربراہی کے ساتھ ساتھ انتظامی سربراہی اور بادشاہی بھی نبی اکرمﷺ کے لیے ہوگئی۔اور عبداللہ بن ابی کابادشاہی کاتاج سرپرسجانے کاخواب چکناچورہوگیا۔یہ حسد کی وہ آگ تھی کہ جو اندرہی اندراس کوکھارہی تھی اور اسی آگ میں وہ تمام لوگوں کوجلاکرراکھ کرناچاہتاتھا۔غزوہ بنومصطلق کی مہم کایہ سفراس کی سازشوں کاگویاعروج تھا۔
اسی سفرکے دوران ایک چشمہ پردومسلمانوں، ایک مہاجراور ایک انصاری کی باہم تکرارہوگئی اور اسی تکرارمیں دونوں نے اپنے اپنے ساتھیوں کوآوازدی۔عبداللہ بن ابی کوجب اس واقعہ کاعلم ہوا توعبداللہ بن ابی نے اس موقع پربھی حسب عادت خوب بھڑاس نکالی اور مہاجر مسلمانوں اور نبی اکرمﷺ کے بارے میں بہت ہی گھٹیااور غلیظ اور گندی زبان استعمال کی اور یہ کہنے لگا کہ تم لوگوں کو مہاجرین اور نبی اکرمﷺ پرکچھ بھی خرچ نہیں کرناچاہیے۔تمہی نے ان سب کوسرپرچڑھا رکھاہے۔اب بہت ہوگئی اب ناقابل برداشت ہوگیا سب کچھ،اب مدینہ پہنچ لیں مجھے ہی سب کرناہوگااور اپنے آپ کومخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مدینہ کاسب سے معزز شخص مدینہ کے سب سے ذلیل ترین شخص یعنی آنحضرتﷺ کومدینہ سے نکال باہرکرے گا۔نعوذباللہ، نعوذباللہ، نعوذباللہ۔ اوربھی کئی سخت کلمات کہے۔آنحضرتﷺ کوجب یہ ساری بات پہنچی تو آپﷺ نے علاوہ دوسرے پُرحکمت انتظامی فیصلوں کے عبداللہ بن ابی کوبھی طلب فرماکرپوچھا کہ اس نے اس اس طرح کی باتیں کی ہیں؟ تو وہ صاف مکرگیا بلکہ حلفیہ بیان دیا کہ ایسی کوئی بات اس نے کی ہی نہیں۔بہرحال آنحضرتﷺ نے کمال حکمت سے اس موقع پر اس تمام بگڑی ہوئی صورت حال کوکنٹرول کیا اور فوری طورپروہاں سے روانگی کااعلان فرماتے ہوئے سفر شروع کردیا۔ ساری رات اور سارا دن مسلسل سفرجاری رہا۔ نبی اکرمﷺ عموماً نہ تواس وقت سفرشروع فرماتے تھے اورنہ ہی ساری رات اور سارادن مسلسل سفر فرمایاکرتے تھے لیکن اس موقع پرآپﷺ نے خلاف معمول یہ کام کیا۔اس کی باقی تفصیلات کوچھوڑتے ہوئے اسی سفرکے ایک اہم واقعہ کی طرف چلتے ہیں جوآج کے مضمون کاعنوان ہے۔اور وہ ہے واقعہ افک۔
واقعہ افک کی تفصیل
اسی سفرسے واپسی پرجب قافلہ ایک منزل پرپڑاؤکیے ہوئے تھا روانگی سے قبل لوگ اپنی ضروریات سے فارغ ہوکرروانہ ہونے کی تیاریوں میں مصروف تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اپنی ضرورت سے فارغ ہوکرواپس آرہی تھیں کہ انہیں معلوم ہواکہ ان کے گلے میں پڑاہواایک ہارجو وہ اپنی بہن حضرت اسماء ؓسے عاریۃً مانگ کرلائی تھیں کہیں راستہ میں گرگیاہے۔یہ ظفار نامی بستی کابنا ہوا کسی خوشبودارلکڑی کے منکوں کاہارتھا۔ حضرت عائشہ ؓہارکی تلاش میں دوبارہ نکل پڑیں۔اسی تلاش کے بعد جب واپس تشریف لائیں تو قافلہ روانہ ہوچکا تھا۔قافلے منہ اندھیرے ہی نکل پڑتے تھے اور قافلہ سواروں کوحضرت عائشہؓ کے نہ ہونے کااحساس اس لیے بھی نہ ہو سکا کہ ہودج اٹھانے والوں نے آپؓ کاہودج اٹھاکراونٹ پررکھ دیا۔حضرت عائشہ ؓخود بیان فرماتی ہیں کہ آپؓ بہت دبلی پتلی اورہلکے وزن کی تھیں اور ان لوگوں کویہ احساس ہی نہ ہوسکا کہ میں ا س کے اندرنہیں ہوں۔ بہرحال جیساکہ طریق تھا ایک بہادراور شجاع صحابی حضرت صفوان بن معطل ؓکو لشکر کےپیچھے رکھاگیا تھاکہ قافلہ والوں کی رہ جانے والی اشیاء کواکٹھا کریں اور دن چڑھنے کے بعد ساری کھوج کے بعد پھرروانہ ہوں۔بنو خزرج کے یہ صحابی 5ہجری میں اسلام لائے تھے اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ واتھ بہادری اور شجاعت میں بھی نمایاں شمارہوتے تھے۔یہ قافلے کی پڑاؤ کی جگہ پرگھومتے ہوئے جب ایک جگہ پہنچے تووہاں حضرت عائشہ ؓکو سوئے ہوئے دیکھا۔ دوسری جانب حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ جب وہ واپس قافلے کی جگہ پرپہنچیں اور قافلہ کی روانگی کاعلم ہواتو وہ وہیں ایک جگہ ٹیک لگاکر بیٹھ گئیں کہ جب آنحضرتﷺ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں لوگ بھیجیں گے اور مجھے وہ یہیں اسی جگہ پرپا لیں گے۔ لہٰذا میں وہیں بیٹھ گئی اور بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی۔ بہرحال جب حضرت صفوانؓ نے انہیں سوئے ہوئے دیکھا تو زورسے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا۔