خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍مئی 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭… باغی مرتدین اور جھوٹے نبیوں کی طرف بھجوائے جانے والی مہمات کا تذکرہ
٭…پہلی مہم طلیحہ بن خویلد، مالک بن نویرہ ،سجاح بنت حارث اور مسیلمہ کذاب کے قلع قمع کےلیے بھجوائی گئی
٭…مسلمانوں نے ام زمل کو قتل کردیا …یوں ارتداد کے اس فتنے کی آگ کا شمال مشرقی حصّے میں خاتمہ ہوگیا
٭…مکرمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ رفیق احمد بٹ صاحب آف سیالکوٹ اورمکرمہ ثریا رشید صاحبہ اہلیہ رشید احمد باجوہ صاحب آف کینیڈا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 06؍مئی 2022ء بمطابق 06؍ہجرت 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 06؍مئی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت صہیب احمدصاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کےبعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
گذشتہ خطبات میں حضرت ابوبکرصدیق ؓکی جانب سے مختلف مہمات بھجوائےجانےکا ذکر ہورہا تھا، ان کی کچھ مزید تفصیل بیان کرتا ہوں تاکہ اس وقت کے حالات کی شدّت کا بھی کچھ اندازہ ہو۔باغی مرتدین اور جھوٹے نبیوں کی طرف گیارہ مہمات بھجوائی گئی تھیں۔ان میں سے پہلی مہم طلیحہ بن خویلد، مالک بن نویرہ ،سجاح بنت حارث اور مسیلمہ کذاب کے قلع قمع کےلیے بھجوائی گئی۔اس مہم کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کا انتخاب کیا اور ان کےلیے جھنڈا باندھتے ہوئےفرمایا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خالد اللہ کابہت ہی اچھا بندہ اور ہمارا بھائی ہے۔ وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔
حضورِانور نےطلیحہ اور عیینہ بن حصن کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ طلیحہ اسدی جھوٹے مدعیانِ نبوت میں سے تھا جو رسول کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دَور میں نمودار ہوا۔ عام الوفود یعنی نَوہجری میں یہ اپنی قوم کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضوراکرمﷺ کی زندگی میں ہی یہ ارتداد کا شکار ہوااور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا۔ سمیراء مقام کو اس نے اپنا فوجی مرکز بنایا۔دیہاتیوں اور سادہ لوح لوگوں کو اس نے چالاکی اور مسجع مقفّٰی عبارتوں کے ذریعے بےوقوف بنایا۔ حضورﷺ نے ضرار اسدی کو اس سے قتال کے لیے روانہ کیا لیکن تب تک اس کی طاقت بہت بڑھ چکی تھی۔یہ صرف جھوٹا مدعی نبوت اور مرتد نہ تھا بلکہ یہ لوگ مسلمانوں سے جنگیں کیا کرتے تھے لہٰذا حضرت ابوبکرؓ نے اپنے دَورِ خلافت میں حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں طلیحہ کی جانب فوج روانہ فرمائی۔
عیینہ بن حصن غزوہ احزاب میں بنو فزارہ کا سردار تھا۔ جن تین لشکروں نے بنی قریظہ کے ساتھ مل کر مدینے پر حملے کا خطرناک ارادہ کیا تھا ان میں سے ایک لشکر کا سردار یہی شخص تھا۔اس نے غزوہ احزاب کے بعد بھی مدینے پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ یہ فتح مکّہ سے پیشتر اسلام قبول کرچکا تھا اور فتح مکہ میں مسلمانوں کے ساتھ شامل تھا۔اس نے غزوہ حنین اور طائف میں بھی شرکت کی تھی۔حضورﷺنے اسے بنو تمیم کی طرف پچاس سواروں کے ساتھ ایک مہم پر بھی بھیجا تھا۔ عہدِ صدیقی میں یہ ارتداد کے فتنے کا شکار ہوکر طلیحہ کی طرف مائل ہوگیا ۔ تاہم بعد میں اسلام کی طرف لوٹ آیا۔
