دوسروں کے عیب کی بجائے اپنے پر نظر رکھنی چاہیے
اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ہمیشہ دوسروں کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے پر نظر رکھنی چاہئے۔ تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو جذب کر سکتے ہیں۔ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اگر ہم کسی میں برائی دیکھ کر ظاہر نہیں کریں گے تو اصلاح کس طرح ہو گی۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر کسی کی کوئی برائی نظام جماعت کو نقصان پہنچانے کا ذریعہ بن رہی ہے یا معاشرے کے ایک طبقہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر خراب کر رہی ہے تو پھر اصلاح کے لئے جو لوگ مقرر ہیں، امیر جماعت ہے، جماعت کے اندر صدر جماعت ہے، ان تک بات پہنچا دیں یا مجھے لکھ دیں تا کہ اصلاح کی طرف توجہ ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ اس کی بنائی ہوئی جماعت کا نظام خراب ہو۔ …جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےفرمایا کہ انسان کے گناہوں اور خطاؤں کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے لیکن اپنی صفت کے باعث خطاکاریوں کو اس وقت تک جب تک کہ اعتدال کی حد سے نہ گزر جائے ڈھانپتا ہے۔ پس جب انسان خود ہی اپنے آپ کو ظاہر کر دے اور اعتدال کی حدوں سے باہر نکلنے لگے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ کی صفت بھی کام کرتی ہے۔ اور پھر اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس دنیا میں بھی پکڑتا ہے اور اگلے جہان کی بھی سزا ہے۔
لیکن کسی کی برائی دیکھ کر اس کی تشہیر کرنا اس کو پھیلانا بہرحال منع ہے کیونکہ اس سے برائیاں بجائے ختم ہونے کے پھیلتی ہیں۔ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تُو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو انہیں بگاڑ دے گا۔(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی التجسس حدیث 4888)کمزوریوں کے پیچھے پڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو جگہ جگہ بیان کرنا، تجسّس کر کے ان کی کمزوریوں کی تلاش کرنا۔ اگر انسان اس طرح کرے تو ان لوگوں کو بگاڑے گا اور معاشرے کے امن کو بھی خراب کرے گا اور پھر جب یہ باتیں جگہ جگہ لوگوں میں بیان کی جائیں تو پھر ایسے لوگ جن میں یہ برائیاں ہیں ان میں اصلاح کی بجائے ضد پیدا ہو جاتی ہے اور پھر ضد میں آ کر وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا بنانے کی کوشش کرتے ہیں…
(خطبہ جمعہ فرمودہ31؍مارچ 2017ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 21؍ اپریل 2017ء صفحہ 6)