اب نہ جانے اس وجہ سے کہ خدانخواستہ زندہ نہ ہونے کاخیال آیا یازیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ متنبہ کرنے کے لیے اونچی آوازسے یہ جملہ بولا ہوگا کہ تا حضرت عائشہ ؓبیدارہوجائیں۔حضرت صفوان ؓنے حضرت عائشہ ؓکواپنے اونٹ پربٹھایا اور انہیں لے کر قافلے تک پہنچ گئے۔منافقین کے ٹولے اور ان کے سرغنہ نے جو گِدھوں کی طرح تاڑمیں رہتے تھے جب حضرت عائشہؓ کی گمشدگی کا سنا اور بعد میں انہیں حضرت صفوان بن معطلؓ کے ساتھ واپس آتے ہوئے دیکھا تو ان کے گندے ذہنوں نے وہ جھوٹ تراشا کہ شایدشیطان کے بھی وہم وگمان میں نہ آسکتاتھا۔چنانچہ انہوں نے الزامات اورتہمت لگانے اور اس کاچرچاکرنے میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی۔ہرچندکہ مومنوں کی اکثریت نے اس الزام پرکان نہ دھرے بلکہ بات کرنابھی روا نہ رکھا۔ جیساکہ ایک روایت میں حضرت ابوایوب انصاریؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ دونوں میاں بیوی آپس میں بات کررہے تھے۔ اور جب حضرت ابوایوبؓ کی بیوی نے اس افواہ کاذکرکیا کہ لوگ جوباتیں بنارہے ہیں ان کی کیاحقیقت ہے تو حضرت ابوایوبؓ جوکہ ایک فدائی عاشق رسول تھے اور ہجرت مدینہ کے موقع پرانہیں میزبان رسولﷺ ہونے کی سعادت نصیب ہوچکی تھی، انہوں نے اپنی بیوی کوبہت ہی سادہ لیکن دلنشین اندازمیں اس فتنہ سے آگاہ کرتے ہوئے سمجھایا۔ کہنے لگے کہ اے ام ایوب ! کیا تم ویسا فعل کرسکتی ہو جیسے فعل کی بات پھیلائی جارہی ہے تو وہ کہنے لگیں کہ کبھی بھی نہیں۔ تو حضرت ابوایوبؓ کہنے لگے کہ جب تم اپنے بارہ میں ایساکرنے کاسوچ بھی نہیں سکتی تو ام المومنین حضرت عائشہ ؓکے بارے میں کیسے سوچ لیاجائے جوکہ تم سے ہزاردرجے نیک اور متقی ہیں۔ اس لیے یہ ساری بات ہے ہی سراسرجھوٹ۔(سیرت ابن ہشام، الاکتفاء)
اس لیے اکثریت تو ایسے ہی متقی اورپرہیزگاروں کی تھی لیکن منافقین کاپراپیگنڈا ایساپُرزورتھا کہ منافق تومنافق کچھ اور لوگ بھی ہاں میں ہاں ملانے لگے کہ ممکن ہے ایساہی ہو۔
آنحضرتﷺ جویہ ساری باتیں سن رہے تھے اس تکلیف دہ صورت حال پرکمال صبروتحمل اور ضبط کامظاہرہ فرمارہے تھے۔ آپﷺ کی سیرت کے بے شمارپہلو ہیں جو ان تاریک گھڑیوں میں ہیروں کی طرح چمکتے ہوئے سامنے آتے ہیںیہ وہ وقت تھا کہ شایدمدینہ کے لوگ آپس میں ہی ایک دوسرے کوکاٹ کررکھ دیتے۔ منافقین اور الزام لگانے والوں کی گردنیں کاٹ کررکھ دیتے۔ حضرت صفوانؓ جوکہ ایک جنگجو بہادرتھے انہیں جب معلوم ہواکہ منافق توچلوتھے ہی اب حضرت حسانؓ جیسے مخلص صحابی بھی اس الزام میں شامل ہوگئے ہیں تو وہ آپے سے باہرہوگئے اور تلوارلے کران پرجھپٹے اور انہیں زخمی کردیا۔(اسدالغابہ،زیرلفظ صفوان بن معطل)
حضرت عائشہؓ جو کہ’’المؤمنات الغافلات‘‘کے مصداق معصومہ شہزادی کی صورت میں نظرآتی ہیں۔ایسی پاکدامن اور معصوم کہ انہیں خبرتک نہیں۔ ایک مہینہ اس سانحہ پرگزرجاتاہے۔نبی اکرمﷺ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ کے مصداق اپنے گھروالوں کے ساتھ اتنے شفیق اور نرم دل،اتنے کریم اور رؤوف ورحیم کہ اپنی اس بیوی کومحسوس تک نہیں ہونے دیا کہ تمہارے بارے میں کس قدر بھیانک الزامات لگائےجارہے ہیں اور باہرکیاشورپڑاہوا ہے۔ صرف اسی ایک واقعہ کوسامنے رکھا جائے اور اس نیک فطرت اورپاک و معصوم، بلکہ نیکوں کے سردار اور معصوموں کے راج دلاروں کے جوڑے کی سیرت بیان کی جائے تو دفتردرکارہوں گے۔ایک ماہ گزرنے کے بعد جب اتفاقاً ایک عورت سے بات سنی تو حضرت عائشہ ؓ کوعلم ہوا اور یہ علم ہوتے ہی حضرت عائشہ ؓ پرتوجیسے ایک قیامت گزرگئی۔ تب انہیں یہ بھی احساس ہوا کہ اب میں سمجھی کہ آنحضرتﷺ اتنے خاموش خاموش کیوں تھے…بہرحال وہ نبی اکرمﷺ سے اجازت لے کراپنے والدین کے گھرآئیں۔
حضرت عائشہ ؓکے والدین کاقابل رشک کردار
