احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
حضرت صاحبزادہ صاحب کابیعت سے رکے رہنا نہ جانے کن کن مصالح کے پیش نظرتھا۔ یہ توخدائے علیم وحکیم ہی بہتر جانتا ہے شایدقدرت اس تین کوچارکرنے والے کاانتظارکررہی تھی جس کی نوید20؍فروری 1886ء میں دی گئی تھی یاکسی اوربات کا بہرحال وہ ساعت سعدآگئی کہ جب حضرت اقدسؑ کایہ جگرگوشہ بھی مصلح موعودؓ کے قدموں میں حاضرہوکراحمدیت کوقبول کرنے کی سعادت پاگیا
صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کی قبولیت احمدیت
صاحبزادہ صاحب نے اپنے والدبزرگوار کے حین حیات حضرت اقدسؑ کی بیعت کاشرف نہ پایا۔ لیکن اس کا مطلب ہرگزہرگزیہ نہیں تھا کہ صاحبزادہ صاحب آپؑ کونعوذباللہ جھوٹا سمجھتے تھے۔ اورنہ ہی آپ نے کبھی آپؑ کی مخالفت کی یامخالفین کاساتھ دیا۔ بس ایک خاموشی تھی۔ ایک گہری خاموشی جس کی تہ میں، ادب واحترام اور محبت وعقیدت کاایک طوفان چھپاہوا تھا۔
چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعودؑ کے وصال کے بعد جب مخالفین نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے خلاف شرانگیز خبریں اڑائیں اور یہ کوشش شروع کی کہ کسی طرح آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی دوسری زوجہ محترمہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی اولاد کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے تو اس پرآپ نے ایک دوست کے نام مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا جو کہ پیسہ اخبار میں شائع ہوا۔ اس خط میں لکھتے ہیں: ’’مکرم بندہ!والا نامہ پہنچا۔ مشکور فرمایا۔ ہمیشہ لوگ اپنی ذات اور اپنے نفس پر دوسروں کا فیصلہ کیا کرتے ہیں۔ ذاتی کاوشوں کو مذہبی رنگ میں لا کر نتائج نکالنے کے عموماً عادی ہیں۔ جن جلد بازوں نے میری نسبت قادیان کے متعلق یہ خبریں اڑائیں انہوں نے اپنے خیال میں یہ سمجھا کہ سچا اسلام صرف یہی ہے کہ ایک لڑکا اپنے باپ کے مرنے پر شرارت اٹھائے قفل بند کر دے۔ لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں اس قسم کے اسلام سے بیزار ہوں اور میری رائے میں جو اسلام یہ سکھاتا ہے کہ باپ کی بے عزتی اور بے وقری کی جاوے اور باپ کے پسماندگان کے ساتھ فساد کیا جاوے وہ کفر اور ارتداد سے بھی بدتر ہے۔ اگر ایسے شرمناک اسلام کی وجہ سے بہشت بھی مل سکے تو میری رائے میں وہ دوزخ سے بھی زیادہ تر خوفناک ہے۔
لعنتی ہے وہ بیٹا اور کم بخت ہے وہ لڑکا جو باپ کی میت کو خراب کرے اور چھوٹے بھائیوں سے ناحق الجھے مسلمان ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ کے قدموں کے نیچے بہشت ہےاور دوسری طرف یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک سمجھدار لڑکا باپ کی تخریب کا موجب ہو۔ اور دین و دنیا میں روسیاہی سہیڑے۔ اور اگر میں یہ حرکت کرتا بھی تو کیا اس قصور پر کہ قادیان میں ان کی بدولت شب و روز قرآن کریم کی تلاوت اور اذان کی گونج رہتی ہے۔ میں تو سست اعمال تھا۔ مجھے اسلامی جوش اس قدر مجبور کرتا اور میں اس قدر مومن ہو جاتا کہ قرآن خواں جماعت کو قادیان سے نکالنے کی فکر کرتا۔ حاشا و کلّا…
قادیان کی جماعت خدا کے فضل و کرم سے بمقابلہ میرے ہزارہا درجہ نیک اور متقی، عامل شریعت، عاشق رسول عربی ہے۔ قرآن ان کے ہاتھوں میں ہے اور درود ان کی زبان پر۔ شب بیدار اور پرستار خدائے لا یزال ہیں اور میرے اعمال خود آپ جانتے ہیں کیا ہیں۔ باوجود ان اعمال کے ایسی جماعت کی مخالفت کر سکتا ہوں۔ لوگ انہیں کافر سمجھیں اور قابل دار۔ لیکن وہ مجھ سے صد درجہ نیک اور قابل عزت ہیں …‘‘(الحکم 10؍جولائی 1908ء صفحہ 16جلد 12نمبر40)
آپ کایہ خط حضرت اقدسؑ کی ذات اورآپ کے دعاوی اور آپ کوماننے والوں کے متعلق صاحبزادہ صاحب کے قلبی خیالات وجذبات کاعکاس وترجمان ہے۔ اس خط میں آپ نے اپنے بھائیوں کے متعلق بھی جس محبت کااظہارفرمایاہے۔ اس کااظہارایک اورمرتبہ بھی ہوا۔ چنانچہ ایک دفعہ چند متعصب لوگ جو غیر از جماعت تھے حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی زمین کے دو چھوٹے ٹکڑے میاں محمود (حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ ) آپ کی اجازت کے بغیر زیر کاشت لے آئے ہیں۔ اس پر آپ ان لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ میاں محمود میرے بھائی ہیں۔ اگر وہ میرے مکان کی چھت پر بھی ہل چلوا دیں تو بھی میں ان سے اختلاف نہیں کروں گا۔‘‘ (ماخوذ ازحضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویزصفحہ 49-50)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ بھی اپنے اس سعادت مندبیٹے کی نیک بختی سے آگاہ تھے۔ اوائل میں جب حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب لاہورمیں بسلسلہ ملازمت مقیم تھے تو حضورؑ لاہورتشریف لے جاتے توانہیں کے ہاں قیام فرماتے۔ ایک مرتبہ 1890ء میں حضرت اقدسؑ کئی ماہ تک شدید بیمار رہے حتیٰ کہ بظاہر زندگی کی امید منقطع ہو گئی۔ بیماری کا یہ حملہ مارچ 1890ء کے آخری ہفتہ میں ہوا۔ مئی میں آپ ڈاکٹری علاج کے لیے لاہور تشریف لائے اور اپنے فرزند اکبر مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے مکان پر ٹھہرے اور مشہور ناولسٹ مسٹر احمد حسین کے والد ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے زیر علاج رہے۔ (ماخوذ از مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 576، 577 مکتوب بنام منشی رستم علی صاحب مکتوب نمبر 179)
