بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر33)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھےجانے والے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروز جوابات)
٭…بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت (چاند گرہن کے وقت)حاملہ عورت نہ سوئے اور نہ ہی کوئی چھری چاقو وغیرہ استعمال کرے، اس کی کیا حقیقت ہے؟
٭…کیاسنت اور نفل نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعات میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنا ضروری ہے؟
٭…آنحضورﷺ کا ارشاد کہ’’میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب حضرت آدم ابھی اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے‘‘ نیز حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کی وضاحت
٭…کیا انسانی جان بچانے کےلیے سؤر کے دل کو بیمار انسان کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کرنا جائز ہے؟
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں سے حاملہ عورتوں پر چاند گرہن کے اثرات کے بارے میں ایک اقتباس بھجوا کر دریافت کیا کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت حاملہ عورت نہ سوئے اور نہ ہی کوئی چھری چاقو وغیرہ استعمال کرے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے چاند، سورج، سیاروں اور ستاروں کو انسان کی خدمت پر مقرر فرمایا ہے۔ اس لیے ان اجرام فلکی سے نکلنے والی شعاعیں اور ذرات مختلف انداز سے زمین اور زمین پر موجود اشیاء پر کئی طریقوں سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں سورج کی طرف دیکھنے سے ہماری بینائی پر کوئی بہت زیادہ بُرا اثر نہیں پڑتا لیکن سورج گرہن کے وقت بعض صورتوں میں سورج کی طرف دیکھنا انسانی بینائی کے ضائع ہونے کا باعث ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہمارے مشاہدہ میں یہ بات بھی ہے کہ سورج کی روشنی کئی قسم کی زمینی بیماریوں کو دور کرنے کا موجب ہوتی ہے اور پھل، پھول، سبزیوں اور فصلوں پر مختلف طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نیز چاند کی روشنی بھی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے اور کئی قسم کی سبزیوں اور پھل پھولوں پر اثر ڈالتی ہے۔
اگرچہ سائنس کی اب تک کی تحقیق چاند گرہن کےحاملہ عورتوں پر اثر انداز ہونے کی نفی کرتی ہے لیکن سائنسدان اس بات کے بہرحال قائل ہیں کہ چاند کی روشنی انسانی نیند پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی طرح سورج سے نکلنے والے خاص قسم کے Neutrinosنامی لاکھوں ذرات انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور جسم میں موجود ایٹم ان ذرات کو جذب کرنے کی وجہ سے ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس تغیر کا کوئی بد اثر انسانی جسم پر یا حاملہ عورت کے جنین پر نہیں ہوتا ہے۔
انسانی علم اور سائنسی تحقیقات اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کے مقابلہ پر بہت ہی معمولی حیثیت رکھتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خود سائنسی تحقیقات بھی مختلف زمانوں میں بدلتی رہی ہیں اور اب بھی ان میں رد ّو بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’گو رات اوردن ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے ظہور کا نام ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی سورج اورچاند اورستاروں کے اثرات ہیں۔ اور ان سے ایسی تاثیرات بھی دنیا پر پڑتی ہیں جو آنکھوں سے نظر آنے والی شعاعوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جیسے برقی یامقناطیسی اثرات۔ اوران کے سوااورکئی قسم کی تاثیرات ہیں جوسائنس روز بروز دریافت کررہی ہے۔ اورکئی وہ شاید کبھی بھی دریافت نہ کرسکے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہار م صفحہ 138)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی مختلف تصانیف میں قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کی زمین اور اہل زمین پر تاثیرات کے مضامین کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ تحفہ گولڑویہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ ستار ے فقط زینت کےلئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ اِن میں تاثیرات ہیں۔ جیسا کہ آیت وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ حِفۡظًا(حٰم السجدۃ:13)سے، یعنی حفظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیساکہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔ یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اورتربد اور سقمونیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہرالعجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔ نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کیلئے پیدا کی گئی ہےتو اب بتلاؤ کہ سماءالدنیاکو لاکھوں ستاروں سے پُر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اور خدا کایہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کےلئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدّن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 282تا283،حاشیہ)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ سائنس کی موجود ہ تحقیق نے سپکٹرم کے ذریعہ سے جوایک ایساآلہ ہے جس کے ذریعہ سے روشنی کی شعاعوں کو پھا ڑ کر الگ الگ کرلیا جا تاہے۔ یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ فلاں ستارے میں فلاں قسم کی دھاتیں ہیں اورفلاں میں فلاں قسم کی۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف روشنی ہی نہیں بلکہ روشنی کے ساتھ مختلف دھاتوں کی تاثیرات بھی دنیا پر اُترتی رہتی ہیں اور ان سے اہل دنیا کے دماغ اورقویٰ پر مختلف اثرات نازل ہوتے رہتے ہیں۔ چاند کی شعاعوں کی تاثیرات توکئی رنگ میں دنیا پر ظاہرہوتی رہتی ہیں۔ عام طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ چاند گرہن جب مکمل ہو توحاملہ عورتوں پر اس کابرااثر پڑتا ہے۔ چنانچہ ایسے وقت میں حاملہ عورتیں کمروں سے باہر نہیں نکلتیں۔ گوعام طور پر اسے وہم سمجھا جاتا ہے۔ مگر میں نے اس سوال پر خاص طورپر غور کیا ہے اورمعلوم کیا ہے کہ جب چاند گرہن مکمل ہو تواس کے بعد بہت سی عورتوں کی زچگی سخت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اوران میں بکثرت موتیں ہوتی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ تکلیف اٹھانے والی عورتیں وہ ہوتی ہیں جو ایسے وقت میں چاند کودیکھتی ہیں۔ یااس کے بغیر بھی ان پر یہ تاثیر عمل کرتی ہے۔ مگر بہرحال میں نے کئی دفعہ اس کا تجربہ کیا ہے اوردوسروں کو بھی بتایا ہے۔ جنہوں نے اپنے تجربہ سے اس کی تصدیق کی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 138تا139)
پس چاند، سورج اور دیگر سیاروں اور ستاروں کی تاثیرات کا زمین اور اہل زمین پر اثر انداز ہونا تو ثابت ہے لیکن گرہن کے وقت حاملہ عورت کے چاقو چھری وغیرہ استعمال کرنے یا اس کے اس وقت میں سونے یا نہ سونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ محض توہمات ہیں۔
سوال: سنت اور نفل نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعات میں سورۃ الفاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کے بارے میں ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے راہنمائی چاہی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍مارچ 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی:
جواب: احادیث میں جس طرح فرض نمازوں کی صرف پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنے کی بابت صراحت پائی جاتی ہے اس طرح کتب احادیث خصوصاً صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کہیں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ سنت اور نفل نمازوں کی چاروں رکعات میں سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن کا کچھ حصہ ضرور پڑھا جائے۔
فقہاء کا بھی اس بارے میں اختلاف ہے۔ چنانچہ مالکی اور حنبلی مسالک والے سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعات میں سورہ فاتحہ کے ساتھ قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھتے ہیں جبکہ حنفی اور شافعی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کوئی حصہ نہیں پڑھتے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جیسا کہ آپ نے بھی اپنے خط میں ذکر کیا ہے اس معاملے میں فرض اور سنت نماز میں کوئی فرق نہیں۔ جس طرح فرض نمازوں کی صرف پہلی دو رکعات میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا جاتا ہے اسی طرح سنت اور نفل نماز وں کی بھی صرف پہلی دورکعات میں ہی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا جائے گا اور تیسری اور چوتھی رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پر ہی اکتفاء کیا جائے گا۔ اور یہی میرا موقف ہے۔