واقعہ افک کے بیان میں بہت کم سیرت نگارہیں جنہوں نے حضرت عائشہؓ کے نیک فطرت اور عاشق رسولﷺ ماں باپ کے کردار کونمایاں کیا ہو۔ جب کہ ان کا بہت ہی اہم کردارہمیں نظرآتاہے۔کیونکہ یہ وہ مواقع ہوتے ہیں کہ بعض اوقات بڑے بڑے مخلص اور معقول لوگ بھی لڑکھڑاجایاکرتے ہیں۔یہاں اپنی بیٹی تھی جس پربہت ہی گھناؤنا الزام لگایاگیاتھا۔لیکن یہ دونوں بھی انتہائی صابر اور تحمل وبرداشت کے گویا مجسمے بنے ہوئے نظرآتے ہیں اور اس وقت بھی ان کی نگاہیں ہیں کہ نبی اکرمﷺ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ انہیں گویاکوئی فکرہی نہیں کہ ہماری بیٹی لٹ گئی، تباہ ہوگئی، بربادہوگئی یاخدانخواستہ کیاہوگیا۔ایک ماں باپ سے زیادہ اپنی بچی کواورکون جانتاہے۔اور ماں باپ بھی ایسے صاحب فراست۔صرف اسی ایک بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ اس ہولناک واقعہ پرایک مہینہ گزرجاتاہے۔لیکن نہ ماں اورنہ باپ، کوئی بھی اپنی بیٹی کی طرف اس کے گھر اس کی خبرلینے نہیں آتا۔اس کوحوصلہ دینے بھی نہیں آتا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری اس ننھی سی معصوم جان پرکتنے پہاڑٹوٹ پڑے ہیں۔ وہ ان کے جگرکاٹکڑاتھی، آخرکیاوجہ تھی۔ یقیناً یہی ایک وجہ تھی کہ وہ خدااوراس کے رسولﷺ پر سب کچھ نثارکرچکے تھے،ان کے لیے ان کی ساری تکلیفیں، سارے دکھ رسول اللہﷺ کی ذات کے سامنے بہت ہی چھوٹے تھے، وہ ہردکھ اور سکھ کی گھڑی میں صرف اورصرف ایک ہی چہرہ دیکھنا جانتے تھے اوروہ رسول کریمﷺ کاچہرہ تھا۔ یہ لوگ رسول اللہﷺ کے ہم وغم کے سامنے اپنے سارے دکھ بھول چکے تھے۔ یہ کمال درجے کاعشق تھا اور ادب تھا کہ جو وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ رسول کریمﷺ کوچھوڑکر، ان سے آگے قدم بڑھا کراپنی بیٹی کاسوچیں گے۔
عجب تھا عشق اس دل میں محبت ہوتوایسی ہو
وہ اپنا سب کچھ رسول کی خدمت میں دینے کے بعد مطمئن تھے کہ وہ جوبھی سوچیں گے، جوبھی کریں گے وہ ہم سب کے لیے بہتر بلکہ بہترین ہوگا۔اوریہی وجہ ہے کہ اس ایک مہینے کے بعد جب روتی ہوئی یہ معصوم جان، حضرت عائشہ ؓ اپنے ماں باپ کے گھرداخل ہوئی ہے اور رونے کی آوازسن کربالاخانے سے حضرت ابوبکرؓ نیچے آئے ہیں توانہوں نے بھرائی ہوئی آوازمیں اپنی پیاری بیٹی سے صرف ایک جملہ کہاہے کہ بیٹی تجھے خداکی قسم ہے کہ واپس رسول کریمﷺ کے گھرچلی جاؤ۔(بخاری حدیث نمبر4757)…سبحان اللہ! رسول کی محبت میں فنا کامقام پانے والا یہ عجیب عاشق تھا۔
حضرت عائشہ ؓبیان فرماتی ہیں کہ جب میں نے اپنی ماں سے کہا کہ ماں! میرے متعلق تو مدینہ میں یہ یہ باتیں ہورہی ہیں تو حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ جومیں نے سوچا تھا کہ میری ماں یاباپ کاکچھ ردعمل ہوگا اس میں سے کچھ بھی ایسانہ ہوا۔ اور مجھے مزیدحیرت یہ ہوئی کہ انہیں پہلے سے ہی سب پتا تھا۔ ہاں میری ماں نے صرف اتنا کہا کہ يَا بُنَيَّةُ، هَوِّنِي عَلَيْكِ، فَوَاللّٰهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيْئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا، لَهَا ضَرَائِرُ، إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا اے میری بچی حوصلہ رکھو،بخدا کم ہی ایساہوتاہے کہ کسی شخص کی خوب صورت اور خوب سیرت بیوی ہو اوراس کی سوکنیں بھی ہوں اورپھراس کے خلاف باتیں نہ بنائی جائیں۔
ایک گھناؤنی سازش
ماں بھی کیسی صابر اور صاحب فہم وفراست ماں تھی۔عشق رسول سے تولبریزتھی ہی، بات بھی کتنے پتے کی بتادی کہ امام کاقرب پانے والوں کے لیے حاسدین ایسے حملے کیاہی کرتے ہیں۔کیونکہ یہ گھرانہ بھی جوکہ نیک اور دانا گھرانہ تھا یہ جانتاتھا کہ بات کچھ اورہے۔اور یہ ہے وہ اہم کڑی کہ جس کی طرف ہمارے سیرت نگار اور مفسرین و شارحین کی کم ہی نظرگئی ہے۔اوروہ یہ کہ یہ محض ایک الزام نہ تھا بلکہ ایک گھناؤنی سازش تھی۔ وہ سازش کیاتھی ؟ حضرت مصلح موعودؓ خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے بصیرت افروز اقتباس کودیکھتے ہیں۔آپؓ بیان فرماتے ہیں :’’اب میں یہ بتاتا ہوں کہ پہلے چار رکوعوں کا باقی پانچ رکوعوں سے جن میں خلافت کا ذکر آتا ہے کیا تعلق ہے۔یہ بات ظاہر ہے کہ پہلے چار رکوعوں میں بدکاری کے الزامات کا ذکر اصل مقصود ہے اور اُن میں خصوصاً اس الزام کو رد کرنا مقصود ہے جو حضرت عائشہ ؓپر لگایا گیا تھا۔اب ہمیں دیکھنا چاہئےکہ حضرت عائشہؓ پر جو الزام لگایا گیا تو اس کی اصل غرض کیا تھی۔اس کا سبب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ان لوگوں کو حضرت عائشہؓ سے کوئی دشمنی تھی۔ایک گھر میں بیٹھی ہوئی عورت سے جس کا نہ سیاسیات سے کوئی تعلق ہو نہ قضاء سے۔نہ عہدوں سے نہ اموال کی تقسیم سے نہ لڑائیوں سے۔نہ مخالف اقوام پر چڑھائیوں سے نہ حکومت سے نہ اقتصادیات سے۔ اُس سے کسی نے کیا بغض رکھنا ہے۔