خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍جولائی 2022ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
٭…حضرت ابوبکر صدیق ؓکے دَورخلافت میں باغیوں اور مرتدین کے خلاف ہونے والی گیارھوں مہم کا تفصیلی تذکرہ
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کے جھوٹے دعوئ نبوت کی پہلے ہی اطلاع دے دی تھی
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا خط پھاڑنے پر کسریٰ کی حکومت کے ساتھ خدا تعالیٰ نےبھی ویسا ہی معاملہ کیا
٭…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق کسریٰ کو اُس کے بیٹے نے قتل کیا اور خود بادشاہ بن بیٹھا
٭…حضرت ابوبکر ؓنے انتہائی دُور اندیشی سے کام لیتے ہوئے نرمی ، درگزر اور حسن سلوک سے کام لےکر لوگوں کے دلوں کو اسیر کیا
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 08؍جولائی 2022ء بمطابق یکم وفا 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ 08؍جولائی 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذ،اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے زمانے میں یمن کے باغیوں کے خلاف گیارھویں مہم کی سربراہی حضرت مہاجر بن ابو اُمّیہؓ نے کی تھی ۔آپؓ حضرت اُمّ سلمہؓ کے بھائی تھے۔ آپؓ کا اصل نام ولید تھا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کردیا تھا۔ایک روایت میں ہے کہ آپؓ غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپؓ سے ناراض تھے لیکن بعد ازاں آپؓ کے عذر کو قبول کرکے آپؓ سے راضی ہوگئے تھےاور آپؓ کو کِندہ قبیلہ کا عامل مقرر کردیا تھا۔حضرت ابوبکر ؓنے آپؓ کو نجران سے لےکر یمن کی آخری حدود تک عامل مقرر کردیا تھا۔
حضورﷺ کے زمانےمیں سب سے پہلے یمن میں ارتداد کا آغاز ہواجس کا بانی اسود عنسی تھا۔ یہ یمن کے قبیلےبنو عنس کا سردار تھا۔ اسود عنسی کا لقب ذوالخِمارتھاکیونکہ وہ ہر وقت کپڑا لپیٹے رکھتا تھا۔ بعض نےاس کا لقب ذوالخُمار بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اکثر نشے کی حالت میں رہتا تھا۔بعض روایات میں اسود کا لقب ذوالحمار بیان ہوا ہے کیونکہ اس کےپاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا۔ ایک وجہ اس لقب کی یہ لکھی ہے کہ اسود کہا کرتا تھا کہ جو شخص مجھ پر ظاہر ہوتا ہے وہ گدھے پر آتاہے۔ اسود نے خود اپنے لیے’’رحمٰن الیمن‘‘کا لقب اختیار کیا تھا۔
بخاری کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے ہی بتادیا گیا تھا کہ دو جھوٹے مدعیان نبوت خروج کریں گے۔حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ زمین کے خزانے مجھے عطا کیے گئے اور میرے ہاتھ میں دو سونے کے کڑے رکھے گئے جو مجھے گراں گزرا لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ ان پر پھونک ماروں اور جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں کڑے غائب ہوگئےجس سے میں نے یہ مُراد لیاکہ میں دو جھوٹوں کے درمیان ہوں یعنی صنعاء والا اسود عنسی اور یمامہ والا مسیلمہ کذاب ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کسریٰ کو دعوت اسلام کا خط لکھا تو وہ غضبناک ہوگیا۔کِسریٰ کے حکم پریمن کے عامل باذان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے کے لیے دو آدمی بھیجے تو آپؐ نےاُن کے ذریعے باذان کو دعوت اسلام دیتے ہوئے فرمایا کہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ تمہارے بادشاہ کو اُس کے بیٹے نے قتل کردیا ہے اور خود بادشاہ بن بیٹھا ہے ۔اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہیں بدستور یمن کا حاکم رہنے دیا جائے گا۔