جاگو ابھی فرصتِ دعا ہے
غصہ میں بھرا ہوا خدا ہے
جاگو ابھی فرصتِ دعا ہے
تم کہتے ہو امن میں ہیں ہم، اور
منہ کھولے ہوئے کھڑی بلا ہے
ڈرتی نہیں کچھ بھی تو خدا سے
اے قوم! یہ تجھ کو کیا ہوا ہے
مامور خدا سے دشمنی ہے
کیا اس کا ہی نام اتقا ہے
گمراہ ہوئے ہو باز آؤ
کیا عقل تمہاری کو ہوا ہے
موسیٰؑ کے غلام تھے مسیحاؑ
ہاں ان سے ہمارا کام کیا ہے
اب رہبرِ راہ کوئے دلبر
واللہ غلامِ مصطفیٰ ہے
کس راہ سے ابن مریمؑ آئے
مدت ہوئی وہ تو مر چکا ہے
اب اور کا انتظار چھوڑو
آنا تھا جسے وہ تو آ چکا ہے
جس کو کیا ہے خدا نے مامور
اس سے بھلا تم کو کیا گلہ ہے
کیوں بھولے ہو دوستو ادھر آؤ
اک مردِ خدا پکارتا ہے
باز آؤ شرارتوں سے اپنی
کچھ تم میں اگر بوئے وفا ہے
ورنہ ابھی غافلو تمہارے
آئے گا وہ آگے جو کیا ہے
تقدیر سے ہو چکا مقدر
قسمت میں تمہاری زلزلہ ہے
حیرانی میں ایک دوسرے سے
اُس دن یہ کہے گا ہیں یہ کیا ہے؟
چکھیں گے مزا عذاب کا جب
جانیں گے کہ ہاں کوئی خدا ہے
پتھر بھی پکار کر کہیں گے
ان کافروں کی یہی سزا ہے
اے قوم خدا کے واسطے تُو
بتلا کہ جو تیرا مدعا ہے
حق نے جسے کردیا ہے مامور
تسلیم میں اس کی عذر کیا ہے
اللہ سے چاہو عفوِ تقصیر
دیتا ہے اسے جو مانگتا ہے
محمود خدائے لم یزل سے
ہر وقت یہی مری دعا ہے
اُس شخص کو شاد رکھے ہر دم
جو دینِ قویم پر فدا ہے
اور اس کو نکالے ظلمتوں سے
جو شرک میں کفر میں پھنسا ہے
(اخبار بدر 20 ستمبر 1906ء)