پس حضرت عائشہ ؓسے براہ راست بُغض کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔اس الزام کے بارہ میں دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔یا تو یہ کہ نعوذ باللہ یہ الزام سچا ہو جس کو کوئی مومن ایک لمحہ کےلئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔خصوصا ًاس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر سے اس گندے خیال کو رد کیا ہے اور دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓپر الزام بعض دوسرے وجودوں کو نقصان پہنچانے کےلئے لگا یا گیا ہو۔ اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون کون لوگ تھے جن کو بدنام منافقوں کےلئے یا اُن کے سرداروں کےلئے فائدہ بخش ہو سکتا تھا اور کن کن لوگوں سے اس ذریعہ سے منافق اپنی دشمنی نکال سکتے تھے۔ایک ادنیٰ تدبیر سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ پر الزام لگا کر دو شخصوں سے دشمنی نکالی جا سکتی تھی۔ایک رسول کریمﷺ سے او ر ایک حضرت ابوبکر ؓسے۔کیونکہ ایک کی وہ بیوی تھیں اور ایک کی بیٹی تھیں۔یہ دونوں وجود ایسے تھے کہ ان کی بدنامی سیاسی لحاظ سے یا دشمنیوں کے لحاظ سے بعض لوگوں کےلئے فائدہ بخش ہو سکتی تھی یا بعض لوگوں کی اغراض اُن کو بدنام کرنے کے ساتھ وابستہ تھیں۔ورنہ خود حضرت عائشہ ؓکی بدنامی سے کسی شخص کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ آپ سے سوتوں کا تعلق ہو سکتا تھا اور یہ خیال ہو سکتا تھا کہ شائد حضرت عائشہ ؓکی سوتوں نے حضرت عائشہ ؓ کو رسول کریمﷺ کی نظروں سے گرانے اور اپنی نیک نامی چاہنے کےلئے اس معاملہ میں کوئی حصہ لیا ہو۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عائشہ ؓکی سوتوں نے اس معاملہ میں کوئی حصہ نہیں لیا بلکہ حضرت عائشہ ؓکا اپنا بیان ہے کہ رسول کریمﷺ کی بیویوں میں سے جس بیوی کو میں اپنا رقیب اور مد مقابل خیال کیا کرتی تھی وہ حضرت زینب بنت حجش ؓتھیں۔ان کے علاوہ اور کسی بیوی کو میں اپنا رقیب خیال نہیں کرتی تھی مگر حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں زینب ؓ کے اس احسان کو کبھی بھول نہیں سکتی کہ جب مجھ پر الزام لگا یا گیا تو سب سے زیادہ زور سے اگر کوئی اس الزام کی تردید کیا کرتی تھیں تو وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں۔( سیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ310، 316) پس حضرت عائشہ ؓ سے اگر کسی کو دشمنی ہو سکتی تھی تو ان کی سوتوں کو ہی ہو سکتی تھی اور وہ اگر چاہتیں تو اس میں حصہ لے سکتی تھیں تا حضرت عائشہؓ رسول کریمﷺ کی نظروں سے گِر جائیں اور اُن کی عزت بڑھ جائے۔مگر تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں دیا اور اگر کسی سے پوچھا گیا تو اس نے حضرت عائشہ ؓکی تعریف ہی کی۔غرض مردوں کی عورتوں سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔پس آپ پر الزام یا تو رسول کریمﷺ سے بغض کی وجہ سے لگایا گیا یا پھر حضرت ابوبکرؓ سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا گیا۔رسول کریمﷺکو جو مقام حاصل تھا وہ تو الزام لگانے والے کسی طرح چھین نہیں سکتے تھے۔انہیں جس بات کا خطرہ تھا وہ یہ تھا کہ رسول کریمﷺ کے بعد بھی وہ اپنی اغراض کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائیں۔وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ کے بعد خلیفہ ہونے کا اگر کوئی شخص اہل ہے تو وہ ابو بکر ؓہی ہے۔پس اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے انہوں نے حضرت عائشہ ؓپر الزام لگا دیاتا حضرت عائشہؓ رسول کریمﷺ کی نگاہ میں گِر جائیں اور اُن کے گِرجانے کی وجہ سے حضرت ابو بکر ؓ کو مسلمانوں میں جو مقام حاصل ہے وہ بھی جاتا رہے اور مسلمان آپ سے بدظن ہو کر اس عقیدت کو ترک کردیں جو انہیں آپ سے تھی۔اور اس طرح رسو ل کریمﷺ کے بعد حضرت ابوبکر ؓکے خلیفہ ہونے کا دروازہ بالکل بند ہوجائے۔یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے حضرت عائشہؓ پر الزام لگنے کے واقعہ کے بعد خلافت کا بھی ذکر کیا۔حدیثوں میں صریح طور پر ذکر آتا ہے کہ صحابہ ؓ آپس میں باتیں کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ رسول کریمﷺ کے بعد اگر کسی کا مقام ہے تو وہ ابو بکر ؓکا ہی مقام ہے۔حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے ایک دفعہ حضرت عائشہ ؓ سے کہا۔اے عائشہ ! میں چاہتا تھا کہ ابوبکر کو اپنے بعد نامزد کر دوں مگر میں جانتا ہوں کہ اللہ اور مومن اس کے سوا اور کسی پر راضی نہیں ہوںگے اس لئے میں کچھ نہیں کہتا۔غرض صحابہ ؓ یہ یقینی طور پر سمجھتے تھے کہ رسول کریمﷺ کے بعد اُن میں اگر کسی کا درجہ ہے تو ابوبکر ؓ کا ہے اور وہی آپ کا خلیفہ بننے کے اہل ہیں۔مکی زندگی تو ایسی تھی کہ اس میں حکومت اور اس کے نظام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔لیکن مدینہ میں آنحضرتﷺ کے تشریف لانے کے بعد حکومت قائم ہوگئی اور طبعاً منافقوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ آپ کے بعد کوئی خلیفہ ہوکر نظامِ اسلامی لمبا نہ ہو جائے اور ہم ہمیشہ کےلئے تباہ نہ ہو جائیں۔کیونکہ آپ کے مدینہ میں تشریف لانے کی وجہ سے اُن کی کئی اُمیدیں باطل ہوگئی تھیں۔تاریخوں سے ثابت ہے کہ مدینہ میں عربوں کے دوقبیلے اوس اور خزرج تھے اور یہ ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے اور قتل و خون ریزی کا بازار گرم رہتا تھا۔جب انہوں نے دیکھا کہ اس لڑائی کے نتیجہ میں ہمارے قبائل کا رعب مٹتا چلا جاتا ہے تو انہوں نے آ پس میں صلح کی تجویز کی۔اور قرار دیا کہ ہم ایک دوسرے سے اتحاد کرلیں اور کسی ایک شخص کو اپنا بادشاہ بنا لیں چنانچہ اوس اور خزرج نے آپس میں صلح کر لی اور فیصلہ ہوا کہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کو مدینہ کا بادشاہ بنا دیا جائے۔اس فیصلہ کے بعد انہوں نے تیاری بھی شروع کر دی اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کےلئے تاج بننے کا حکم دیدیا گیا۔اتنے میں مدینہ کے کچھ حاجی مکہ سے واپس آئے اور انہوں نے بیان کیا کہ آخری زمانہ کا نبی مکہ میں ظاہر ہو گیا ہے اور ہم اُس کی بیعت کر آئے ہیں۔اس پر رسول کریمﷺ کے دعویٰ کے متعلق چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں اور چند دنوں کے بعد اور لوگوں نے بھی مکہ جاکر رسول کریمﷺ کی بیعت کر لی۔اور پھر انہوں نے رسول کریمﷺ سے درخواست کی کہ آپ ہماری تربیت اور تبلیغ کےلئے کوئی معلم ہمارے ساتھ بھیجیں۔چنانچہ رسول کریمﷺ نے ایک صحابی ؓ کو مبلغ بنا کر بھیجا اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔انہی دنوں چونکہ مکہ میں رسول کریمﷺ اور آپ کے صحابہ ؓکو بہت تکالیف پہنچائی جارہی تھیں اس لئے اہل مدینہ نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مدینہ تشریف لے آئیں۔ چنانچہ رسول کریمﷺ صحابہؓ سمیت مدینہ ہجرت کرکے آگئے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کےلئے جو تاج تیار کروایا جا رہا تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔کیونکہ جب انہیں دونوں جہانوں کا بادشاہ مل گیا تو انہیں کسی اور بادشاہ کی کیا ضرورت تھی۔عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ دیکھا کہ اس کی بادشاہت کے تمام امکانات جاتے رہے ہیں تو اسے سخت غصہ آیا اور گووہ بظاہر مسلمانوں میں مل گیا مگر ہمیشہ اسلام میں رخنے ڈالتا رہتا تھا۔اور چونکہ اب وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا اس لئے اس کے دل میں اگر کوئی خواہش پیدا ہو سکتی تھی تو یہی کہ محمد رسو ل اللہﷺ فوت ہو ں تو میں مدینہ کا بادشاہ بنوں لیکن خداتعالیٰ نے اس کے اس ارادہ میں بھی اسے زک دی کیونکہ اس کا اپنا بیٹا بہت مخلص تھا۔جس کے معنے یہ تھے کہ اگر وہ بادشاہ ہو بھی جاتا تو اس کے بعد حکومت پھر اسلام کے پاس آجاتی اس کے علاوہ خداتعالیٰ نے اُسے اس رنگ میں بھی زک دی کہ مسلمانوں میں جونہی ایک نیا نظام قائم ہوا انہوں نے رسول کریمﷺ سے مختلف سوالات کرنے شروع کر دئے کہ اسلامی حکومت کا کیا طریق ہے۔آپ کے بعد اسلام کا کیا بنے گا اور اس بارہ میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول نے جب یہ حالت دیکھی تو اُسے خوف پید ا ہونے لگا کہ اب اسلام کی حکومت ایسے رنگ میں قائم ہوگی کہ اُس میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور وہ ان حالات کو روکنا چاہتا تھا۔