باذان کے آدمی یہ پیغام لےکر چلے گئے جبکہ اس دوران باذان کو اطلاع مل گئی کہ کسریٰ کو اُس کے بیٹے نے ہلاک کردیا ہےاور اُس کی جگہ خود بادشاہ بن گیا ہے۔باذان نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری ہوتے دیکھی تو اُس نے اسلام قبول کرلیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے یمن کا حاکم برقرار رکھا۔حضرت مصلح موعود ؓاس ضمن میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن حُذافہ ؓنے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط کسریٰ کو دیا تو اُس نے غصے میں وہ خط پھاڑ دیا ۔حضرت عبداللہ بن حُذافہؓ نے اس کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپؐ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کسریٰ کی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا۔
باذان کے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُمراء کو یمن کے مختلف علاقوں پر عامل مقرر فرمایا۔اسود عنسی نے یمن صرف یمنیوں کا ہے کا نعرہ لگاتے ہوئے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کردیا۔یمن کے باشندے قومیت کے نعرے سے متاثر ہوکر اسود عنسی کے ساتھ ہوگئے۔جب یہ اطلاع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے یمن کے سرداروں کو پیغام بھیجا کہ وہ اپنے طور پر اسود کا مقابلہ جاری رکھیں۔اس اثنا میں اسود عنسی کی فوج مضبوط ہوتی گئی۔اُس کی فوج میں سات سو گھڑ سوار کے علاوہ اونٹ سوا رعلیحدہ تھے۔اسود عنسی نے پہلےاہل نجران پر حملہ کرکے حضرت عمرو بن حزم ؓ اور حضرت خالد بن سعید ؓ کو وہاں سے نکال دیا ۔پھرصنعاء پرچڑھائی کی جہاں حضرت شہر بن باذانؓ نے مقابلہ کیا لیکن وہ شہید ہوگئے۔اس طرح اسود عنسی یمن کے تمام علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔اسود عنسی نے حضرت شہر بن باذان ؓ کی شہادت کے بعد اُن کی بیوی سے زبردستی شادی کرلی تھی۔
حضرموت اور یمن کے مسلمانوں کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پہنچا جس میں اُنہیں اسودا نسی سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔اس بنا پر حضرت معاذ بن جبلؓ کھڑے ہوئے جس سے مسلمانوں کو تقویت ملی اور اُن کے دل مضبوط ہوگئے۔ اس دوران اسود عنسی اور قیس بن عبد یغوث کے درمیان اختلاف ہوگیا ۔ قیس بن عبد یغوث یمن میں مرتد ہونے والوں میں سے تھے لیکن بعد میں اسلام کی طرف لوٹ آئے تھے۔فتح عراق اور جنگ قادسیہ میں ان کا نمایاں نام آتا ہے۔یہ جنگ صفین میں حضرت علیؓ کی ہمراہی میں شہید ہوئے تھے۔بہرحال مختلف قبائل بھی اسود کے مقابلے کے لیے تیار ہوچکے تھے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے مسلمانوں کو بھی اسود کے معاملہ کے متعلق لکھا تھا اور انہوں نے آپؐ کی بات مان لی تھی ۔اسود عنسی کو ان اطلاعات سے اپنی ہلاکت نظر آنے لگ گئی تھی۔اسود عنسی کی بیوی یعنی حضرت شہر بن باذانؓ کی بیوہ نے بھی اپنے شوہر کی شہادت اور اپنے خاندان کے لوگوں کی ہلاکت اور ذلّت کا بدلہ لینے کے لیے اسود عنسی کے خلاف کارروائی میں حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔چنانچہ اسود عنسی کی بیوی اور حضرت شہر بن باذانؓ کی بیوہ کی مدد سے ایک رات اسود عنسی کو اُس کے محل میں داخل ہوکر قتل کردیا گیا اور اُس کےقلعہ کی فصیل سے اس کا اعلان کردیا گیا۔اس طرح یہ فتنہ تین ماہ تک بھڑکنے کے بعد ٹھنڈا ہوگیا۔اسود عنسی کے قتل کی اطلاع جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجی گئی تو آپؐ کا وصال ہوچکا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اُسی رات اسود عنسی کے قتل سے متعلق بذریعہ وحی اطلاع دے دی تھی جس رات اُس کا قتل ہوا ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلی صبح یہ اطلاع صحابہ کو بھی دے دی تھی اور یہ بھی بتادیا تھا کہ اُسے فیروز نے قتل کیا ہے۔
