بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے
یورپ کی طرح بے پردگی پر بھی لوگ زور دے رہے ہیں لیکن یہ ہرگز مناسب نہیں۔ یہی عورتوں کی آزادی فسق وفجور کی جڑ ہے۔ جن ممالک نے اس قسم کی آزادی کو روا رکھا ہے ذرا ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرو۔ اگر اس کی آزادی اور بے پردگی سے ان کی عفّت اور پاک دامنی بڑھ گئی ہے تو ہم مان لیں گے کہ ہم غلطی پر ہیں۔ لیکن یہ بات بہت ہی صاف ہے کہ جب مرد اور عورت جوان ہوں اور آزادی اور بے پردگی بھی ہو تو ان کے تعلقات کس قدر خطرناک ہوں گے۔ بدنظر ڈالنی اور نفس کے جذبات سے اکثر مغلوب ہو جانا انسان کا خاصہ ہے۔ پھر جس حالت میں کہ پردہ میں بے اعتدالیاں ہوتی ہیں اور فسق و فجور کے مرتکب ہو جاتے ہیں تو آزادی میں کیا کچھ نہ ہو گا۔ مَردوں کی حالت کا اندازہ کرو کہ وہ کس طرح بے لگام گھوڑے کی طرح ہو گئے ہیں۔ نہ خدا کا خوف رہا ہے، نہ آخرت کا یقین ہے۔ دنیاوی لذات کو اپنا معبود بنا رکھا ہے۔ پس سب سے اوّل ضروری ہے کہ اس آزادی اور بے پردگی سے پہلے مردوں کی اخلاقی حالت درست کرو۔ اگر یہ درست ہو جاوے اور مَردوں میں کم ازکم اس قدر قوت ہو کہ وہ اپنے نفسانی جذبات کے مغلوب نہ ہو سکیں تو اُس وقت اِس بحث کو چھیڑو کہ آیا پردہ ضروری ہے کہ نہیں۔ ورنہ موجودہ حالت میں اس بات پر زور دینا کہ آزادی اور بے پردگی ہو گویا بکریوں کو شیروں کے آگے رکھ دینا ہے۔ اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کسی بات کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے۔ کم از کم اپنے کانشنس سے ہی کام لیں کہ آیا مردوں کی حالت ایسی اصلاح شدہ ہے کہ عورتوں کو بے پردہ ان کے سامنے رکھا جاوے…
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 134-135، ایڈیشن 1984ء)