چنانچہ اس کے لئے جب اس نے غور کیا تو اُسے نظر آیا کہ اگر اسلامی حکومت کو اسلامی اصول پر کوئی شخص قائم کر سکتا ہے تو وہ ابو بکر ؓہے اور رسول کریمﷺ کے بعد مسلمانوں کی نظریں انہی کی طرف اٹھتی ہیںاور وہ اُسے تمام لوگوں سے معزز سمجھتے ہیں۔پس اُس نے اپنی خیر اسی میں دیکھی کہ ان کو بدنام کرد یا جائے۔اور لوگوں کی نظروں سے گِرا دیا جائے بلکہ خود رسول کریمﷺ کی نگاہ سے بھی آپ کو گرا دیا جائے اور اس بدنیتی کے پورا کرنے کا موقع اُسے حضرت عائشہ ؓکے ایک جنگ میں پیچھے رہ جانے کے واقعہ سے مل گیا اور اس خبیث نے آپ پر ایک نہایت گندا الزام لگا دیا جو قرآن کریم میں تو اشارۃً بیان کیا گیا ہے لیکن حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہے۔عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس سے غرض یہ تھی کہ اس طرح حضرت ابوبکرؓ ان لوگوں کی نظروں میں بھی ذلیل ہو جائیں گے اور آپ کے تعلقات رسول کریمﷺ سے بھی خراب ہو جائیںگے اور اس نظام کے قائم ہونے میں رخنہ پڑجائےگا جس کا قائم ہونا اُسے یقینی نظر آتا تھا اور جس کے قائم ہونے سے اس کی اُمیدیں برباد ہو جاتی تھیں …چونکہ منافق اپنی موت کو ہمیشہ دُور سمجھتا ہے اور وہ دوسروں کی موت کے متعلق اندازے لگاتا رہتا ہےاس لئے عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی اپنی موت کو دُور سمجھتا تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ رسول کریمﷺ کی زندگی میں ہی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرے گا۔وہ یہ قیاس آرائیاں کرتا رہتا تھا کہ رسول کریمﷺ فوت ہوں تو مَیں عرب کا بادشاہ بنوںلیکن اب اُس نے دیکھا کہ ابوبکر ؓکی نیکی اور تقویٰ اور بڑائی مسلمانوں میں تسلیم کی جاتی ہے۔جب رسول کریمﷺ نماز پڑھانے تشریف نہیں لاتے تو ابوبکرؓ آپ کی جگہ نماز پڑھاتے ہیں۔ رسول کریمﷺ سے کوئی فتویٰ پوچھنے کا موقع نہیں ملتا تو مسلمان حضرت ابوبکرؓ سے فتویٰ پوچھتے ہیں یہ دیکھ کر عبداللہ بن ابی ابن سلول کو جو آئندہ کی بادشاہت ملنے کی اُمیدیں لگائے بیٹھا تھا سخت فکر لگا۔اور اُس نے چاہا کہ اس کا ازالہ کرے۔چنانچہ اسی امر کا ازالہ کرنے اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی شہرت اور آپ کی عظمت کو مسلمانوں کی نگاہوں سے گرانے کےلئے اُس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا دیا تا حضرت عائشہ ؓپر الزام لگنے کی وجہ سے رسول کریمﷺ کو حضرت عائشہ ؓسے نفرت پیدا ہواور حضرت عائشہ ؓسے رسول کریمﷺ کی نفرت کا یہ نتیجہ نکلے کہ حضرت ابو بکر ؓ کو رسول کریمﷺ اور مسلمانوں کی نگاہوں میں جو اعزاز حاصل ہے وہ کم ہو جائے اور اُن کے آئندہ خلیفہ بننے کا کوئی امکان نہ رہے۔ چنانچہ اسی امر کااللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ بِالۡاِفۡکِ عُصۡبَۃٌ مِّنۡکُمۡ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اتہام لگایا ہے وہ تم لوگوں میں سے ہی مسلمان کہلانے والا ایک جتھا ہے۔مگرفرماتا ہے لَاتَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ تم یہ خیال مت کرو کہ یہ الزام کوئی برا نتیجہ پیدا کرے گا بلکہ یہ الزام بھی تمہاری بہتری اور ترقی کا موجب ہوجائےگا چنانچہ لو اب ہم خلافت کے متعلق اصول بھی بیان کر دیتے ہیں اور تم کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ یہ منافق زورمار کر دیکھ لیں یہ ناکام رہیں گے۔اور ہم خلافت کو قائم کرکے چھوڑیں گے کیونکہ خلافت نبوت کا ایک جزو ہے اور الٰہی نور کے محفوظ رکھنے کا ایک ذریعہ ہے…اس الزام کا ذکر کرنے اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کی اس شرارت کو بیان کرنے کے بعد کہ اُس نے خلافت میں رخنہ اندازی کرنے کےلئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگا یا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ ۔اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا نور ہے مگر اس کے نور کو مکمل کرنیکا ذریعہ نبوت ہے اور اُس کے بعد اس کو دنیا میں پھیلانے اور اُسے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو وہ خلافت ہی ہے۔گویا نبوت ایک چمنی ہے جو اس کو آندھیوں سے محفوظ رکھتی ہے اور خلافت ایک ری فلیکٹر ہے جو اس کے نور کو دُور تک پھیلاتا ہے۔