خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ فرمودہ 03؍جون 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے دَور میں ہونے والی جنگ یمامہ کے حالات و واقعات کا تذکرہ
٭…مسیلمہ کذاب کے قتل کے واقعہ کا بیان
٭…مخالفانہ حالات کے باعث پاکستان، الجزائر اور افغانستان میں بسنے والے احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک
٭…تین مرحومین مکرم نسیم مہدی صاحب (مبلغ سلسلہ)، عزیزم محمد احمد شارم اور مکرمہ سلیمہ قمر صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍جون 2022ء بمطابق 03؍احسان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 03؍جون 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:
حضرت ابوبکرصدیقؓ کا ذکر چل رہاتھااس ضمن میں آنحضرتﷺ کےوصال کےفوری بعد منافقین اور مخالفین سےجو لڑائیاں ہوئیں اس میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی مسیلمہ کذاب سے ہونےوالی جنگ کاذکر ہوا تھا۔اس حوالے سے مختلف مسلمان گروہوں کے عَلم برداروں کی بہادری کا ذکر ہوا تھا۔ اس معرکے میں انصار کا جھنڈا حضرت ثابت بن قیسؓ کے پاس تھا اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن خطابؓ کے پاس۔ حضرت زید بن خطابؓ نے لوگوں کو مضبوطی سے دشمن کے مقابلے کا درس دیا اور اللہ کی قسم کھا کرکہا کہ مَیں اس وقت تک بات نہیں کروں گا جب تک اللہ انہیں شکست دے یا مَیں اللہ سے جاملوں۔ آپؓ حضرت عمرؓ کے سوتیلے بھائی اور شروع میں اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ جنگِ بدر اور بعد کے غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ ہجرتِ مدینہ کےبعد حضورﷺ نے ان کی مؤاخات معن بن عدی کے ساتھ قائم فرمائی تھی اور دونوں ہی جنگِ یمامہ میں شہید ہوگئے۔
حضرت زید بن خطابؓ کی شہادت کے بعد پرچم سالم مولیٰ ابی حذیفہ نے تھاما۔جب حضرت زید ؓکی شہادت کی خبر حضرت عمرؓ کو ملی تو آپ نے فرمایا کہ زید دو نیکیوں میں مجھ سے آگے نکل گیا یعنی مجھ سے پہلے اسلام قبول کیا اور مجھ سے پہلے شہید ہوگئے۔ حضرت عمرؓ اکثر فرمایا کرتے کہ جب بادِ صبا چلتی ہے تو زید کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
جنگِ یمامہ میں حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ بھانپ لیا تھاکہ جب تک مسیلمہ زندہ ہے یہ جنگ ختم نہیں ہوگی چنانچہ آپؓ نے انفرادی مقابلےکےلیے آواز لگائی اور جو جو مقابلےپر آیا آپؓ نے اسے قتل کردیا۔ پھر حضرت خالدؓ نے مسیلمہ کومقابلےکی دعوت دی جو اس نے قبول کرلی لیکن حضرت خالدؓ کا پُرزور وار دیکھ کر مسیلمہ بھاگ نکلا اور اس کے ساتھی بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔بنو حنیفہ اپنے ایک سردار محکم بن طفیل کے کہنے پر میدانِ جنگ سے ملحق ایک باغ میں داخل ہوگئے۔ اس معرکے میں مسلمانوں نے انتہائی صبرواستقامت کا ثبوت دیااور بڑی بےجگری سے لڑے۔ جب بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کرلیا توحضرت براء بن مالک ؓنے کہا کہ مجھے باغ کے اندر پھینک دومَیں اندر جاکر دروازہ کھول دوں گا۔ ابتداءً مسلمانوں نے اس بات کوقبول نہ کیا لیکن آپؓ کے اصرار پر آپ کو اٹھا کر باغ میں پھینک دیا۔ آپؓ نے بڑی جاں فشانی سے لڑتے لڑتے دروازہ کھول دیا اور یوں مسلمان باغ میں داخل ہوگئے۔ ایک روایت کےمطابق صرف حضرت براء بن مالکؓ نے نہیں بلکہ اور بھی کئی مسلمانوں نے دیوار کود کر دروازے کا رُخ کیا تھا۔ مسیلمہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا تھا اور بچاؤ کےلیے دیوار پر چڑھنا چاہتا تھا اور غصے سے پاگل ہوچکا تھا۔ وحشی بن حرب جنہوں نے جنگِ احد میں حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھاوہ آگے بڑھے اور اپنا وہی برچھا پھینکا جو مسیلمہ کو جالگا اور دوسری طرف سے پار ہوگیا۔ پھر ابودجانہ سماک بن خرشہ نے تلوار کے وار سے مسیلمہ کو ڈھیر کردیا۔ مسیلمہ کو کس نے جہنم واصل کیا اس سے متعلق مختلف نام روایات میں مذکور ہیں۔ خود وحشی بن حرب نے ایک تفصیلی روایت میں حضرت حمزہؓ کے قتل، پھر فتح مکہ کےبعد اپنےطائف بھاگ نکلنے اور بالآخر اسلام قبول کرکے مسیلمہ کذاب کے قتل کی روایت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم دونوں یعنی انصاری صحابی اور حضرت وحشی میں سے کس نے مسیلمہ کو قتل کیا۔ لیکن اگر مَیں نے اسے مارا تو رسول اللہﷺ کےبعد سب سے بہترین شخص یعنی حضرت حمزہؓ کےقتل کا ارتکاب بھی مَیں نے کیا اور سب سے بدترین شخص کو بھی مَیں نے ہی مارا۔
آنحضورﷺ نے جو وحشی بن حرب کو یہ فرمایا تھا کہ کیا تمہارے لیے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ۔ اس کی شرح میں حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ آنحضرتﷺ کے الفاظ وھل تستطیع ان تغیب وجھک عنی بہت بلند اخلاق کے آئینہ دار ہیں۔ یہ لب و لہجہ آمرانہ نہیں بلکہ التماس کا لہجہ ہے۔اِس سے اُس محبت کا پتا چلتا ہے جو حضرت حمزہؓ کےلیے آپؐ کے دل میں تھی۔
جنگِ یمامہ کی تفصیل ایک اور جگہ بیان ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کی جرأت اور دلیری کایوں ذکر ملتا ہے کہ جب دونوں لشکروں میں گھمسان کا رن پڑا تو مسلمانوں میں سے حفاظ بھی بکثرت شہید ہوئے۔جب لوگ پراگندہ ہوئےتوسالم مولیٰ ابی حذیفہ اورثابت دونوں نے اپنی نصف پنڈلیوں تک گڑھے کھودے او ر پرچموں کو اپنے ساتھ چمٹا کر ثابت قدم رہے یہاں تک کہ شہید کردیے گئے۔ شدید لڑائی میں تین دفعہ مسلمانوں کے قدم اکھڑے اور چوتھی دفعہ مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا تو ان کے قدم جم گئےاوروہ تلواروں کے سامنے ڈٹ گئے۔حضرت عمار بن یاسرؓ چٹان پر چڑھ کر مسلمانوں کو حوصلہ دےرہے تھے۔ وحشی کہتے ہیں کہ اس روز مَیں نے خوب تلوار چلائی یہاں تک کہ وہ تلوار میرے ہاتھ میں دستے تک خون سے بھرگئی۔حضرت ابودجانہؓ پر جب بنو حنیفہ کے ایک گروہ نے حملہ کیا تو آپؓ اپنے سامنے اور دائیں بائیں ہر طرف نہایت شجاعت اور بہادری سے تلوار چلاتےرہے۔ جب دشمنوں نے باغ میں پناہ لی توابودجانہ نے کہا کہ مجھے ڈھال میں ڈال کر باغ کے اندر پھینک دو چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ راوی کہتے ہیں کہ جب ہم باغ میں داخل ہوئے تو آپؓ شہید ہوچکےتھے۔
یہ ذکرآئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانےکےبعد حضورِانور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے پاکستان اور بالخصوص پاکستانی احمدیوں کے لیے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستان کے عمومی حالات تو جو بگڑ رہے ہیں وہ تو ہیں ہی، لیکن پاکستان میں احمدیوں کی مخالفت بھی بڑھ رہی ہے۔ پرانی قبریں اکھیڑنے سے بھی انہوں نے گریز نہیں کیا۔ انتہائی بدطینت لوگ ہیں خدا ان کی پکڑ کرے۔ الجزائر کے احمدیوں کےلیے بھی دعا کریں وہ بھی آج کل مشکلات میں گرفتار ہیں۔ افغانستان کے احمدیوں کےلیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل نازل فرمائے۔
