خلاصہ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ یکم جولائی 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دَورخلافت میں باغیوں اور مرتدین کے خلاف ہونے والی نویں اور دسویں مہم کا تفصیلی تذکرہ
٭…حضرت مصلح موعود ؓ کی تفسیر کی روشنی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کے وقت سمندر پھٹنے کے معجزہ کے بارے میں تفصیلی بیان
٭…بحرین اور یمن کےعلاقوں میں مسلمانوں کے لشکروں کی باغیوں اور مرتدین کے خلاف حاصل ہونے والی شاندار فتوحات کا ذکر
٭…مکرم Dicko زکریا صاحب شہید،مکرم Dicko موسیٰ صاحب شہید آف برکینا فاسو ،مکرم محمد یوسف بلوچ صاحب آف بستی صادق پور عمر کوٹ، عزیزہ مبارزہ فاروق (وقفۂ نَو)ربوہ اور مکرم آنزومانا واترا( Aanzumana Ouattara)صاحب(معلم سلسلہ آئیوری کوسٹ) سمیت 5مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم جولائی 2022ء بمطابق یکم وفا 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
حضرت اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ یکم جولائی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں مرتد اور باغیوں کے خلاف نویں مہم بحرین کے سلسلہ کا ذکر ہورہا تھا۔حضرت علاء بن حضرمیؓ نے مسلمانوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ ہجرسے ملحق علاقہ میں حطم پر فوج کشی کی۔اہل دارین کے علاوہ تمام مشرکین اُن کے مقابلے پر آئے۔دونوں جانب خندقیں کھودی گئی تھیں۔ایک مہینہ تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا۔آخر کار مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی۔ حضرت قیس بن عاصمؓ نے مشرکین کے سردار حطم کو فرار ہوتے ہوئے واصل جہنم کیا۔حضرت علاء ؓنے مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کیا جبکہ اس جنگ میں زیادہ بہادری دکھانے والے لوگوں کو مرنے والے سرداروں کے قیمتی کپڑے بھی دیئےجن میں حضرت عفیف بن منذر ؓ، حضرت قیس بن عاصمؓ اور حضرت ثمامہ بن اُثال ؓشامل تھے۔
بعدازاں تمام مرتدین بحرین کے بالمقابل چند میل کے فاصلے پر خلیج فارس کے علاقہ دارین میں جمع ہوگئے۔حضرت علاء بن حضرمیؓ نے حضرت عتیبہ بن نہاسؓ اور حضرت عامر بن عبد الاسودؓ کو حکم دیا کہ ہر راستہ پر مرتدین کے مقابلے کے لیے پہرے بٹھا دو جبکہ حضرت مسمع، حضرت خصفہ تیمی اور حضرت مثنیٰ بن حارثہ شیبانیؓ کو حکم دیا کہ وہ بھی ان مرتدین کا مقابلہ کریں۔ بحرین میں فتنہ ارتداد کی آگ بجھانے میں حضرت مثنیٰ بن حارثہ شیبانیؓ نے بہت بڑا کردار اداکرتے ہوئے اپنی فوج کے ساتھ حضرت علاء بن حضرمیؓ کا بھرپور ساتھ دیا۔انہوں نے قطیف اورہجرپر قبضہ کیااور بحرین کے مرتدین کی مدد کرنے والی فارسی فوج اور اُن کے عمال پر بھی غالب آئے۔
حضرت علاء بن حضرمیؓ کو قبیلہ بکر بن وائل کے خطوط موصول ہوئے جن سے علم ہوا کہ وہ لوگ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حضرت علاء ؓکا ساتھ دیں گے۔حضرت علاءؓ نے تمام دیگر مسلمانوں کو بھی دارین پر پیش قدمی کی دعوت دی۔جزیرہ دارین پر پہنچنے کے لیے سمندر عبور کرنے کے لیے مسلمانوں کے پاس کشتیا ں نہیں تھیں۔ اس موقع پر حضرت علاءؓ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے تمام شیاطین کو ایک جگہ جمع کردیا ہے ۔ ہم اس سے قبل خشکی میں خدا کی مددکے نظارے دیکھ چکے ہیں لہٰذا اب یہ سمندر بھی ہمارے لیے روک نہیں بن سکتا اور تائید الٰہی ہمارے ساتھ ہوگی۔تاریخ طبری میں بیان ہے کہ حضرت علاء ؓنے اپنے لشکر کے تمام ساتھیوں کے ساتھ خدا کے حضور عاجزانہ دعا کرتے ہوئے اپنی سواریاں سمندر میں ڈال دیں اور بغیر کسی نقصان کےایک دن کے کم عرصہ میں ہی اس کو عبور کرلیا۔