پس ان منافقوں کی تدبیروں کی وجہ سے ہم اس عظیم الشان ذریعہ کو تباہ نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے نور کو دیر تک دنیا میں قائم رکھنے کیلئے اس سامان کا مہیا کریں گے۔ اس بات کا مزید ثبوت کہ اس آیت میں جس نو ر کا ذکر ہے وہ نور خلافت ہی ہے اس سے اگلی آیتوں میں ملتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ اس سوال کا جواب دیتا ہے کہ یہ نور کہاں ہے۔فرماتا ہے فِيْ بُیُوْتٍ یہ نور خلافت چند گھروں میں پایا جاتا ہے۔ نورِ نبوت تو صرف ایک گھر میں تھا مگر نورِ خلافت ایک گھر میں نہیں بلکہ فِيْ بُیُوْتٍ چند گھروں میں ہے۔پھر فرماتا ہے اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ۔وہ گھر ابھی چھوٹے سمجھے جاتے ہیں مگر خداتعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ان گھروں کو اونچا کرے کیونکہ نبوت کے بعد خلافت اس خاندان کو بھی اونچا کر دیتی ہے جس میں سے کوئی شخص منصب خلافت حاصل کرتا ہے۔اس آیت نے بتا دیا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کا مقصد نور خلافت کو بیان کرنا ہے اور یہ بتانا مدنظر ہے کہ نورِخلافت نورِ نبوت اور نورِ الوہیت کے ساتھ کلی طور پر وابستہ ہے اور اس کو مٹانا دوسرے دونوں نوروں کو مٹانا ہے پس ہم اسے مٹنے نہیں دیں گے اور اس نور کو ہم کئی گھروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں گے تا نورِ نبوت کا زمانہ اور اس کے ذریعہ سے نورِ الٰہیہ کے ظہور کا زمانہ لمبا ہو جائے۔‘‘(تفسیرکبیرجلد6صفحہ324تا329)
واقعہ افک اور اس سے ملنے والے سبق
قرآن کریم نے جب اس واقعہ کاذکرکیا تو کچھ اصولی باتیں بیان فرمائیں۔ مثلاً
معاشرے میں اس طرح کی برائیوں کے سدباب کے لیے قوانین وضوابط نازل ہوئے۔
ایک بات یہ بتائی کہ منافقین کی طرف سے جوہنگامہ برپاکیاگیاتھا ہرچندکہ ایک تکلیف دہ گھڑی تھی لیکن لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَّكُمْ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ انجام کار تمہارے لیے خیروبرکت کاباعث ہی بنی۔
اور ایک بہت ہی بنیادی حکم اور تعلیم یہ دی کہ اس طرح کی جب بھی کوئی بات ہوتو مومن کاکام یہ ہے کہ وہ خیر اوربھلائی کی سوچ اپنے اندر پیداکرے لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا اور سب سے پہلا ردعمل یہ ہوناچاہیے هٰذَآ إِفْكٌ مُبِيْنٌ۔یہ تو ایک جھوٹ اور اتہام ہی ہے۔
اورجواس طرح کی بات کرنے والے ہیں یاالزام لگانے والے ہیں ا ن کوچاہیے کہ وہ چارگواہ لائیں اور اگرگواہ نہیں لاتے تو وہ جھوٹے ہیں لَوۡلَا جَآءُوۡ عَلَیۡہِ بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَۚ فَاِذۡ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓئِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ(النور:14)یہاں الزام لگانے والوں کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے کہ تم نے اگرایسافعل قبیح دیکھاہے تو اس کولےکرہوانہ ہوجاؤ اور تشہیرکرتے رہو۔بے شک تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے لیکن تمہارے لیے ضروری ہے کہ تمہارے علاوہ مزید چاراورلوگوں نے دیکھا ہو۔ جوگواہی دے سکیں اور اگراتنے گواہ نہ ہوں تو خاموش رہنا تمہارے لیے بہترہے۔کیونکہ وہ خدا، غفوررحیم ہے، تواب ہے، اور علیم اور حکیم بھی ہے۔ سورہ نورمیں نازل ہونے والے احکامات میں اس نے اپنی ان صفات کاذکرفرماتے ہوئے توجہ دلائی کہ خداکی ان صفات کوسامنے رکھواور اس نے قوانین بناتے وقت جو قاعدہ قانون بنایاہے وہ زیادہ علم رکھنے والا ہے اور حکمتوں کوجاننے والاہے۔آخرکوئی تو وجہ اور حکمت ہوگی کہ قتل جیسے جرم کے لیے دوگواہ رکھے گئے۔ اور بعض امورجیسے رضاعت و ولادت میں تو ایک گواہی بھی کافی سمجھ لی جاتی ہے۔ لیکن زناجیسے فعل کی سزاکے لیے چارگواہ رکھنے میں کوئی تو حکمت ہوگی۔اور اگرجوچارگواہ نہیں لاتا اور اپنے الزام کی تشہیرکرناشروع کر دیتا ہے تو خداایسے لوگوں کوجھوٹا اور فاسق قرار دیتاہے۔ اس لیے اس کے بنائے ہوئے قانون کے آگے سرتسلیم خم کرناہی بہترہے۔ہاں میاں بیوی کا ایک استثنائی تعلق تھا اس لیے اس میں یہ جوازرکھا کہ اگروہاں گواہ نہیں تو پھرمیاں بیوی قسم کھائیں گے جس کواصطلاح میں ’’لعان‘‘کہا جاتاہے لیکن یہ استثنا صرف اور صرف میاں بیوی کے لیے ہے۔ دوسروں کے لیے نہیں ہے۔وہاں یاگواہ ہوں گے یاخاموشی ہوگی وگرنہ قذف کی سزا کے طورپر80کوڑے لگیں گے اور خداکی نظرمیں اس کاجھوٹا اور فاسق ہونا الگ ہوگا اور ہمیشہ کے لیے کسی بھی قسم کی گواہی کے لیے نااہل قراردیاجانا الگ ہوگا۔
