مذہب اور سائنس(قسط نمبر 2)
(خطاب حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمودہ 3؍مارچ 1927ءبمقام حبیبیہ ہال، لاہور)
قرآن اور سائنس
پس قرآن تو سائنس کی طرف باربار توجہ دلاتا ہے۔ چہ جائیکہ اس سے نفرت دلائے۔ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ سائنس نہ پڑھنا، کافر ہو جاؤ گے کیونکہ اسے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ لوگ علم سیکھ جائیں گے تو میرا جادو ٹوٹ جائے گا۔ قرآن نے لوگوں کو سائنس کی تعلیم سے روکا نہیں بلکہ فرماتا ہے: قُلِ انْظُرُوْا مَا ذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ۔(یونس: 102) غور کرو۔ زمین اور آسمان کی پیدائش میں۔ آسمان سے مراد سماوی (علوی) علوم اور زمین سے ارضی یعنی جی آلوجی (Geology)، بائی آلوجی(Biology)، آرکی آلوجی (Archeology)طبیعیات وغیرہ علوم مراد ہیں۔ اگر خدا کے نزدیک ان علوم کے پڑھنے کا نتیجہ مذہب سے نفرت ہوتا تو قرآن کہتا ان علوم کو کبھی نہ پڑھنا۔ مگر اس کے برخلاف وہ تو کہتا ہے، ضرور غور کرو، ان علوم کو پڑھو اور اچھی طرح چھان بین کرو کیونکہ اسے معلوم ہے علوم میں جتنی ترقی ہو گی اس کی تصدیق ہو گی۔
قرآن کریم کی یہ آیت بھی سائنس کی طرف توجہ دلاتی ہے:اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِي الْاَلْبَابِ ۔الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(آل عمران:191-192) فرمایا زمین و آسمان کی پیدائش میں اور دن رات کے اختلاف میں عقلمندوں کے لئے نشان ہیں۔ زمین اور آسمان کی پیدائش میں غور کرنے سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کوئی چیز فضول اور بے فائدہ پیدا نہیں کی گئی۔
اب دیکھو۔ اس آیت میں سائنس کے متعلق کیسی وسیع تعلیم دی گئی ہے۔ اشیاء کے فوائد اور پھر یہ نتیجہ کہ کوئی چیز بے فائدہ پیدا نہیں کی گئی یہ بغیر تحقیق کے کیسےمعلوم ہو سکتا تھا۔ پس قرآن نے خواص الاشیاء کی طرف توجہ دلائی ہے اورساتھ ہی یہ سنہری اصل بھی سکھا دیا ہے کہ کسی چیز کو بے فائدہ نہ سمجھو۔ ہم نے کوئی چیز فضول پیدا نہیں کی۔ گویا لمبی تحقیق جاری رکھنے اورعاجل نتائج سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔
پہلےسائنس دان بعض اعضاء جسم انسانی کے متعلق خیال کرتے ہیں کہ یہ نیچر نے بے فائدہ بنائے ہیں۔ اور یہ محض ارتقاء حیوانی کے مختلف دوروں کی یادگار ہیں جن کی اب ضرورت نہیں اس لئے ان کا کٹوا دینا ہی بہتر ہے کیونکہ وہ کئی دفعہ بیماری کا موجب ہو جاتے ہیں۔ مگر علوم مروجہ کی ترقی اور ان کا بڑھتا ہوا تجربہ اور مشاہدہ اس بات کو رد کر رہا ہے اور ان کو قرآن کے اس سنہری اصل کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ مثلاً انسان کی بڑی آنتوں کے ساتھ چھوٹی انگلی کے برابر ایک زائد آنت ہوتی ہے۔ جس کوVariform Appendixکہتے ہیں۔ اس میں بعض دفعہ غذا کے نیم ہضم شدہ ذرات رک جاتے ہیں۔ جن کی وجہ سے اس کے اندر سوزش ہو کر ورم ہو جاتا ہے۔ جسے Appendixکہتے ہیں۔ اور ڈاکٹر عموماً اس کو آپریشن کرکے کاٹ دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ بے فائدہ ہے۔ مگر اب اس کے متعلق تجربہ کیا گیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ ان کا یہ خیال درست نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے بارہ بندر لئے اور ان میں سے نصف کےAppendixکاٹ دیئے۔ اور سب کو ایک ہی قسم کی غذا دی گئی۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ جن کی وہ آنت کاٹی گئی تھی ان کی چستی میں فرق پڑ گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پہلے ڈاکٹر لوگ معمولی تکلیف پر بھی اس کو کاٹ دیتے تھے مگر اب احتیاط کرتے ہیں۔ پہلے اس آنت کا فائدہ ان کومعلوم نہ تھا مگر فائدہ اس کا تھا ضرور۔ اور تجارب سے معلوم ہوا کہ واقعی یہ آنت بے فائدہ نہیں۔ بتاؤ اگر اس کے متعلق تجربہ نہ کیا جاتا تو قرآن کریم کے اس اصل کی تصدیق کس طرح ہوتی کہ ہر چیز مفید ہے۔ پس اسلام سائنس کی طرف توجہ دلاتا ہے اور سائنس کی تحقیقاتوں سے اسلام کی تائید ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