حضرت علاء ؓکے لشکر کا اپنی سواریوں کے ساتھ اس طرح سمندر عبور کرنے کے بارے میں موجودہ زمانے کے مصنفین لکھتے ہیں کہ یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ اُس وقت سمندر میں جزر آیا ہوا ہو یا پھر روایات میں مبالغہ آرائی ہویا پھر اس لشکر کو مقامی مسلمانوں کی مدد کی وجہ سے کشتیاں مل گئیں ہوں جن کے ذریعہ خلیج کو عبور کیا گیا ہو ۔لیکن جو بھی روایات ملتی ہیں ان میں اسی طرح سواریوں کے ساتھ سمندر عبور کرنے کا ذکر ہی ملتا ہے۔ حقیقت کیا ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بہرحال حضرت علاء ؓ کا لشکر بخیر و عافیت معجزانہ طور پر سمندر عبور کرگیا۔
حضرت مصلح موعود ؓحضرت موسیٰؑ کی ہجرت کے وقت سمندر کے پھٹنے والے معجزے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بیان ہے کہ فرعون کا لشکر حضرت موسیٰؑ اور اُن کے ساتھیوں کے تعاقب میں تھا ۔ حضرت موسیٰ ؑ اور اُن کے ساتھی جب سمندر کنارے پہنچے تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ ؑنے اپنا عصا سمندر پر مارا جس کی وجہ سے سمندر میں ایک راستہ بن گیا جس کے دونوں طرف پانی کے اونچے ٹیلے تھے اور حضرت موسیؑ اور اُن کے ساتھی سمندر عبور کرگئے جبکہ فرعون کا لشکر جب اُسی راستے میں داخل ہوا تو پانی دوبارہ مل گیا اور وہ غرق ہوگئے۔حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ تمام معجزات خدا تعالیٰ کی طرف سےہوتے ہیں۔اس واقعہ میں بھی نہ تو حضرت موسیٰ ؑ کے عصا کا کوئی معجزہ تھا اور نہ ہی قرآن کریم میں سمندر کے دو ٹکڑے ہونے کا ذکر ملتا ہے بلکہ قرآن کریم میں اس واقعہ سے متعلق دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ۔فَرَقَ اور اِنْفَلَقَ جن کے معنی جدا ہونے کے ہیں ۔پس قرآن کریم کے الفاظ کے مطابق یہی تفسیر ثابت ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل کے گزرنے کے وقت سمندر جدا ہوگیا تھا یعنی کنارے سے ہٹ گیا تھا اور جو خشکی نکل آئی تھی اُس میں سے بنی اسرائیل گزر گئے تھے۔ سمندر کے کناروں پر ایسا ہونا ممکن ہے ۔نپولین کے بارے میں لکھا ہےکہ وہ بھی مصر پر حملہ کرتے وقت بحر احمر میں جزر کے وقت اپنی فوج کے ساتھ گزرا تھااور اُس کے گزرتے گزرتے مدّ کا وقت آگیا جس سے وہ مشکل سے ہی بچا تھا۔حضرت موسیٰ ؑ کے وقت میں یہ معجزہ تھا کہ خدائی منشاءکے تحت بنی اسرائیل جزر کے وقت سمندر کنارے پہنچے اور حضرت موسیٰ ؑکے ہاتھ اُٹھاتے ہی پانی گھٹنا شروع ہوا لیکن فرعون کا لشکر جب سمندر کے درمیان میں پہنچاتو مدّ کا وقت آگیا اور وہ اس میں غرق ہوگئے۔