حضرت مصلح موعودؓ قسم کے ضمن میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’بعض لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ چونکہ یہاں یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِآیا ہے اس لئے یہ جو واقع میں پاک دامن عورتیں ہوں اُن پر اتہام لگانے والے کےلئے سزا رکھی گئی ہے دوسروں کےلئے نہیں۔ حالانکہ اگر یہ درست ہو تو اس کا پتہ کون لگا سکے گا کہ جس پر الزام لگایا گیا ہے وہ فی الواقعہ پاک دامن ہے یا نہیں۔ایک خبیث اور بے باک آدمی بڑی دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ جس عورت پر میں نے الزام لگا یا ہے۔پہلے اس کی پاکدامنی تو ثابت کرو۔پھر مجھے سزا دو۔اور اس طرح ہر عورت کی عزت خطرہ میں پڑسکتی ہے۔پس اس کے یہ معنے نہیں کہ جب تک عورت کا پاک دامن ہونا ثابت نہ کیا جائے الزام لگانیوالے کو کوئی سزا نہیں مل سکتی بلکہ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِکے یہ معنے ہیں کہ ایسی عورتیں جن پر بد کاری کا الزام لگا یا گیا ہو۔اگر وہ الزام شہادت سے ثابت نہیں ہوتا تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ یقینی طور پر پاکدامن ہیں اور الزام لگانے والا کذاب اور جھوٹا ہے اور اس بات کا مستحق ہے کہ اسے سزا دی جائے۔کیونکہ قاعدہ ہے کہ بارِثبوت مدعی پر ہوتا ہے اور رسول کریمﷺ نے بھی یہی فرمایا ہے۔ چونکہ الزام لگانےوالا مدعی ہوتا ہے اس لئے ثبوت لانا بھی الزام لگانے والے کا ہی کام ہے۔عورت کا یہ کام نہیں کہ وہ اپنی پاکدامنی کا ثبوت پیش کرے۔اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو جو شخص الزام لگانےوالا ہو وہ کہہ سکتا ہے کہ اگر چہ میں اتہام کا ثبوت نہیں لا سکا مگر ہے وہ درست۔ورنہ تم ثابت کرو کہ جس پر میں نے الزام لگا یا ہے وہ محصنات میں سے ہے۔بہر حال اتہام لگانے والا اگر شریعت کی بیان کردہ شرائط کے مطابق چار گواہ نہیں لائےگا تو وہ مجرم ہوگا اور اگر لے آئےگا تو جس پر اتہام لگایا گیا ہو وہ مجرم ہو گا۔چونکہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہو سکتاہے کہ کیونکہ قرآن کریم نے چار گواہوں کی شرط لگا ئی ہے اور کیوں دوسرے الزامات کی طرح صرف دو گواہوں پر کفایت نہیں کی اس لئے یہ بتا نا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دو کی بجائے چار گواہوں کی شرط لگانا بتا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس قسم کے واقعات میں کثرت سے جھوٹ بو لا جاتا ہے پس اس وجہ سے زیادہ گواہوں کی شرط لگا دی گئی ہے اور پھر ایک ہی واقعہ کے متعلق چار کی شرط اس لئے لگائی کہ ایک وقت میں پانچ آدمیوں کا اکٹھا ہونا یعنی الزام لگانے والے اور چار گواہوں کا۔ یہ ایک ایسا امر ہے کہ اس کا جھوٹ آسانی سے کھولا جا سکتا ہے اور جرح میں ایسے لوگ اپنے قدم پر نہیں ٹھہر سکتے۔کیونکہ پانچ آدمیوں کا ایک جگہ پر موجود ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جس کا اخفاء مشکل ہو تا ہے اور پانچ آدمی مل کر یہ جھوٹ بہت کم بنا سکتے ہیں کیونکہ اُن میں سے بعض کی نسبت یہ ثابت کرنا آسان ہوتا ہے کہ یہ تو اُس وقت فلا ں جگہ پر بیٹھا تھا۔پس چونکہ زنا ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے بیرونی دلائل نہیں ہوتے جس طرح چوری میں پہلے کسی کے گھر سے مال کا نکلنا ضروری ہے پھرکسی شخص کے پاس ا س کا موجود ہونا ضروری ہے یا قتل میں کسی کا جان سے مارا جانا ضروری ہے۔پھر دوسرے شخص کا اُس جگہ موجود ہونا ضروری ہے اور ایسے شواہد کسی شخص کے متعلق جمع کر دینے اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتے ہیں۔لیکن زنا کےلئے اس کی بیرونی علامات موجود نہیں ہوتیں اس لئے اس پر الزام لگانا آسان ہوتا ہے اس وجہ سے شریعت نے چوری اور قتل کےلئے تو دو گواہوں کی گواہی کو تسلیم کیا۔لیکن بدکاری کے الزام کے متعلق چار گواہوں کی شرط لگائی اور الزام لگانے والوں سے ہمدردی کو بھی سخت جرم قراردیا اور الزام سنتے ہی اس کو جھوٹا قرار دینے کی نصیحت کی۔‘‘(تفسیرکبیر جلد6صفحہ 262۔263)
(جاری ہے)