تصادم کی ایک اور وجہ
مذہب اورسائنس کے باہمی تصادم کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اپنے وہم کو مذہب قرار دیتے ہیں جو لازماً سائنس کے مسلمہ اصول سے ٹکراتا ہے مگر یہ ان لوگوں کی غلطی ہے۔گویا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کا وہم درست ہے اور تجارب اور مشاہدات غلط ہیں۔ ادھر سائنس والے بھی بعض دفعہ غلطی کرتے ہیں کہ محض تھیوری کا نام سائنس رکھ لیتے ہیں اوروہ مذہب کے ساتھ ٹکراتی ہے۔ مگر تھیوری قابل قبول نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے قول کے مقابلہ میں ایک انسان کی ذہنی اختراع کچھ چیز نہیں۔ جس طرح بعض مذاہب جھوٹے ہو سکتے ہیں مثلاً وہ جو دل کے خیال، وہم اور تخیل کو خدا کا کلام سمجھ لیں اسی طرح تھیوری بھی جھوٹی ہو سکتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی تھیوریاں آئے دن بدلتی رہتی ہیں۔ جوں جوں علوم میں ترقی ہوتی ہے پرانی تھیوریوں کو باطل کرتی جاتی ہے۔ مثلاً Einstein کی نئی تھیوری نے علم ایسٹرانومی (Astronomy) کی بہت سی ثقہ باتوں کو غلط ثابت کردیاہے۔ اسی طرح قدرت کے کرشموں کے مطالعہ سے جو غلط نتائج نکالے جائیں اور وہ مذہب سے ٹکرائیں توبعد میں اصل حقیقت کے منکشف ہو جانے پر پشیمانی ہوتی ہے۔ پس آئندہ کے لئے فیصلہ کر لو کہ خدا تعالیٰ کے الفاظ اوراپنے تجربہ پر علوم کی بنیاد رکھیں گے اور اس طرح پر تصادم نہیں ہو گا اور اگر ٹکراؤ ہو تو سمجھ لو کہ یا تو خدا کا کلام سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے یا پھر تجربہ میں غلطی کی گئی۔
مخالفت کی تین وجوہات
دو باتوں میں مخالفت تین طرح کی ہوسکتی ہے۔
(1)اگر ایک کو مانا جائے تو دوسری کالازماً رد ہو۔(2) ایک دوسری کی طرف توجہ کرنے سے روکے۔ مثلاً مذہب یہ کہے کہ سائنس پر غور نہ کرو اور سائنس کہے مذہب کی طرف توجہ نہ کرو۔ (3) تفصیلی تعلیم میں اختلاف ہو۔ یعنی اصولی باتوں میں نقص نہ ہو بلکہ جزئیات میں اختلاف ہو۔ اسلامی تعلیم میں ان تینوں میں سے ایک قسم کا اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔ کیونکہ
(1)اسلام خدا کا قول ہے اور سائنس اس کا فعل ہے۔ پس نقیض نہ ہوئے۔(2) دونوں نے ایک دوسرے کا مطالعہ کرنے سے منع بھی نہیں کیا۔(3) جزئیات میں بھی اختلاف کوئی نہیں دونوں آپس میں متحد اور متفق ہیں۔ (4) قرآن تو حقیقی سائنس کو منکشف کرتا ہے۔ بعض اسلامی احکام آج سے تیرہ سو سال قبل گو عجیب معلوم ہوتے تھے مگر اب آہستہ آہستہ ان کا فلسفہ اور حکمت ظاہر ہو رہی ہے۔ خواہ ان احکام کا تعلق علم النفس (Psychology) سے ہو یا علم کیمیا(Chemistry) سے۔
ہر چیز مفید ہے
