صداقتِ اسلام اور ذرائع ترقیٔ اسلام (قسط نمبر 2)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ، فرمودہ 22؍فروری 1920ءبمقام بندے ماترم ہال (امرتسر)
اسلام خدا تعالیٰ سے بندہ کا تعلق قائم کرتا ہے
اس بات کو مد ِّنظر رکھ کر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام خدا تعالیٰ سے بندہ کا تعلق جوڑتا ہے یا نہیں۔ اگر جوڑتا ہے تو پھر اس بات کے ماننے میں کسی قسم کا شبہ نہیں رہ جاتا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس کے ذریعہ انسان کو نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ اس کے متعلق قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے اور قرآن علی الاعلان کہتا ہے کہ جو شخص مجھ پر عمل کرتا ہے مَیں خدا تعالیٰ سے اس کی اتنی محبت بڑھا دیتا ہوں کہ اور کسی ذریعہ سے اتنی محبت حاصل ہونی ممکن ہی نہیں۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَقُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہۡدِیۡ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَمَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنۡ ہَادٍ۔ (الزمر: 24)خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہم نے قرآن ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں بہتر سے بہتر تعلیم دی گئی ہے۔ یہ نہیں کہ صرف اس کے اندر اچھی تعلیم ہے اور باقی سب میں بری۔ بلکہ یہ کہ اس کے اندر سب سے اعلیٰ اور اچھی تعلیم دی گئی ہے۔ یہاں خدا تعالیٰ نےاس بات سے انکار نہیں کیا کہ دوسرے مذاہب کی کتابوں میں اچھی تعلیم نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ یہ تعلیم بہتر سے بہتر ہے۔ گویا اس کی کوئی بات کسی دوسری بات کے خلاف نہیں۔ بلکہ ہر ایک بات ایک دوسری کی تصدیق اور تائید کرتی ہے۔ اور اس کی تفصیلات میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ وہ ایک ایسی اصل پر قائم ہیں کہ اس سے اِدھر اُدھر نہیں ہوتیں۔ پھر وہ ایسی تعلیم ہے کہ مثانی یعنی بار بار دہرائی جاتی ہے۔ گویا اس میں ایسی روحانی طاقت اور قوت ہے کہ انسان کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے اور اس کے اندر ایسی کشش ہے کہ جو سُنتا ہے اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ جس طرح جب کوئی اپنے محبوب کی آواز ایک بار سُنتا ہے۔ وہ پھر سُنتا ہے تو چاہتا ہے کہ پھر سنوں۔ اسی طرح قرآن کی آواز جو سنتا ہے وہ پھر سنتا ہے اور پھر سُنتا ہے۔ اسی طرح اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ چونکہ قرآن کی تعلیم ہر زمانہ اور ہر صدی کے لئے ضروری ہے اس لئے ہر زمانہ میں دہرائی جاتی ہے اور تازہ کی جاتی ہے مٹائی نہیں جاتی۔ پھر اس کی خوبی یہ ہے کہ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ اس سے جلدوں پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے جلال، اس کی قوت، اس کی شان، اس کی شوکت کا بیان اس میں ایسا صاف صاف ہے کہ جب کوئی پڑھتا ہے تو خواہ دین سے کتنا ہی دُور ہو خدا کے خوف سے اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پھر تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ صرف خوف اور ڈر تو ڈراؤنی چیزوں سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس سے صرف خوف نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ہی محبت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ خوف دو قسم کی چیزوں سے پیدا ہوا کرتا ہے۔ ایک ایسی چیزوں سے جو ڈراؤنی ہوں اور دوسری وہ جو شان و شوکت والی ہوں۔ لیکن ڈراؤنی چیزوں سے صرف خوف پیدا ہوتا ہے۔ بلکہ چونکہ یہ شان والی ہے اس لئے اس کی عظمت اور شان کی وجہ سے اس کا خوف پیدا ہوتا ہے جس کے ساتھ محبت بھی ہوتی ہے چنانچہ فرماتا ہے ان کی جلدیں محبت سے نرم ہوجاتی ہیں۔ تو قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس میں سب سے بہتر تعلیم ہے اور جیسا کہ مَیںنے بتایا ہےوہی مذہب سچا ہوسکتا ہے جو یہ کہے کہ مَیں سب سے بہتر تعلیم پیش کرتا ہوں۔ نہ وہ جو یہ کہے کہ اور کسی مذہب میں کوئی سچائی ہی نہیں۔ پھر وہ مذہب سچا ہوسکتا ہے جو ایسی تعلیم دے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے اور قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ میرے اندر وہ رستہ موجود ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتاہے۔
اب ہم قرآن کے اس دعویٰ پر نظر کرتے ہیں کہ آیا یہ ٹھیک ہے کہ قرآن خدا تعالیٰ سے انسان کا تعلق پیدا کر دیتا ہے۔ مگر اس مسئلہ کے دیکھنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان کا جو تعلق ہوتا ہے وہ کس طرح ہوتا ہے۔ کسی چیز کے اچھا ہونے کا سائینٹیفک ذریعہ سے اس طرح ثبوت مل سکتا ہے کہ اس کے لئے طریق کیا بتایا گیا ہے۔ اگر وہ طریق صحیح ہو تو خواہ اس کو ماننے کا دعویٰ کرنے والوں کی حالت کیسی ہی ہو اس سے اس مذہب پر کوئی الزام نہیں آسکتا۔ بلکہ یہی کہا جائے گا کہ انہوں نے اس طریق پر عمل نہیں کیا۔ مثلاً کوئی شخص جیل خانہ میں جائے اوروہاں ہندوؤں، سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو دیکھے اور کہے کہ سب کے مذاہب جھوٹے ہیں کیونکہ اگر سچا مذہب رکھتے ہوتے تو جیل خانہ میں نہ پڑے ہوتے۔ تو یہ درست نہیں ہوگا کیونکہ انہوں نے اپنے اپنے مذہب کے خلاف کیا تب جیل خانہ میں ڈالے گئے۔ اگر اپنے اپنے مذہب کے احکام کی پابندی کرتے تو ایسا نہ ہوتا۔ پس کسی مذہب کو سچا معلوم کرنے کے لئے یہ دیکھنا چاہیئے کہ آیا اس نے ایسے اصول بتائے ہیں یا نہیں جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوسکتا ہے۔ اگر بتائے ہوں لیکن اس مذہب کے ماننے والے ایسے لوگ نظر آئیں جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہے تو یہی کہا جائے گا کہ ان کا اپنا قصور ہے نہ کہ اس مذہب میں نقص ہے۔ جیسے کونین تپ میں فائدہ دیتی ہے لیکن اگر کوئی کونین کو ہاتھ میں دبائے رکھے یا جیب میں ڈالے رکھے اور کہے کہ مجھے اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو اسے کہا جائے گا کہ کھانے سے فائدہ ہوا کرتاہے نہ کہ ہاتھ میں پکڑنےیا جیب میں ڈالے رکھنے سے۔ اسی طرح مذہب کا فائدہ بھی اسی کو ہوسکتا ہے جو اس پر عمل کرے نہ کہ صرف منہ سے اس کے ماننے کا دعویٰ کرے۔
خداتعالیٰ سے تعلق کن ذرائع سے پیدا ہوسکتا ہے؟
اب اس بات کو مدنظر رکھ کر ہم دیکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ سے تعلق کن ذرائع سے پیدا ہوسکتاہے۔ دنیا میں کسی سے تعلق پیدا ہونے کے دو طریق ہیں۔ تعلق یا تو محبت سے پیدا ہوتا ہے یا خوف سے۔ اب ہم اسلام کی تعلیم پر غور کر کے دیکھیں گے کہ آیا اسلام نے ایسی تعلیم دی ہے کہ جس سے خدا تعالیٰ سے کمال درجہ کی محبت اور خوف پیدا ہوتا ہے یا نہیں اگر دی ہے تو ثابت ہوگیا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو خدا تعالیٰ سے ملانے کا صحیح رستہ بتاتا ہے گو دوسرے مذاہب میں بھی خوبیاں ہیں اور اگریہ ثابت نہ ہو تو پھر ماننا پڑے گا کہ اسلام کے سوا کسی اور مذہب کی تلاش کرنی چاہیئے۔