جب طلیحہ نے اردگرد کے قبائل کو اکٹھا کرنا شروع کیا تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عدی کو ان کےاپنے قبیلے بنی طے کی طرف روانہ کیا اور ان کے پیچھے حضرت خالد بن ولید ؓبھی روانہ ہوگئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کو حکم دیا تھا کہ وہ قبیلہ طے کی اطراف سے مہم کا آغاز کریں اور پھر بزاخہ اور بطاح کا رخ کریں اور اس کے بعد اگلے حکم کا انتظار کریں۔
جب حضرت خالدؓ سنح مقام پر حضرت عدی سے ملے تو حضرت عدی نے حضرت خالدؓ سے تین دن کی مہلت چاہی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ تین دن میں ان کی قوم اسلامی لشکر میں شامل ہوجائے گی۔ حضرت عدی نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو جو طلیحہ کے لشکر میں شامل ہوگئے تھے پیغام بھجوایا کہ اسلامی لشکر تمہاری قوم پر حملہ آور ہورہا ہے اس لیے فوراً مدد کےلیے آؤ۔ چنانچہ ان کی قوم کے افراد واپس آگئے۔ ایک مصنف نے لکھا ہے کہ یہ حضرت عدی کا بہت بڑا کارنامہ ہےکہ انہوں نے اپنی قوم کو اسلامی لشکر میں شمولیت کی دعوت دی۔ بنو طے کی خالدؓ کے لشکر میں شمولیت دشمن کی پہلی شکست تھی کیونکہ قبیلہ طے کا شمار عرب کے قوی ترین قبائل میں ہوتا تھا۔ حضرت عدی کی کوششوں سے قبیلہ جدیلہ نے بھی اسلام قبول کرلیااور یوں مزید ایک ہزار سوارمسلمانوں کے پاس آگئے۔ اس کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓنے طلیحہ کی جانب پیش قدمی کی۔ بزاخہ مقام پر دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ عیینہ اور طلیحہ دونوں مسلمانوں کے مقابل پر ساتھ مل گئے اورعیینہ نے سات سَو افرادکے ساتھ طلیحہ کی معیت میں سخت لڑائی کی۔ جب لڑائی میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہوا تو عیینہ باربار طلیحہ کے پاس آیا اور اس سے جبرئیل کی آمد کا پوچھتا رہا۔ بالآخر اس نے اپنی قوم سے کہا کہ یہ طلیحہ جھوٹا نبی ہے اور یہ کہتے ہوئےبنو فزارہ لڑائی سے الگ ہوگئے۔ طلیحہ شکست کو سامنے دیکھ کر اپنی بیوی کے ہمراہ فرار ہوگیا اور اس کی جماعت پراگندہ ہوگئی۔ ایک اور روایت کے مطابق طلیحہ نقع میں بنو کلب کے پاس مقیم ہوگیاتھا اور وہاں اس نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
اہلِ بزاخہ کی شکست کےبعد بنوعامر آئے اور انہوں نےکہا کہ ہم اس دین میں داخل ہوتے ہیں جس سے ہم نکل گئے تھے۔حضرت خالدؓ نے اسد، غطفان، ہوازن، سلیم اور طے ان تمام قبائل کی بیعت اس صورت میں لی کہ وہ اپنے اُن لوگوں کو مسلمانوں کے حوالے کردیں جنہوں نے ارتداد کی حالت میں مسلمانوں کو جلایا اور ان کا مثلہ کیا تھا۔
حضرت خالدؓ نے اپنی اس مساعی کی اطلاع حضرت ابوبکرؓ کو بذریعہ خط بھجوائی تو حضرت ابوبکرؓ نے اس پر اظہارِ خوشنودی فرمایا اورحضرت خالدؓکو تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔
حضرت خالدؓ نے عیینہ بن حصن اور قرہ بن ھبیرہ کو قیدکرکے حضرت ابوبکرؓ کےپاس بھیج دیا۔ قرہ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ مَیں مسلمان ہوں اور حضرت عمرو بن عاصؓ میرے اسلام کے گواہ ہیں۔ حضرت عمروؓ نے ساری تفصیل حضرت ابوبکرؓ کے سامنے بیان کی۔قرہ دراصل زکوٰة کا انکار کرتا رہاتھا تاہم نئی صورتِ حال میں حضرت ابوبکرؓ نے اس سے درگزر کا سلوک فرمایا۔اسی طرح آپؓ نے عیینہ بن حصن سے بھی درگزر کا سلوک فرمایا اور اس کی جان بخشی کردی۔ جھوٹے مدعی نبوت اور باغی طلیحہ اسدی نے بھی اسلام قبول کرلیا تھا۔ طلیحہ حضرت عمرؓ کی بیعت کرنے آیا توآپؓ نے اس سے کہا کہ تم عکاشہ اور ثابت کے قاتل ہو۔ بخدا ! مَیں کبھی تمہیں پسند نہیں کرسکتا۔ طلیحہ نے جواباً کہا کہ ان دو اشخاص کا کیا غم جنہیں اللہ نے میرے ہاتھوں سے عزت دی اور آج مَیں اسلام قبول کرکے اللہ کا فضل پانے والا بن رہا ہوں۔
عراق کی جنگوں میں طلیحہ نے ایرانیوں کے مقابلے میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور جنگِ نہاوند 21ہجری میں شہید ہوا۔
اس کےبعد حضرت خالدؓ ام زمل سلمیٰ بنت ام قرفہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ یہ عورت عزت و شہرت، قوت و حفاظت میں اپنی ماں امِ قرفہ کے مشابہ تھی۔ ام قرفہ نے مدینے پر حملے اور رسول کریمﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی تھی۔ اس کی طرف چھ ہجری میں ایک سریہ بھی روانہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح اس نے ایک موقعے پر مسلمانوں کا تجارتی مال بھی لوٹ لیا تھا۔ غطفان، طے،سلیم اور ہوازن میں سے بعض افراد شکست کے بعد ام زمل کے پاس آگئے تھے۔ اس سے قبل ام زمل قید ہوکر آئی تھی اور حضرت عائشہؓ نےاسے آزاد کردیا تھا۔ واپس جاکر یہ مرتد ہوگئی تھی۔ ام زمل کے مقابلے میں حضرت خالد ؓکی سپاہ بڑی بہادری سے لڑی ۔دونوں لشکروں میں بڑے زور کا معرکہ ہوا۔ ام زمل اپنی ماں کی طرح بڑی بےجگری سے لڑائی کرتی رہی۔ بالآخر مسلمانوں نے ام زمل کو قتل کردیا۔ اس کے ساتھی بدحواس ہوکر بھاگ نکلے۔ یوں ارتداد کے اس فتنے کی آگ کا شمال مشرقی حصّے میں خاتمہ ہوگیا۔
حضرت ابوبکرؓکا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل دو مرحومین کاذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ پڑھانےکا اعلان فرمایا۔
1۔مکرمہ صابرہ بیگم صاحبہ اہلیہ رفیق احمد بٹ صاحب آف سیالکوٹ جو گذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کے ایک بیٹے مکرم نسیم احمد بٹ مربی سلسلہ نائیجیریا میں خدمات بجا لارہے ہیں اور میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے والدہ کے جنازے اورتدفین میں شامل نہیں ہوسکے۔ مرحومہ صوم وصلوٰة کی پابند، دعاگو، مہمان نواز، غریب پرور اور خلافت سے گہری وابستگی رکھنے والی خاتون تھیں۔
2۔مکرمہ ثریا رشید صاحبہ اہلیہ رشید احمد باجوہ صاحب جو 20؍اپریل کو کینیڈا میں وفات پاگئی تھیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کے ایک بیٹے مکرم سفیر احمد باجوہ صاحب ربوہ میں مربی سلسلہ ہیں جووالدہ کے جنازے اور تدفین میں شامل نہیں ہوسکے تھے۔ اسی طرح ایک بیٹی بھی مربی سلسلہ کی اہلیہ ہیں۔ مرحومہ تقویٰ شعار، دعاگو، مہمان نواز، ملنسار اور جماعت کی خدمت کرنے والی بڑی نیک خاتون تھی۔
حضورِانور نے دونوں مرحوم خواتین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی۔