سوال: ایک دوست نے آنحضورﷺ کے ارشاد کہ’’میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب حضرت آدم ابھی اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے‘‘ کی ایک تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر کے اس بارے میں راہنمائی چاہی نیز اس مضمون کے حوالے سے اس دوست نے دو حدیثوں کا حوالہ بھی حضور سے دریافت کیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍مارچ 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے:
جواب: آنحضورﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے غیر معمولی اور بلند مرتبہ مقام کے حوالے سے حضورﷺ کے ارشاد: إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِينَتِهٖ۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلینﷺ )کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) ابھی اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ نیز حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔ (روح المعانی از علامہ آلوسی جزو اوّل صفحہ 70تفسیر سورۃ الفاتحہ۔ داراحیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 1999ء) کہ اے محمد (ﷺ ) اگر تو نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا، کی تشریح میں آپ نے جو نکتہ بیان کیا ہے کہ ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھی حضورﷺ کے مقام خاتم النبیین کے بعد آئے اور زمین و آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو اس مقام پر فائز کرنے کے بعد بنائے، ٹھیک ہے۔ جس کا پرانے علماء نے بھی ذکر کیا ہے اور یہ جماعتی لٹریچر میں بھی بیان ہوا ہے۔
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بانیٔ دیو بند حضرت محمد قاسم نانوتوی کا ایک حوالہ کہ ’’اوّل معنیٰ خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعداور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تأخر زمانی بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلٰكِنْ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی…اگر بالفرض بعد زمانہ نبویﷺ کوئی نبی پیدا ہو توپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘بیان کر کے اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں: ’یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ حضرت اقدس محمدﷺ تو اس وقت بھی خاتم تھے کہ جبکہ انسان کاابھی Blue Printتھا۔ ابھی وہ تخلیق کے تشکیلی مراحل سے گزر رہا تھا۔ تخلیق کو تشکیل دی جارہی تھی۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں مَیں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم ابھی اپنی تخلیق کی مٹی میں لت پت تھا۔ کتنا عظیم الشان مضمون ہے۔ خاتمیت زمانہ سے بالا ہے۔ زمانہ کے ماتحت نہیں ہے۔ خاتم سے پہلے بھی کوئی نبی اس کی نبوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، نہ بعد میں کوئی نبی ایسا آسکتا ہے جو اس کے مقابل پر ہو۔ لیکن بعد میں ایک لازم شرط ہےکہ مطیع ہوگا تو ہوگا ورنہ بالکل نہیں ہوگا۔ غلام آسکتا ہے غیر غلام نہیں آسکتا۔ اور پہلے بھی وہی نبی ہیں جن پر آپ کی مہر تصدیق ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے، بہت عظیم الشان مضمون ہے۔ آنحضرتﷺ کومسلمان خاتم کہہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں بہت عظیم الشان ایک منفرد مرتبہ ہے جو کسی نبی کو حاصل نہیں۔ پوچھو کہ ثبوت کیا ہے؟ تو ان علماء سے پوچھ کے دیکھ لیجئے، کچھ ثبوت ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کیسے پتہ چلا، کیسے دنیا پہ ثابت کر سکتے ہو؟ یہاں جب مغربی دنیا میں مجالس میں لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگوں کے پاس کیا ثبوت ہے؟ میں کہتا ہوں میں تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں۔ اس کا جواب نکال کے دکھاؤ۔ ساری دنیا میں جتنے انبیاء آئے ہیں ایک بھی نبی ایسا نہیں جس نے اپنے سلسلہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے نبیوں کی تصدیق کی ہو۔ چراغ لے کے ڈھونڈو، تلاش کر کے مجھے دکھاؤ۔ ایک بھی نہیں۔ آمَنْتُ بِاللّٰهِ… وَكُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ میں تمام انبیاء پر اور سب رسولوں پر جو ایمان کو لازم قرار دیا ہےوہ ایک ہی تو ہے ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ۔ تو تصدیق کی مہر کس کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت اقدسؐ کے سوا کوئی ہاتھ دکھاؤ تو سہی۔ یہ خاتمیت ہے۔ اس خاتمیت کے اعلیٰ اور ارفع مضمون کوچھوئے بغیر تم زمانی ختم کے اوپر آپڑے ہو اور کچھ پتہ نہیں کہ باتیں کیا کر رہے ہو۔ زمانی ختم مقام مدح میں نہیں ہے۔ مگر یہ ختم جو قرآن بیان فرما رہا ہے یہ ایسی مدح ہے کہ جس کی کوئی مثال دنیا میں دکھائی نہیں جاسکتی۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔ میں تو سب دنیا کو بتا رہا ہوں۔ کسی دنیا کے مذہب کو چیلنج دے دیں آپ کہ تمہارا اگر نبی کوئی بھی نبی صاحب خاتم تھاتو اس کی دوسرے نبیوں پہ تصدیق تو دکھاؤ۔ محمد رسول اللہﷺ کے سوا ایک بھی نہیں جو خاتم النبیین ہو۔ تمام نبیوں کا مصدق ہو۔ پس آئندہ بھی اگر کوئی آئےتو آپ کی تصدیق کے بغیر نہیں آسکتا۔ اسی لیے ہم حقیقت میں جب کہتے ہیں کہ امتی نبی تو مراد امام مہدی اور وہ مسیح موعودہیں جن کی پیشگوئی کی گئی ہے، اس کے سوا ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس پر مہر تصدیق ثبت ہے۔ امام مہدی کے سوا ہم نے کب کسی کو نبی کہا ہے۔ پس وہی امام مہدی ہے اسی کو ہم امتی نبی کہتے ہیں۔‘(ملاقات پروگرام مورخہ31؍جنوری1994ءغیرمطبوعہ)
باقی جو آپ نے حدیثوں کے حوالے پوچھے ہیں تو مشکوٰۃ میں درج حدیث اور اس کا حوالہ اس طرح ہے: عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَؓ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنَّهٗ قَالَ: إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوْبٌ: خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِيْنَتِهٖ وسَاُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ أمْرِيْ دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ وَبَشَارَةُ عِيْسَى وَرُؤْيَا أُمِّيَ الَّتِيْ رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْنِيْ وَقَدْ خَرَجَ لَهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهَا مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ۔ (مشکوۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلینﷺ )یعنی حضرت عرباض ابن ساریہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میراامر (یعنی میری پیدائش کے معاملے کی ابتدا)حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری والدہ کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ میری والدہ کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے شام کے محلات کو ان پر روشن کردیا تھا۔
اور حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کو علامہ آلوسی اور علامہ اسماعیل حقی نے اپنی تفاسیر میں درج کیا ہے۔ جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے اِنِّیْ مَعَ الْاِکْرَامِ۔ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کے الفاظ میں اسے الہام فرمایا۔ نیز حضور علیہ السلام نے اس کا اپنی کتب میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ تفاسیر اور حضور علیہ السلام کی ان کتب کے حوالے حسب ذیل ہیں:
1۔ (روح المعانی از علامہ آلوسی جزو 29 صفحہ 306تفسیر سورۃ النبا زیر آیت 38۔ داراحیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 1999ء)2۔ (روح البیان از علامہ حقی بروسوی جلد6 صفحہ24 تفسیر سورۃ النور زیر آیت 36۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2004ء)3۔ (تذکرہ صفحہ 525 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)4۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102 )