بہرحال مسلمان دارین پہنچ گئے تھے اور ممکن ہے کہ اُن کے ساتھ بھی یہی مدّو جزر والا واقعہ ہوا ہو۔ مشرکین اور باغیوں سے مسلمانوں کی خونریز جنگ ہوئی اور سب باغی مارے گئے یہاںتک کہ اُن میں سے کوئی خبر دینے والا بھی نہ بچا۔باغیوں کے اہل اور اُن کی تمام املاک مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ہر شہسوار کو چھ ہزار اور ہر پیادے کو دو ہزار درہم غنیمت میں ملے۔حضرت علاء بن حضرمی ؓتمام لوگوں کو واپس لے آئے سوائے اُن لوگوں کے جنہوں نے وہاں رہنا پسند کیا۔حضرت ثمامہ بن اُثال ؓ بھی واپس آنے والوں میں شامل تھے۔حضرت عبداللہ بن حذفؓ کہتے ہیں کہ ہم بنو قیس بن ثعلبہ کے ایک چشمے پر مقیم تھے کہ لوگوں نے حضرت ثمامہ بن اُثالؓ کو مال غنیمت میں ملا ہوا حطم کا قیمتی چغہ پہنے دیکھا۔ قبیلے والوں نے سمجھا کہ حضرت ثمامہ بن اُثال ؓنے ہی حطم کو قتل کیا تب ہی اُنہیں اُس کا قیمتی چغہ مال غنیمت میں ملا ہے۔لہٰذا لوگوں نے بدلے میں حضرت ثمامہ بن اُثال ؓکو شہید کردیا۔
حضرت ابوبکر ؓکے حکم پر یمن کے علاقہ تہامہ میں باغیوں اور مرتدین کی خلاف حضرت سوید بن مقرن ؓ کی سربراہی میں کی جانے والی مہم دسویں مہم تھی۔ حضرت سویدؓ کی کنیت ابو عدی تھی اور تعلق مزینہ قبیلہ سے تھا۔انہوں نے پانچ ہجری میں اسلام قبول کیا تھا۔جنگ خندق اور بعد کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔آپؓ حضرت نعمان بن مقرنؓ کے بھائی تھے جنہوں نے ایرانی فوج کے خلاف فتوحات میں نمایاں کارہائے سرانجام دیے تھے۔تاریخ کی کتب میں بہرحال حضرت سویدؓ کےتہامہ جانے کا ذکر نہیں ملتا۔ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تہامہ میں قبیلہ عق اور اشعر نے سب سے زیادہ بغاوت کی اور قبیلہ خضم کے لوگ بھی ان سے مل گئے۔حضرت ابو ہالہؓ نے باغیوں سے شدید جنگ کی اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے دشمنوں کو شکست دی۔اس جنگ میں مسلمانوں کو شاندار فتح حاصل ہوئی جس کی اطلاع حضرت ابوبکر ؓکو بھی دی گئی۔ تہامہ میں حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک مصنف لکھتا ہے کہ تہامہ میں بغاوت کو کچلنے میں سرفہرست طاہر بن ابی ہالہؓ تھےجو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے تہامہ پر والی تھے۔
حضرت ابوبکرؓ نے عکاشہ بن ثورؓکو تہامہ میں اقامت پذیر ہونے کا حکم دیا ۔حضرت عکاشہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرموت کے دو علاقوں سکاسک اور سکون کے علاقوں پر عامل مقرر تھے۔حضرت ابوبکر ؓنے بجیلہ قبیلہ کے پاس حضرت جریر بن عبداللہ بجلیؓ کو مقرر کیا کہ وہ اپنے قبیلے کے لوگوں کے ساتھ مل کر قبیلہ خثعم کے باغیوں کا مقابلہ کریں۔حضرت جریر ؓکے مقابلے پر تھوڑے سے لوگ آئےجن کو حضرت جریر ؓنے قتل کیا اور منتشر کردیا۔ مہمات کے ذکرمیں آئندہ انشاء اللہ گیارہویں مہم کا ذکر ہو گا۔
حضور انور نے آخر میں برکینا فاسو کےعلاقہ ڈوری میں شہید ہونے والے دو احمدی خدام مکرم Dicko زکریا صاحب اور مکرم Dickoموسیٰ صاحب کی شہادت اور مکرم محمد یوسف بلوچ صاحب آف بستی صادق پور عمر کوٹ ضلع سندھ، عزیزہ مبارزہ فاروق (واقفۂ نو)ربوہ اور مکرم آنزومانا واترا(Aanzumana Ouattara)صاحب معلم سلسلہ آئیوری کوسٹ کی وفات پر ان تمام مرحومین کے ذکر خیر اور ان کی جماعتی خدمات کا تذکرہ فرمایا اور بعد نماز جمعہ ان سب کے نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان بھی فرمایا۔
٭…٭…٭