بعض اوقات آپ نے اس امرکااظہاربھی کیاہے کہ آخرکیاوجہ تھی کہ وہ بیعت کرنے سے رکے رہے۔ ایک دفعہ کاذکرہے کہ چند مخلص احمدی احباب جو آپ سے دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلق رکھتے تھے آپ کی خدمت میں وفد کے طور پر حاضر ہوئے تاکہ انہیں حلقہ احمدیت میں لانے کی کوشش کریں۔ آپ نے ان کی باتوں کو سن کر فرمایا: ’’میں اپنے والد صاحب کے مقام کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔ ظاہری بیعت سے جو رکا چلا آرہا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں حضورعلیہ السلام کی فرمودہ تعلیم کی بجا آوری کی تاب تواں اپنے اندر نہیں رکھتا۔ ‘‘(ماخوذ ازحضرت مرزا سلطان احمد مرتبہ میر انجم پرویزصفحہ 49)
ہرچندکہ آپ ہمیشہ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت اور راستبازی، تقویٰ اور طہارت کے معترف رہے اور احمدیت میں داخل ہونے میں روک اپنی عملی کمزوری قرار دیتے۔ گویا اس وقت بھی آپ حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ان کے عقائد کے قبول نہ کرنے کی وجہ اپنی ذاتی کمزوری بتاتے تھے۔ یہ بھی آپ کی سعادت کی بہت بڑی علامت تھی اور کیا عجب ہے کہ اس کے نتیجے میں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہرکام کاایک وقت، اس کی اجل مقدرہواکرتی ہے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کابیعت سے رکے رہنا نہ جانے کن کن مصالح کے پیش نظرتھا۔ یہ توخدائے علیم وحکیم ہی بہتر جانتا ہے۔ شایدقدرت اس تین کوچارکرنے والے کاانتظارکررہی تھی جس کی نوید20؍فروری 1886ء میں دی گئی تھی۔ یاکسی اوربات کا بہرحال وہ ساعت سعدآگئی کہ جب حضرت اقدسؑ کایہ جگرگوشہ بھی مصلح موعودؓ کے قدموں میں حاضرہوکراحمدیت کوقبول کرنے کی سعادت پاگیا۔
اعلان احمدیت
آپ کی یہی سعادت ونجابت تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ ان کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ چنانچہ جون 1924ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صاحبزادہ مرزاسلطان احمدصاحب کے بیٹے صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا تو ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لائے۔ ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے… جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لئے دعا کرتا رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے میں سنتا رہتا ہوں وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے۔ آمین‘‘(الفضل 6؍جون 1924ء صفحہ9جلد11نمبر95، تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ 93)
اس مسیحا نفس کی دعاؤں کوآخرقبولیت کاشرف بخشا گیا۔ اور آخر اکتوبر 1928ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں درج ذیل بیان الفضل میں شائع کرایا: ’’تمام احباب کی اطلاع کے لئے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے سب دعووں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے دعوےمیں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہو گا جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق پورا غور نہیں کر سکا۔ جن کے بارہ میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا۔ مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لئے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں جب مجھے اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل پر غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں۔ پس سرِدست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے فضل سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو۔ آمین‘‘(الفضل 2؍اکتوبر 1928ء صفحہ 1جلد 16 نمبر27)
آپ نے اس اعلان کے علاوہ ایک ٹریکٹ ’’الصلح خیر‘‘ نامی شائع کیا جس میں تحریر فرمایا: ’’میری عقیدت حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہوں کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی۔ میں تصدیق کرتا ہوں اور صدق دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا…میں اپنے والد صاحب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا… الموسوم مسیح موعود سمجھتا ہوں۔ اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں۔ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود احمد صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لئے مجھ پر ناراض بھی تھے اور میں اب صدق دل سے یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی۔ باوجود ان کی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا۔ جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً 30 سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہو گی اور بایں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یاا ن کے دعاوی کا منکر ہوں۔ جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں …بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امرپر شاہد کرنا۔ پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے میں اعلان اور اظہار کو بیعت یقین کرتا ہوں۔ ‘‘( ٹریکٹ ’’الصلح خیر‘‘ صفحہ 2-3)