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حال ہی میں امریکہ کے ڈاکٹروں نے انسانی جان بچانے کےلیے سؤر کے دل کو بیمار انسان کے جسم میں ٹرانسپلانٹ کیا ہے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 02؍فروری 2022ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: میں پہلے بھی کسی موقع پر اس بارے میں بتا چکا ہوں کہ جہاں انسانی جان بچانے کا سوال ہو، وہاں اس قسم کے طریق علاج میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ شراب کو بھی اسلام نے حرام قرار دیا ہے لیکن دوائیاں جو انسانی جان بچانے کا موجب ہوتی ہیں، ان میں اس کا استعمال جائز ہے۔ کیونکہ یہ سب اضطرار کی حالتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں سؤر کے گوشت کی حرمت بیان فرمائی ہےوہاں اضطراری حالت میں اس کے استعمال کی اجازت بھی دی ہے۔
پس علاج کے طور پر جان بچانے کےلیے انسانی جسم میں سؤر کے دل کی ٹرانسپلانٹیشن کرنا جو دراصل ایک اضطرار ہی کی حالت ہے، جائز ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
پرانے علماء و فقہاء میں سے بعض کا کہنا ہےکہ سؤر کا گوشت کھانا منع ہے لیکن اس کے بال اور کھال وغیرہ کا استعمال جائز ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کی چربی کھانا بھی جائز ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک عام حالات میں سؤر کی کسی بھی چیز کا ایسا استعمال جو کھانے کے مفہوم میں شامل ہو جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سورۃ البقرہ کی آیت 174 کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں جو لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِفرمایا اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے کہ لحم میں چربی بھی شامل ہے یا نہیں۔ جہاں تک لغت کا سوال ہے شَحْم یعنی چربی کو لَحۡم سے الگ قسم کا خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ لحم کے نام میں شحم شامل ہے۔ گو مفسرین کی دلیل ذوقی ہے اور لغت والوں کی بات اس مسئلہ میں زیادہ قابل اعتبار ہے۔ مگر اس کے باوجود میرے نزدیک سؤر کی شحم یعنی چربی جائز نہیں۔ اور اس کی دلیل میرے پاس یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ مردہ جانور کی چربی حرام ہے۔ اور سؤر کی حرمت اور مردہ کی حرمت ایک ہی آیت میں اور ایک ہی الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ پس دونوں کا حکم ایک قسم کا سمجھا جائے گا۔ لیکن سؤر کی جلد کا استعمال جائز ہوگا کیونکہ وہ کھائی نہیں جاتی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہارم، تفسیر سورۃ النحل صفحہ 260)
اسی طرح اس سوال کہ ٹوتھ برش (tooth brush)کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے، یہ برش اکثر سؤر کے بالوں سے بنائے جاتے ہیں؟ کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’ہماری تحقیقات تو یہ ہے کہ سب کے سب برش سؤر کے بالوں کے نہیں ہوتے۔ باقی رہا سؤر کے بالوں کا استعمال۔ یہ شرعی لحاظ سے جائز ہے۔ کیونکہ سؤر کا گوشت حرام کیا گیا۔ جو کھانے کی چیز ہے۔ اور بال کوئی کھاتا نہیں۔ ایک بڑے بزرگ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ سؤر کی چربی بھی جائز ہے کیونکہ سؤر کا لحم حرام کیا گیا ہے نہ کہ چربی۔ دوسرے فقہاء نے کہا ہے۔ یہ فتویٰ دینے والے کی بزرگی میں تو کلام نہیں مگر اُن کا یہ استدلال غلط ہے۔ ان کوزبان کے لحاظ سے غلطی لگی ہے۔ کیونکہ چربی لحم میں شامل ہوتی ہے۔ انہوں نے علیحدہ سمجھی ہے۔‘‘(اخبار الفضل قادیان دارالامان نمبر5 جلد16، مورخہ17؍جولائی1928ء صفحہ7)
یہودی مذہب میں بھی سؤر کی افزائش اوراس کا کھانا حرام ہے لیکن انسانی جان بچانا چونکہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس لیے عصر حاضر کے یہودی علماء کے نزدیک سؤر سے دل کا حصول یہودی ضوابط خوراک کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں ہے۔
اسی طرح عصر حاضر کے بعض مسلمان علماء نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ اگر مریض کی زندگی ختم ہونے، اس کے کسی عضو کی ناکامی، مرض کے پھیلنے اور شدید تر ہونے، یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سؤر کے دل کے Valve انسان کو لگائے جا سکتے ہیں۔