قرآن شریف میں ان ذرائع سے کس طرح کام لیا گیا ہے؟
اس کے لئے میں قرآن کریم کی تفصیلات کو چھوڑ کر سورة فاتحہ کو لیتا ہوں۔ جو پہلی سورة ہے اور جس میں صرف سات آیتیں ہیں دُنیا کے تمام فلسفے اس بات پر متفق ہیں کہ تعلق قائم رکھنے کے لئے پہلے محبت سے کام لینا چاہیئےاور پھر خوف سے۔ مثلاً بچہ کو صبح پڑھنے بھیجنے کے لئے پہلے محبت سے کہا جائے گا بیٹا پڑھنے جاؤ یہ نہیں کہ اُٹھتے ہی اس کےمنہ پر تھپڑ ماردیں۔ اور اگر نہ مانے تو کہیں گے لو یہ مٹھائی لو اور جاؤ یا آکر لے لینا۔ اس پر بھی اگر وہ نہ مانے تو پھر ماریں گے۔ گویا پہلے محبت سے بھیجا جائے گا اور پھر خوف سے۔ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ قرآن نے اسی طبعی طریقہ کو خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے لئے برتا ہے یا نہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کو شروع ہی اَلْحَمْدُ سے کیا گیا ہے جس میں محبت کا ذکر ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصل جو ایک مدت کی تحقیقات کے بعد ثابت کیا گیا ہے اسے قرآن نے بہت عرصہ قبل بیان کر دیا ہے۔ پھر تعلق دو وجہ سے ہوا کرتا ہے۔ یا تو اس طرح کہ کوئی چیز اپنی ذات میں پیاری لگتی ہے یا اس سے فائدے پہنچتے ہیں۔ جیسا کہ انگریزی دانوں میں محاورہ ہے کہ نیکی کو نیکی کی خاطر قبول کرنا چاہیئے۔ ان دونوں اصول کے متعلق دیکھتے ہیں کہ قرآن کیا کہتا ہے۔
سورة فاتحہ کی لطیف تفسیر
سورہ فاتحہ میں دونوں باتوں کو لیا گیا ہے اور اس میں ایسے اُصول بیان کئے گئے ہیں کہ ممکن نہیں اگر انسان ان پر عمل کرےتو خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق نہ پیدا ہو۔ چنانچہ فرماتاہے۔ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ اللہ نام ہے خدا کا اور اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہستی جس میں کوئی نقص نہیں اور تمام خوبیوں کی جامع ہے۔ دُنیامیں لوگ ایسی چیزوں سے محبت کرتے ہیں جو سب خوبیوں سے متصف نہیں ہوتیں اور ایسی نہیں ہوتیں کہ ان میں کسی قسم کا نقص نہ پایا جاتا ہو مثلاً عورتوں پر عاشق ہوتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ جس عورت پر کوئی عاشق ہوتا ہے وہ دنیا کے سارے حسن کی جامع ہوتی ہے۔ قصہ مشہور ہے کہ لیلیٰ کو دیکھ کر کسی نے مجنوں کو کہا تھا کہ وہ تو کوئی خوبصورت نہیں تم کیوں عاشق ہو؟ مجنوں نے کہا لیلیٰ کو میری آنکھ سے دیکھنا چاہئے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ لیلیٰ را بچشم مجنوں بائد دید۔ تو کوئی عورت ایسی نہیں ہو سکتی جو تمام حسن کی جامع ہو اور نہ ہی کوئی اورچیز ایسی ہو سکتی ہے جس میں کوئی نقص نہ پایا جاتا ہو۔ مگر خدا ایسا ہے کہ تمام خوبیوں کا جامع ہے اور تمام نقصوں سے پاک ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ اللہ ہی وہ ہستی ہے جو تمام خوبیوں کی جامع ہے۔ ہم چاند کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور خوش نما پہاڑوں کو دیکھ کر مسرت حاصل کرتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ ہمیں کچھ دیتے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ اپنی ذات میں اچھے لگتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتاہے۔ الْحَمْدُ لِلّٰهِ۔ اے انسان اگر تو ان لوگوں میں سے ہے جو چیز کی ذاتی خوبی کی وجہ سے اس سے محبت کرتے ہیں تو آ مَیں تجھے بتاؤں کہ اسلام وہ خدا دکھاتا ہے جو تمام نقصوں سےپاک اور تمام خوبیوں کا جامع ہے۔ لیکن چونکہ تمام فطرتیں ایسی نہیں ہوتیں کہ صرف یہ جان کر کسی چیز سے محبت کریں کہ وہ اپنی ذات میں اچھی ہے بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں فائدہ بھی پہنچائے گو یہ گری ہوئی فطرت کے انسان ہوتے ہیں ان کے متعلق فرماتا ہے۔ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ اگر تم چاہتے ہو کہ وہ اپنے حسن کے علاوہ تم پر احسان بھی کرے تو آؤ تمہیں بتائیں خدا وہ ہے کہ جو تمہیں پیدا کرتا اور پھر ادنیٰ اور گری ہوئی حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ درجہ پر پہنچاتا ہے مثلاً انسان کے جسم کا کوئی حصہ گیہوں سے بنتا ہے کوئی چنے سے کوئی جَو سے یا اور وہ چیزیں جو انسان کھاتا ہے ان سے ایک مادہ بنتا ہے اور اس کا آگے انسان تیار ہو کر صفحہ دنیا پر آ جاتا اور بڑے بڑے کام کرتا ہے۔ یہ سب خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے ہی کھیل ہیں۔ تو فرمایا۔ اللہ تمہارا رب اورتمہارا محسن ہے۔ پھر ایک دو کا نہیں بلکہ رب العالمین سب کا ہے۔ خواہ کوئی یورپ کا رہنے والا ہو یا افریقہ کا یا امریکہ کا۔ پھر کسی مذہب کا ہو وہ سب کا رب ہے۔ حتّٰی کہ حیوانوں اور پرندوں کا بھی رب ہے۔ حیوانوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو اگر دیکھا جائے تو عجیب نظارہ نظر آتا ہے۔ دیکھو انسان بیلوں سے ہل چلاتا ہے اور کھیت بوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اگر انسان کو کھیت میں سے صرف دانے ہی حاصل ہوتے تو وہ بیلوں وغیرہ کو کھانے کے لئے غلہ نہ دیتا اس لئے دانوں کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے تُوڑی رکھ دی ہے کہ یہ ان کا حصہ ہے جو انسان کے ساتھ کام کرنے والے تھے۔ تو خدا تعالیٰ نے ہر ایک مخلوق کا حصہ رکھا ہوا ہے اور اس کو رزق پہنچاتا ہے۔ حتّٰی کہ ایسی جگہ جہاں انسان کے خیال میں بھی نہیں آسکتا کہ کس طرح رزق پہنچ سکتا ہے۔ یعنی زمین کے نیچے یا سمندر کے اندر وہاں بھی جو مخلوق ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ نے وہیں خوراک رکھی ہوئی ہے۔ تو فرمایا اللہ ایسا ہے جو تمام کے تمام جانداروں پر احسان کرنے والا ہے۔ پھر احسان تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو زمانہ ماضی میں کیا گیا ہو۔ دوسرا وہ جو زمانہ حال میں کیا جائے۔ تیسرا وہ جو زمانہ آئندہ میں کیا جانے والا ہو۔ اور دنیا میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی قدیم احسان کا خاص لحاظ کرتے ہیں۔ کئی ایسے ہوتے ہیں جو حال کے احسان کی قدر کرتے ہیں اور کئی ایسے ہوتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے احسان کو بڑا سمجھتے ہیں۔ یہاں خدا تعالیٰ نے ان تینوں قسم کے لوگوں کے متعلق فرمایا۔ خدا رب العالمین ہے۔ یعنی فطرتیں جو زمانہ ماضی کے احسان کو یاد رکھنے والی ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان پر وہی خدا احسان کر رہا ہے اور جو آئندہ کے احسان کا خیال رکھتی ہیں ان کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان پر بھی خدا ہی احسان کرے گا۔ اس لئے وہی ایک ایسی ذات ہے جس سے محبت کرنی چاہئے۔
(جاری ہے)