حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ فرماتے ہیں:
وَ ذَرُوۡا ظَاہِرَ الۡاِثۡمِ وَ بَاطِنَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡسِبُوۡنَ الۡاِثۡمَ سَیُجۡزَوۡنَ بِمَا کَانُوۡا یَقۡتَرِفُوۡنَ (الانعام: 121) اور تم گناہ کے ظاہر اور اس کے باطن (دونوں ) کو ترک کر دو۔ یقیناً وہ لوگ جو گناہ کماتے ہیں وہ ضرور اس کی جزا دئے جائیں گے جو (بُرے کام) وہ کرتے تھے۔
اس آیت میں اِثْم کا لفظ دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اِثْم کے لغوی معنی ہیں گناہ یا جرم یا کسی بھی قسم کی غلطی یا حدود کو توڑنا یا ایسا عمل جو نافرمانی کرواتے ہوئے سزا کا مستحق بنائے۔ یا ایسا عمل یا سوچ جو کسی کو نیکیاں بجالانے سے روکے رکھے۔ یا کوئی بھی غیرقانونی حرکت۔
…اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِثْم کے حوالے سے دو باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ایک حکم یہ ہے کہ تم گناہ کی ظاہری صورت سے بھی بچو اور اس کے باطن سے بھی بچو۔ ہر کام کرنے سے پہلے غور کرو۔ بعض چیزیں اور بعض عمل ایسے ہوتے ہیں جو واضح طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں کہ غلط ہیں اور یہ شیطانی کام ہیں۔ لیکن دوسری قسم کے وہ عمل یا باتیں بھی ہیں جو بظاہر تو اچھے نظر آرہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بدنتائج پر منتج ہوتے ہیں۔ ان کی اصل حقیقت چھپی ہوتی ہے۔ شیطان کہتا ہے کہ یہ کام کرلو کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں لیکن کرنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کام سے یہ ایسا گند ہے جس میں پھنس گیا ہوں اس سے نکلنا مشکل ہے۔ اور پھر ایسا چکر چلتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا گناہ سرزد ہوتا چلا جاتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر چلنے والے کا کام ہے کہ ظاہر برائیاں جو ہیں ان پر بھی نظر رکھے اور باطن اور حقیقی برائیاں جو ہیں جن کے بدنتائج نکل سکتے ہیں ان پر بھی نظر رکھے۔ ہر کام کرنے سے پہلے خداتعالیٰ سے مدد چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے شر سے بچائے، جو بھی اس کام میں شر ہے اس سے بچائے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 05؍ فروری 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 26؍ فروری 2010ء صفحہ 5)