سائنس کے متعلق جو اصولی انکشاف قرآن کریم نے کئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کافائدہ ہے۔ اور کوئی چیز اللہ تعالیٰ نے فضول پیدا نہیں کی۔ یہ بات پہلے بیان نہ ہوئی تھی۔ صرف اسلام نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ عظیم الشان علمی نکتہ دنیا کو بتایا کہ کوئی چیز خواہ وہ بظاہر کتنی ہی بری ہو اس کے اندر ضرور اہم فوائد ہوں گے۔ گویا اصل غرض ہر چیز کی پیدائش کی نیک اور مفید ہے۔ چنانچہ فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ(الانعام :2) سب تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جوزمین و آسمان کا خالق ہے۔ اور جو نور اور ظلمت دونوں کا بنانے والا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ظلمات مثلاً مصائب، تکالیف، آفات، دکھ، درد، بیماری، موذی جانور وغیرہ سب کا خالق ہے۔ اسی طرح نور یعنی آرام و آسائش، سکھ، مفید اشیاء وغیرہ کا بھی خالق ہے اور ہر چیز کی پیدائش سے اس کی حمد ہی ثابت ہوتی ہے۔
پھر فرمایا: اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: 3) زندگی اورموت سب سے خدا کی حمد ہی نکلتی ہے۔ کیسا عجیب نظریہ پیش کیا ہے کہ ہر موذی چیز بھی مفید ہے۔گویا اس طرح موذی اشیاء کے فوائد معلوم کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مثلاً سنکھیا بُرا خیال کیا جاتا ہے۔ مگر ہزاروں ہیں جو اس کے ذریعہ بچتے ہیں۔ اگر چند لوگ غلطی سے اسے کھا کر مر جائیں تو اس سے سنکھیا کے فوائد کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سنکھیا بہت سی امراض میں استعمال ہو رہا ہے۔ چنانچہ Chronic Malaria (یعنی پرانا موسمی بخار) میں جب کونین فیل ہو جائے اور فائدہ نہ دے سکے تو آرسینک ہی فائدہ دیتا ہے۔ پھر امراض خبیثہ (آتشک) اور Relapsing Fever (ہیرے پھیرے بخار) میں بھی آرسینک دیا جاتا ہے۔ پس اگر ایک آدمی سنکھیا سےمرتا ہے تو ہزاروں اس کے ذریعے سے جیتے ہیں۔
پھر افیون کو ایک لعنت خیال کیا جاتا ہے۔ مگر آدھی طب افیون میں ہے۔ مارفیا کی جلدی پچکاری ہزاروں مریضوں کے لئے ایک نعمت ہے۔ اگر ادویہ کے غلط استعمال سے ہم نقصان اٹھائیں تویہ ہمارا قصور ہے۔ مثلاً چاقو مفید چیز ہے لیکن اگر ایک شخص اس سے بجائے کوئی چیز کاٹنے کے اپنی ناک کاٹ لے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔
قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ ہر بات سے ایک طبعی نتیجہ نکالتا ہے اور اس کے ساتھ اس کا شرعی نتیجہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً اس آیت سے طبعی نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ہر چیز مفید ہے اور موذی اشیاء سے بھی خدا کی حمد ہی نکلتی ہے۔ اس سے ایک شرعی نتیجہ بھی نکالا ہے اوروہ یہ کہ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ۔یعنی بعض لوگ جو اس حقیقت کو نہیں سمجھے وہ شرک کرنے لگ پڑے ہیں۔ مثلاً زرتشتی مذہب کے لوگ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ موذی اشیاء کا خالق کوئی اور ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ خدا چونکہ رحیم ہستی ہے اس لئے موذی اشیاء مثلاً سانپ اور بچھو زہر وغیرہ کی پیدائش اس کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا موذی اشیاء کا خالق کوئی اور ہونا چاہیئے۔ مگر یہ غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے موذی اشیاء کی پیدائش کی حقیقی غرض کو نہیں سمجھا۔ ورنہ وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچتے کہ ان کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ پس ہر ایک بظاہر لغو اورموذی چیز اصل میں مفید ہے۔ اس کی پیدائش کی غرض نیک ہے۔ اوراس سے خدا کی حمد ہی ثابت ہوتی ہے۔ ہاں اگر ہم قوانین طبعی کی خلاف ورزی کرکے نقصان اٹھائیں تو یہ ہمارا قصور ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ کے رحم پر کوئی اعتراض نہیں آسکتا۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