مختلف روایات میں سے ایک روایت یہ بھی ہےکہ اسود عنسی کے قتل کی اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے دس بارہ روز بعد مدینہ پہنچی تھی لیکن حضرت ابوبکرؓ کی خلافت قائم ہونے پر اُن کو سب سے پہلی خوشخبری اسود عنسی کے قتل کی دی گئی تھی۔اسود عنسی کے قتل کے بعد صنعاء میں مسلمانوں کی حکومت پہلے کی طرح قائم ہوگئی لیکن جب یمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا چرچا ہوا تو وہاں پھر بغاوت ہوگئی۔قیس بن عبد یغوث جس نے فیروز اور دازوبے کے ساتھ مل کر اسود عنسی کا قتل کیا تھا پھر اسلام سے باغی ہوگیا۔اُس نے اسود عنسی کے فوجی لیڈروں سے ساز باز کرلی اور دھوکا سے دازوبے کو قتل کردیاجبکہ فیروز قتل ہوتے ہوتے بچ گیا۔
حضرت ابوبکر ؓکے تشکیل کردہ گیارہ لشکروں میں سے سب سے آخر میں حضرت مہاجر بن ابو اُمّیہ کا لشکر مدینہ سے یمن کے لیے روانہ ہواتو راستے میں مختلف قبائل کے لوگ آپؓ کے لشکر میں شامل ہوتے گئےیہاںتک کہ یہ ایک بہت بڑا لشکر بنتا گیا۔دوسری طرف عمرو بن معدی کرب اور قیس بن عبد یغوث مختلف قبیلوں میں جاکر مسلمانوں کے خلاف لڑائی کرنے پر اُن کو آمادہ کرنے کی کوششوں میں مصروف تھےجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نجران کے عیسائیوں کے علاوہ تمام قبائل مسلمانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔اہل یمن کو جب حضرت مہاجر بن ابو اُمّیہ کے ایک بہت بڑے لشکر کی اطلاع ملی تو وہ تذبذب میں پڑ گئے کہ کس کا ساتھ دیں۔ اسی دوران عمرو بن معدی کرب اور قیس بن عبد یغوث میں پھوٹ پڑنے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنے لگے۔آخر کار عمرو بن معدی کرب نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر قیس بن عبد یغوث کو گرفتار کرکے حضرت مہاجر بن ابو اُمّیہ کے سامنے پیش کردیا لیکن حضرت مہاجر بن ابو اُمّیہ نے قیس بن عبد یغوث کے ساتھ ساتھ عمرو بن معدی کرب کو بھی قید کرکے دونوں کو حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں بھجوادیا۔
حضرت ابوبکر ؓنے قیس بن عبد یغوث اور عمرو بن معدی کرب کی سرزنش کرنے کے بعد دونوں کو رہا کرکے اُن کے قبائل کے سپرد کردیا۔ایک سیرت نگار لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓانتہائی دُور اندیش تھے۔گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھے۔جہاں سختی کی ضرورت ہوتی وہاں سختی کرتے اور جہاں عفو اور درگزر کی ضرورت ہوتی وہاں عفو اور درگزر سے کام لیتے۔آپؓ قبائل کے بکھرے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع کرنے کے حریص اور شوقین تھے۔آپؓ کی حکیمانہ سیاست یہ تھی کہ زعمائے قبائل کو اسلام کی طرف لوٹ آنے کے بعد اُن سے درگزر سے کام لیا جائے۔حضرت ابوبکرؓ کی نرمی کی وجہ سے مختلف قبائل حضرت ابوبکر ؓ کی حکومت کے تابع ہوگئے اور خلیفہ رسول ؐکی اطاعت قبول کرلی۔قیس بن یغوث اور عمرو بن معدی کرب کو معاف کردینے سے بڑے دُوررس اثرات مرتب ہوئے۔ حضرت ابوبکر ؓنے اس طرح لوگوں کے دلوں کو اسیر کیا اور اُن کے دلوں کے مالک بن بیٹھے۔حضرت مہاجر ؓ کی فوج نے باغیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھی اور بھاگنے والے دشمنوں کو ہر راستے پر قتل کیا۔سرکشوں کے علاوہ جنہوں نے توبہ کی اُن لوگوں کی توبہ قبول کرلی گئی۔اور اُن سے اُن کے گذشتہ حالات کے مطابق سلوک کیا گیاکیونکہ اُن سے اصلاح کی امید تھی۔
حضور انور نے آخر میں فرمایاکہ باقی آئندہ انشاء اللہ بیان ہوگا۔
٭…٭…٭