خطبے کے دوسرے حصّےمیں حضورِانور نے درج ذیل تین مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کااعلان فرمایا:
1۔ مکرم نسیم مہدی صاحب ابن مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب جو گذشتہ دنوں 69برس کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم کی دو شادیاں تھیں آپ کی پہلی اہلیہ وفات پاچکی ہیں۔ 1976ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ سے فارغ التحصیل ہونےکے بعد اصلاح وارشاد مقامی میں خدمت کا موقع ملا۔ پھر 1983ء میں مبلغ سوئٹزرلینڈ کے طور پر تقرر ہوا۔ 1984ء میں ان کو نائب وکیل التبشیر مقرر کیا گیا ۔ کچھ عرصہ قائم مقام وکیل التبشیر کےطور پر کام کرتے رہے۔ دسمبر 1984ء میں پرائیویٹ سیکرٹری لندن کےطور پر خدمت کی توفیق ملی۔ 1985ء میں کینیڈا روانہ ہوئے اور 2008ء تک بطور مبلغ اور بعد ازاں مبلغ انچارج کے طور پر خدمت کا موقع ملا، اس دوران کینیڈامیں امیر بھی رہے۔ 2009ءسے 2016ء تک مبلغ انچارج امریکہ کے طور پر بھی کام کرتے رہے۔ پھر بیمار ہوئےچنانچہ جب ان کا تقرر سوئٹزرلینڈ ہوا توانہوں نے صحت کی وجہ سے غیرمعینہ مدت کےلیے رخصت لےلی۔
مرحوم کو کینیڈا میں مساجد کی تعمیر، جامعہ احمدیہ ، پیس ولیج اور ایم ٹی اے نارتھ امریکہ سٹیشن کے قیام کے علاوہ جدید خطوط پرنظامِ جماعت کے کام کو استوار کرنے کی سعادت ملی۔ مرحوم انسانیت کا درد رکھنے والے، خلافت کے مطیع، بڑے متوکل، بےلوث خدمت کرنے والے، مہمان نواز، نظامِ جماعت کےلیے غیرت رکھنے والے، دعاگو، عبادت گزار، بکثرت درود شریف پڑھنے والے اورتعلقات بنانے اور انہیں جماعت کے مفاد میں استعمال کرنے والی شخصیت کےمالک تھے۔ مرحوم کو 2009ء میں آرڈر آف انٹاریو کا تمغہ ملا،جوصوبے کا سب سے معزز اعزاز ہے۔
مرحوم کو امریکہ میں مختلف ریاستوں کے دورہ جات کے ساتھ ساتھ 11؍ستمبر کی مناسبت سے منعقدہ تقاریب کو اسلام کی تعلیمات پھیلانے کا مؤثر ذریعہ بنانے کاموقع ملا۔ اسی طرح میکسیکو میں جماعت کے قیام کے بارے میں مرکز کی ہدایات کی روشنی میں وہاں مشن ہاؤس قائم کرنے کے سلسلے میں نمایاں خدمات کی توفیق ملی۔ پسماندگان میں دوسری اہلیہ کے علاوہ دونوں بیویوں سے دو دو بیٹے اور ایک ایک بیٹی شامل ہیں۔
2۔ عزیزم محمد احمد شارم ربوہ جو 16 برس کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ حضورانور نے فرمایا کہ خلافت کا فدائی ایک ہنس مکھ اور ہر دل عزیزبچہ تھا۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا اور تنظیمی پروگراموں میں باقاعدہ شامل ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھا۔ پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو بہنیں شامل ہیں۔
3۔ مکرمہ سلیمہ قمر صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب مرحوم جو 16؍مئی کو وفات پاگئی تھیں۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ ان کے والد چوہدری محمد صدیق صاحب مولوی فاضل لمبا عرصہ انچارج خلافت لائبریری کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔ مرحومہ نے ایم اے عربی کیا تھا ۔ انہیں لجنہ اماء اللہ مقامی میں 1972ءسے 1982ء بطور جنرل سیکرٹری خدمت کا موقع ملا۔ 1982ء تا 1987ء امة الحئی لائبریری میں بطور لائبریرین کام کیا۔ 1987ءسے 2018ء تک اکتیس سال بطور مدیرہ رسالہ ’مصباح‘ خدمت کا موقع ملا۔ مرحومہ بڑی نیک سیرت، عبادت گزار، دعاگو اور سادہ طبیعت کی مالک خاتون تھیں۔
حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔
٭…٭…٭